فوت شدگان کی یاد کو تازہ کرنے والی وجوہات سے بچنے کی اہمیت

سوال نمبر 502

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ نے حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا تھا کہ مجلس میں میرے سامنے نہ بیٹھو، مجھے اپنے چچا یاد آتے ہیں. کیا آپ ﷺ کے اس ارشاد سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ان وجوہات کو بھی انسان دور کرنے کی کوشش کرے جن سے فوت شدگان کی یاد انسان کے دل میں تازہ ہوتی ہے، کیونکہ آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ سوگ تین دن تک ہے، لیکن حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے جو فرمایا اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ فوت شدگان کی یاد کافی عرصہ بعد بھی انسان کو آ سکتی ہے۔ اور اس وقت بھی وہ یاد کافی شدت کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ تو کیا ان عوامل سے انسان بچنے کی کوشش کرے، جن سے یادیں تازہ ہو رہی ہوں۔

جواب:

اصل میں یاد آنا اور یاد کرنا یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ یاد تو ساری عمر آ سکتی ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی کسی کے ساتھ شدید محبت کرتا ہو تاہم حالات و واقعات نے اس کو دبا دیا ہو، لیکن جب اس کی یاد تازہ کی جائے تو دوبارہ اسی طرح یاد آ جائے گا۔ یاد کا آنا ممنوع نہیں ہے، یاد کرنا ممنوع ہے بشرطیکہ تین دن کے بعد سوگ کے لحاظ سے یاد کیا جائے، سوگ کے لحاظ سے اس لئے کہا کہ ویسے یاد کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اس پہ غم کرنا اور سوگ کرنا منع ہے۔ تو اس سلسلے میں یاد کرنا ممنوع ہے۔ یاد آنا منع نہیں ہے کیونکہ یہ بے اختیار ہوتا ہے، لیکن یاد کرنا خود اپنے اختیار سے ہے۔ لہذا اس کو کوئی دوسرا شخص بھی قصداً وہ چیز یاد نہ کرائے، ویسے باتوں میں تذکرہ آ جائے توکوئی ایسی بات نہیں ہے، لیکن قصداً سوگ کے طور پہ کسی کو یاد نہ کراے، تاکہ اس کا دل نہ دکھے۔ یہ دوسری بات ہو گئی۔ تیسری بات یہ ہے کہ جس چیز سے بھی کسی کو تکلیف ہوتی ہو اس سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ درجہ بدرجہ تین باتیں ہو گئیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ خود سوگ لحاظ سے یاد نہ کرے، یاد ہو جائے تو کوئی بات نہیں۔ دوسری بات کوئی اور شخص قصداً یاد نہ کرائے۔ بعض لوگ مرثیہ خوان ہوتے ہیں۔ وہ مرثیے ایسے غمزدہ انداز میں پڑھتے ہیں کہ اچھے بھلے آدمی کو بھی رلا دیتے ہیں۔ یہ رلانے کا جو منظر ہے، یہ بذات خود ممنوع ہے تین دن کے بعد۔ اور ویسے یوں رلانا تو پہلے دن بھی ممنوع ہے، لیکن سوگ تو تین دن کے بعد بالکل ممنوع ہے۔ اور یہ سوگ کسی کے لئے بھی نہیں ہے۔ ہاں شوہر کا سوگ چار مہینے ہوتا ہے۔ لیکن باقی کسی کے لئے بھی جائز نہیں۔ جیسے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے لوگ کرتے ہیں، یا کربلا کے شہیدوں کے لئے کرتے ہیں، یہ جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوگ کا وقت گزر گیا۔ خود انہوں نے اس پر عمل کیا ہے کہ انہوں نے اس دوران شادیاں تک کیں۔ چنانچہ ہم بھی ان کی پیروی کر لیں اور اس میں ان کے غموں کو تازہ نہ کریں، بلکہ ان کے جو محاسن ہیں وہ بیان کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت نصیب فرمائی۔ اتنا بلند مرتبہ نصیب فرمایا۔ تو اس انداز سے ان کے محاسن کے طور پر یاد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن غم تازہ کر کے رونا پیٹنا ٹھیک نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ کو چونکہ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بہت زیادہ محبت تھی۔ تو جب آپ ﷺ کے سامنے وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھتے تھے تو اس سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوتی تھی۔ چونکہ پہلے وہ مسلمان نہیں تھے، جب مسلمان ہو گئے اور پھر آپ ﷺ کے سامنے بیٹھتے تھے تو آپ ﷺ کو تکلیف هوتی تھی۔ چونکہ ان کو اس بات کا پتا نہیں تھا اس لئے آپ ﷺ نے ان کو اطلاع کر دی، تاکہ وہ اس سے بچیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر کے دل کو تکلیف پہنچانے میں انسان کے لئے بہت خطرہ ہوتا ہے۔ یا جیسے شیخ کا معاملہ ہوتا ہے، اس میں اطلاع کرنا لازمی ہوتا ہے۔ چونکہ شیخ کی کدورت سے بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے شیخ کے لئے بھی لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنی کدورت کی اطلاع کر دے تاکہ مرید کو نقصان نہ ہو۔ اس طرح آپ ﷺ نے بھی وحشی رضی اللہ تعالیٰ کو یہ اطلاع فرما دی تھی تاکہ ان کو نقصان نہ ہو۔ ورنہ یہ نہیں کہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ برداشت تو کر سکتے تھے، لیکن چونکہ آپ ﷺ کو تکلیف دینے سے اللہ پاک بھی ناراض ہوتے تھے، اس وجہ سے اصول بتا دیا کہ اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ تو یہ تین باتیں ہو گئیں۔ اور انہی کے اندر ساری بات آ گئی۔ اس میں کوئی مزید بات نہیں ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو شریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن