اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ۔ محترم سیدی مرشدی، خانقاہ امدادیہ گروپ میں ایک حدیث share ہوئی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: "اللہ تعالیٰ بیوقوفی پر ملامت کرتا ہے۔ لہذا زیرکی اور دانائی کو لازم پکڑو، پھر جب تم مغلوب ہو جاؤ تو کہو: میرے لئے اللہ کافی ہے، اور وہ بہترین کارساز ہے" میرا سوال یہ ہے کہ کیا عقل اور دانشمندی عطائی نہیں ہوتی؟ کسی کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ عقل مند بنایا ہوتا ہے اور کسی کو کم، جیسے عورتوں کو حدیث شریف میں ناقصات العقل فرمایا ہے۔ نیز یہ کہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے عقلمند انسان ہو اور اس کا ہر کام عقل مندی سے پُر ہو، کیا کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اپنے لئے بے وقوفی کو پسند کرے؟ اس حدیث شریف میں عقل کو لازم پکڑنے سے کیا مراد ہے؟ برائے مہربانی حدیث کی وضاحت فرما دیجئے۔
جواب:
بہت Valid question ہے۔ اگر ہم یہاں پر قرآن پاک کی ایک آیت کو بھی سامنے رکھیں تو پھر بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔ وہ یہ ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں ﴿لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرۃ: 286) ترجمہ: ’’اور اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ جس کے لئے جو حکم ہے وہ اس کو کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز ہے، کھڑے ہو کر پڑھنی چاہیے، تمام ارکان صحیح ہونے چاہئیں، لیکن اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتا تو پھر اس کے لئے بیٹھ کر پڑھنے کا حکم ہے، بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتا تو اشارے سے پڑھنے کا حکم ہے۔ ایسے ہی وضو میں دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھونے کا حکم ہے، لیکن اگر کسی شخص کا ہاتھ ہی نہیں تو اس کے لئے یہ حکم نہیں ہے، کیونکہ وہ اس حکم کو پورا ہی نہیں کر سکتا۔ پس اگر کوئی شخص ایک کام کر ہی نہیں سکتا تو اس سے اس کام کا مطالبہ نہیں ہے۔ اس حدیث میں جو کہا گیا ہے کہ عقلمندی، زیرکی اور دانائی کو لازم پکڑو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کو جتنی عقل اللہ نے دی ہے اس سے کام لینا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو 100 unit عقل دی ہے اور وہ صرف 50 سے کام چلا رہا ہے تو یہ بے وقوف ہے۔ یہ اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس کو پورے 100 unit سے کام لینا چاہیے۔ کسی کو 50 unit دی ہے تو وہ 50 سے کام لے، اگر وہ 25 سے کام کرے گا تو بے وقوف ہو گا۔ عورتوں کو جو ناقص العقل کہا گیا ہے تو ناقص العقل تو ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ حدیث شریف سے ثابت ہے۔ البتہ یہ ناقص العقل کیوں ہیں؟ ایک بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی عیب والی بات نہیں ہے۔ اللہ پاک نے ان کے لئے ایک ایسا راستہ بنایا ہے جس میں ان کے لئے خیر ہے۔ وہ یہ کہ ان کو اللہ پاک نے جذبات زیادہ دیئے ہیں۔ اور ان کے کام کی نوعیت کے مطابق وہ جذبات ضروری ہیں، کیونکہ عقل دو اور دو چار کی طرح معاملہ کرتی ہے۔ یہ خود غرض ہے۔ اپنے آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتی، جبکہ جذبات ایسے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رات کو اگر بچہ دودھ کے لئے یا کسی اور وجہ سے رو رہا ہے۔ اب والدہ عورت ہے۔ اس کو بچے کے ساتھ جذباتی تعلق ہے۔ اس جذباتی تعلق سے مجبور ہو کر وہ رات کو اٹھتی ہے اور بچے کے سارے کام کرتی ہے۔ اگر اس نے پاخانہ کیا ہو تو اس کو صاف کرتی ہے، اس کو چپ کراتی ہے، دودھ پلاتی ہے، اور اگر بچہ جاگ رہا ہو تو اس کے ساتھ ماں بھی جاگتی ہے۔ یہ کام مرد نہیں کر سکتے۔ مرد بہت جلدی غصہ ہو جاتے ہیں۔ چونکہ ان کو جذبات اتنے نہیں دیئے گئے، لہذا ان کو غصہ آ جاتا ہے۔ اگرچہ یہ غصہ کرنا ان کی بے وقوفی ہو گی۔ غصہ آ جانا برا نہیں ہے، بے جا غصہ کرنا غلطی ہو گی۔ اب اگر مرد اس بچے پہ غصہ کرے گا تو یہ اس کی بے وقوفی ہو گی۔ اسی وجہ سے اس کو پھر اس کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اب مرد کو غصہ کیوں آ رہا ہے؟ کیونکہ بچے کے ساتھ والد کے وہ جذبات نہیں ہیں جو ماں کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت سے عقل کم کی ہے اور اس کی جگہ جذبات دیئے ہیں، اس لئے کہ عورت کے کاموں کی نوعیت ہی ایسی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ذمہ جو کام لگائے ہیں اس میں عقل کی زیادہ ضرورت ہے۔ باہر کام کرتے ہیں مختلف قسم کے نوسربازوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں، اور اپنا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور عورتوں کو جذبات اس لئے زیادہ دیئے ہیں، کیونکہ عورتوں کے جذبات کا کام ذیادہ ہے۔ البتہ دونوں کے Side effects ہیں۔ عقل کے زیادہ ہونے کے بھی Side effects ہوتے ہیں، اس سے آدمی خود غرض ہو جاتا ہے۔ اور اس کے وہ جذبات نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ یہ مردوں میں نقصان ہے۔ اور عورتوں کے جذبات ذیادہ اور عقل کم ہے، یہ دونوں فریق جب ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں تو دونوں کا کام ہو جاتا ہے۔ جو کام مرد کے ذمہ ہے وہ مرد کرے اور جو کام عورت کے ذمہ ہے وہ عورت کرے تو دونوں کا کام اچھا ہو جائے گا۔ لیکن اگر عورت مرد کا کام کرے اور مرد عورتوں کا کام کریں تو بس دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ آج کل معاشرے کے اندر جو فساد ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ایک جیسے رہیں، جب ایک جیسا اللہ نے پیدا نہیں تو کیا تم کیسے ایک جیسے رہتے ہو۔ ایک جیسے نہیں رہ سکتے، اگر ایک جیسے رہو گے تو اپنے آپ کو نقصان دو گے۔ ایک دفعہ کچھ Medical students کے ساتھ میری بات ہوئی۔ وہ اس بات پر زیادہ offensive تھیں اور کہتی تھیں کہ عورتیں اور مرد برابر ہیں۔ میں نے ان سے کہا ایسے نہ کہو، اس میں آپ کا اپنا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا ہمارا اپنا نقصان کیسے ہے؟ میں نے کہا اللہ پاک نے نظام ایسا بنایا ہوا ہے لہذا اس میں آپ کچھ نہ بولو۔ چونکہ وہ Medical students تھیں تو میں نے ان سے کہا مرد کی بہترین عمر کون سی ہے اور کتنی ہے؟ اس نے کہا 25 سال سے لے کر 40 سال تک بہترین عمر ہے، کیونکہ اس میں تمام قوٰی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور وہ سارے کام اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد پھر decline شروع ہو جاتا ہے۔ اور 25 سے پہلے مردوں میں پختگی نہیں ہوتی، لہذا 25 سے 40 تک مردوں کی بہترین عمر ہے۔ میں نے کہا عورتوں کا بہترین وقت کون سا ہے؟ اس نے کہا 16 سے 25 سال تک۔ میں نے کہا یونیورسٹی آف ایجوکیشن کب تک ہوتی ہے؟ کہنے لگی 22، 23، 24، 25، اس کے لگ بھگ کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے۔ میں نے کہا اگر مرد اور عورت دونوں یونیورسٹی آف ایجوکیشن سے فارغ ہو جائیں تو عورت کی بہترین زندگی ختم ہو گئی اور مرد کی بہترین زندگی اب شروع ہو گئی۔ عورتوں کے لئے شادی کی بہترین عمر16 سے 20 سال ہے، اگر اس وقت اس نے شادی نہ کی تو بہترین وقت گزر گیا، پھر اس کے ساتھ مسائل پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اب لڑکیاں کہتی ہیں "جی ہم نے پڑھنا ہے"، خدا کی بندیو کیا کر رہی ہو، اپنے آپ کو تباہ کر رہی ہو، بے شک بعد میں پڑھو لیکن اپنی بہترین زندگی تو خراب نہ کرو۔ وہ اپنی جذباتیت کی وجہ سے سمجھتی نہیں ہیں، حالانکہ اللہ پاک نے ان کے لئے اس میں بہتری کی ہوتی ہے۔ یہ کام مردوں کے ذمہ لگایا ہے اور گھر کا کام عورتوں کے ذمہ لگایا ہے۔ جو کام عورتوں کا ہے وہ مرد نہ کریں اور جو مردوں کا کام ہے وہ عورتیں نہ کریں تو سب بہت خوش رہیں گے اور اچھی طرح رہیں گے۔ اور اکثر میں نے دیکھا ہے کہ اس میں مسائل بنتے ہیں۔ ہم ایک کالونی میں ہوتے تھے تو وہاں پر ایسی خواتین بھی تھیں جو جاب کرتی تھیں اور جاب کے بعد آ کر گھر میں بھی ان کو کام کرنا ہوتا تھا۔ ہمارے گھر کی عورتیں تو چونکہ گھریلو خواتین تھیں تو ہمارے گھر کی خواتین کے ساتھ جب ان عورتوں کی ملاقات ہوتی تو وہ کہتیں آپ لوگ بڑی خوش قسمت ہیں، آپ صرف گھر کے کام کر رہی ہیں، ہمیں تو گھر کا کام بھی کرنا پڑتا ہے اور دفتر کا کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل آپ کسی بھی ملازم پر اعتماد نہیں کر سکتے، دور ایسا آ گیا ہے کہ نہ عورت پر اعتماد کر سکتے ہیں، نہ مرد پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ اکثر جو ڈاکے پڑتے ہیں اس میں گھر کے ملازمین کی جاسوسی شامل ہوتی ہے۔ اب اگر عورتیں خود گھر کا کام نہ کریں اور ملازموں سے کرائیں تو اگر مرد ملازم ہیں تو عورت کے لئے مصیبت اور اگر عورت ملازم ہے تو مرد کے لئے پردے کے لحاظ سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر عورت گھر کا کام کرے اور مرد باہر کا کام کریں تو ان کو کسی ملازم کی ضرورت نہیں۔ لہذا اگر دیکھا جائے تو قدرتی طریقہ کار جو اللہ نے بنایا ہوا ہے اس میں نہ کسی پہ ظلم ہے، نہ کسی کے اوپر سختی ہے۔ اللہ پاک اپنی حکمتوں کو خوب جانتا ہے۔ جن دنوں ضیاء الحق کے دور میں قانون شہادت پہ بات چل رہی تھی تو ایک عورت نے مجھے کہا کہ شاہ صاحب عورت کی گواہی آدھی کیوں ہے؟ مرد کی پوری ہے۔ میں نے کہا جہاں عورت کی گواہی چاہیے وہاں عورت کی گواہی پوری ہے۔ مردوں کی گواہی پوری ہونے کے باوجود شہادت سے لوگ بھاگتے ہیں، کوئی بھی شہادت نہیں دیتا۔ میں نے کہا مردوں کی اگر ذمہ داری اللہ پاک نے یہ رکھی ہے، اور وہ گواہی سے بھاگتے ہیں تو تم درمیان میں کیوں آنا چاہتی ہو؟ جس جگہ پر تمہاری گواہی ضرورت ہے وہاں پر تمہاری گواہی پوری ہے۔ (مثلا بچے کی ولادت میں ایک عورت کی گواہی معتبر ہے) عورتوں کی یہ ساری باتیں جذباتیت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ وہ سمجھتی نہیں ہیں۔ پس عقل جتنی بھی ہے اس کو صحیح استعمال کرو، پھر اگر مغلوب ہو جاؤ یعنی تمہارے حالات خراب ہو جائیں، اور مشکل آ جائے تو پھر اس وقت "حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْل نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر" پڑھ لو۔ یہ حدیث شریف کا ہی مفہوم ہے، کیونکہ اس حدیث شریف سے پہلے یہ تھا کہ کسی نے کہا تھا کہ میرے لئے اللہ کافی ہے، تو آپ ﷺ نے ان کو نصیحت فرمائی پہلے اپنی عقل استعمال کرو، یعنی اسباب استعمال کر لو، پھر اس کے بعد اگر نہ چلے تو تم یہ الفاظ کہنا، ایسا نہیں کہ ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو کہ بس اللہ تعالیٰ ہی سب کرنے والے ہیں، یہ توکل مطلوب نہیں ہے۔ پہلے اسباب اختیار کر لو پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ پہ چھوڑو۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ کیا ہم اونٹ کے گھٹنوں کو باندھ کر توکل کریں یا ویسے چھوڑ کے توکل کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے گھٹنے کو باندھ کر توکل کرو۔ توکل کے بارے میں کسی نے بہت اچھا کہا ہے۔
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر۔
مطلب یہ ہے کہ اپنے اسباب پورے استعمال کر لو پھر اگر اللہ پاک نے کوئی اور فیصلہ کیا ہوا ہے تو وہ اللہ پہ چھوڑو۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن