نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے محبت اور اس سے حاصل ہونے والے دروس

سوال نمبر 499

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کو اپنے وطن مکہ مکرمہ سے بہت محبت تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ مکہ مکرمہ کا ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ مکہ مکرمہ کے حالات کیسے ہیں؟ اس پر اس نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کئے۔ آپﷺ نے اس کو فرمایا اے فلاں! ہمارا اشتیاق نہ بڑھاؤ۔ اس طرح اور بھی روایات ہیں، جن سے آپ ﷺ کی اپنے وطن مکہ مکرمہ سے محبت معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح مدینہ منورہ سے آپ ﷺ کی محبت کی روایات بھی موجود ہیں۔ ان تمام روایات سے ہمیں اپنے وطن کے ساتھ محبت کے حوالے سے کیا سبق مل رہا ہے؟

جواب:

وفاداری بہت اہم چیز ہے۔ وفا بھی دل کے صاف ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جو انسان کے ساتھ وفا نہیں کرتا وہ اللہ پاک کے ساتھ کیسے وفا کرے گا۔ یعنی جو بندے کا احسان نہیں مانتا وہ اللہ کا احسان کیسے مانے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندے کا احسان بالکل سامنے ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے احسانات تو بے شمار ہیں، بعض کا پتا بھی نہیں چلتا، تو جو سامنے نظر آنے والا احسان نہیں مانتا وہ اللہ پاک کا چھپا ہوا احسان کیسے مانے گا۔ اس طرح وفا داری بھی دل کے صاف ہونے کی علامت ہے۔ اگر کوئی وفا کرتا ہے تو یہ پسندیدہ عمل ہے۔ اب وفا کِن چیزوں سے ہے؟ سب سے پہلے تو اللہ کے ساتھ اور پھر آپ ﷺ کے ساتھ وفا ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ رکھنا بھی تو وفا داری ہے۔ اس کے لئے کوشش اور محنت کرنا وفا داری ہے۔ پھر اپنے رشتے داروں کے ساتھ وفا ہے۔ صلہ رحمی بھی وفا داری ہے۔ پھر اپنے وطن کے ساتھ، اپنی زبان کے ساتھ، ان سب چیزوں کے ساتھ وفا داری ہے۔ چونکہ ان کے ساتھ ہمارا تعلق ہے اس لئے ہم لوگ ان کے ساتھ وفا داری کریں، ان سے جو ہمیں فائدہ مل رہا ہے اس فائدے کا ہم احسان ادا کریں۔ ہم اس کے ساتھ وفا کریں۔ کہتے ہیں جہاں کا نمک کوئی کھائے اس کے ساتھ اس کو وفا دار ہونا چاہیے۔ نمک حرام اور نمک حلال یہ مشہور محاورہ ہے۔ وطن کا تو ہم سب کچھ کھا رہے ہیں، یعنی وطن میں اللہ پاک نے جو چیز بھی رکھی ہے وہ ہم استعمال کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی مال دار آدمی آپ کو کوئی چیز دے دے تو آپ اس کے احسان مند ہو جاتے ہیں، تو کیا یہ اس کی اپنی چیز ہے؟ ہے تو اللہ تعالیٰ کی لیکن چونکہ اس کو مالک بنایا ہے تو وہ جب اپنی طرف سے دیتا ہے تو آپ اس کا احسان مانتے ہیں۔ اور آپ اس کے ممنون ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وطن کے اندر اللہ نے یہ چیزیں رکھی ہیں، لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ اس وطن کے ذریعہ سے دے رہا ہے لہذا آپ اس کے ممنون ہوں اور وطن کے ساتھ محبت کریں۔ اور یہ محبت فطری طور پر رکھی گئی ہے۔ ہر شخص کو اپنے وطن کے ساتھ فطری طور پر محبت ہوتی ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں جب بعض جگہوں پہ جاتا ہوں تو بالکل خشک ٹیلے ہوتے ہیں، ٹیلوں کے علاوہ اور وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا، اس کے با وجود لوگ وہاں سے کسی اور جگہ نہیں جاتے، اور وہاں بعض دفعہ زمین بھی بڑی مہنگی ہوتی ہے۔ دیر کا علاقہ ہے جہاں ہمارا ایک دوست ہے، وہ اتنا مہنگا علاقہ ہے کہ جیسے ہماری راولپنڈی کی زمین ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہاں پر کیا ہے؟ یہ تو سارے خشک پہاڑ ہیں۔ کہنے لگا: کیا کریں لوگ زمین نہیں دیتے۔ بنّوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ بنّوں میں کوئی خاص چیز نہیں ہے، لیکن وہاں زمین ایسی مہنگی ہے جیسے یہاں پر ہے۔ میں نے بنّوں والوں سے (کاشف سے) کہا تھا کہ یہاں کیا ہے؟ کہنے لگا ہمیں تو معلوم نہیں ہے، لیکن وہاں پر یہ صورتحال ہے۔ بعض اوقات اپنی زمین کے ساتھ بھی پیار ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے، البتہ ایک بات ضروری ہے وہ یہ کہ اس پیار اور وفا کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ First priority والی وفا کو بھول جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفا کو نہیں بھولنا چاہیے۔ کیونکہ ساری چیزیں اس کی وجہ سے ملی ہیں۔ اصل میں تو اس کی ہیں۔ اگر مقابلہ اس کے ساتھ آ گیا تو پھر یہ محبت چھوڑنی ہو گی۔ بس یہ بنیادی چیز ہے کہ ہم پہلے اللہ کے ہیں پھر بعد میں درجہ بدرجہ جس کا اللہ نے بنایا ہے ان کے ہیں۔ اگر اس Priority order کو برقرار رکھا جائے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے آپ ﷺ کو اپنے وطن کے ساتھ محبت تھی۔ جو وطن سکونت کا تھا مدینہ منورہ اور جو وطن پیدائش تھا مکہ مکرمہ، دونوں کے ساتھ محبت تھی۔ لہٰذا دونوں کا حق ادا فرماتے تھے۔ جہاں پر ہم رہتے ہوں ہمیں اس کا حق بھی ادا کرنا چاہیے، اور جہاں کے ہوں اس کا بھی حق ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ وفاداری کا تقاضا ہے۔ اس میں تعصب والی بات نہیں ہونی چاہیے تصلب والی بات ہونی چاہیے۔ تعصب اور تصلب میں فرق ہے۔ تعصب میں یہ ہوتا ہے کہ میں ہر حال میں ایک چیز کو پکڑے رکھوں چاہے وہ جائز ہو یا نا جائز، اور تصلب یہ ہوتا ہے کہ جائز چیز پر پنجے گاڑ لینا اور اس کو کسی حال میں نہ چھوڑنا۔ اس لئے ہمیں کسی حالت میں بھی وفا داری کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اور اس کی جو ترتیب ہے اس کے مطابق ہمیں اپنے اعمال کرنے چاہئیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن