اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
چند دن پہلے آپ نے سنت مؤکدہ نمازوں پر لوگوں کو عمل پر لانے کے لئے فرمایا تھا کہ علماء کرام اس سنت کی اہمیت لوگوں کے سامنے بیان فرمائیں، تاکہ ان کے دلوں میں اس کی اہمیت پیدا ہو اور وہ اس پر عمل کرنے والے بن جائیں۔ دوسرا یہ کہ ان سنتوں کو مسجد میں ادا کریں، کیونکہ گھر میں جانے سے رہ جائیں گی اور پھر رہنے والی عادت بن جائے گی۔ اس طرح سنت زندگی سے نکل جائے گی۔ لیکن عرب میں یہ مسئلہ ہے کہ علماء کرام کو اس طرح بیانات کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور جمعۃ المبارک کا خطبہ بھی ان کو لکھا ہوا ملتا ہے، وہی دیکھ کر پڑھنا ہوتا ہے۔ اس صورت میں جو ہم عام لوگ ہیں وہ لوگوں کو کیسے اس کی ترغیب دے سکتے ہیں؟ اور دوسری بات یہ کہ بعض جگہوں پر لوگوں کو سنت کے بارے میں بتانا مشکل ہو جاتا ہے، اگر اس صورت میں ان کے سامنے اس سنت پر عمل اس نیت سے کیا جائے کہ ان کو بھی اس سنت کا پیغام مل جائے اور مجھے بھی اس حالت میں سنت کا اہتمام نصیب ہو جائے، کہیں یہ ریا میں تو نہیں آتا؟ مثلاً کسی کا منیجر مسلمان ہے لیکن وہ کھڑے ہو کر پانی پیتا ہے، اگر اس کے سامنے بیٹھ کر پانی پی لیا جائے تاکہ وہ دیکھ لے، تو اس وقت نیت کیا ہونی چاہیے؟ اور ہم کیسے سنت پر دل سے عمل کر سکتے ہیں، تاکہ وہ ریا بھی نہ ہو اور اس سے انسان اپنے آپ کو بڑا بھی نہ سمجھے؟
جواب:
پہلی بات یہ ہے کہ فضائل بیان کرنے کے لئے خطبہ ضروری نہیں ہے۔ خطبہ تو ایک منظم طریقہ ہے جس سے زیادہ لوگوں کو ایک وقت میں پیغام مل جاتا ہے۔ اور اکثر آپ دیکھیں گے کہ خطبے کے وقت لوگ موجود ہی نہیں ہوتے۔ لوگ اس وقت آتے ہیں جب اقامت ہو رہی ہوتی ہے، زیادہ تر معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور اس میں بھی زیادہ کمزوری شاید بیان کرنے والوں کی ہوتی ہے، کیونکہ عوام کے سامنے ایسے غیر متعلق بیانات کر رہے ہوتے ہیں جن کی عوام کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی، نہ ہی لوگوں کی اس موضوع میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ لہذا وہ زیادہ تر سو رہے ہوتے ہیں، یا پھر بہت اخیر میں آتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ قصے کہانیاں بیان کریں تو قصے کہانیوں کے لئے تو لوگ نہیں آتے۔ لوگوں کو نظر آنا چاہیے کہ ہمیں کچھ مل رہا ہے، اور وہی مل رہا ہے جو علم فرض عین ہے۔ یا کوئی ایسی conceptual بات ہو جو کہ کتابوں میں ڈھونڈنے سے آسانی سے نہیں ملا کرتی اور لوگوں کی ضرورت ہو۔ جیسے معاملات کی کچھ باتیں ہیں، کچھ اور اس قسم کی باتیں ہیں، معاشرت کی باتیں ہیں، ان کو اگر اچھی طرح بیان کیا جائے تو لوگوں کو دلچسپی بھی ہو جاتی ہے، پتا چل جاتا ہے کہ ہمیں کچھ مل رہا ہے۔ تو قصور ہمارا بھی ہے۔ بہر حال چونکہ خطبہ اس کے لئے ضروری نہیں ہے، اس کو آپس میں نجی محفلوں میں بیان کیا جا سکتا ہے، ترغیب دی جا سکتی ہے۔ اور ترغیب دینے کے بہت سارے راستے ہیں۔ انسان اس کے لئے وہ راستے اپنا سکتا ہے۔ تو ترغیب ضرور دینی چاہیے، البتہ ترغیب دینے میں ریا کی جو نیت ہے اس حوالے سے آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، مجھے ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ریا کوئی چھوئی موئی کا پھول نہیں کہ خود بخود لگ جاتا ہے، اس کے لئے با قاعدہ نیت ہوتی ہے، یعنی آپ کس نیت سے کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ کی نیت ریا کی نہیں ہے بلکہ تبلیغ کی ہے تو وہ ریا نہیں ہو گا۔اس کا انحصار تو آپ کی نیت پر ہوتا ہے کہ آپ نیت کیا کر رہے ہیں۔ تبلیغ میں ایک اصول تو یہ ہے کہ جب آپ لوگوں کے فائدے کے لئے بات کر رہے ہوں اور علمی بات ہو تو اس انداز میں کی جائے کہ اپنے عمل سے ظاہر نہ ہو، بلکہ ایسے ہو جیسے آپ کتاب کی کوئی بات بتا رہے ہیں، مقصد یہ ہے کہ اپنے قصے کہانیاں اس میں نہ ہوں بلکہ اس میں کتاب کی بات ہو، کسی عالم کی بات ہو۔ اس طریقے سے بات کی جائے تو اس سے اپنے اوپر بات نہیں آتی، ایسا ہو کہ ایک علمی بات ہے جو آپ نے سنی ہے اور دوسروں کو سنائی ہے۔ جیسے آج کل Social media کی بہت ساری باتیں لوگ ایک دوسرے کو شئر کرتے رہتے ہیں، تو اب اس شئر کرنے میں آپکی نیت یہ ہوتی ہے کہ میں اس پر عمل کر رہا ہوں؟ بس وہ ویسے ہی شئر کر لیتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ تو شاید پڑھے بغیر شئر کر لیتے ہیں۔ تو آپ بات اس انداز میں شئر کر لیا کریں اور اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی آپ کو بھیجے اور پھر آپ شئر کر لیں بلکہ آپ خود مضمون بنا دیں اور اپنے کسی دوست کو بھیجیں، پھر وہ دوست آپ کو بھیجے تو شئر ہو گیا۔ تو اب آپ دکھا سکتے ہیں کہ دیکھو اس میسج میں یہ آیا ہے، اس طرح یہ بات لوگوں تک پہنچ جائے گی اور آپ درمیان میں آئیں گے بھی نہیں اور وہ بالکل ایک عام قسم کی بات ہو جائے گی۔ تو تبلیغ اور ترغیب اس طریقے سے ہو سکتی ہے۔ کوئی ایسی کتاب جو خصوصی طور پہ سنتوں کی اہمیت کے بارے میں لکھی گئی ہو تو وہ زیادہ اہم رول اس لئے play کرتی ہے کہ اس میں جو صحیح احادیث شریفہ ہیں وہ لوگوں کو سمجھانی ہوتی ہیں، اپنی بات نہیں آپ ﷺ کی بات لوگوں کو سمجھانی ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔ مثلاً فجر کے لئے سنتوں کے بارے میں کیا فرمایا، ظہر کی سنتوں کے بارے میں کیا فرمایا، مغرب کی سنتوں کے بارے میں کیا فرمایا، عشاء کی سنتوں کے بارے میں کیا فرمایا۔ اس کے بارے میں با قاعدہ صحیح روایات ہیں ان کو بیان کیا جائے اور پھر اس پر علماء کے تبصرے اگر اس کتاب میں موجود ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ لہذا ایسی روایات کو بیان کیا جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ سنتیں ویسے ہمارے ہاں رواجاً نہیں چلی آ رہیں بلکہ اس کی پکی بنیاد ہے، یہ کوئی اپنی طرف سے نہیں ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ویسے رواجاً چلی آ رہی ہیں اور اتنی زیادہ اہم نہیں ہیں، خاص طور پر جب وہ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جن کا ان کے دل میں احترام ہو اور وہ سنتیں نہ پڑھتے ہوں تو پھر ان کو یہ خیال ہو جاتا ہے کہ شاید یہ کوئی اتنی زیادہ اہم نہیں ہیں، اور اس کے اندر کوئی گنجائش ہو گی۔ ایسی صورت میں وہ احادیث شریفہ اگر طریقے سے لوگوں کو بتا دی جائیں اور سمجھا دی جائیں تو ان کو اس کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ واقعی بہت ضروری ہیں، اور ان کو ادا کرنا چاہیے۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ "ٹخنوں سے پاجامہ اوپر رکھنا چاہیے" چونکہ یہ تکبر کی علامت ہے، تو اس صحابی نے کچھ عذر کیا ہو گا کہ اس طرح تو میرا ارادہ نہیں ہے، تو آپﷺ نے فرمایا "اگر اور کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہی تو میری سنت سمجھ کے کر لیا کرو" تو اس کا مطلب ہے کہ سنت بھی بہت زیادہ اہم ہے اور اس کا خیال رکھنا چاہیے، بالخصوص اس بارے میں جو بہت اہم آیت کریمہ ہے ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ﴾(آل عمران: 31)
ترجمہ: "(اے پیغمبر! لوگوں سے)کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔"
اسی طرح ایک آیت میں فرمایا ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾(الاحزاب: 21)۔
ترجمہ: "حقیقت یہ ہے کہ تمارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔"
یہ سب چیزیں انسان کو معلوم ہونی چاہئیں اور اس کے بارے میں لوگوں کو بتانا چاہیے کہ یہ کتنی اہم بات ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کا ایک آدمی کے ذمے کوئی حق ہے اور وہ کہہ دے کہ میں آپ کو یہ حق معاف کرتا ہوں لیکن اگر فلاں بندے سے مجھے کہلوا دو، اب وہ پوری کوشش کرے گا کہ کسی طریقے سے میں ان سے کہلوا دوں، منتیں بھی کرے گا اور بہت کوششیں کرے گا۔ اب اللہ پاک نے فرمایا کہ میں تمہارے اعمال تب قبول کروں گا جب میرے حبیب ﷺ کے طریقے پر ہوں۔ اب ہمیں اس کا احساس نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے اعمال قبول کروائیں؟ اگر ہے تو پھر حضور ﷺ کے طریقے پر اعمال کرنے ہوں گے۔ دو قسم کے اعمال نماز کے ساتھ متعلق ہیں۔ ایک بذات خود سنت نماز ہے اور ایک نماز کے اندر کی سنتیں ہیں۔ یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ تو نماز سنت کے بارے میں ابھی بات ہوئی ہے جیسے میں نے آپ کو بتایا، اور جو نماز کے اندر کی سنتیں ہیں اگر وہ رہ جائیں تو نماز ٹوٹے گی تو نہیں لیکن ان کے چھوڑنے سے آپ نے بہت بڑی فضیلت گنوا دی، قابل ملامت کام کر دیا، اس طرح نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ آپ ﷺ کا طریقہ اگر آپ نے کسی عمل میں چھوڑ دیا تو آپ نے قبولیت کا ایک بہت بڑا سہارا چھوڑ دیا۔ اس سے بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ لہذا ہم لوگوں کو اس کا بہت خیال رکھنا چاہیے کہ ہم سنتوں پر چلیں، اور جو سنت اعمال ہیں ان کو اپنائیں اور دوسرے لوگوں تک بھی یہ بات پہنچائیں، اس کے لئے جتنی بھی ترتیبیں اور کوششیں ہو رہی ہیں ان کوششوں میں اپنی کوششیں بھی شامل کر لیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن