نماز کی حفاظت اور دشمن پر اس کے روحانی اثرات

سوال نمبر 495

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اسلام لانے کی تفصیل میں صلح حدیبیہ کا واقعہ بھی بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ حدیبیہ کے لئے روانہ ہوئے تو میں مشرکوں کے سواروں کا ایک دستہ لے کر نکلا اور عسفان میں میرا حضور ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے سامنا ہو گیا اور میں آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا، میں نے آپ ﷺ سے چھیڑ چھاڑ کرنا چاہی، آپ ﷺ ہمارے سامنے اپنے صحابہ کو ظہر کی نماز پڑھانے لگے، ہم نے سوچا کہ ہم نماز کے دوران ہی آپ ﷺ پر حملہ کریں، لیکن ہم کسی فیصلہ تک نہ پہنچ سکے، اس لئے ہم نے حملہ نہیں کیا اور اسی میں خیر تھی۔ آپ ﷺ کو ہمارے ارادے کا پتہ چل گیا (یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بتا دیا) چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو عصر کی نماز صلوٰة الخوف کے طریقہ پر پڑھائی۔ اس بات کا ہمارے دلوں پر بہت اثر پڑا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس آدمی کی حفاظت کا مستقل غیبی انتظام موجود ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ، ج، 1 ص 135) اس واقعے سے دشمن کے نرغے میں ہونے کے با وجود نماز پڑھنے سے دشمنوں پر جو اثر پڑتا ہے اس کی وضاحت فرمائیں اور اس کے ذیل میں ہمارے دنیوی تقاضوں کے ہوتے ہوئے اگر ہم نماز اپنے وقت پر ادا کریں تو اس کے اثرات پر روشنی ڈالیں۔

جواب:

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان کوئی نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوسری نیکی کرنا آسان کر دیتے ہیں اور جب وہ کوئی برائی کرتا ہے تو اس کے لئے دوسری برائی آسان ہو جاتی ہے یعنی شیطان کو اس پر زیادہ تسلط حاصل ہو جاتا ہے۔ اب نماز بذاتِ خود تمام برائیوں سے روکنے والا عمل ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ وَ لَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُؕ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: ’بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘

نماز یقیناً نیکیوں کا منبع ہے، چنانچہ جب انسان نماز کو ادا کرتا ہے تو لا محالہ دوسری نیکیاں آسان ہو جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نماز کی حالت میں انسان اللہ کی معیت اور اس کی حفاظت میں ہوتا ہے، چنانچہ جب کوئی نماز اپنے وقت پر ادا کرتا ہے تو اس کا یہ دفاعی نظام بر قرار رہتا ہے۔ اور جب کوئی نماز وقت پہ ادا نہیں کرتا تو اس دفاعی نظام میں شگاف پڑ جاتا ہے، اس وجہ سے جن لوگوں کو جنات وغیرہ پکڑ لیتے ہیں اور پھر کافر جنات ان کو عبادات کی طرف نہیں آنے دیتے، نماز کی طرف، روزے کی طرف اور ذکر وغیرہ کی طرف نہیں آنے دیتے۔ اگرچہ ہم عامل تو نہیں ہیں لیکن چونکہ ان اصولوں کو ہم جانتے ہیں اس لئے ہم ان کو کہتے ہیں کہ نماز نہ چھوڑو، نیت کر لو کہ چاہے میں مر بھی جاؤں پھر بھی نماز نہیں چھوڑوں گا، تو اس وقت وہ تکلیف تو بہت دیتے ہیں، لیکن ہم کہتے ہیں کہ بے شک یہ تکلیف برداشت کر لو لیکن نماز نہ چھوڑو۔ تو ما شاء اللہ آہستہ آہستہ ان کے لئے آسانی شروع ہو جاتی ہے اور وہ کافر جنات ان کو تنگ نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ پاک کا غیبی نظام وجود میں آ جاتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ ان جنات کی طاقت میں کمزوری آتی جاتی ہے حتی کہ وہ اس حالت سے نکل آتے ہیں۔ جب نکل آتے ہیں تو پھر جنات ان پہ کوئی حملہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس نے پورا دفاعی نظام اپنے لئے بنا لیا ہوتا ہے۔ عامل لوگوں کی باتیں کچی باتیں ہوتی ہیں، کیونکہ عین ممکن ہے ان کے عملیات کے ذریعہ سے ایک بار حفاظت ہو جائے پھر دوسری کوئی اور ٹیم آ جائے اور ان کو تنگ کرنے لگے یا پھر وہی ٹیم دوبارہ آ جائے۔ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، لہذا ان کی بات کچی ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ ایک جگہ جا کے ان کا علاج ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر مسئلہ ہو جاتا ہے اور یہ ان کا سلسلہ عمر بھر رہتا رہتا ہے۔ اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ جو اللہ پاک کے پسندیدہ طریقے ہیں ان کے ذریعے اپنا علاج کراؤ۔ اور وہ یہی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ جائیں یعنی نماز کے ذریعہ سے، قرآن کے ذریعہ سے، ذکر اذکار کے ذریعہ سے۔ چنانچہ منزل جدید پوری قرآن مجید ہے، اس لئے جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو چونکہ قرآن پر شیاطین حملہ نہیں کر سکتے جیساکہ قرآن میں موجود ہے۔ در اصل عاملوں نے لوگوں کے ذہنوں کو خراب کیا ہوتا ہے اور ان کا ذہن ایسا بنا ہوتا ہے کہ نصیحت والی باتیں ان کو سمجھ میں نہیں آتیں، اس پر ان کا عقیدہ کمزور ہو جاتا ہے لہذا ان کے ساتھ وہ اثرات بھی نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہ چیزیں عقیدے پر ہی منحصر ہیں، جب ان کا عقیدہ کمزور ہو جاتا ہے تو پھر اس سے ان کو فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن جن لوگوں نے بھی اس پہ عمل کیا ہے الحمد للہ ہمارا تجربہ ہے کہ ان کو فائدہ ہو جاتا ہے اور وہ ما شاء اللہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لیکن بہر حال ممکن ہے کہ دیر زیادہ لگتی ہو کیونکہ ایک قدرتی طریقہ ہے۔ فارسی کا ایک statement ہے کہ ’’راہ راست برو گرچہ دور است‘‘ یعنی سیدھے راستے پہ جاؤ اگرچہ دور ہو۔ لوگ کہتے ہیں: کیسی عجیب بات ہے، سیدھے راستہ میں تو کم سے کم کا فاصلہ ہوتا ہے تو ’’گرچہ دور است‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ کہ اگرچہ دور بھی ہو پھر بھی سیدھے راستے پر چلو۔ اصل میں ’’راہِ راست‘‘ کے الفاظ کا مطلب وہ نہیں ہے جس طرح ہم اردو میں کہتے ہیں سیدھے راستے پر چلو۔ اس کا مطلب یہ ہے ٹھیک کام کرو بے شک آپ کو زیادہ محنت کرنی پڑی۔ یعنی آپ یہ نہ دیکھیں کہ محنت کتنی ہے۔ کیونکہ ٹھیک طریقے سے کام کریں گے تو محنت زیادہ کرنی پڑے گی۔ جیساکہ بعض دفعہ ہم لوگ کسی technical چیز میں بھی shortcut مارتے ہیں۔ چنانچہ ایک طریقہ ہوتا ہے آپ با قاعدہ test کرتے ہیں کہ یہ بھی صحیح ہے، یہ بھی صحیح ہے، یہ بھی صحیح ہے۔ اس کے بعد پھر آپ اس پہ عمل کرتے ہیں، وہ ایک دیر پا طریقہ ہوتا ہے، لیکن آپ کہتے ہیں نہیں! ایک اٹکل چلاتے ہیں، جگاڑ لگاتے ہیں۔ پھر ممکن ہے وہ ٹھیک ہو جائے، لیکن دوبارہ اس کے ساتھ کچھ اور مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ لوگ اکثر ان چیزوں میں جگاڑ کرتے ہیں لیکن بعد میں کوئی نہ کوئی مصیبت پیدا کر لیتے ہیں۔ ہمارے اُس مکان میں جو مسئلہ ہے وہ جگاڑ ہی کی وجہ سے ہے، جگاڑ کی وجہ سے وہ مکان خراب ہوا ہے۔ بہر حال جگاڑ کے جتنے بھی طریقے ہوتے ہیں ان میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ بعد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک مسئلہ ٹھیک ہوتا ہے تو دوسرا مسئلہ خراب ہو جاتا ہے۔ عطائی لوگوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے، ایک صحیح ڈاکٹر یا حکیم ایک procedure کے ساتھ علاج کرتا ہے۔ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے با قاعدہ اس پہ لکھا ہے کہ ایک ہوتا ہے کہ حکیم حاذق یعنی تجربہ کار حکیم، وہ با قاعدہ ایک اصول کے ساتھ علاج کرتا ہے، طریقہ کار کے ساتھ علاج کرتا ہے، تو وہ علاج دیر پا ہوتا ہے۔ جبکہ بعض دوسرے لوگ ایسے بھی ہیں جو اٹکل والے علاج کرتے ہیں۔ فرمایا جو لطائف کے علم کو سیکھے ہوتے ہیں اور ان کو لطائف کا پتا ہوتا ہے تو وہ جو روحانی علاج کرتے ہیں وہ صحیح ہوتا ہے، کیونکہ وہ ایک procedural علاج ہے اور جو اٹکل والے لوگ ہیں تو ان میں بعض ٹھیک ہو جاتے ہیں، بعض غلط ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی پتا نہیں چلتا، کبھی کیا ہوتا ہے کبھی کیا ہوتا ہے۔ اس طرح نماز کا معاملہ ہے، چونکہ نماز کا وقت آ گیا اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی آ گیا اور پھر اس پر عمل بھی ہو گیا تو اس کا اثر تو پڑنا تھا۔ بلکہ نماز تو بڑی چیز ہے مسواک کی جو سنت ہے اس کے بارے میں آتا ہے کہ صحابہ کرام کو ایک دفعہ فتح نہیں ہو رہی تھی تو آپس میں مشورہ کیا کہ کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے فتح نہیں ہو رہی۔ مشورے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ مصروفیت کی وجہ سے مسواک کی سنت ہم سے رہ گئی، لہذا مسواک کرنی چاہیے۔ تو سب نے ٹہنیاں توڑ کے مسواک شروع کرنا شروع کر دی، اس کا کافروں پر اتنا رعب پڑ گیا کہ وہ بھاگ گئے۔ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے، وہ صحابہ میں تو نہیں تھے لیکن بہر حال لڑنے والے تھے اور عمر بھی بہت زیادہ تھی، لڑائی کے دوران جب نماز کا وقت آیا تو انہوں نے ایک امام کو آگے کیا، دشمن نے تیر مارا اور امام شہید ہو گیا، پھر دوسرے امام کو آگے کیا، نماز میں ہی اس امام کو بھی تیر مار کے شہید کر دیا گیا، تیسری دفعہ خود اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ آگے ہوئے، اب دو امام شہید ہو چکے تھے اور خود آ گئے تو گویا اپنے آپ کو شہادت کے لئے پیش کر دیا۔ اس کو دیکھ کر وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے کہ ان کے ساتھ تو اللہ ہے کیونکہ ان کو پروا ہی نہیں ہے۔ اب دیکھو! یہ قربانی کے لئے اپنے آپ کو چونکہ پیش کرنا تھا، جب پیش کیا تو اللہ پاک نے مدد کی۔ ابھی طالبان کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ طالبان کے لڑنے کی وجہ سے اتنا زیادہ اثر نہیں ہوا، بلکہ مخالفین کے دلوں پہ اللہ پاک نے رعب ڈالا، ان کے بڑے بڑے سورما پہلوان سارے ریت کی دیوار کی طرح گر گئے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ابھی تک امریکہ اور یورپ والے سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ اب کوئی بھی نہیں ہے جو ان کو بتائے خدا کے بندو! یہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوا، طالبان تو چیخ چیخ کے کہہ رہے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیتے ہیں، وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنی طاقت سے جیتے ہیں۔ لیکن دنیا کے دوسرے لوگ مسلسل یہ بات کر رہے ہیں کہ پتا نہیں یہ کیا بات ہے؟ فلاں سازش ہو گئی، فلاں سازش ہو گئی۔ حالانکہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔ تم لوگوں نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا، اللہ پاک نے جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا۔ جیسے قرآن پاک میں ہے: ﴿وَ مَكَرُوۡا وَ مَكَرَ اللهُ ‌ؕ وَاللهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ (آل عمران: 54) ترجمہ: ’’ان کافروں نے خفیہ تدبیر کی، اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘

لہذا بات ختم ہو گئی۔ لیکن ایمان والوں کو ہی یہ بات سمجھ آ سکتی ہے، جن میں ایمان نہیں ہے ان کو یہ بات کیسے سمجھ آ سکتی ہے؟ وہ تو ساری باتیں اسی طرح ہی کریں گے، یعنی اسباب کے رخ سے باتیں کریں گے۔ تو اسباب میں ان کو کہاں سِرا ہاتھ میں آئے گا۔ وہ پریشان ہی ہوتے رہیں گے، اور پریشان تو ہیں۔ کہتے ہیں: کمال ہے ہم نے اتنی سرمایہ کاری کی۔ وہ اپنے ڈالروں کو گن رہے ہیں کہ ہم نے اتنے ڈالر ان پہ خرچ کئے۔ خدا کے بندو! ڈالروں سے کیا ہوتا ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتا ہے۔ جس وقت اللہ پاک نے ان سے قربانی لینی تھی، وہ لے لی۔ اب اس کے بعد اللہ پاک نے ان کو نتیجہ دینا تھا، دے دیا۔ لہذا ہم لوگوں کو اللہ پر اپنا یقین مضبوط کرنا چاہیے اور جو اعمال ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے مدد کا ذریعہ سمجھیں۔ اگر کوئی شخص اعمال نہیں کرتا، بالخصوص حرام میں مبتلا ہے تو اللہ کی مدد کے یہ رستے اس سے غائب ہو جاتے ہیں، چھپ جاتے ہیں، اس کو ان کا پتا نہیں چلتا، نتیجتاً وہ مارا جاتا ہے۔ خود میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہے خیابان میں جو ہماری Drawing room خانقاہ تھی، 8/4 i میں ہمارے ایک ساتھی تھے، بڑے نیک آدمی تھے، بڑے دیانتدار تھے، انجینئر تھے، رشوت وغیرہ نہیں لیتے تھے، حالانکہ ان کا محکمہ ایسا تھا جس میں رشوت بہت عام ہے، ایک دن میرے پاس آئے اور بڑے پریشان تھے، کہنے لگے: شاہ صاحب کچھ کرو، میں نے کہا کیا بات ہے؟ کہتے ہیں: میرے خلاف سازش ہو گئی ہے، ایک corruption والی پارٹی کے خلاف مجھے convener بنایا ہے جن کے بڑے لمبے ہاتھ ہیں۔ اب اگر میں صحیح بات کرتا ہوں تو یہ مجھے مارتے ہیں اور اگر میں غلط بات کروں تو حکومت میرے خلاف ہو جائے گی کہ تم نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ تو انہوں نے مجھے پھنسا دیا ہے، آپ کچھ کریں۔ میں نے کہا آپ دیانتدار آدمی ہیں اللہ پاک آپ کے ساتھ مدد فرمائیں گے۔ آپ فکر نہ کریں۔ بہر حال وہ بہت پریشان تھے، مجھے کہنے لگے بس آپ کچھ کریں۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے، اس کا دل رکھنے کے لئے میں نے ایک وظیفہ دے دیا حالانکہ مجھے پتا تھا کہ اللہ پاک اس کی مدد فرمائیں گے۔ چنانچہ اس کا کام ہو گیا، اور الحمد للہ کام اس کا ہونا ہی تھا۔ کام اس طرح ہو گیا کہ ان کا سیالکوٹ transfer ہو گیا، بس transfer ہوتے ہی ان کی convenership ختم ہو گئی، کمیٹی ٹوٹ گئی۔ یہ وہاں سے نکل گئے۔ سیالکوٹ ایسے لوگوں کے لئے سونے کی چڑیا ہے۔ بعد میں پھر لوگ ان کے ساتھ communication کرنے لگے کہ ہم آپ کے ساتھ Mutual transfer کرنا چاہتے ہیں، یوں Mutual transfer ہو گیا اور یہ پھر اسلام آباد آ گئے۔ بس اس کمیٹی سے نکلنا تھا اور نکل گئے۔ وہ بڑے معتقد ہو گئے کہ شاہ صاحب! آپ کے وظیفے نے بڑا کام کیا۔ میں نے کہا خدا کے بندے! میں نے آپ کو کہا تھا کہ آپ دیانت دار آدمی ہیں آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن اس کے خیال میں تھا کہ وظیفے سے کام ہو گیا۔ وہ خود بھی Executive Engineer تھے تو ایک دن کسی اور Executive Engineer کو لائے، کہتے ہیں ان کے ساتھ بڑا مسئلہ ہے آپ ان کی کچھ help کریں۔ میں نے اس کو ذرا غور سے دیکھا تو مجھے وہ ان کی طرح صاف نظر نہیں آیا۔ ذرا گڑبڑ والا نظر آیا۔ میں نے پھر اندازے سے بات کی۔ میں نے کہا وظیفہ تو میں دے دوں گا لیکن میرا وظیفہ ہر بار نہیں چلتا۔ اس کے لئے بنیاد بنانا پڑتی ہے اور وہ بنیاد آپ بنائیں گے تو پھر وظیفہ کام کرے گا اور وہ بنیاد اس طرح بناؤ کہ سب سے پہلے حرام رزق کو چھوڑو، اس سے توبہ کرو۔ اور پھر اگر آپ کے گھر میں کوئی تصویریں وغیرہ لگی ہوئی ہیں تو ان سب کو اتارو، ٹیلی ویژن کو گھر سے نکالو اور اگر کوئی کتا وغیرہ بھی آپ کے گھر میں ہے تو اس کو بھی نکالو۔ کیونکہ آپ وظیفہ کریں گے جس سے رحمت کے فرشتے آنا چاہیں گے اور یہ چیزیں اس کے لئے hurdles ہیں۔ جب رکاوٹیں ہوں گی تو فرشتے نہیں آئیں گے، تو پھر آپ کا وظیفہ کیا کام کرے گا؟ چنانچہ میں نے کہا یہ چار چیزیں تم ٹھیک کر لو، پھر ان شاء اللہ میں وظیفہ بتاؤں گا۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا، اس کا چہرہ مجھے بتا رہا تھا کہ اس نے نہ یہ بات سنی ہے اور نہ مانی ہے۔ جب یہ باہر چلا گیا تو میں نے ساتھیوں سے کہا کہ نہ اس نے یہ بات سنی ہے نہ مانی ہے۔ وہ بیچارہ مجھے بتا رہا تھا کہ میں حالت تک آ گیا ہوں کہ مجھ پر کوئی جادو کرتا ہے، میں اس کے لئے عامل کو بلاتا ہوں وہ عمل کرتا ہے، وہ جادو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن چند دنوں کے بعد پھر دوبارہ اس سے بڑا جادو ہو جاتا ہے۔ بار بار اس طرح ہوتا ہے۔ بہر حال وہ چلا گیا۔ چونکہ i 8/4 میں ہماری مجلس ہوا کرتی تھی، چند دنوں کے بعد میں نے آفریدی صاحب کہا کہ وہ آپ کے دوست کا کیا ہوا؟ کوئی بیس پچیس دن گزر گئے تھے۔ کہنے لگے وہ تو مر گیا۔ ظاہر ہے کب تک بچتا، اس کے اوپر اثرات تو تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس کے لئے تیار نہیں تھا۔ یعنی مر گیا لیکن حلال کھانے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ اب ایسے لوگوں کا کیا علاج ہے؟ ایسے لوگ عاملوں کے لئے تر نوالہ ہیں۔ عامل ان کو اس لائن پہ لگا چکے ہوں گے، بس وہ ان کے بتائے ہوئے عملیات کرتے ہوں گے۔

آج کل اصل چیز کی طرف لوگ نہیں آتے۔ اور ادھر ادھر جاتے ہیں۔ اصل بنیاد کیا ہے؟ بنیاد یہ ہے کہ لوگ چاہتے ہیں ہم تبدیل نہ ہوں، ہمارے حالات تبدیل ہو جائیں۔ اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ پہلے خود کو بدلو گے پھر حالات بدلوں گا، یعنی surrender کرو گے تو پھر میں مدد کروں گا۔ اس کے لئے لوگ تیار نہیں ہیں۔ عاملین کے پیچھے لوگ کس لئے جاتے ہیں؟ اس لئے جاتے ہیں کہ اگر ہم صحیح لوگوں کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ نہ کرو، یہ نہ کرو، یہ نہ کرو۔ اور اس کے لئے وہ تیار نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے نفس کی ساری خواہشات پوری کریں، اس کے بعد ہمارے سارے مسائل حل ہوں۔ ہم کہتے ہیں: اگر نفس کے ساتھ دوستی ہے تو اللہ پاک کے ساتھ نہیں ہے، اگر اللہ پاک کے ساتھ دوستی ہے تو پھر نفس کی بات کو چھوڑنا پڑے گا۔ طریقہ کار تو یہی ہے۔ کیونکہ دو ہی صورتیں ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کہ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اپنی خواہشاتِ نفس کو معبود بنایا ہوا ہے۔ اس لئے یا اللہ کی بات مانو گے یا نفس کی مانو گے۔ جب نفس کی بات مانو گے تو اللہ تعالیٰ کی بات تو نہ مانی۔ لہذا اللہ تعالی کی مدد سے cut گئے اور اگر اللہ کی بات مانی تو نفس کے خلاف کرنا پڑے گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَ قَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (الشمس: 9 10) ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اسے پاکیزہ بنائے، اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘

چنانچہ یہی بنیاد ہے، اگر ہم لوگ اس کو سمجھیں تو مسائل پیدا نہ ہوں۔ اور ہمارا جو طریقہ ہے اس میں ناکامی بھی کامیابی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کو دنیا میں فائدہ نہیں ہوا تو آخرت میں تو بچ گئے، آخرت تو آپ کی ٹھیک ہو گئی۔ جبکہ دوسری صورت میں آخرت میں تو تباہی ہے ہی، زیادہ تر دنیا میں بھی تباہی ہو جاتی ہے۔ لہذا یہ رستہ محفوظ ہے، اس کے اندر آپ بچے ہوئے ہیں، کم از کم آپ کی آخرت بچی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان کے جہاد میں جو مسلمان شہید ہوئے ہیں، عام لوگوں کی نظروں میں تو نا کام ہوئے، لیکن کیا اللہ پاک کی نظروں میں بھی ناکام ہیں؟ نہیں! بلکہ ان کی قربانیاں رنگ لائیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے۔ جیسے قرآن پاک میں ہے: ﴿وَ لَا تَقُولُوا لِمَن يُّقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَّ لَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ (البقرۃ: 154) ترجمہ: ’’اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو۔ در اصل وہ زندہ ہیں، مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔‘‘

ایک صحابی رسول ﷺ کو لڑائی میں نیزہ لگا اور اس طرح لگا کہ اس سے بچنا ممکن نہیں تھا، ان کے منہ سے چیخ نکلی: ’’فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃ‘‘ ترجمہ: ’’ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا‘‘ تو جس کافر نے نیزہ مارا تھا وہ کہتا ہے یہ کیسے عجیب لوگ ہیں! مارا میں نے ہے اور یہ کہتا ہے کہ کامیاب ہو گیا۔ یہ کیسی بات ہے! جب لڑائی ختم ہو گئی تو وہ کافر کسی اور صحابی سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کیا بات تھی؟ وہ کیسے کہہ رہے تھے میں کامیاب ہو گیا؟ انہوں نے کہا تم لوگوں کو جتنا شراب کا پیالہ عزیز ہے اس سے زیادہ ہمیں موت کا پیالہ عزیز ہے، ہم تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ اللہ کے راستے میں قربان ہو جائیں۔ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی تو یہ دعا کرتے تھے: ’’اللَهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ‘‘ یعنی وہ شہادت کی موت کی تمنا کرتے تھے اور دعا کرتے تھے۔ لہذا اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اُس دنیا کو سامنے رکھنا ہے، اگر ہماری یہ دنیا درست بھی ہو جائے اور ٹھیک بھی ہو جائے اور سارے مزے ہم کو مل بھی جائیں، مگر وہاں کامیابی نہ ہو تو یہ بہت خسارے کا سودا ہے۔ اور اگر یہاں بالکل ہماری کوئی بھی بات پوری نہ ہو، لیکن ہماری آخرت کی زندگی صحیح ہو جائے تو ہم کامیاب ہیں۔ چنانچہ اگر یہ نیت ہو تو پھر ان شاء اللہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ پھر شیطان بھی کچھ نہیں کر سکتا، نفس بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اور اگر ایسی نیت نہیں ہے تو پھر کمزوری ہے اور کمزوروں پہ تو ان کے دشمن چڑھ آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ