سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 529

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی آپ نے فجر کی نماز میں سستی اور غفلت کی تحقیق کرکے اطلاع کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ تحقیق اور جستجو سے فجر کی نماز میں سستی کے یہ اسباب معلوم ہوئے ہیں کہ سب سے پہلے سونے میں تاخیر ہو جاتی ہے بچے سونے میں دیر کر دیتے ہیں حالانکہ عشاء کے بعد سونے کا شور شرابہ شروع ہو جاتا ہے۔ صبح کے وقت آنکھیں بہت بوجھل رہتی ہیں، نیند کی کمی محسوس ہوتی ہے دفتر اکثر و بیشتر بغیر ناشتے کے بہت دیر سے پہنچتا ہوں، الارم سننے کے بعد بھی دماغ کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ والد صاحب نے جگایا تھا لیکن آنکھ نہیں کھلی۔ کوئی جسمانی ورزش بھی نہیں کی تھی جس کی وجہ سے آنکھ بیداری میں مسئلہ ہوتا۔ فجر کے لئے آنکھ کھل جائے تب بھی نماز ادا کرنے کی سکت نہیں ہوتی نیند کے غلبہ کی وجہ سے لیٹ جاتا ہوں، ذکر و مراقبہ نہیں کر پاتا جو بعد میں کسی طرح یکسو ہو کر کرنا پڑتا ہے۔ تکبیر اولیٰ کا چلہ بھی پورا نہ ہو سکا، کچھ نمازیں قضا ہوئیں۔ بعد میں تلافی کے روزے بھی رکھے مگر اس دوران پھر کچھ نمازیں قضا ہو گئیں۔ اب آپ کی ہدایت پر الارم بھی لگایا ہے اور تہیہ کیا ہے کہ 5 دن میں جلد سے جلد سونے کی ترتیب بنا لیں۔ تمام ہدایات کے پیشِ نظر امید ہے کہ یہ رکاوٹ دور ہو جائے گی ان شاء اللہ۔

جواب:

اب آپ نے صحیح بات بتائی۔ گویا کہ وجہ معلوم ہو گئی۔ وجہ یہ ہے کہ بچوں کی وجہ سے آپ جلدی نہیں سو پاتے۔ یہ تو ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ ہر گھر میں بچے ہوتے ہیں تو بچوں کو سنبھالنا بھی ہوتا ہے اور تمام کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے لئے انسان باقاعدہ محنت کرتا ہے، اس محنت کو تجربات کے ذریعے زیادہ موثر بھی کرتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو دن کے وقت جگائے رکھیں، انہیں سونے نہ دیں، کسی بھی طریقے سے مصروف رکھیں۔ اصل میں بچوں کی مائیں جب بچوں سے تنگ ہو رہی ہوتی ہیں اس وقت یا تو ان کو سلا دیتی ہیں یا کسی کام میں مصروف کرتی ہیں جیسے کہ ان کے ہاتھ میں موبائل دے دیتی ہیں۔ اور ان دونوں کا نقصان ہے۔

﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ ٱلْعَاجِلَةَ وَتَذَرُونَ الآخِرَةَ﴾ (القيامة: 20-21)

ترجمہ: ”اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کیے ہوئے ہو“۔

فوری تنگ ہونے کی وجہ سے مائیں یہ کرتی ہیں کہ یا تو بچے کو موبائل پہ لگا دیتی ہیں یا سلا دیتی ہیں۔ ایسا مت کریں۔ اپنے بچے کو جگائے رکھنے میں ایک دو دن تو آپ کو تکلیف ہو گی لیکن جس وقت وہ بچے جاگے ہوئے ہوں گے تو رات کو ان شاء اللہ جلدی سوئیں گے۔ تھوڑی سی محنت کی بات ہے ان شاء اللہ جلدی سونا شروع کر دیں گے۔ جب بچے جلدی سونا شروع ہو جائیں تو پھر آپ اپنے آپ کو ادھر ادھر کے کاموں مصروف نہ کریں پھر آپ بھی سو جائیں کیونکہ شیطان آپ کے پیچھے پڑ جائے گا اور آپ کو مصروف کر لے گا۔ آپ نے اس وقت تمام مصروفیات کو چھوڑ دینا ہے اور صرف سونا ہے تاکہ آپ جلدی اٹھنے والا معمول شروع کر سکیں ان شاء اللہ اگر یہ معمول شروع ہو گیا تو پھر سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ اللہ پاک مدد فرمائے۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم حضرت! الحمد للہ آج 29 جولائی کو ایک ماہ کا ذکر 200، 400، 600 اور 500 اللہ اور لطیفۂ قلب، روح، سر اور خفی پر 10 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ پر 15 منٹ کا تصور شروع کر لیا۔ چاروں لطائف پر محسوس ہوا اور اخفیٰ پر سینے سے گلے تک آتا ہوا محسوس ہوا۔

جواب:

اب آپ یوں کریں کہ ذکر یہی پہلے والا جاری رکھیں۔ لطیفۂ قلب، روح سر، خفی اور اخفیٰ کے اوپر 5، 5 منٹ سری ذکر کریں اس کے ساتھ 15 منٹ کے لئے یہ تصور کریں کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے جیسا کہ اس کی شان ہے فیض آ رہا ہے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پہ آ رہا ہے۔ اس کو مراقبۂ احدیت کہتے ہیں۔ ایک مہینہ تک یہ معمولات کر کے مطلع فرمائیں۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مجھے اسلام میں معافی کے concept کے بارے میں کچھ سوالات کرنے ہیں۔

میں نے ایک واقعہ پڑھا کہ ایک آدمی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور حضرت ابوبکر اسے خاموشی سے سن رہے تھے، آپ ﷺ بھی پاس آ کر بیٹھ گئے، کچھ دیر بعد جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوبکر جب تک تم خاموش تھے تمہاری طرف سے ایک فرشتہ جواب دے رہا تھا، لیکن جب تم نے خود جواب دیا تو وہ فرشتہ چلا گیا۔

اس واقعہ پر ایک سوال تو یہ پیدا ہوا کہ کیا ہمیں کسی کی بری بات کا جواب نہیں دینا چاہیے یا ہمیں اپنا دفاع کرتے ہوئے جواب دینا چاہیے۔

دوسرا یہ کہ بہت سے حالات میں کوئی شخص ہمیں بے عزت کرتا ہے، اس کا رویہ بے عزتی ہوتا ہے۔ کیا اس رویے کے جواب میں ہم چپ رہیں بے شک ہمارا چپ رہنا ہی اس کو هرانا ہو گا۔

تیسرا یہ کہ آج کل ہر بات کہہ دینا ہی بےباکی اور خود اعتمادی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی ایسی صورت میں خاموشی اختیار کرے اور معاف کرے تو اسے بدھو تصور کیا جاتا ہے۔

اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ہمیں ایسے حالات میں معاف کرنا اور خاموش رہنا کیسے سیکھنا چاہیے اور اس پر کیسے عمل کرنا چاہیے؟

جواب:

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھیں کہ جب آپ خط لکھیں تو صاف لکھیں۔ اصلاح کا پہلا اصول یہی ہے۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بیٹے نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا۔ حضرت نے ان کو جواب میں لکھا کہ بیٹا! اپنا خط اچھا کرو، دیکھو میں ابھی سے آپ کو صوفی بنا رہا ہوں۔

اچھا خط لکھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے آپ کو خوش خط دکھائیں اور لوگ آپ کی تعریف کریں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا خط لکھیں کہ جسے پڑھنے سے کسی کو تکلیف نہ ہو جیسے ابھی مجھے تکلیف ہو رہی تھی، بار بار میں اس پہ غور کر رہا تھا کہ کیا لکھا ہے۔ اب اگر آپ نے کچھ لکھا ہو اور میں اس سے کچھ اور سمجھوں پھر تو جواب ہی غلط ہو جائے گا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اس خط کا مواد ایسا تھا کہ مضمون ایک ہی چل رہا تھا جس سے اندازہ لگایا جا سکا کہ کیا بات ہو رہی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف باتیں ہوتی ہیں، ایسی صورت میں کافی مشکل پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا سب سے اپنے اپنا خط درست کریں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ ہی فرمایا تھا کہ جب تک آپ جواب نہیں دے رہے تھے تب فرشتہ آپ کی طرف سے جواب دے رہا تھا جب آپ نے خود جواب دینا شروع کر لیا تو فرشتہ چلا گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ جواب نہ دیں، آپ جواب دے سکتے ہیں لیکن جب آپ خود جواب دیں گے تب آپ کے ساتھ وہ مدد نہیں ہو گی اس مدد کے لئے آپ disqualify کر جائیں گے، کیونکہ آپ خود جواب دے سکتے ہیں تو بس ٹھیک ہے ضرور جواب دیں آپ کو چھوڑ دیا جائے گا کہ آپ خود اپنی طرف سے جواب دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا نفس ہر چیز کے لئے دلیل بنا لیتا ہے۔ مثال کے طور پر مجھ میں کوئی عیب ہو، اس عیب پر کوئی اعتراض کرے اور مجھ میں واقعی وہ عیب موجود ہو۔ اب اگر میں اپنے نفس پر قابو پا چکا ہوں گا تو میں اس آدمی کی بات پر غصہ کرنے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھاؤں گا، مجھے سمجھ آ جائے گی کہ واقعی میری یہ بات غلط ہے۔ میں اس عیب نکالنے والے کی بات آرام سے سنوں گا اور اپنے عیب کی اصلاح کروں گا لیکن اگر میرے نفس کی اصلاح نہیں ہوئی ہو گی تو پھر میں ہر چیز کو اپنی بے عزتی سمجھوں گا اور کہوں گا کہ یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔ میرا نفس مجھے یہی سکھائے گا کہ یہ بات خلافِ واقعہ ہے لہٰذا اس کا جواب دینا چاہیے کہیں یہ مجھے بدھو نہ سمجھ لیں۔

بے شک بعض مواقع پر جواب دیا جا سکتا ہے اور دیا جانا بھی چاہیے، جبکہ بعض مواقع پر خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں ہو سکتی ہیں اور ان کے اپنے اپنے نتائج ہوتے ہیں لیکن ایک ہے دوسرے کی اصلاح اور ایک ہے آپ کی اپنی اصلاح۔ آپ کو اپنی اصلاح زیادہ عزیز ہے یا دوسرے کی اصلاح زیادہ عزیز ہے؟ اصولی طور پر تو اپنی اصلاح زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔ مثلاً دو بیمار ہیں۔ ایک بیمار آپ ہیں اور ایک کوئی دوسرا آدمی بیمار ہے تو آپ کیا چاہیں گے وہ ٹھیک ہو جائے یا آپ ٹھیک ہو جائیں؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرا ٹھیک ہو جائے اور میں بیمار رہوں تو پھر ہم آپ کو کچھ نہیں کہتے آپ دوسروں کی اصلاح کر دیا کریں۔ لیکن اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ کی بیماری دور ہونی چاہیے آپ کو صحت مند ہونا چاہیے دوسرا ٹھیک ہو یا نہ ہو آپ کے لئے اپنی صحت ضروری ہے، تو پھر یہاں اس معاملے میں بھی اپنے آپ کو بچائیں، پہلے اپنی اصلاح کی فکر کریں۔ اپنے آپ کو بچانا یہ ہے کہ آپ بات کو نہ بڑھائیں۔ کیا ہو جائے گا اگر آپ کو دوسرے آدمی نے بدھو سمجھ لیا۔ اگر آپ در حقیقت بدھو نہیں تو اس کے بدھو سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس کے بدھو سمجھنے سے آپ بدھو نہیں ہو جائیں گے۔

آپ ﷺ کے بارے میں لوگ باتیں کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ کو ان باتوں کا پتا لگتا تھا تو آپ ﷺ ان کی ایسی تاویل کر لیتے جس سے ان کی بات کا مثبت پہلو نکل آتا۔

آپ ﷺ کا اسم گرامی محمد ہے۔ جس کا معنی ہے: ”ایسا شخص جس کی تعریف کی جاتی ہے“۔ کفارِ عرب اپنے بغض کی وجہ سے محمد نہیں کہتے تھے بلکہ (نعوذ باللہ) مذمم کہتے تھے۔ جس کا مطلب ہے ایسا شخص جس کی مذمت کی گئی ہو۔ جب آپ ﷺ کو پتا چلا تو آپ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے اللہ پاک نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا۔ اب اگر یہ کوئی غلط بات کریں گے تو مذمم کا نام لے کر کریں گے اور میں مذمم نہیں ہوں میں تو محمد ہوں۔

دیکھیں کیسے عمدہ بات فرمائی آپ ﷺ نے۔ آپ بھی ایسی باتوں کی اچھی تاویل کر سکتے ہیں۔

ملا دو پیازہ رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ تھے، لیکن اکبر کے دربار میں چند وجوہات کی بنا پر مسخرے بنے ہوئے تھے۔ یہ حضرت شیخ سلیم شاہ رحمۃ اللہ علیہ چشتی کے مرید تھے ان کے کہنے پہ اکبر کے دربار میں اس بھیس میں رہتے تھے تاکہ اکبر کے بارے میں پتا چلتا رہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا اکبر بادشاہ اور تین چار بڑے بڑے درباریوں (بیربل وغیرہ) نے مل کر ایک سوانگ رچایا۔ (نَعُوذُ بِاللہ مِنْ ذَالِک) اکبر کو نبی بنایا اور خود چار یار بنے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ملا دو پیازہ رحمۃ اللہ علیہ آئے تو اکبر نے کہا ملا آپ دیر سے آئے ہیں، اچھے اچھے عہدے تو تقسیم ہو چکے ہیں۔ میں تو محمد ہوں (نعوذ باللہ) یہ ابوبکر ہے یہ فلاں ہے، بتائیں آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں تم لوگوں کا ابو جہل بنوں گا اور تمہیں گالیاں دوں گا۔ یہ نہیں کہا کہ میں ابو جہل بنوں گا بلکہ یوں کہا کہ میں تم لوگوں کا ابو جہل بنوں گا اور تمہیں گالیاں دوں گا۔

ایسے مواقع پر اس قسم کی ہوشیاری چاہیے اور اپنے آپ کو بچانا بھی چاہیے۔ سب سے ضروری بات ہے کہ اپنے آپ کو روحانی نقصان سے بچانا چاہیے۔ اگر میں کسی بحث میں جیت بھی گیا لیکن اس جیت کی وجہ سے اگر میرا نفس پھول گیا تو یہ میری جیت نہیں بلکہ شکست ہے اور اگر میں نے اپنے آپ کو نیچا کر لیا، بظاہر ہار گیا لیکن نفس کے آگے جیت گیا تو یہ ہے اصل جیت۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ شہر بسطام آ رہے تھے، سب لوگ ان کے استقبال کے لئے شہر سے باہر آئے۔ رمضان کا مہینہ تھا حضرت روزے سے تھے، سفر میں تھے، سفر میں آدمی پہ روزہ لازم نہیں ہوتا، لیکن انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ جب دیکھا کہ اتنے سارے لوگ استقبال کے لئے آئے ہیں تو اپنے نفس سے مخاطب ہو کے کہا کہ اب تو تو بڑا پھول جائے گا کہ میرے استقبال کے لئے اتنے لوگ آئے ہیں۔ دیکھ میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ لوگوں کے سامنے ہی اپنی گدڑی سے روٹی نکالی اور کھانا شروع کر دی۔ لوگوں میں شور مچ گیا کہ یہ تو روزہ خور ہے، رمضان کا مہینہ ہے اور اس نے روزہ نہیں رکھا ہوا، سارے لوگ یہ دیکھ واپس چلے گئے۔ چار پانچ لوگ رہ گئے، وہ پکے مرید تھے، انہوں نے کہا آپ جو بھی کریں گے ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے ہم آپ کے ساتھ ہی ہیں۔ حضرت نے کہا: افسوس لوگ اتنے جلد باز ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھا کہ میں مسافر ہوں اور مسافر پہ روزہ رکھنا لازم نہیں ہوتا۔

اب دیکھیں حضرت نے کیسے اپنے نفس کو سبق سکھلایا۔ ہمارے سارے بزرگ اسی طرح اپنے نفس کی حفاظت کرتے ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل البشر بعد الانبياء ہیں۔ جب انہوں نے ایسا کر لیا کہ خود جواب دینا شروع کر دیا تو باقی لوگ بھی ایسا کر سکتے ہیں، اپنی بے عزتی کا جواب دینا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ لیکن بہتر وہی بات ہے جو میں نے عرض کی کہ اللہ کی تائید تب تک رہے گی جب تک ہم خود سے جواب نہیں دیں گے اور توجہ دوسرے کی اصلاح کی بجائے اپنی اصلاح پر مرکوز رکھیں گے۔

سوال نمبر4:

حضرت جی السلام علیکم۔ میں کراچی سے بات کر رہا ہوں۔ پچھلے ہفتے کچھ عجیب سی کیفیت میں رہا ہوں۔ دنیا کی چیزوں کی طمع غالب رہی۔ تمام تسبیحات و معمولات مکمل کئے لیکن ایسا محسوس ہوا جیسے عادتاً کر رہا ہوں دل سے کوئی رغبت محسوس نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں لیکن دل میں کوئی کیفیت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ کی ہدایت کے مطابق باقاعدگی سے مراقبہ کرتا ہوں لیکن دل پہ کوئی رسائی محسوس نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے خصوصی دعا کیجئے۔ جزاک اللہ۔ درج ذیل ذکر چل رہا ہے:

200، 400، 600 اور 500 ذکر جہری اور 5 منٹ کے لئے مراقبہ کرتا ہوں۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ماشاء اللہ آپ نے اپنی حالت بڑے اچھے طریقے سے بتائی ہے۔ جو حالات و کیفیات آپ کے ساتھ پیش آ رہے ہیں، سب سالکین ان سے گزرتے ہیں، ایسا نہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی خاص معاملہ ہو رہا ہے۔ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ انسان انفعال کے پیچھے بھاگتا ہے، اعمال کا وزن محسوس نہیں کرتا حالانکہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

﴿فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُه﴾ (القارعۃ: 6)

ترجمہ: ”جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے“۔

یہاں پلڑے کس چیز کے ساتھ وزنی ہوں گے، کیا کیفیات و انفعالات کے ساتھ یا اعمال کے ساتھ؟ کس چیز کو تولا جائے گا، انفعالات کو یا اعمال کو؟ ظاہر ہے اعمال کو تولا جائے گا۔ یہاں اعمال کی بات ہو رہی ہے کیفیات کی نہیں۔ اس لئے اعمال کی فکر کرنی چاہیے۔ انفعال تو ایک اضافی چیز ہے، مل جائے تو شکر کریں نہ ہو تو پروا نہ کریں بلکہ اس کو مجاہدہ سمجھیں اور مجاہدہ کا اجر الگ سے ملے گا۔

ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت نماز میں بالکل جی نہیں لگتا، دل پہ ایک پہاڑ سا محسوس کرتا ہوں۔

حضرت نے فرمایا: کمال ہے جب 100 فیصد نمبر لینے کا وقت آ گیا تو آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

اگر آپ کا نماز میں دل لگ رہا ہو اور مزہ آ رہا ہو تو اس مزے کے کچھ نمبر کٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ آپ مزے کی وجہ سے خود بخود وہ اعمال کر رہے ہیں، آپ کی اپنی energy اتنی استعمال نہیں ہو رہی۔ جب آپ کا دل نہ چاہتا ہو پھر بھی آپ اعمال کرتے ہوں اور اس میں کامیاب رہیں تب 100 فیصد نمبر مل جائیں گے۔ اب اگر اللہ پاک آپ کو 100 فیصد نمبر لینے کا موقع دے رہے ہیں تو پیچھے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بس اسی طرح اپنے اعمال کرتے رہیں ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے آسانی و عافیت مانگتے رہیں۔ اللہ پاک سے ہمیشہ مانگنی تو عافیت ہی چاہیے لیکن اللہ پاک جیسے بھی رکھیں اس حالت پر صبر و شکر کے ساتھ رہنا چاہیے۔ جب مشکل حالات ہوں تو اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور ایسے وقت کے بارے میں ہی اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ﴾ (البقرۃ: 45)

ترجمہ: ”اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو“۔

لہٰذا ایسی حالت میں خوب استغار کرنا چاہیے اور اللہ پاک سے مانگنا چاہیے۔ آپ بس مستقل مزاجی سے اپنے اعمال جاری رکھیں۔ اگر رغبت نہیں ہے تو بھی اعمال کو ایسے ہی کریں جیسے رغبت سے کیے جاتے ہیں۔ اس کو یوں سمجھیں جیسے انسان بیمار ہو اور ڈاکٹر اس کو غذا لینے کی ہدایت کریں، اس کا کھانا کھانے کو بالکل جی نہ چاہتا ہو پھر بھی وہ اپنی صحت کی بہتری کے لئے کھانا چھوڑے گا تو نہیں، بے شک اس کا دل نہ چاہتا ہو پھر بھی وہ کھانا کھائے گا۔ اسی طرح آپ بھی ان اعمال کے مکلف ہیں اس وجہ سے اپنے اعمال پورے کرتے رہیں اور کیفیات کے پیچھے مت بھاگیں۔ خود مل جائے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں۔

یہ جو بات ہم اس وقت کر رہے ہیں، انفعال اور اعمال والی بات۔ یہ بہت قیمتی بات ہے اسے اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ بہت سارے لوگ انفعال میں پھنسے ہوتے ہیں، جب ان کو انفعال حاصل نہیں ہوتا تو وہ اعمال کی ناقدری کرنے لگتے ہیں حالانکہ دین اعمال کا نام ہے۔ دین اعمال پر منحصر ہے۔ قرآن پاک میں آتا ہے:

﴿وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ (العصر: 1-3)

ترجمہ: ”زمانے کی قسم۔ انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں“۔

اس میں انفعال کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ اعمال صالحہ کا ذکر ہے۔ ایمان کے بعد اعمال صالحہ کا نمبر آتا ہے۔ اعمال دو قسم کے ہیں۔ ایک ظاہری دوسرے باطنی۔ ظاہری اعمال کا بھی یہی حساب ہے کہ اگر ہم لوگ اعمال کے اوپر زیادہ توجہ کریں تو ہم لوگ زیادہ صحیح طریقے پہ ہوں گے۔ انفعال میں پڑنے کی وجہ سے اعمال کی ناقدری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انفعال کو اہمیت دینے کی وجہ سے صحیح لوگوں کی پہچان بھی نہیں ہو پاتی۔ مثلاً ایک شخص بہت رو رہا ہے، دوسرا آدمی ماشاء اللہ معاملات کے لحاظ سے بڑا پکا ہے، معاشرت اور اخلاق میں ثابت قدم ہے لیکن وہ رو نہیں رہا۔ اب ظاہر پرست آدمی رونے والے کو زیادہ اعلیٰ سمجھے گا، اعمال کرنے والے کی طرف راغب نہیں ہوگا۔ اسی لئے جو لوگ صحیح سمجھ رکھتے ہیں وہ ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں جن کا عقیدہ پختہ ہوتا ہے جن کی توجہ کیفیات کی طرف نہیں بلکہ اعمال پہ مرکوز رہتی ہے، جن کا حال ایسا بنا ہوتا ہے کہ وہ کسی صورت اعمال نہیں چھوڑتے۔

میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ ”اَللّٰہُ اَکْبر“، ایک اس کے الفاظ ہیں اور ایک اس کے پیچھے اللہ کو بڑا سمجھنے کی طاقت ہے۔ جب کوئی آدمی اس طاقت کا استحضار کر کے اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کا یہ کہنا معمولی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی حقیقت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی تائید ہوتی ہے۔ وہ جب اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کے دل سے سارے ڈر محو ہو جاتے ہیں اور باقی لوگوں پر اس کا رعب پڑ جاتا ہے وہ دہل کر رہ جاتے ہیں بے شک اس کو ابھی کچھ سمجھ نہ آئے لیکن وہ دہل جاتے ہیں۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ محترم حضرت۔ الحمد للہ مندرجہ ذیل ذکر اور مراقبات کو ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔

”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“ 200 مرتبہ، ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھو“ 400 مرتبہ، ”حق“ 600 مرتبہ، ”اللہ“ 100 مرتبہ، ”حق اللہ“ 500 مرتبہ، ”ھُوْ“ 500 مرتبہ، ”اللہ ھُوْ“ 500 مرتبہ۔

”حَقْ اَللہ“ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں۔

مراقبات:

پہلے مراقبہ میں یہ تصور کیا کہ اللہ جل شانہ میرے ساتھ ہے جیسا کہ اس کی شان ہے۔ یہ 15 منٹ تک کرتا ہوں۔

دوسرا مراقبہ 10 منٹ یہ تصور کرنا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طریقے اور شریعت پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں۔

تیسرا مراقبہ 10 منٹ تک یہ تصور کرنا کہ اے اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کی امت کو تمام فتنوں سے بچا، اسے قبول فرما کامیابی عطا فرما۔

چوتھا مراقبہ مراقبۂ شکر ہے جس میں 15 منٹ یہ تصور کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو فضل و کرم کئے، مجھ کو نعمتیں عطا کیں ان پہ اللہ تعالیٰ کا بے حد و حساب شکر ادا کرتا ہوں۔

5 منٹ غیبت، جھوٹ اور بد نظری پر قابو کی مشق۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور آپ کے فیض کی برکت سے غیبت، جھوٹ اور بد نظری سے بچا رہا۔ لیکن 100 فیصد بچ نہیں سکا۔ غصے پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے زیادہ تر قابو رہا۔ مزید رہنمائی کے لئے درخواست ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ فی الحال آپ انہی معمولات کو کرتے رہیں۔ ان میں جو کمی محسوس ہو اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،

I pray you and your beloved ones are well, dear شیخ. This is فلاں from Glasgow. I have completed my monthly ذکر of

“لَا إِلٰهَ إِلَّا الله”

200 times

“لَا إِلٰهَ إِلَّا ھو”

300 times

“حَق”

300 times and “اللہ”

100 times. I missed one day which I thoroughly regret. It was one of the first nights of شوال and I began praying تہجد at the start of night and finished it at فجر overnight as mentioned. However this caused me to delay my ذکر and at فجر time, I felt exhausted and didn’t complete my ذکر. I later heard one of your lectures that شیخ تھانوی said that اصلاحی ذکر is better than مسنون ذکر for تزکیہ. I will ان شاء اللہ learn my lesson and will never let it happen again. I never missed my daily مسنون ذکر الحمد للہ. During ,لَا إِلٰهَ إِلَّا الله I feel kind of warmth in my heart that is very enjoyable and makes me not want to stop it. لَا إِلٰهَ إِلَّا ھو during this ذکر, I feel the ذکر having effect on my heart and my eyes always feel like tears falling from it. With حق I am not sure that I feel حق in my heart. My favourite part is اللہ which I both feel in my heart and enjoy the sweetness thoroughly and never feel tired of this ذکر through the grace of اللہ سبحانہ تعالیٰ. I fasted all nine days of ذی الحج and missed only one night of تہجد and stood in نفل on the night before sleep. I do ذکر much more now to the extent that during going to gym and during some of my free time, for example, I am able do formal تسبیح of the درود مصطفیٰ.

جواب: ماشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے (آمین)۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو ذکر کی لذت و حلاوت نصیب فرمائی ہے۔ اب آپ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“ 200 مرتبہ، ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھو“ 400 مرتبہ، ”حق“ 400 مرتبہ اور ”اللہ“ 100 مرتبہ کریں۔ ان شاء اللہ اس سے آپ کو مزید ترقی ہو گی۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم حضرت میں راولپنڈی سے ہوں۔ میں پانچوں لطائف پر 10 10 منٹ ذکر کر رہی تھی اور مراقبہ کی مقدار 15 منٹ تھی، انہیں کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ عید کے دوران دو ناغے ہوئے ہیں۔ ناغوں کی وجہ سے شرمندہ ہوں مگر کیا کروں لطائف اور مراقبہ کا وقت ایک گھنٹہ پانچ منٹ ہے۔ بہت تھک جاتی ہوں جس کی وجہ سے مشکل ہو جاتا ہے۔ لطائف محسوس ہوتے ہیں مگر مراقبہ کا سمجھ میں نہیں آتا۔ مراقبے میں فیض کا تصور کرنا پڑتا ہے، فیض اللہ پاک کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے اور ان کے قلب سے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے میرے قلب پر آ رہا ہے۔ یہ تصور بار بار کرنا پڑتا ہے۔ 15 منٹ کا مراقبہ ہے۔

جواب: میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ آپ ایک گھنٹہ پانچ منٹ کے معمولات سے تھک جاتی ہیں۔ آپ ذرا حساب کر لیں کہ آپ دن میں کتنی دیر باتیں کرتی ہیں۔ آپ کو پتا چل جائے گا کہ آپ باتیں زیادہ کرتی ہیں یا معمولات میں زیادہ وقت لگاتی ہیں۔ باتوں میں آپ نہیں تھکتی ہوں گی لیکن معمولات کرتے ہوئے تھک جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باتیں نفس کی خواہش کے مطابق ہیں جبکہ ذکر اور مراقبہ نفس کے خلاف جا رہا ہے۔ اس لئے آپ کو تھکن محسوس ہوتی ہے۔ یہ تھکن کا احساس جھوٹ ہے سچا نہیں ہے۔ لہٰذا آپ اپنے اوپر سچ کو حاوی کر لیں اور جھوٹ سے اپنے آپ کو بچائیں۔

ہمارے سلسلے میں کچھ حضرات اس سے بہت زیادہ ذکر کرتے ہیں۔ بعض لوگ چھ چھ گھنٹے معمولات کرتے ہیں۔ ہم تو اتنے زیادہ معمولات دیتے بھی نہیں لیکن کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے، کچھ پانے کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان کو مفت میں سارا کچھ مل جائے۔ اللہ دے سکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اللہ پاک نے قانون بھی بنایا ہے، اللہ پاک جانچتا ہے کہ کون واقعی اس قابل ہے اور کون اس قابل نہیں ہے۔ لہٰذا آپ کو ہمت کرنی پڑے گی۔

آپ نے کہا کہ مراقبہ کے بارے میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس مراقبے کو سمجھا ہی نہیں کہ مراقبہ اصل میں کیا ہے۔ مراقبہ تو اس کو نام دیا گیا ہے لیکن یہ در اصل ایک حقیقت ہے۔ پہلے سمجھیں کہ فیض کسے کہتے ہیں۔ فیض ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فائدہ پہنچائے۔ مثلاً استاذ کا فیض علم میں ہے، اگر کوئی کاریگر ہے تو اس کا فیض اس کی کاریگری میں ہے، اگر کوئی مال دار ہے تو اس کا فیض مال خرچ کرنے میں ہو گا۔ جو بھی کسی کو فائدہ پہنچائے تو وہ اس کا فیض ہے۔

فیض کے سب سر چشمے اللہ کی طرف سے آتے ہیں۔ جہاں بھی کوئی فیض آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے آتا ہے۔

آپ نے کہا کہ فیض آنے کا تصور بار بار کرنا پڑتا ہے۔ بار بار نہیں کرنا پڑتا۔ مراقبہ ایک سوچ اور فکر ہے جس کے ذریعے آپ اپنے آپ کو کسی خاص چیز کی طرف یکسو کرتے ہیں۔ جب آپ مراقبہ کرنے بیٹھیں تو بس یہ سوچ لیں کہ اللہ پاک کی طرف سے فیض آ رہا ہے۔ ایسا سوچنے میں تو کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش ہو رہی ہو اور آدمی یہ سوچے کہ بارش کا فیض اللہ کی طرف سے آ رہا ہے۔ اسی طرح مراقبہ کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ اللہ پاک کی طرف سے فیض آ رہا ہے۔ یہ فیض سب سے پہلے اللہ پاک کی طرف سے نبی کریم ﷺ پر آتا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک عطا فرمانے والے ہیں اور آپ ﷺ تقسیم کرنے والے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے فیض سب سے پہلے آپ ﷺ پر آتا ہے۔ آپ ﷺ سے پھر دوسرے امتیوں کی طرف آتا ہے۔ امت میں جس آدمی کا تعلق جس شعبے سے ہوگا اس پر اسی شعبے کا فیض آئے گا۔ اگر علم کا فیض ہے تو استاذ کے پاس آئے گا، اگر اصلاح کا فیض ہے تو وہ شیخ کے قلب پر آئے گا۔ آپ کے لئے شیخ وسیلہ ہے اور فیض لینے کا ایک دروازہ اور ذریعہ ہے۔ لہٰذا آپ کے لئے جو فیض آئے گا وہ آپ کے شیخ کے قلب پر آئے گا وہاں سے آپ کی طرف آئے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب پر اور آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر آئے گا اور شیخ کے قلب سے پھر آپ کے قلب پر آئے گا۔

بس آپ نے مراقبہ کرتے ہوئے یہ سوچ سوچنی ہے اور یہ تصور کرنا ہے، اس میں کیا مشکل ہے یہ بالکل ایک حقیقت ہے، آپ نے اس حقیقت کا ادراک کرنا ہے، مراقبہ اسی ادراک کا نام ہے۔ لوگوں نے مراقبہ کو الفاظ کی شکل دی ہوئی ہے یہ الفاظ کی شکل ہے ہی نہیں، یہ تو ایک حقیقت ہے اس حقیقت کا ادراک کرنا ہے۔ اگر آپ اس حقیقت کا ادراک کر لیتے ہیں تو یہی مراقبہ ہے۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ الحمد للہ درج ذیل ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔

200 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“، 200 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوْ“، 200 مرتبہ ”حق“ اور 200 مرتبہ ”اللہ“۔

جواب:

اب آپ اگلے ایک ماہ تک 200 بار ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“، 300 بار ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوْ“، 300 بار ”حق“ اور 100 مرتبہ ”اللہ“ کریں۔

سوال نمبر9: السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ الحمد للہ آپ کی برکت سے درج ذیل ذکر بلا ناغہ کرتے ہوئے ایک ماہ اور دس دن ہو چکے ہیں۔ 200، 400، 600 اور 2000۔ مزید کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب آپ اس کی ترتیب یوں کر لیں۔ 200، 400، 600 اور 2500، 200، 400، 600 اور 2500۔

سوال نمبر10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ پاک نے تمام مسلمانوں کو ایک بنایا، عجمی کو عربی پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں پھر سید ذات کو دوسروں پر کیوں فوقیت دی؟ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا۔ آپ نے بھی اس بارے میں کافی بیان کئے ہیں اور مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام اہل بیت میں سے ہوں گے جو ان کے ساتھ جڑ جائے گا وہ اہل حق کے ساتھ ہو جائے گا اور جو ان سے جدا ہو جائے گا وہ دجال کے لئے تر نوالہ بن جائے گا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت آپ ﷺ کی اولاد مقام کے لحاظ سے باقی لوگوں سے اعلی ہیں؟

جواب:

نسبتیں غیر اختیاری ہوتی ہیں۔ ان پہ نہ فخر کیا جا سکتا ہے نہ ان کی بے توقیری کی جا سکتی ہے۔ فخر اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اختیاری نہیں ہیں۔ بے توقیری اس لئے نہیں کی جا سکتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی چیز کی بے توقیری کیسی کی جا سکتی ہے۔ آپ ﷺ کی ہر نسبت اللہ کو پیاری ہے۔ آپ ﷺ کے اصحاب، آپ ﷺ کی آل، آپ ﷺ کی سنت، آپ ﷺ پہ درود بھیجنا، آپ ﷺ کا شہر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے۔ اگر کسی کے دل میں ذرہ بھر بھی حضور پاک ﷺ کی محبت ہو گی تو ان کے ذہن میں یہ سوال آ ہی نہیں سکتا۔ ایسے سوالات پیدا ہونا آپ ﷺ کی محبت نہ ہونے کی علامت ہے۔ صحابہ کے بارے میں جس کے دل میں گڑبڑ آتی ہے اہل بیت کے بارے میں جس کے دل میں شکوک آتے ہیں، امہات المومنین کے بارے میں جس کے دل میں خرابی ہے یا اہل بیت کے بارے میں کسی کے دل میں کینہ ہے تو اس کا مطلب ہے اسے نبی پاک ﷺ کی محبت حاصل نہیں ہے۔ ایسے لوگ بیچارے خطرے میں ہیں، انہیں اپنی فکر کرنی چاہیے۔

اس سب کا مطلب یہ نہیں کہ سادات اپنے سید ہونے پر فخر کریں، ان کے سید ہونے میں ان کا اپنا کوئی کمال نہیں، بلکہ انہیں تو ڈرتے رہنا ہوگا کیونکہ جو اللہ پاک کے جتنا قریب ہو گا وہ اتنا زیادہ ڈرے گا، لیکن دوسرے لوگوں کے لئے یہ بات اہم ہے کہ وہ سادات کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم جو درود شریف پڑھتے ہیں اس میں نبی ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کی آل پر بھی سلامتی کی دعا بھیجتے ہیں۔ ”اللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ“۔

یہ جو ہم چہل حدیث شریف پڑھتے ہیں۔ یہ 40 احادیث شریفہ ہیں، اور ساری صحیح احادیث ہیں۔ کبھی آپ نے حساب کیا ہے کہ ان میں کتنی جگہ ”آل محمد“ آتا ہے۔ 22 جگہ آتا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اللہ پاک کے نزدیک یہ نسبت کتنی اعلیٰ ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں، اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں۔ فوقیت اور فضلیت تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ لیکن اللہ پاک نے اپنی منشا و مرضی کے مطابق کچھ نسبتوں کو اعلیٰ مقام دیا ہے۔ قرآن پاک میں بنی اسرائیل کے بارے میں بار بار آیا ہے کہ ان کو چن لیا گیا تھا، اللہ پاک نے ان کو بڑی فضیلت دی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کی قدر نہیں کی، اس پر فخر کیا، نتیجتاً اس نعمت سے محروم ہو گئے، لیکن جب تک اللہ کی طرف سے یہ نعمت ان کے پاس تھی تب تک وہ اہل فضیلت تھے، ان سے یہ چیز ہٹائی تو نہیں جا سکتی۔ آج بھی اگر یہ اسلام لائیں تو دوگنا اجر پائیں گے۔

تو یہ اللہ پاک کی طرف سے نسبت کی فضیلت ہوتی ہے، جس کو حاصل ہو اس شکر کرنا چاہیے۔ ہم ان نسبتوں کی بے توقیری نہیں کر سکتے۔ ہم کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے جو ان کو ملی ہوئی ہے اس نعمت اور نسبت کی وجہ سے ہم ان کی عزت کرتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سادات کس نسبت کی وجہ سے سادات ہیں، انہیں آپ ﷺ کی نسبت حاصل ہے۔ ہمیں اس نسبت کی عزت اور احترام کرنا ہے۔ دنیا میں اللہ پاک نے یہی ترتیب بنائی ہے۔ ہاں آخرت میں ہر ایک کا فیصلہ اعمال کی بنا پر ہوگا۔ اگر سید اچھے اعمال کرے گا تو اس کا معاملہ اچھا ہو گا کوئی اور اچھے اعمال کرے گا تو اس کا معاملہ اچھا ہو گا۔

دنیا میں سادات کی قدر کرنا باقاعدہ ایک عملِ صالح ہے۔ غیر سید لوگوں کے لئے تو یہ ایک عمل ہے جس پر ان کو اجر مل رہا ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنہوں نے سادات کا خیال رکھا اور ان کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کیا، اللہ پاک نے انہیں بڑے مقام و مرتبہ سے نوازا۔

عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے۔ انہوں نے حج کو مؤخر کر کے حج کے پیسے ایک سیدہ بی بی کو دے دئیے تھے جو فاقے سے تھیں۔ سارے پیسے ان کو دے دئیے اور حج پر نہیں گئے۔ حجاج کے باقی قافلے چلے گئے، جب وہ لوگ حج سے واپس آئے تو حضرت عبداللہ بن مبارک ان سے ملاقات کے لئے گئے کہ چلو دل کو اس طرح خوش کروں، سب کو مبارک باد دینے لگے کہ آپ کو حج مبارک ہو۔ جس کو مبارک باد دیتے وہ جواب دیتا کہ آپ کو بھی حج کا مبارک ہو۔ یہ بڑے حیران ہوئے اور گھبرا گئے، سمجھے کہ یہ لوگ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن جب بہت سارے لوگوں نے انہین مبارک باد دی تو انہوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو، میں تو حج پہ گیا ہی نہیں۔ وہ لوگ بھی حیران ہو گئے، ایک آدمی نے کہا کیا آپ میرے ساتھ منیٰ میں نہیں تھے؟ دوسرے نے کہا کیا آپ ہمارے ساتھ عرفات میں نہیں تھے؟ اور ایک نے یہاں تک کہا کہ آپ نے باب جبریل سے نکل کر مجھے دیناروں کی ایک تھیلی دی تھی اور کہا تھا کہ واپس پہنچ کر لے لوں گا وہ تھیلی میرے پاس ہے وہ واپس لے لیں۔ جب انہوں نے اس تھیلی کو کھولا تو جتنے پیسے اس خاتون کو دیئے تھے اس سے دس گنا زیادہ اس میں موجود تھے۔

حضرت اس پر بہت پریشان ہوئے۔ رات کو خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی۔ فرمایا: اور کتنی نشانیاں چاہئیں کہ تمہاری طرف سے حج ہو گیا۔ تو نے میرے خاندان کے ساتھ نیکی کی، میں نے اللہ تعالیٰ سے تمہارے لئے دعا کی، اللہ پاک نے تمہارے لئے ہر سال حج لکھ دیا کہ تیری طرف سے ہر سال ایک فرشتہ حج کرے گا۔ اس دفعہ بھی تیری طرف سے فرشتے نے حج کیا ہے اسی وجہ سے سب تمہیں مبارک باد دے رہے ہیں اور یہ پیسے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نیکی کا اجر ہے۔

حضرت امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ حطیم میں آئے، جب حجر اسود کے قریب آئے تو سارے لوگ ان کے احترام میں پیچھے ہٹ گئے اور ان کے لئے جگہ چھوڑ دی، انہوں نے بہت آرام سے حجر اسود کو بوسہ دیا اور واپس چلے گئے۔ ہشام بن عبد الملک انہیں دور سے دیکھ رہا تھا، کسی نے پوچھا یہ کون ہے جس کے لئے اتنے سارے لوگوں نے رستہ خالی کر دیا ہے۔ ہشام خوب پہچانتا تھا کہ یہ کون ہیں لیکن بغض میں آ کر کہتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم یہ کون ہے۔ اس وقت ہشام کے ایک درباری شاعر فرزدق نے فی البدِیہہ 32 اشعار حضرت امام زین العابدین کی تعریف میں کہے جن میں ان کی منقبت و تعریف بیان کی۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت موجود تھے، حیات تھے لیکن نابینا ہو چکے تھے۔ وہ امام زین العابدین کے پاس آئے تو ان کو قریب کیا اور ان کو اپنے سینے کے ساتھ بہت محبت کے ساتھ لگایا۔ کہا کہ ان کے ساتھ تو ہم بہت محبت کرتے ہیں۔

دیکھیں یہ نسبتوں کی بات ہے۔ یہ نسبتیں اللہ نے بنائی ہیں، ان پہ ہم سوال نہیں اٹھا سکتے۔ ہم یہ نہیں کہہ کہ فلاں کا احترام سید ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے، میں سید کیوں نہیں ہوں۔ بھئی تم سید نہیں ہو تو کوئی بات نہیں تم مسلمان ہو، تم رسول اللہ ﷺ کے امتی ہو۔ تم عمل کر لو ان شاء اللہ آپ ﷺ کے ساتھ ہو گے اور انہی اعمال میں سے ایک عمل یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی ہر نسبت کے ساتھ محبت کرو۔ آپ ﷺ کی اولاد کے ساتھ محبت کرو آپ ﷺ کے صحابہ کے ساتھ محبت کرو آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات کے ساتھ محبت کرو آپ ﷺ کی سنت کے ساتھ محبت کرو آپ ﷺ کی امت کے ساتھ محبت کرو۔ یہ سب آپ ﷺ کی نسبتیں ہیں۔ آپ کو ان کا فائدہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

نمبر 1:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 15 منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے الحمد للہ۔

جواب:

ابھی یہی معمول جاری رکھیں۔

نمبر 2:

تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ﴾ (البروج: 16) چل رہا تھا۔ اس دوران بچی نے مدرسہ چھوڑ دیا تھا، ساتھ ہی مراقبہ بھی چھوٹ گیا۔ مراقبہ دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔

جواب:

ان کو دوبارہ یہ مراقبہ دے دیں اور ایک مہینہ پورا کر کے مطلع کریں۔

نمبر 3:

تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ صفاتِ سلبیہ 15 منٹ۔ دو ماہ ہو گئے لیکن غلط طریقے سے کیا۔

جواب:

اب درست طریقے سے کر لیں اور ایک مہینہ بعد اطلاع دیں۔

نمبر 4:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ صفاتِ سلبیہ 15 منٹ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہونے لگا ہے۔

جواب:

ابھی آپ تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر کرتی رہیں اور مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ کریں۔

نمبر 5:

لطیفۂ قلب 10 منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اب اسی لطیفہ پر 15 منٹ ذکر کریں۔

سوال نمبر12:

السلام علیکم۔ حضرت جی اللہ نے معمولات پر استقامت عطا فرمائی ہے۔ اللہ پاک کے فضل اور آپ کی تربیت کی برکت سے ذکر لسانی کی عادت بنتی جا رہی ہے۔ الحمد للہ معمولات میں ناغہ نہیں ہو رہا۔ حضرت جی کبھی کبھار لگتا ہے کہ میرے سر پر بزرگی کا بھوت سوار ہے۔

جواب:

اس کا علاج بہت آسان ہے۔ اگر آپ کو یہ محسوس ہو جائے کہ آپ اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگے ہیں تو اپنے دل کو یہ بتائیں کہ اگر پہلے تم میں کچھ تھوڑی بہت بزرگی تھی بھی تو اب وہ ختم ہو گئی۔ کیونکہ جس کی اپنے اوپر نظر گئی وہ بزرگ نہیں ہو سکتا۔ پانی کے ساتھ جو چیز مل جاتی ہے وہ پانی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر پہلے بزرگ تھا بھی، تو اس خیال کے آنے کے بعد بزرگ نہیں رہا۔ بزرگی کے وسوسہ کا علاج یہی ہے۔

سوال نمبر13:

حضرت جی میرا ذکر ایک مہینے کے لئے تھا۔ 200، 400، 600 اور 7500 مرتبہ اور 15 منٹ کا مراقبہ۔ دل میں اللہ اللہ محسوس کرنا ہے۔ نماز کے بعد ایک سانس میں 75 مرتبہ اللہ اللہ کرنا اور نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا معمول بھی جاری ہے۔ دل میں اللہ اللہ فی الحال محسوس نہیں ہو رہا۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے۔

جواب:

اب آپ اللہ کا ذکر 8000 مرتبہ کر لیں، باقی ذکر اور معمولات یہی جاری رکھیں۔

سوال نمبر14:

السلام علیکم،

فلاں from this. حضرت جی الحمد للہ I have completed this month ذکر کلمہ 200

“لَا إِلٰهَ إِلَّا الله”

“لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُو”

400

“حق”

600

and “اللہ”

4500 and 10 minutes thinking that my heart is doing ذکر, fifteen minutes on روح and 15 minutes on سِر.

حضرت جی I am feeling ذکر in my heart and سِر and also on روح but less. Kindly advise for the next.

جواب:

ابھی آپ باقی سب معمولات وہی کریں جو پہلے کر رہے ہیں۔ البتہ روح کے اوپر اپنا ذکر بڑھا کر 20 منٹ کر لیں۔

سوال نمبر15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میں ٹیکسلا سے ہوں۔ مجھے درج ذیل ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے: 200 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“، 400 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حق“ اور 2500 مرتبہ ”اللہ“ اور 15 منٹ مراقبہ۔ مراقبے میں کچھ محسوس نہیں ہوتا، مزید رہنمائی کریں۔

میرے بھائی کا ذکر سو سو مرتبہ تیسرا کلمہ، دورد شریف اور استغفار کے ساتھ 10 منٹ کا مراقبہ ہے۔ مراقبے میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

بھائی کو یہ بتا دیں کہ وہ ذکر لسانی کرنے کے بعد 15 منٹ کا مراقبہ کر لے اور مراقبہ دل سے کروانا نہیں ہے بس صرف یہ دیکھنا ہے کہ دل ذکر شروع کرے تو میری اس کی طرف توجہ رہے۔

آپ ”حَقْ“ کا ذکر 3000 مرتبہ کر لیں اور باقی ترتیب وہی رکھیں۔

سوال نمبر16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ عرض یہ ہے کہ آپ نے بندہ کو جو ذکر ایک مہینے کے لئے دیا تھا وہ الحمد للہ بلا ناغہ پورا ہو گیا ہے۔ ذکر یہ تھا: 200 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“، 400 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حق“ اور 1000 مرتبہ ”اللہ“۔

جواب:

اب آپ 1500 مرتبہ اللہ کریں باقی ذکر وہی رکھیں۔

سوال نمبر17:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ الحمد للہ میرا علاجی ذکر پورا ہوا جو بالترتیب 200، 400، 600 اور 3000 تھا۔ اس کے بعد 5 منٹ کا مراقبہ بھی ہے۔

جواب:

آپ نے مراقبہ کی تفصیل نہیں بتائی کہ وہ کیسے ہو رہا ہے، محسوس ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔ ابھی آپ 200، 400، 600 اور 3500 ذکر شروع کر لیں اور مراقبہ کے بارے میں تفصیل بتائیں کہ وہ کیسے ہو رہا ہے۔

سوال نمبر18:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت صاحب قلب پر اسم اللہ جاری ہو جانے کا کیا مطلب ہے۔ اس کا پتا کیسے چلتا ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ہم نے ”اللہ“ کہا۔ اللہ کا نام جیسے ہماری زبان سے نکلا تو یہ زبان پر جاری ہے۔ اگر ایسا محسوس ہو رہا ہو کہ دل بھی یہی کہہ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ دل پر جاری ہے۔ اس کا پتا صرف اسی شخص کو چلتا ہے کسی اور کو نہیں چلتا اِلَّا یہ کہ وہ خود اس کا مَشَّاق ہو۔ اسے آثار سے پتا چل جاتا ہے کہ کسی کے دل پر ذکر جاری ہے یا نہیں۔ آثار کی مثال یوں دی جا سکتی ہے، جیسے آپ نے کبھی حافظ قرآن کو دیکھا ہے وہ جب بیٹھا ہوتا ہے بعض دفعہ آگے پیچھے جھول رہا ہوتا ہے، وہ کچھ نہ پڑھ رہا ہو تو بھی بعض مرتبہ ہل رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات اس آدمی کے جسم پر آثار نظر آ جاتے ہیں جس کا ذکر جاری ہوتا ہے۔ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا ذکر جاری ہو چکا ہے۔

اس میں اصل چیزی یہی ہے کہ جب آپ تصور کرتے ہیں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے، اگر آپ کے دل نے اس کو پکڑ لیا تو یہ خود بخود شروع کرے گا۔ آپ کو دل سے ذکر نہیں کروانا پڑے گا۔ آپ کرواتے ہوں وہ ایک علیحدہ چیز ہے لیکن اگر آپ خود اس کو کرنے دیں تو پھر یہ جاری ہو جاتا ہے اور جن کا جاری ہو جاتا ہے انہیں ایک لاکھ لوگ بھی کہیں کہ نہیں ہوتا تو وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے تمہیں نہیں ہوتا ہوگا ہمیں تو محسوس ہوتا ہے۔ ان کو پتا ہوتا ہے وہ کسی کی بات کا انکار نہیں کرتے۔ اور جن کا دل جاری نہیں ہوتا انہیں بے شک ایک لاکھ آدمی کہہ دیں کہ دل جاری ہوا کرتا ہے وہ کہتے ہیں کہ کیسے ہوتا ہے مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی۔ یہ جس کا جاری ہونا ہو اپنے وقت پر خود بخود جاری ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر19:

Question for question answer session.

السلام علیکم my dear and respected مرشد دامت برکاتہم. I hope you are well ان شاء اللہ. I have completed my ذکر in this month without any ناغہ الحمد للہ

200 times “لَا إِلٰهَ إِلَّا الله”

400 times “لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُو”

600 times “حَق” and 3500 times “اللہ”

15 minutes مراقبہ with finger on قلب. What should I do now حضرت جی?

جواب:

So you did not tell me what's happening in your heart. Tell me that and then I shall tell you further.

سوال نمبر20:

Were there any محمدی مشرب before the coming of رسول or is this مقام خاصیت of this مقام? Also یا سیدی with your duas, when I notice sins or bad situations, I immediately start to remember اللہ until the situation is passed.

جواب:

ماشاء اللہ it is very good and the other thing is this that محمدی مشرب is in مقام رسول اللہ ﷺ because before this, even the name of محمد ﷺ was not available to other people. So, this coming of رسول اللہ ﷺ and امت of رسول اللہ ﷺ has also special فضائل which is given to us. Therefore, we should consider that in this situation الحمد للہ for the امت محمد ﷺ.

سوال نمبر21:

حضر he is saying I feel فیض during مراقبہ but I can't hear اللہ اللہ.

جواب:

Okay you continue your work, ان شاء اللہ you will start to hear.

سوال نمبر22:

حضرت جی یہ جو مراقبات ہیں۔ مراقبہ پل صراط، مراقبہ کعبہ۔ اگر کوئی آدمی یہ مراقبات شیخ کی اجازت سے کرتا ہے تو کیا اسے فیض ملے گا؟

جواب:

مراقبات کا تعلق علاج کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ شیخ جس کے لئے جو مراقبہ تجویز کرے وہ آدمی وہ والا مراقبہ اتنی ہی مقدار اور وقت میں کرے۔ اگر وہ خود سے کرے گا تو بھی فائدہ ضرور ہو گا لیکن اس فائدے میں ایک نقصان کا خطرہ ہے اور وہ نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ سالک اپنے آپ کو خود کفیل نہ سمجھنے لگ جائے۔ اس وجہ سے ہمارے حضرات اس مسئلے میں بڑے محتاط ہوتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اگر کوئی کہتا تھا کہ حضرت جی فلاں مراقبہ اور فلاں معمول دے دیں تو وہ فرماتے کہ بھئی کبھی مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ مجھے فلاں دوائی دے دیں؟ اور اگر کوئی ڈاکٹر مریض کی مرضی اور خواہش کے مطابق دوائی دے بھی دے تو کیا یہ درست ہوگا؟

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے مجھ میں بھی یہ چیز ہے کہ اگر کوئی اپنی طرف سے صحیح چیز بھی بتائے تو میں اسے اُس وقت تک نہیں دیتا جب تک ضرورت نہ ہو۔ اگر میں ہر سالک کو اس کی مرضی کے معمولات دینے لگ جاؤں تو اس طرح بری عادت پڑ جائے گی اور بری عادت سے بچانا لازم ہے۔ سب سے پہلا کام تو بری عادت سے بچانا ہے، اس لئے سالک کی خواہش کے مطابق معمولات نہیں دیتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس راہ میں اسباق Step by step ہوتے ہیں۔ تمام اسباق کی ایک مخصوص ترتیب ہوتی ہے اس ترتیب کے مطابق ان اسباق کو پختہ کرنے سے ہی فائدہ ہوتا ہے، اگر بعد والا سبق پہلے اور پہلے والا بعد میں کرنا شروع کر دیں تو فائدہ نہیں ہوتا۔


وَ آخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِين۔