اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ کی خدمت میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیش کیا گیا جن کی عمر اس وقت بہت کم تھی اور انہوں نے قرآن پاک کی 17 سورتیں یاد کر رکھی تھیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ ق کی تلاوت آپ ﷺ کو سنائی جس سے آپ ﷺ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ آپ ﷺ اپنے امتی کے ان اعمال پر بہت زیادہ خوش ہوتے تھے جو آخرت میں کام آنے والے ہیں، اسی طرح آپ ﷺ کے نائبین بھی آخرت میں کام آنے والے اعمال پر خوش ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک سوال ہے کہ جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے چھوٹے بچوں کو آپ ﷺ کی خدمت میں لاتے تھے تو آج کل ہم آپ ﷺ کے نائبین کی خدمت میں جب اپنے کم عمر بچوں کو لایا کریں تو اس میں کیا نیت کریں اور بچے لاتے وقت ہم کن احتیاطوں کو پیش نظر رکھا کریں؟
جواب:
در اصل صحبت کا بھی ایک اثر ہوتا ہے اور دعا کا بھی اثر ہے، جو کہ قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث شریف سے بھی ثابت ہے۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام کا بنیادی مقصد چونکہ آخرت میں کامیابی ہوتی تھی۔ دنیا میں وہ صرف گزارا کرتے تھے، دنیاوی چیزوں کے بارے میں اتنے زیادہ حساس نہیں ہوتے تھے۔ مثلاً کھانا نہیں ملا تو زیادہ شور نہیں، کپڑے کم ہیں تو زیادہ شور نہیں، مکان بڑا نہیں ہے تو زیادہ شور نہیں، سواری نہیں ہے تو زیادہ شور نہیں۔ جو چیز مل گئی اسی پر شکر کرتے تھے اور جو نہیں ملی تو اس کے بارے میں صبر کرتے تھے۔ لیکن آخرت کے بارے میں بڑے حریص ہوتے تھے کہ کوئی مستحب عمل بھی نہ چھوٹنے پائے۔ یہی چیز وہ اپنے بچوں کے لئے بھی پسند کرتے تھے، کیونکہ جو چیز انسان اپنے لئے پسند کرتا ہے تو اپنے قریبی لوگوں کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہے۔ آج کل کے دور میں صورتحال یہ ہے کہ دنیاوی چیزوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ایک ساتھی تھے، وہ بیمار ہو گئے تو ان کو فکر تھی کہ میں اگر دنیا سے چلا گیا تو میرے بچوں کا کیا ہو گا حالانکہ کافی مال دار تھے اور جائیداد بھی تھی۔ ایک دفعہ وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں جب فوت ہو جاؤں تو میرے ہر بچے کے پاس کم از کم ایک پلاٹ ہونا چاہیے۔ یہ ان کی ایک دنیا کی خواہش تھی کہ وہ ان کو دنیا میں کامیاب کر کے جانا چاہتے تھے، خود بھی دنیا کی طرف زیادہ مائل تھے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے بارہ بیٹے تھے۔ کسی نے ان سے کہا: حضرت اپنے بچوں کے لئے بھی کچھ چھوڑیں۔ انہوں نے کہا: دو صورتیں ہو سکتی ہیں یا یہ اللہ کے ہوں گے یا شیطان کے ہوں گے۔ اگر یہ اللہ کے ہیں تو اللہ ان کے لئے کافی ہے اور اللہ ان کو اچھی حالت میں رکھیں گے اور اگر اللہ کے نہیں ہیں تو میں چیزوں کو شیطانوں کے لئے کیوں چھوڑ دوں۔ اب خدا کی شان دیکھئے کہ جب انہوں نے اللہ کے لئے یہ کام کیا تو اللہ نے ان کے ساتھ یہ معاملہ کیا کہ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے بارہ کے بارہ بیٹے گورنر بن گئے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ہشام بن عبد الملک باشاہ بنے، تو ہشام بن عبد الملک نے اپنے بچوں کے لئے بہت کچھ چھوڑا یعنی سونا چاندی اور بہت بہت کچھ چھوڑا۔ لیکن بعد میں لوگوں نے دیکھا کہ ان کے بیٹے بازاروں میں بھیک مانگ رہے ہوتے تھے کیونکہ سارا مال عیاشیوں کی نظر ہو گیا تھا۔ بہر حال اللہ جل شانہٗ کی حفاظت میں آنا بہت بڑی بات ہے۔ صحابہ کرام تو عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی زیادہ دنیا سے بیگانہ تھے، اس وجہ سے وہ کوشش کرتے تھے کہ بچوں کو اچھی چیزیں زیادہ سے زیادہ سکھائی جائیں اور اچھی چیزوں میں سب سے اچھی چیز قرآن ہے اس لئے ان کو قرآن سکھاتے تھے یعنی خود بھی قرآن سیکھتے تھے اور سکھاتے بھی تھے۔ چنانچہ آخرت کی چیزوں کے حاصل کرنے کے شوق کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو ایسی چیزیں سکھاتے تھے۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا آپ ﷺ کے نائبین یعنی علماء اور مشائخ کے پاس بھی اپنے چھوٹے بچوں کو لانا چاہیے؟ جی ہاں! کیونکہ اگر بچوں کے مستقبل عزیز ہیں، تو دو طرح کے مستقبل ہیں۔ ایک دنیا کا مستقبل ہے اور ایک آخرت کا مستقبل ہے۔ دنیا کے مستقبل کے بارے میں تو ہم فکر کرتے ہیں کہ بچوں کو کسی اچھے سکول میں بٹھاتے ہیں اور ان کے لئے پرورش کا ساماں بھی خوب رکھتے ہیں۔ یہ دنیا میں کامیابی کے لئے ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان چیزوں کو چھوڑ دیا جائے یا بچوں کے لئے یہ نہ کیا جائے کیونکہ آج کل ہمارے حالات ایسے ہیں۔ لیکن جو اصل کامیابی ہے یعنی آخرت کے لئے بھی کچھ کیا جائے۔ چنانچہ اس کے لئے ایک طریقہ یہ ہے کہ جب بچہ بولنا شروع کرے تو سب سے پہلے زبان سے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ پڑھے، اس کی بڑی برکت ہوتی ہے، کیونکہ اگر اللہ کا نام سیکھ لے گا تو ابتدا اس سے ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن پاک کی کچھ سورتیں اگر ان کو یاد ہو جائیں تو ان کے حق میں بہت فائدہ ہو گا، کیونکہ جب عمر بھر اس کو پڑھتے رہیں گے تو ان کا کام بن جائے گا، والدین کے لئے بھی ایصال ثواب ہو گا۔ ہمارے ایک بزرگ گزرے ہیں مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کی ایک بیوی انگریز تھیں یعنی مسلمان ہوئی تھیں اور بڑی نیک خاتون تھیں۔ وہ مولانا عزیر گل صاحب کی دوسری بیوی جو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی نواسی تھیں، ان کے بیٹے مولانا عبدالرؤف صاحب کو دس سال کی عمر میں اپنے سامنے چار پائی پہ لٹا کے پاس انفاس سکھاتی تھیں۔ پاس انفاس کا مطلب ہے سانس کے ذریعے سے ذکر کرنا کہ سانس باہر آئے تو بھی اللہ ادا ہو اور سانس اندر جائے تو بھی اللہ ادا ہو۔ یعنی سانس کے ساتھ ذکر کے الفاظ سکھا دیتے ہیں کہ خود بخود ہی ذکر ہوتا رہے۔ اور وہ فرماتی تھیں کہ بیٹا! اتنی عمر ویسے ہی غفلت کے سانس لیتے رہو گے، اللہ کا ذکر کیوں نہ کرو۔ اب دس سال کی عمر میں انہوں نے پاس انفاس سیکھا تھا اور 70 سال کی عمر میں وہ فوت ہوئے تو 60 سال کی سانسیں انہوں نے ذکر کے ساتھ لی ہیں۔ تو یہ کتنی مشکل بات ہے۔ اب اس کا ثواب اس خاتون کے پاس جائے گا۔ چنانچہ اس طریقے سے اگر ہم اپنے بچوں کو یہ چیزیں سکھائیں تو کتنی بڑی بات ہو گی۔ لیکن بچے یہ چیزیں کہاں سے سیکھیں گے؟ جہاں یہ چیزیں ہوں گی وہیں سے سیکھیں گے۔ جیسے آپ electronics کی دکان پہ جائیں اور اس سے آپ کریانے کا سامان لینا چاہیں تو وہ آپ کو پاگل کہے گا۔ لہذا کسی دنیا دار کے پاس تو یہ چیزیں آپ کو نہیں ملیں گی، بلکہ وہاں ملیں گی جہاں یہ چیزیں ہوں گی۔ اور یہ چیزیں چونکہ اللہ والوں کے پاس ہوتی ہیں تو اللہ والوں کے پاس اپنے بچوں کو لے جانا چاہیے۔ اکثر لوگ بچوں کو لے جاتے ہیں لیکن دنیا کے لئے لے جاتے ہیں کہ ان کے لئے دعا کریں یہ پاس ہو جائیں، یہ بیمار ہے اس کے لئے دعا کریں کہ یہ ٹھیک ہو جائے۔ اس سے ممانعت نہیں ہے لیکن اصل نیت آخرت میں کامیابی کی ہونی چاہیے۔ لیکن اگر آپ ان کے پاس اس لئے لاتے ہیں کہ آخرت میں کامیاب ہو جائیں تو دنیا میں بھی فائدہ ہوگا۔ جیسے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ نے آخرت کی نیت کی تھی تو دونوں چیزیں مل گئیں، دنیا بھی زبردست مل گئی۔ لہذا دنیا تو اللہ تعالیٰ چونگی میں دے دیتا ہے جسے بچے جب بازار سے سامان لاتے ہیں تو اکثر دکاندار سودا بھی دیتے ہیں اور ساتھ ٹافی یا کوئی اور ایسی چیز بھی دے دیتے ہیں تاکہ وہ بچہ بعد میں بھی آتا رہے۔ چنانچہ دنیا تو اللہ تعالیٰ چونگی میں دیتے ہیں، وہ آپ نہ بھی مانگیں پھر بھی دیتے ہیں۔ جبکہ آخرت کے لئے مانگنا لازم ہے، وہ بغیر مانگے نہیں دیتا۔ اور دنیا کے لئے مانگنا لازم نہیں ہے، مانگا تو جائز ہے ثواب بھی ملے گا لیکن اگر نہیں مانگا تو ضروری نہیں کہ آپ کو نہ ملے۔ کیوں کہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزْقُہَا﴾ (ہود: 6) ترجمہ: ’’اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے، اور عارضی ٹھکانے کو بھی۔‘‘
یعنی ہر ایک جاندار کا رزق اللہ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے حالانکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا نہیں ہے۔ لہذا جس کا جتنا رزق مقرر ہے وہ اس کو ضرور کھائے گا۔ اسی طرح انسانوں کے لئے بھی اللہ پاک نے دنیا میں جو مقرر کیا ہے تو وہ ضرور دیتے ہیں۔ لیکن آخرت کے لئے کوشش اور محنت کو لازمی قرار دیا ہے۔ جیسے قرآن پاک میں ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستے پر پہنچائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
یعنی انسان محنت کرے گا تو پھر راستے سُجھانا ہمارا کام ہے، وہ ہم ضرور کریں گے۔ لہذا آخرت کے لئے مانگنا لازمی ہے، کوشش اور محنت لازمی ہے۔ اب ہمارا حال یہ ہے کہ دنیا کے لئے تو محنت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کوشش نہ کریں تو کیسے ملے گا۔ یعنی دنیا کے لئے تو محنت لازمی سمجھتے ہیں اور آخرت کے لئے کہتے ہیں کہ مل گیا تو اچھی بات ہے یعنی اس کے لئے کوشش اور محنت نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ الٹی بات ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ دُنیا کے لئے سمجھو کہ میں اللہ کو راضی کرتا ہوں، اللہ پاک میرے دنیا سارےکام کر دے گا۔ یہ بات میں ویسے نہیں کر رہا، حدیث شریف میں آتا ہے کہ: جس نے اپنی ساری فکروں کو آخرت کی فکر میں مدغم کر لیا یعنی آخرت ہی کی فکر کرنے لگا تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کی ساری ضرورتوں کی کفالت کر لوں گا۔ یعنی اس کی دنیا کے سارے کام میں خود کر لوں گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نکھٹو بن جائیں اور آپ دنیا کی محنت نہ کریں اور لوگوں سے مانگتے پھریں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ در اصل اس میں دو راستے ہیں۔ ایک راستہ اسباب کو اختیار کرنے والوں کا ہے۔ ایک راستہ متوکلین کا ہے۔ دونوں پہ اللہ دیتا ہے۔ اسی لئے نیک لوگ جو اسباب کو اختیار کرنے والے ہیں وہ اسباب اختیار کریں گے لیکن اللہ پہ نظر ہو گی۔ مثلاً وہ ملازمت بھی کرتے ہیں، کاروبار بھی کرتے ہیں، سارا کچھ کرتے ہیں لیکن ان کی نظر اسباب پر نہیں ہوتی بلکہ اللہ پہ ہوتی ہے۔ تو ایسے لوگوں کو اسی میں اللہ پاک ساری چیزیں دے دیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا کام اس لئے نہیں کرتے کہ وہ دین کے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں کہ وہ گھر بیٹھ جائیں، کیونکہ یہ تو تعطل ہے توکل نہیں ہے۔ بلکہ وہ دین کے کاموں میں اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ ان کو دنیا کے کاموں کے لئے وقت ہی نہیں مل سکتا، ایسے لوگ قربانی دیتے ہیں کہ میں دین کے کام کو تو نہیں چھوڑ سکتا ہوں بے شک دنیا کا کام میں چھوڑ دوں۔ یعنی صرف سستی کی وجہ سے نہیں کہ وہ کام کر نہیں سکتا اور کہتا ہے کہ بس جب اللہ دینا چاہے گا تو دے دے گا۔ اس سے تو وہ لوگ اچھے ہیں جو باہر کام کرتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ ہر وقت دین کے کام میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے ان سے دنیا کے کام رہ گئے تو پھر اللہ پاک ان کے لئے کافی ہو جاتے ہیں، دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ان کو وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے کسی کا گمان بھی نہ ہو۔ جیسے اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق: 3) ترجمہ: ’’اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہو گا۔‘‘
تو یہ اللہ پاک کا نظام ہے۔ تاہم مقامِ توکل سے پہلے بہت سے مقام ہیں۔ جیسے مقامِ توبہ، مقامِ انابت، مقامِ ریاضت، مقامِ قناعت، مقامِ تقوی، مقامِ صبر، مقامِ زہد۔ ان سب مقامات کے بعد مقامِ توکل آتا ہے۔ لہذا جو وہاں تک پہنچا ہو گا تو وہی توکل کر سکے گا ورنہ تعطل کرے گا۔ لہذا اس مقام تک پہنچنے کے لئے محنت ہے۔ اور دوسری بات یہ ہےکہ مستحب توکل کے لئے محنت ہے۔ فرض توکل یہ ہے کہ انسان نا جائز کام نہ کرے۔ مثلاً ایک جگہ سے جائز طریقے سے پیسے مل رہے ہیں اور دوسری طرف سے ساتھ کوئی نا جائز پیسے بھی مل سکتے ہیں۔ اب اگر اس نے ان پیسوں کو ترجیح دی جن کے ساتھ نا جائز پیسے بھی ہیں، تو اس میں فرض توکل نہیں ہے۔ لیکن جو کہتے ہیں نہیں! مجھے صرف جائز چاہئیں نا جائز نہیں چاہئیں تو اس نے فرض توکل اختیار کر لیا۔ فرض توکل اس کے لئے کافی ہے۔ لہذا فرض توکل لازمی ہے وہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن جو مستحب توکل ہے وہ optional ہے، جو اس مقام پہ پہنچا ہو گا وہی کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توکل مستحب کی صورت میں کمزوری کی وجہ سے بعد میں لوگوں سے سوال کرنا یا دل میں خیال رکھنا کہ یہ مجھے کچھ دیں گے، یہ حرام ہے۔ گویا آپ مستحب کے لئے حرام کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں، یہ تو ایک فضول حرکت ہو گئی۔ مستحب کے لئے حرام جائز نہیں ہے۔ لہذا توکل مستحب تب کریں جب آپ میں یہ چیز نہ ہو یعنی پھر آپ کسی سے مانگیں نہیں، کسی سے کچھ ملنے کے بارے میں آپ کے دل میں خیال نہ آئے۔ لہذا توکل مستحب ہر ایک کے لئے جائز نہیں ہے یعنی آدمی اپنے دین کے کام میں لگا رہے اور کسی کام کی کوئی پرواہ ہی نہ کرے۔ یہ جائز نہیں ہے۔ بلکہ یہ توکل اس کے لئے جائز ہے جو توکل کے مقام پہ پہنچا ہو۔ ہمارے ایک ساتھی تھے ان کا Fsc کا امتحان قریب تھا اور غائب ہو گئے۔ ہم حیران ہو گئے کہ کدھر چلے گئے، کچھ عرصے کے بعد نمودار ہو گئے۔ ہم نے پوچھا: کدھر تھے؟ کہتے ہیں: میں چلّے کے لئے گیا تھا۔ میں نے کہا: تو یہ امتحان وغیرہ؟ کہتے ہیں: یہ تو اللہ پر ہے۔ میں نے کہا: اس کا مطلب ہے کہ آپ نے تبلیغی جماعت کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہنے کی ٹھان لی ہے، آپ پھر کبھی بھی تبلیغ نہیں کریں گے۔ کہتے ہیں کیوں؟ میں نے کہا: ابھی تم اس مقام پہ نہیں ہو، اب یا تم فیل ہو جاؤ گے یا تمہاری Third division آئے گی۔ اور تم میں اتنا توکل تو ہے نہیں، نتیجتاً ہمیشہ کے لئے تبلیغی جماعت کو چھوڑ دو گے۔ میں نے پوچھا: آپ نے بزرگوں کو کہا تھا کہ میرا امتحان ہے تو کیا میں تبلیغ میں چلا جاؤں؟ کہتے ہیں نہیں۔ میں نے کہا: وہ تو اب ذمہ دار نہیں ہیں۔ ذمہ دار تو تم خود ہو۔ اگر تم ان کو بتاتے تو وہ تمہیں کبھی نہ کہتے کہ تم جاؤ۔ بلکہ وہ کہتے کہ چھٹیوں میں جاؤ۔ لہذا آپ نے خود غلطی کی ہے اب بھگتو۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا کہ اس کی Third division آ گئی اور ہمیشہ کے لئے تبلیغ کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اس کے سامنے کوئی تبلیغ کا نام بھی نہیں لے سکتا تھا۔ بس یہی چیز ہوتی ہے۔ لہذا ہر شخص کا اپنا اپنا status ہے، مقام ہے، اسی کے لحاظ سے چلنا ہوتا ہے۔ جیسے کہا گیا ہے: ’’کَلِّمُوا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ‘‘ ’’لوگوں کے ساتھ ان کے عقل کے مطابق بات کرو‘‘ کیونکہ ہر شخص کا اپنا اپنا مقام ہوتا ہے، سب کے ساتھ ایک بات نہیں کی جا سکتی۔ جیسے پرندوں کے جو بچے ہوتے ہیں ان کی مائیں ان کو اڑنے نہیں دیتیں جب تک کہ وہ اڑنے کے قابل نہ ہو جائیں، اور جو خود اڑنے کے قابل ہوں تو ان کو خود اڑنا سکھاتی ہیں۔ کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ جب تک انہوں نے اڑنا نہ سیکھا ہو اور ان میں اتنی طاقت نہ ہو تو گریں گے اور پھر بلی یا کوئی اور جانور ان کو کھا لے گا۔ اسی طرح شیطان اور نفس ہمارے ساتھ ہیں، لہذا جب تک ہم نے پوری تیاری نہ کی ہو اور اس مقام تک نہ پہنچے ہوں تو پھر توکل مستحب نہیں کرنا۔ بلکہ اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن