گھریلو زندگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت

سوال نمبر 492

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


ابھی سورۃ تغابن کی تشریح میں یہ بات ہوئی کہ پیغمبر کی سیرت کو عمل کی نیت سے سننا اور پڑھنا، اصلاح کے لئے بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس میں جو سوالات اور اشکالات ہوتے ہیں اگر ان کے جوابات مل جائیں تو اس سے بہت اچھی طرح چیز سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اسی کے بارے میں ہمارے ہاں سوالات کا سلسلہ ہے۔ اس سلسلے میں آج کا سوال یہ ہے۔

سوال:

آپ ﷺ کا معمول تھا کہ عصر کی نماز کے بعد ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے جاتے، ان کے ساتھ باتیں کرتے اور اگر ان کی کوئی ضرورت ہوتی تو اس کو پورا فرماتے۔ آپ ﷺ کی اس سنت سے ہمیں اپنے گھروں کے ماحول کو بہتر کرنے کے حوالے سے کیا راہنمائی مل رہی ہے؟

جواب:

ایک بات اگر سمجھ میں آ جائے تو ساری باتیں سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز میں اللہ پاک کی بات مانیں، چاہے وہ دنیا کی بات کیوں نہ ہو تو وہ بھی دین بن جاتا ہے۔ عموماً لوگ ایسی باتوں کو دنیا کی بات سمجھتے ہیں لہذا دیندار لوگ اس سے محروم رہتے ہیں اور دنیا داروں کی نیت دین کی نہیں ہوتی لہذا وہ بھی محروم رہتے ہیں، گویا دونوں ہی محروم رہتے ہیں۔ لہذا اگر تھوڑی سی بات سمجھ میں آ جائے تو دونوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم لوگ حضور ﷺ کے طریقے کو دیکھیں کہ آپ ﷺ کا طریقہ کیا تھا۔ جیسے میں سلام کرتا ہوں، ظاہر ہے دنیا داری کے طور پر کرتا ہوں، لوگ دنیا داری کے طور پر بھی کرتے ہیں۔ جیسے پشتو میں کہتے ہیں: ’’پخیر راغلے‘‘، اردو میں ’’خوش آمدید‘‘ کہتے ہیں، اور بھی اس قسم کے الفاظ کہے جاتے ہیں، تو یہ دنیا کی باتیں ہیں۔ ہم اگر اس چیز کو مسنون طریقے سے کر لیں یعنی السلام علیکم کہہ لیں۔ تو اگرچہ یہ دنیا کی بات ہے، لیکن اس طرح دین بن گیا۔ اسی طرح ہم گھر میں جائیں اور آپ ﷺ کی سنت سمجھ کر اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹائیں، تو یہ بھی دین بن جائے گا۔ اس سے گھر والے بھی خوش رہیں گے اور ہمارے آپس میں تعلقات بھی اچھے ہوں گے جو ہماری دنیا ہے، لیکن وہ دین بن جائے گا۔ اس طرح کھانا ہے، ہم نے کھانا ہوتا ہے، کس نے کھانا نہیں کھانا ہوتا، بغیر کھانے کے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح پانی تو پینا ہوتا ہے، تو اگر ہم حضور ﷺ کے طریقے پر پئیں تو وہ دین بن جائے گا۔ حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق کھائیں تو وہ دین بن جائے گا۔ حضور ﷺ کے طریقے پر سوئیں تو وہ دین بن جائے گا۔ حضور ﷺ کے طریقے پر ہم آپس میں ملیں جلیں تو وہ دین بن جائے گا۔ گویا کہ ہماری ہر چیز دین بن سکتی ہے۔

یہاں پر جو سوال کیا گیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کو خوش رکھنے کے لئے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے اور ان کی بات سننے کے لئے اور ان کی مدد کرنے کے لئے وقت نکالا کریں۔ آپ ﷺ نے اس کے لئے با قاعدہ ایک وقت کا بندوبست فرمایا تھا کہ آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے حجروں میں جاتے، ان سے ملتے، ان سے بات چیت کرتے، ان کی ضرورتیں سنتے اور اگر پورا کرنے کی ضرورت فوری ہوتی تو فوراً پورا فرماتے۔ لہذا اس سے ہمیں دنیا اور دین کو آپس میں ملانے کا ایک راستہ ملتا ہے بلکہ دنیا کو بھی دین بنانے کا بھی راستہ مل گیا، اور یہ بہت ہی آسان route ہے۔ مثال کے طور پر ایک دنیا دار ہے وہ بھی یہ کام کرنا چاہتا ہے تو حضور کے طریقے پہ عمل کر لے تو اتنا حصہ تو دین بن ہی گیا۔ اللہ نہ کرے مثلاً اگر وہ نماز نہ بھی پڑھتا ہو لیکن یہ کام اگر وہ اللہ کی رضا کے لئے اور حضور ﷺ کے طریقے پہ کر لے تو یہ بھی دین بن گیا۔ یہ گویا کہ اس کے کھاتے میں چلا گیا۔ اب نماز نہ پڑھنے کا گناہ اس کو ضرور ہے لیکن اتنا بوجھ تو ہلکا ہو گیا کہ یہ دین بن گیا۔ چنانچہ جو دین دار ہیں ان کے لئے تو یہ دین کی تکمیل کا ذریعہ ہے کہ اس حصے کو عموماً لوگ دین نہیں سمجھتے۔ عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تو دنیا ہے۔ مثلاً ایک پڑوسی کے ساتھ انسان اچھا تعلق رکھے، اس کا حق ادا کرے۔ تو اگر آپ یہ دین کی نیت سے کریں تو یہ دنیا نہیں ہے، دین ہے۔ گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک کریں، ان کی خیر خیریت پوچھیں، ان کے کام آئیں، یہاں تک کہ بیوی کے ساتھ محبت کا اظہار کریں، ان کے منہ میں لقمہ دیں۔ یہ بھی حدیث شریف سے ثابت ہے۔ لہذا یہ دین بن جائے گا۔ حالانکہ بظاہر دنیا ہے۔ لہذا ایک تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ: ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ‘‘ (البخاری، حدیث نمبر: ) ترجمہ: ’’تمام اعمالوں کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ لہذا اگر اس میں نیت اللہ کی رضا کی ہے اور طریقہ حضور ﷺ کا ہے تو چاہے وہ دنیا کی صورت میں ہو، وہ دین ہے۔ جیسے میں نے سونے کی، پینے کی، کھانے کی اور کپڑوں کی مثال دی ہے تو وہ بھی دین ہی بن جاتا ہے اور اگر ہم دین کے کام کر رہے ہوں لیکن خدا نخواستہ ان میں نیت دنیا کی ہو کہ لوگ ہمیں اچھا کہیں، تو بس وہ بھی دنیا بن گئی۔ اس لئے ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ‘‘ والی بات ہمیں یاد رکھنا چاہیے اور ہمارے ہر کام میں پہلے سے ہمارے ذہن میں ہو کہ میں کس نیت سے کر رہا ہوں۔ لہذا اپنی نیت کو پہلے ٹٹولیں اور پھر اس کو درست کر لیں اور اس کے مطابق عمل کر لیں اور جو گزشتہ تھوڑا سا آگے پیچھے ہو چکا ہے اس پر استغفار کر لیں۔ لہذا اس طریقے سے ان شاء اللہ ہم لوگ روز بروز دین پر آتے رہیں گے اور ہمارا کام ان شاء اللہ آسان ہوتا جائے گا۔ جیسے فرماتے ہیں کہ اگر انسان کوئی نیکی کرے تو اس کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے لئے دوسری نیکی آسان ہو جاتی ہے اور اگر کوئی برائی کرے تو اس کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے لئے دوسری برائی آسان ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگر ہم یہ کر لیں کہ دنیا کے کام ہی کو دین کی نیت سے کر لیں، اللہ کی رضا کے لئے اور حضور ﷺ کے طریقے پہ کر لیں تو یہ بھی دین بن جائے گا، یہ نیکی ہو گی۔ لہذا ہمارے دین کے باقی کاموں کی آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق فرماتے رہیں گے اور ہمارا کام آگے بڑھتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیقات سے نوازے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن