دعا کی قبولیت کی صورتیں اور اس پر راضی رہنے کا طریقہ

سوال نمبر 490

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

دعا کے بارے میں حضرت مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو تفصیل بیان فرمائی ہے کل سلوکِ سلیمانی کے درس میں اس کا ذکر ہوا۔ دعا کے بارے میں ہمیں حدیث شریف سے یہ بات علمی طور پر معلوم ہے کہ دعا کی قبولیت کی تین صورتیں ہوتی ہيں۔ یا تو اللہ تعالیٰ وہی کچھ عطاء فرما دیتے ہيں جو بندے نے مانگا ہوتا ہے یا کسی آنے والی مصیبت کو ٹال دیتا ہے اور یا اُس دعا کو بندے کی آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیتے ہیں، اور اس تیسری صورت کے بارے میں حدیث شریف سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب بندہ آخرت میں اُن دعاؤں کا اجر دیکھے گا جو دنیا میں مقبول نہیں ہوئی تھیں تو وہ کہے گا کہ کاش! میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی۔ لیکن یہ سب کچھ علمی طور پر معلوم ہونے کے با وجود ہم دعا کے قبولیت کی پہلی صورت کو ہی دعا کی قبولیت سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اور ہمیں یہ حالت کیسے مل سکتی ہے کہ ہم دعا کی قبولیت کی تینوں صورتوں میں سے ہر ایک پر اللہ تعالیٰ سے راضی رہیں۔

جواب:

اصل میں ایمان لانے اور اس کے بعد دل سے سب کچھ تسلیم کرنے میں درمیان کافی فاصلہ ہے۔ کسی نے فارسی میں شعر کہا ہے؎

صوفی نشود صافی تا در نکشد جامی

بسیار سفر باید تا پخته شود خامی

صوفی اس وقت تک دل کا صاف نہیں بنے گا یعنی اس کا تزکیہ نہیں ہو گا جب تک عشق کا جام نہیں پئے گا، یعنی جب تک اس کو اللہ کی محبت حاصل نہیں ہو گی۔ کیونکہ خام کے پختہ ہونے میں بہت عرصہ لگتا ہے۔

یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ بیان کی جاتی ہے لیکن لوگ نہیں سمجھتے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے: "قرآن میں یہ ہے اور احادیث شریف میں یہ ہے اور یہ ہمیں معلوم ہے تو بس وہی کام کرنا چاہیے جو قرآن و حدیث میں ہے" ۔ یہ بات بالکل صحیح ہے لہذا کرو، کس نے روکا ہے؟ باقی چیزوں کی کیا ضرورت ہے؟ در اصل یہ practical چیز ہے کہ body resist کرتی ہے، نفس مزاحمت کرتا ہے، آپ کچھ کرنا چاہتے ہوں گے اور وہ نفس کچھ کرنا چاہے گا۔ مثال کے طور پر کوئی گاڑی خراب ہے اور ایک بڑا مشّاق ڈرائیور اس کے اندر بیٹھ جائے اور وہ steering ایک طرف گھمائے اور گاڑی دوسری طرف جائے تو وہ کیا کرے گا؟ کون سی technique استعمال کرے گا؟ چنانچہ پہلے steering اور wheel کا connection ٹھیک کرے گا۔ اسی طرح وہ speed بڑھائے، accelerator نیچے دبائے لیکن گاڑی رکنے لگے تو وہ کیا کرے گا؟ مقصد یہ ہے کہ جب تک گاڑی ٹھیک نہیں ہو گی آپ کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ ارادہ آپ کا ٹھیک ہو گا لیکن وہ نہیں ہو گا جو ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں تین قسم کی چیزیں وجود میں آ سکتی ہیں کیونکہ ہماری حالتیں تین قسم کی چیزوں سے بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر سمجھ نہ آئے، سمجھ نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا نفس کچھ کہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ آیا ہے۔ مثلاً برکت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جب برکت دیتا ہے تو تھوڑی سی چیزوں میں اللہ تعالیٰ کام کرا دیتا ہے لیکن نفس کہتا ہے: کیسے ہو گا؟ وہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس طرح سادگی میں فائدہ ہے لیکن نفس ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ کسی پر ظلم کرنا اصل میں اپنے اوپر ظلم کرنا ہے، لیکن آدمی سمجھ نہیں رہا۔ یہ ساری چیزیں حقیقت ہیں، ہمیں ان کا علم ہے، لیکن ابھی انسان کو سمجھ نہیں آ رہی، یعنی علم سے فہم تک پہنچنا اس کے لئے مشکل ہے۔ کیونکہ نفس نے عقل کو متاثر کیا ہوا ہے لہذا عقل کی جو سمجھ ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کو جو signal مل رہا ہے وہ نفس کے ذریعہ سے مل رہا ہے، نفس اس میں فعال ہے لہٰذا جو بات بھی قرآن یا حدیث کی آ رہی ہے وہ اس کو سمجھ نہیں آ رہی۔ سائنسدان لوگوں کے ساتھ یہ مسائل بہت ہیں، وہ اپنے سائنس کے ذریعہ سے چیزوں کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ان میں تکبر ہے کہ ہم سائنسدان ہیں اور ہم زیادہ جانتے ہیں اور ہم یوں یوں کرتے ہیں، اس لئے قرآن و حدیث کی باتیں ان کو سمجھ نہیں آتیں۔ پہلے فلسفہ ایسے ہوتا تھا، اب فلسفہ تو نہیں اب سائنس ہے، اس لئے اب سائنس کی وجہ سے یہ مسائل ہیں۔ آپ مسلمان سائنسدانوں کی باتیں سن سن کر حیران ہو جائیں گے کہ یا اللہ! یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یعنی قرآن جانتے ہوئے اور حدیث جانتے ہوئے بھی غلط interpretation کر رہے ہیں، اپنی طرف سے کر رہے ہیں۔ گویا نعوذ باللہ من ذالک قرآن ان پر نازل ہوا ہو۔ اس قسم کی باتیں دھڑلے کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم یہی سمجھیں گے کہ درمیان میں کوئی ایسی چیز ہے کہ جو سمجھ تک بات نہیں پہنچنے دیتی، صرف علم کے درجے میں بات ہوتی ہے۔

یہ جو دعا والی بات سوال میں آئی ہے اس کے بارے میں تو حدیث شریف موجود ہے اور حدیث شریف سے آپ کو علم ہی ہو سکتا ہے اور علم تو آپ کو ہے، آپ نے سن بھی، لیا جان بھی لیا۔ لیکن اس کے ماننے میں نفس حائل ہے۔ کیسے؟ جیسے آپ کا ice cream کو جی چاہتا ہے اور ڈاکٹر نے آپ کو روکا ہوا ہے۔ اب آپ ice cream کھانے لگیں اور کوئی آپ کو کہے کہ ڈاکٹر نے روکا نہیں تھا؟ آپ کہیں کہ ice cream کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، کوئی کوئی ٹھیک بھی ہوتی ہے۔ یوں اپنے لئے کوئی دلیل، کوئی طریقہ نکال لیتے ہیں۔ یہی نفس کی چاہت ہے جو اس کے اوپر سوار ہے۔ جیسے شوگر والے بیچارے اپنے لئے دلائل ڈھونڈ لیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ نہیں ہوتا وہ نہیں ہوتا۔ تو یہ ساری باتیں نفس کی خواہشات کے ارد گرد جا رہی ہوتی ہیں۔ لہذا وہ باتیں ان کو سمجھ نہیں آ رہی ہوتیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں بات تو آ گئی لیکن میں جو دعا کر رہا ہوں اس میں، میں چاہتا ہوں کہ میرے نفس کی خواہش پوری ہو جائے۔ شوگر والوں سے بعض دفعہ انسان بڑے ہی حسرت ناک قسم کی باتیں سنتا ہے ان پر ترس بھی آتا ہے کہ بیچارے بہت پریشان ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر نے اس کو روکا ہے کہ میٹھا نہ کھائیں اور وہ آم کھانے کا بڑا شوقین ہے۔ بعض لوگ بڑے ہی لجالت سے ڈاکٹر سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب آم نہیں روکئے گا۔ حالانکہ یہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ ڈاکٹر کے پاس تو صرف علم ہے وہ آپ کو بتا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ شوگر ڈاکٹر نہیں کر رہا، وہ تو آپ کا جسم کر رہا ہے۔ لہذا ڈاکٹر اس میں کیا کر سکتا ہے۔ چنانچہ دو اس کے طریقے ہیں یا پرہیز بتائے گا یا آپ کو علاج بتائے گا۔ علاج میں بعض دفعہ خود بیماری ہوتی ہے جیسے لوگ شوگر کی گولیاں کھاتے ہیں تو ان سے liver پہ اثر پڑتا ہے۔ لہذا اگر آپ کی گولیاں بڑھاتے ہیں تو آپ کے liver کو متاثر کرے گا اس لئے ڈاکٹر آپ کو اس طرح نہیں کرنے دے گا۔ وہ زیادہ تر آپ کو پرہیز پہ رکھے گا یا exercise پہ یا walk وغیرہ بتا ئے گا۔ اور وہ آپ کرنا نہیں چاہتے یا کر نہیں سکتے تو پھر وہ کیسے آپ کو اجازت دے؟ تو پھر وہ آپ کو بتاتا ہے کہ چلیں ایک آم کے آپ 24 pieces کر لیں اور ایک گھنٹے میں اس کے صرف 2 pieces کھا لیا کریں، فوری سارا آم نہ کھائیں۔ تو وہ بیچارے یہی کہہ سکتے ہیں۔

علامہ اقبال کے بارے میں بھی ایک بات مشہور ہے۔ چونکہ یہ تو confirm ہے کہ ان کو ذیابیطس تھی اور ان کی موت اسی سے ہوئی ہے۔ ڈاکٹر نے ان کو روکا کہ آپ آم نہ کھائیں۔ وہ کہنے لگے: ڈاکٹر صاحب بس صرف ایک آم کی اجازت دے دیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے دن میں صرف ایک آم کھا لیا کریں۔ اگلے دن جب آئے تو ان کے پاس آدھا کلو کا آم پڑا ہوا تھا، انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ کہنے لگے: ایک ہی تو ہے۔ بہر حال اس قسم کی چیزیں انسان کی کمزوریاں ہیں۔ اور کمزوری نفس کی وجہ سے ہے۔

چنانچہ دعا کی پہلی صورت انسان کے نفس کو مطلوب ہے۔ باقی دو میں سے ایک کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے لیکن وہ بعد میں ہے اور معلوم نہیں ہے۔ مثلاً کوئی مصیبت آ رہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو دور کر دیتے ہیں۔ اور دوسری بات تو ہے ہی آخرت کی۔ اور نفس آخرت کے بارے میں خاموش ہے۔ تو وہ ایسی صورت میں اس کی طرف کیوں دیکھے گا؟ لہٰذا وہ قبولیت کی صرف پہلی صورت چاہتا ہے۔ چنانچہ جب وہ پہلی صورت پوری نہیں ہوتی تو کہتا ہے کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ حالانکہ علماً اس کو معلوم ہے کہ دعا قبول ہو گئی ہے۔ لیکن اس مفہوم کے ساتھ جس پر وہ عمل کر سکے وہ اس کو نہیں حاصل ہے۔ اس وجہ سے ہمیں بنیادی طور پر نفس پر محنت کرنی چاہیے۔ چونکہ نفس نے عقل کو بھی متاثر کیا ہے لہذا نفس اس کی ضرورت ہی نہیں مانتا۔ اور عقل کو بھی سمجھ نہیں ہے کہ ہمیں اس میں محنت کرنی چاہیے۔ لہٰذا عقل تو اس پہ نہیں آ رہی۔ لیکن اگر اتنی عقل ہو کہ کم از کم اس کی ضرورت محسوس کرے لیکن عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو پھر اتنا کام کر لے کہ اس کو معلوم ہو کہ یہ جذب کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے، تو جذب کے لئے تیار کروا دے۔ جیسے ایک انسان کہتا ہے کہ اگر مجھے یہ چیز سمجھ آ گئی تو میں کر لوں گا۔ لہذا جذب کے ذریعہ سے انسان کا دل اللہ کی محبت میں اتنا powerful ہو جاتا ہے کہ وہ نفس کی خواہشات کو چھوڑ سکتا ہے۔ بے شک کچھ عرصے کے لئے کیوں نہ ہو۔ لہذا پہلے اس کو جذب دینا ہوتا ہے پھر جب ان کو جذب حاصل ہو جاتا ہے تو پھر اس کو مجاہدات کے ذریعے سے اور ریاضتوں کے ذریعہ سے نفس کے خلاف کام کرنا ہوتا ہے۔ جس کے ذریعہ سے نفس با قاعدہ tame ہو جاتا ہے، مان جاتا ہے اور اس کو سمجھ آ جاتی ہے، اس کے بعد پھر عقل بھی سمجھ دار ہو جاتی ہے۔ لہذا یہ ایک planning ہے، پھر ایک طریقۂ کار ہے، جس کے ذریعہ سے انسان کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ اسی کے لئے لوگ مشائخ کے پاس جاتے ہیں تاکہ ان کو یہ چیز حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن