اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپﷺ کی ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ گھر میں جو کھانا پک جائے تو اس میں سے اپنے پڑوسی کو بھی دیا کرو۔ اگر سالن کم ہو تو پانی ڈال کر اس میں شوربا زیادہ کر کے پڑوسی کو دیا کرو۔ اسی طرح ایک اور حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اپنے پڑوسی کو ہدیہ بھیجا کرو چاہے بکری کا پایہ ہی کیوں نہ ہو۔ آج کل اول تو پڑوسیوں کے ہاں اس قسم کے ہدایا بھیجنے کا رواج ہی نہیں اور اگر گھر کے مرد اس طرح کھانے کی کوئی چیز بھیجنے کا کہہ دیں تو خواتین گھر کا عمومی بنا ہوا کھانا پڑوسیوں کو نہیں بھیجتیں اور کہتی ہیں کہ یہ کھانا اچھا نہیں بنا، پڑوسی کیا کہیں گے۔ ایسی صورت میں آپ ﷺ کے اس فرمان پر عمل کرنے کے لئے خواتین کو کس طریقے سے آمادہ کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
سب سے پہلے مردوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے کہ وہ بھیجنا شروع کر دیں اس کے بعد خواتین کی باری آئے گی۔ اصل میں ہم لوگ تکلفات میں پڑ گئے ہیں۔ بعض دفعہ نیت و ارادہ صحیح ہوتا ہے لیکن تکلف کی وجہ سے انسان محروم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ بلا تکلف جو لوگ زندگی گزارتے ہیں وہ بڑے خوش بھی رہتے ہیں، ہشاش بشاش بھی رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنے کام بالکل صحیح صحیح کر لیتے ہیں۔ اور جو تکلفات میں رہتے ہیں وہ بے چارے بہت ساری چیزوں سے صرف تکلف کی وجہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بوٹ پہننے کا میں مخالف رہا ہوں، اب بھی بہت کم پہنتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بعض دفعہ نمازوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ لوگ بوٹ پہن کر جب بازار میں جاتے ہیں یا کام کر رہے ہوں اور نماز کا وقت آ گیا۔ اب وضو کرنا پڑے گا تو عام طور پہ آدمی وضو نہیں کر سکتا کیونکہ بوٹ اترانے کے لئے خصوصی جگہ چاہیے۔ مثلاً راستے میں یا کھلی جگہ میں آپ وضو نہیں کر سکتے اور اگر کریں گے تو کپڑے نا پاک ہوں گے یا کوئی مسئلہ ہو گا۔ تو بہت سارے لوگوں کو اس وجہ سے سستی آ جاتی ہے کہ وہ بوٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں تو نماز نہیں پڑھتے۔ چنانچہ آپ بوٹ بے شک پہن لو لیکن پھر تکلف نہ کرو اور اپنی نماز مت چھوڑو۔
آج کل مسجدوں میں زبردست قسم کی چوریاں ہوتی ہیں۔ میں ایک بار راجہ بازار کے قریب نماز پڑھ رہا تھا اور بالکل نئے بوٹ اپنے پیچھے رکھ کے نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز کے بعد بوٹ موجود نہیں تھے۔ تو لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ادھر اتارتے ہیں تو یہ مسئلہ ہو گا، اگر نہیں اتارتے تو پھر نماز نہیں پڑھ سکیں گے۔ اسی وجہ سے لوگ نماز سے محروم ہو جاتے ہیں۔ نماز جیسی عبادت اور اتنی بڑی نعمت کیسی چیز کی وجہ سے رک گئی اور لوگ محروم ہو گئے۔ تو بے تکلف زندگی جو گزارتا ہے اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جس کو سونے میں تکلف نہ ہو بس جو جگہ مل جائے وہاں آرام سے سو جائے۔ کھانے میں تکلف نہ ہو جو مل جائے وہ کھا لے۔ بات چیت میں تکلف نہ ہو جو بات کرنی ہو کر سکے۔ خواہ مخواہ تکلف کا اپنے اوپر pressure نہ رکھے۔ تو بے تکلفی اس معنی میں بہت اعلی چیز ہے۔
Germany میں ہمارے پڑوسی دوست کے گھر بہت بڑے مجاہد حضرت عبد اللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تھے۔ وہ خود بھی عرب تھے اور وہاں عرب حضرات کے مہمان تھے۔ ہوا یہ کہ عین کھانے کے وقت جب سب بیٹھنے والے تھے، میرے پڑوسی نے مجھے اطلاع دی کہ آپ بھی آ جائیں۔ میں نے پوچھا: کیا وجہ ہے؟ کہا: شیخ عبد اللہ عزام تشریف لائے ہیں۔ میں نے کہا: خدا کے بندے مجھے پہلے بتایا ہوتا تو میں بھی کچھ شامل کر لیتا۔ کہا: بس اب تو سب کچھ تیار ہے۔ خیر میں گھر چلا گیا اور اہلیہ سے پوچھا: کچھ پکا ہوا ہے؟ کہا: جی قیمہ پکایا ہے۔ قیمہ اچھی چیز ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ابھی سوال میں گزرا کہ عورتوں کی جیسے عادت ہوتی ہے۔ اہلیہ نے یہی سوچا کہ باہر جو کھانا جا رہا ہے اس میں کوئی speciality ہونی چاہیے۔ کہا کہ مجھے تھوڑا time دیں میں بھنڈیاں پکاتی ہوں۔ بھنڈیاں عربوں کو بہت پسند ہوتی ہیں۔ میں نے کہا: وقت ہوتا تو پکاتے لیکن وہ تو تیار بیٹھے ہیں اور کھانا کھانے والے ہیں۔ خیر روٹیاں جیسے لپٹی ہوئی تھیں ویسے ہی میں نے اٹھا لیں اور بغل میں رکھ لیں اور قیمہ وغیرہ جس kettle میں تھا اس کو ویسے ہی اٹھا کے باہر لے آیا اور پڑوسی کو دے دیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ بھی شامل کر لو۔ اس نے مٹر قیمہ ڈونگے میں ڈال دیا اور روٹی ایک طرف رکھ دی۔ حضرت تشریف فرما ہوئے تو ادھر ادھر دیکھنے لگے اور کہا: اَیْنَ الْخُبْز؟ روٹی کدھر ہے؟ عرب حضرات چاول اور نوڈلز وغیرہ کھاتے ہیں، وہ روٹی کے زیادہ عادی نہیں ہوتے لیکن وہ چونکہ پاکستان میں رہے تھے تو روٹی کھانے کے عادی ہو گئے تھے۔ میں نے کہا: نَعَم، الخُبْزُ مَوْجُوْد۔ میں نے حضرت کے سامنے رکھ دی۔ یوں روٹی حضرت کے پاس پہنچ گئی اسی طرح مٹر قیمہ کے سالن میں سے ایک دانہ بھی نہیں بچا، لوگوں کو ایسا پسند آیا کہ ہر ایک نے اس کو کھا لیا۔ میں خالی پیالہ گھر لے کر گیا اور گھر والوں سے کہا کہ آپ اس پہ شرما رہی تھیں لیکن اللہ پاک نے ایسا قبول فرمایا کہ حضرت کے پاس وہی چیز پہنچ گئی۔ چنانچہ اس کو نہیں دیکھنا چاہیے کہ کیسی ہے؟ جو available ہے یعنی مَا حَضَرَ ہے وہ پیش کر دو۔ عرب حضرات اس میں بہت بے تکلف ہیں جو بھی ان کے پاس ہو گا وہ پیش کر لیں گے۔ یہ ان کی بڑی اچھی خاصیت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر سفر پہ جا رہے ہیں تو جو خود کھا رہے ہیں وہی چیز اپنے ڈرائیور یا ملازم کو بھی کھلا رہے ہیں۔ ایک ہی دستر خوان پر سب کھا رہے ہوتے ہیں۔ discrimination اور پروٹوکول وغیرہ یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ بہر حال یہ صرف اور صرف Cultural issues ہیں۔ ان کو cultural انداز میں ختم کرنا چاہیے۔ ایک barrier ہوتا ہے جب تک وہ موجود ہوتا ہے اس وقت تک انسان جرات نہیں کرتا لیکن ایک دفعہ وہ Barrier cross ہو جائے پھر اس کے مخالف بھی ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں کہ یہ طریقہ بہت اچھا ہے۔
پہلے ہمارے گھروں میں ساری رواجی چیزیں چلی آ رہی تھیں جن کی وجہ سے بڑے مسائل تھے۔ الحمد للہ وہ چیزیں آج کل نہیں ہیں۔ جیسے محرم کے مہینے میں بتایا جاتا ہے کہ اگر کسی کو رونا نہیں آتا تو آنکھوں میں تھوک لگا دے اور رونے کی صورت بنا لے۔ بہت سارے گھروں میں یہ چیزیں تھیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ ایک تکلف کرنے والی بات ہے۔ اگر خود کسی کو رونا آ جائے تو اس میں پابندی نہیں ہے اور اگر رونا نہیں آتا تو زبردستی رونا نہیں چاہیے بلکہ یہ ماتم کی صورت بن جاتی ہے اور ماتم یا سوگ تین دن تک ہوتا ہے، اس کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارے بڑے حضرات اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کے اوپر مسائل آئے تھے اور مشکلات آئیں تھیں انہوں نے بھی تین دن سے زیادہ سوگ نہیں کیا تھا۔ تو ہم لوگوں کو تین دن کے بعد کرنے کا کیا مطلب؟ اور بہت عرصہ بھی گزر گیا۔ البتہ ان کو ایصال ثواب کریں گے کیونکہ ہمارا دل ان کے ساتھ ہے۔ ان کی تکالیف پر تکلیف ہو جانا ان کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو تکلیفیں پہنچی تھیں ان پر ان کو بڑا اجر دے دیا گیا، یہی ان کے لئے اجر کے بڑے ذرائع ہو گئے۔ اللہ جل شانہٗ نے ان کو بڑے بڑے مقامات دے دیئے۔ اس لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ان کو بڑا مقام دیا کیونکہ وہ شہید ہوئے اور فرمایا کہ شہید کو مردہ نہ کہو کیونکہ وہ زندہ ہوتا ہے۔ ان کے شہید ہونے کے لحاظ سے ہمیں غم نہیں ہے بلکہ ہمیں ان پہ فخر ہے۔ البتہ ان پہ بہت حسرت ہے جنہوں نے ان کو شہید کیا۔ ڈھائی سال بعد وہ بھی مر گیا۔ اس وجہ سے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کام اگر غلط ہوا تو جس نے بھی کیا اس نے غلط کیا اور کام صحیح ہو گیا، اچھا ہو گیا تو جس نے کیا اس کو مقام مل گیا۔ اس وجہ سے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے شرکاء جو کربلا میں تھے ہمارے دل ان کے ساتھ ہیں، ظاہر ہے وہ لوگ بہت بڑے ہیں۔
اہل سنت و جماعت میں بھی reaction کی وجہ سے بہت غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ جیسے مجھ سے کسی نے پوچھا کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام کہہ سکتے ہیں؟ میں نے کہا: حیرت کی بات ہے کہ آپ نے مجھ سے کیسا سوال پوچھا۔ کہتے ہیں: کیوں۔ میں نے کہا: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو امام کہہ سکتے ہو؟ کہا: جی۔ میں نے کہا: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جن کی وجہ سے امام ابو حنیفہ بنے تھے، خود ان کے کہنے کے مطابق کہ اگر دو سال میں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نہ رہا ہوتا تو ہلاک ہو جاتا۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کو میں امام نہ کہوں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو کہوں؟ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جب پتا چلا کہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ ستون کے پیچھے کھڑے ہیں تو فوراً تھر تھر کانپتے ان کے پاس گئے کہ حضرت مجھے پتا نہیں تھا آپ تشریف لائے ہیں۔ لوگ آپ سے پوچھیں گے آپ جواب دیں گے اور ہم سنیں گے۔ فرمایا: میں نے آپ کے جوابات سن لئے ہیں، آپ کے جوابات ہمارے آباؤ اجداد کے جوابات سے مختلف نہیں ہیں، اس لئے آپ جواب دیتے رہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لئے بہت بڑی سند ہو گئی۔ لیکن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو امام کہہ دوں اور امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کو نہ کہوں، پھر ان کے والد امام باقر رحمۃ اللہ علیہ کو امام نہ کہوں، پھر امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کو امام نہ کہوں، پھر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام نہ کہوں، یہ کون سی جہالت کی باتیں ہو رہی ہیں؟ اگر کوئی ایسے کر رہا ہے تو جہالت ہے۔ ان کے یہ مقامات بہت زیادہ بڑے ہیں۔ الحمد للہ صحیح اہل السنۃ والجماعۃ جو حق پر ہیں وہ ہر طرف کے حق کی طرف داری کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عام صحابہ کے ساتھ بھی ہیں، اہل بیت کے ساتھ بھی ہیں، امہات المومنین کے ساتھ بھی ہیں، تینوں کے ساتھ ہیں اور الحمد للہ تینوں کا فیض مل رہا ہے۔ ورنہ اللہ بچائے جن کے بارے میں آپ ﷺ نے بڑے اونچے کلمات کہے اگر ان میں سے کسی ایک کی مخالفت کریں گے تو آپ ﷺ کی بات کی مخالفت ہو جائے گی۔ جیسے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے بارے میں فرمایا ہے، خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے بارے میں فرمایا ہے، اس طریقے سے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ارشادات فرمائے ہیں۔ اسی طریقے سے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے بارے میں ارشادات ہیں۔ ہم ان سب کا regard کریں گے۔ لہذا ہمارے لئے سارے کے سارے بلند مقامات والے ہیں۔ ہم سب کے ساتھ ہیں اور اللہ پاک ہمیں ان کے ساتھ ہی رکھے اور ان کے ساتھ ہی اٹھائے۔
ایک دفعہ لاہور میں کسی سے بات ہو رہی تھی، وہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے مخالف تھے۔ انہوں نے چند باتیں کیں۔ میں نے کہا: خدا کے بندے کیا کہہ رہے ہو؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے دادا ہیں اور انسان کو آباء و اجداد کی محبت فطری ہوتی ہے۔ لیکن امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور صحابی آپ ﷺ کا ساتھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ اگر میرا حشر امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوا تو یہ میرے لئے بہت اونچا مقام ہو گا۔ انہوں نے کہا: کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا: کیونکہ وہ صحابی ہیں اس لئے۔ خدا کے بندو کیا کہہ رہے ہو؟ یہ میری بات نہیں ہے کیونکہ کسی نے ایک بہت بڑے بزرگ سے، اللہ والے سے، اہل سنت والجماعت کے امام سے پوچھا کہ عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی حکومت اچھی تھی یا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی؟ فرمایا: امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جس گھوڑے پر بیٹھ کر آپ ﷺ کی معیت میں جہاد کیا، اس کے نتھنوں کی گرد کے برابر بھی عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ہو گئے تو یہ ان کا بڑا مقام ہو گا۔ کیونکہ وہ صحابی ہیں۔ چنانچہ قرآن قرآن ہے۔ حدیث حدیث ہے۔ اللہ خالق ہیں۔ مخلوقات میں آپ ﷺ کا پہلا مقام ہے، پھر صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مقام ہے۔ اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں۔ یعنی ہر چیز کو اپنی اپنی جگہ پہ رکھنا۔ جو حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہیں ان کی الماری میں قرآن سب سے اوپر خانے میں رکھے ہوں گے، نیچے احادیث شریفہ کی کتابیں ہوں گی، اس کے نیچے فقہ کی کتابیں ہوں گی، اس سے نیچے تصوف کی کتابیں ہوں گی۔ میرے خیال میں ہماری خانقاہ میں بھی اسی طرح ہے۔ جو مرتبہ اللہ پاک نے کسی کو دیا ہے اس کو change نہیں کر سکتے۔ اللہ کا کلام پھر رسول ﷺ کا کلام پھر ان سے ماخوذ فقہ پھر اس پر عمل۔ چنانچہ اس ترتیب کو سمجھنا چاہیے۔ اللہ ہم سب سے راضی ہو جائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن