اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے جس انداز سے اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ میں ہر رشتہ کے حقوق و فرائض بیان فرمائے ہیں اُس سے اسلام کا عدل و انصاف واضح طور پر ظاہر ہو رہا ہے اور ہر موقع کی مناسبت سے ہر ایک کے فرائض اور ہر ایک کے حقوق کی اہمیت بھی واضح ہو گئی ہے۔ جیسے جب بچہ شیر خوار ہوتا ہے تو اُس کی ساری ذمہ داری والدین پر اور اگر والدین نہ ہوں تو قریبی رشتہ داروں پر عائد ہوتی ہے اور جب یہی بچہ بڑا ہوجائے تو پھر اُس سے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حُسن سلوک کا مطالبہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ان تمام حقوق و فرائض سے کافی حد تک واقف ہيں لیکن اس کے با وجود اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے ان مقررہ حقوق و فرائض کو پورا کرنا چاہے تو معاشرے میں ان کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے اُس کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اور ہم اُن وجوہات کو کس طریقے سے اپنے معاشرے سے دور کر سکتے ہيں تاکہ ہر ایک کو اپنے حقوق آسانی کے ساتھ میسر ہو سکیں۔
جواب:
کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جس سے بہت ساری باتوں کی تشریح ہو سکتی ہے۔ ہمارے جسم کے اندر ایک روح ہے اور ایک نفس ہے۔ روح کا حقیقی تعلق اللہ تعالی کے ساتھ ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی عاشق ہے، اگرچہ نفس کے شکنجے میں آ کے وہ اللہ کو بھول گئی۔ اس کو یاد دلانے کے لئے ذکر اذکار کئے جاتے ہیں۔ لیکن نفس کو اگر یاد بھی دلایا جائے تو یہ باغی رہے گا۔ اس کی سرکوبی کرنی پڑتی ہے۔ یعنی اس کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ اس سے کام تو لینا ہے۔
انسان جس وقت بچہ ہوتا ہے اور والدین بالغ ہوتے ہیں، ان کے اوپر شریعت لاگو ہوتی ہے اور بچے پہ شریعت لاگو نہیں ہوتی کیونکہ وہ اللہ کے نزدیک بھی بچہ ہوتا ہے اور انسانوں کے نزدیک بھی بچہ ہوتا ہے۔ لہذا والدین کو اولاد کے حقوق پورے کرنے پڑتے ہیں اور زیادہ تر کرتے بھی ہیں۔ اس محبت کی وجہ سے جو والدین کو اللہ پاک نے دی ہے۔ بعض دفعہ والدین نفس کی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کے حقوق پورے کرنے کے لئے اللہ پاک کے حقوق بھول جاتے ہیں یعنی حرام میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر اللہ پاک کے تابع دار ہوتے تو ان سے جو چیز بچوں کو منتقل ہو جاتی وہ اللہ پاک کی تابع داری ہوتی۔ جس وقت بچے بڑے ہو جاتے تو وہ بھی والدین کا پورا حق ادا کرتے اور دوسرے جو حقوق ان کے اوپر ہوں گے وہ بھی پورے ادا کریں گے لیکن چونکہ انہوں نے جو دیکھا ہوتا ہے وہ ان میں سرایت کر چکا ہوتا ہے۔ جیسے والدین اپنے نفس کی وجہ سے اللہ کے حکم کو بھول جاتے ہیں اسی طرح بچے بھی اللہ پاک کے حکم کو بھول جاتے ہیں جب تک وہ نا بالغ تو غیر مکلف تھے لیکن جب مکلف ہو گئے تو ان پہ وہ حقوق آ گئے۔ ایسی صورت میں ان کی پہلے سے ہی تربیت ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر پہلے سے تربیت نہ ہو تو محبت کا وہ فطری جذبہ جو والدین کو حاصل ہے وہ بچوں کو حاصل نہیں ہوتا۔ گویا کہ ان کو شریعت کے احترام میں والدین کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ پس اگر کوئی شریعت کا احترام کرتا ہے تو والدین کا خیال رکھتا ہے اور جو نہیں کرتا تو والدین کا خیال نہیں رکھتا۔ ایسی صورت میں والدین کی ایک ذمہ داری ہے جیسے حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں تفصیل سے فرمایا ہے کہ پالنے، پوسنے کے بعد تعلیم و تربیت کا نمبر ہے۔ آج کل تعلیم و تربیت اس کو کہتے ہیں کہ ان کو سکول پڑھا لیا جائے یا ان کو یونیورسٹی پڑھائی جائے یا ان کو کسی اچھی job میں پہنچایا جائے۔ یہ ساری باتیں اچھی ہیں لیکن صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ان کو خدا شناسی اور بندگی کا احساس اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پابندی بھی سکھانی چاہیے۔ یہی تربیت ہے۔ ان کو ایسے لوگوں کے ساتھ ملانا چاہیے جن کا کام تربیت کرنا ہوتا ہے، جن کے یہاں بیٹھ کر انسان سیکھتا ہے۔
ہم جب پشاور یونیورسٹی گئے تھے تو ہم اسلامیہ کالج میں داخل ہونے کے لئے گئے تھے۔ ایک کالج والی سوچ تھی لیکن وہاں ایک بزرگ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگوں نے ان کا تعارف کروایا۔ ہم ان کے پاس جا کر بیٹھنا شروع ہو گئے اور صرف عصر سے لے کر مغرب تک۔ وہ بھی مسلسل نہیں بلکہ کبھی کبھی ہوتا۔ لیکن اس کا اثر الحمد للہ ہونے لگا اور آہستہ آہستہ وہاں کی برائیوں سے اللہ پاک نے بچایا اور حضرت کی برکت سے وہ چیزیں عطا فرما دیں جو بزرگوں کے ہاں ملتی ہیں۔ معلوم ہوا اگر ہم اپنے بچوں کو ایسے لوگوں سے متعارف کروائیں تو آہستہ آہستہ ان میں وہ چیزیں آ جائیں گی۔ پھر جب ان کو ضرورت ہو گی تو وہ شریعت کے مطابق اور اللہ جل شانہ کی مرضی کے مطابق کام کریں گے۔
اگر والدین کی تربیت نہیں ہوتی تو انہوں نے اپنے حقوق اپنے نفس کے مرضی کے مطابق بنائے ہوتے ہیں۔ والدین بھی شریعت پر عمل نہیں کرتے۔ اب جب بچے حقوق پورے نہیں کرتے تو والدین سمجھتے ہیں کہ یہ نافرمان ہیں بلکہ بعض دفعہ بچہ کسی دین دار اللہ کے ولی کے ساتھ متعارف ہو کر شریعت پر عمل کرتا ہے تو والدین اسے روکتے ہیں کہ یہ کیا کرتے ہو؟ ہماری بات مانو ہم والدین ہیں۔ جبکہ حدیث مبارکہ ہے: "لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق" (الترمذی، حدیث نمبر 261) کہ "مخلوق کی ایسی فرماں برداری جس میں خالق کی نا فرمانی ہو جائز نہیں ہے"۔ آپ مخلوق ہیں، آپ کی بھی فرمانبرداری اس حد تک جائز ہے جس حد تک اللہ نے اجازت دی ہے۔ مثال کے طور پر بعض والدین با قاعدہ اپنے بچوں کو رشوت لینے کے لئے کہتے ہیں اور corruption کرنے کا کہتے ہیں۔ اسی طرح دھوکے بازی وغیرہ۔ چنانچہ اگر آپ نے ان گناہوں پہ بچوں کو چلا دیا تو پھر آپ اس ان سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ آپ کا خیال رکھیں گے؟ آپ نے ان کے اندر مادیت گھسیڑ دی تو آپ بھی بس ایک خیال میں ہیں اس سے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ جب وہ مادی چیزوں کے لئے اللہ کو چھوڑ سکتا ہے تو تمہیں کیوں نہیں چھوڑ سکتا؟ معلوم ہوا یہ معاملہ اتنا زیادہ simple نہیں ہے کہ ہم لوگ صرف ایک دو تین کی طرح اس کو سمجھ لیں۔ بلکہ اس میں باہمی حقوق و فرائض ملے ہوئے ہیں اور اس میں ایک پورے procedure کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ اس میں جہاں بھی کوئی link ٹوٹ گیا تو معاملہ خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ تو سب سے پہلے بچے کی تعلیم و تربیت اللہ کے لئے کرنا پھر صحیح کرنا تو جب بچہ بڑا ہو جائے گا چونکہ اس کی تعلیم و تربیت ہو چکی ہو گی تو اسے والدین کے حقوق کا پتا چل چکا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری آ چکی ہو گی۔ چنانچہ پھر وہ اللہ تعالیٰ کے لئے آپ کے حقوق بھی پورے کرے گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ اس سے شکوہ نہ کریں۔
ایک دفعہ ایک شخص اپنے بچے کے ساتھ بیٹھ کے چاول کھا رہا تھا اور اپنے والد کو دور بٹھایا ہوا تھا۔ پچے نے باپ سے پوچھا: دادا جان کو کیوں دور بیٹھایا ہوا ہے؟ باپ نے کہا: کھاتے وقت ان کے منہ سے چیزیں گرتی ہیں اس وجہ سے ہم نے ان کو علحیدہ بٹھایا ہوا ہے۔ تھوڑی دیر کے خاموش رہنے کے بعد بچے نے کہا: جب میں بھی بڑا ہو جاؤں گا تو میں بھی آپ کو الگ بٹھاؤں گا۔ کیونکہ اس نے باپ سے یہ بات دیکھ لی۔ چنانچہ اس نے پہلا تجربہ تو اپنے باپ پہ ہی کرنا تھا۔ باپ بہت گھبرایا، اس کا نوالہ گلے میں پھنس گیا۔ چنانچہ والدین کے اوپر پہلا حق بچوں کی صحیح تربیت تعلیم و تربیت ہے۔ اس کے بعد ہی آپ کے اپنے حقوق پر بچے شریعت کے مطابق چل سکتے ہیں۔
والدین کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آپ کے جو حقوق اللہ نے مقرر کئے ہیں وہی حقوق ہوں گے، آپ نے جو مقرر کئے ہیں وہ نہیں ہوں گے۔ مثال کے طور پر بعض مائیں اپنے بیٹے کو کہہ دیتی ہیں: بیوی کو طلاق دے دو ورنہ میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ کیا دودھ تم نے بیچا ہے؟ وہ تو اللہ کی طرف سے تم پر حق تھا۔ اور آپ کو کوئی حق نہیں اسے یہ کہنے کا کہ بیوی کو طلاق دو۔ وہ آپ کا حق پورا کرتا ہے تو بس کافی ہے اور اگر آپ اپنا حق یہ سمجھتی ہو کہ جب تک طلاق نہیں دے رہا تو میرا حق پورا نہیں ہو رہا، تو یہ اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے۔ تمہارے نفس کی اس معاملے میں کوئی حیثیت نہیں۔ جو اللہ کی طرف سے حق ہے وہ حق ہے اس کو پورا کرنا لازم ہے۔ چنانچہ والدین اور اولاد دونوں شریعت سے ہٹیں گے تو کام خراب ہو گا۔ دونوں جہاں کا خراب ہو گا۔ اس جہاں کا یہ ہے کہ جن بچوں کو پڑھا پڑھا کے بڑے اونچے عہدوں تک پہنچایا، جب ہسپتالوں میں والدین مرتے ہیں تو ان بچوں کو اس حد تک بھی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے والد کو کندھا دے سکیں۔ اس کی میت کو چوڑھے سے اٹھواتے ہیں اور خود touch بھی نہیں کرتے۔ یہ نفسا نفسی والا دور ہے۔ لیکن جب خدا ترسی آتی ہے تو پھر اپنے والدین کا کیا بلکہ دوسروں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں اس کو صرف اس انداز میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ ہم نفس کے ذریعے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور پھر جب پورے نہ ہوں تو ہم کہیں کہ یہ یہ تو غلط ہے۔ آج کل صورتحال یہ ہے کہ جب میاں بیوی کے آپس میں اختلاف ہوتے ہیں تو بیوی کو اپنے حقوق کا پتا ہوتا ہے لیکن شوہر کے حقوق کا نہیں اور شوہر کو اپنے حقوق کا پتا ہوتا ہے لیکن بیوی کے حقوق کا نہیں۔ علمی طور پہ نہیں بلکہ قلبی طور پہ پتا نہیں ہوتا۔ دل نے تسلیم نہیں کیا ہوتا لہذا ہر ایک اپنے حق کی بات کرتا ہے۔
مجھ سے ایک صاحب اپنی بہن کے بارے میں مشورہ کرنا چاہتے تھے، ان کے بہنوئی اور ان کی بہن کا آپس میں کوئی مسئلہ تھا۔ مجھ سے کہا: آپ اس بارے میں مشورہ دیں۔ میں نے کہا: میں دعا کر سکتا ہوں مشورہ نہیں دے سکتا۔ مشورہ میں تب دے سکتا ہوں جب مجھے دونوں طرف کی صورت حال معلوم ہو۔ اور دونوں میری بات مانتے بھی ہوں۔ اب ایک فریق مانے دوسرا فریق نہ مانے تو بات نہیں بن سکتی۔ اس لئے اس مرحلے پہ میں معذور ہوں۔ ہمارے پاس cases آتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک روایت میں ہے کہ اگر کوئی شخص روتا ہوا آئے کہ فلاں نے میری ایک آنکھ کو نکالا ہے تو اس پہ فیصلہ نہ کرو، عین ممکن ہے کہ اس شحص نے اس کی دونوں آنکھیں نکالی ہوں۔ ہر ایک اپنے اوپر بیتی کو جانتا ہے اور خود جو کر چکا یا کر چکی ہوتی ہے وہ نہیں بتاتے۔ ایسی صورت میں فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ دونوں کو سنے بغیر انسان فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اس میں خاموشی بہتر ہوتی ہے۔ انسان خواہ مخواہ ایسی چیز کے بارے میں کیوں سوچے جس کا حل ہی نہ ہو، وہ تو پریشانی کی بات ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن