اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
جیسا کہ سنت کی دو اقسام ہیں ایک سنت موکدہ اور دوسری سنت غیر مؤکدہ یا سنت زائدہ۔ بہت ساری سنتیں ایسی ہیں جن پر عمل کرنے سے اجر بہت ملتا ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے رہ جائیں تو اس پر گناہ نہیں ہے لیکن انسان اجر سے محروم ہو جاتا ہے۔ پہلے لوگ سنت موکدہ پر عمل کرتے تھے جس کی وجہ سے علماء ان کو سنت غیر مؤکدہ پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ لیکن آج کل ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے خاص طور پر عرب ممالک میں کہ یہاں سنت موکدہ پر عمل ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر کسی سے بات کی جائے تو وہ اس کو سنت کہہ کر جان چھڑوا لیتے ہیں، ایسے ماحول میں جہاں پر لوگ جان بوجھ کر سنتیں چھوڑ دیں، وہاں کام کیسے کیا جائے؟ کون سی حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ پھر سے سنتوں کا اہتمام شروع ہو جائے؟
جواب:
اصل میں جیسا کہ پہلے وقتوں میں بتاتے تھے کہ نوافل اور سنتیں گھروں میں پڑھی جائیں اور فرض نماز مسجد میں پڑھی جائے۔ یہ ایک طریقہ تھا جو چلا آ رہا تھا اور مسنون طریقہ بھی یہی ہے۔ لیکن بعد میں علماء کرام نے اس بنیاد پر فتویٰ دیا کہ اب چونکہ لوگوں میں سستی غالب ہو گئی ہے لہذا اگر ان کو گھر میں پڑھنے کا کہتے ہیں تو گھر میں بھی نہیں پڑھتے، رہ جاتی ہیں اور جب آہستہ آہستہ رہ جاتی ہیں تو پھر چھوڑنے کی عادت ہو جاتی ہے پھر وہ بھاری ہو جاتی ہیں۔ جیسے بعض لوگوں نے نوافل شروع کئے ہوتے ہیں اور ایسے عادی ہوتے ہیں کہ نوافل کو چھوڑ نہیں سکتے۔ مثلاً مغرب کی دو رکعتیں بعض لوگ پڑھتے ہیں، چاہے بیٹھ کر پڑھتے ہیں لیکن پڑھتے ضرور ہیں۔ اس طرح ظہر کے ساتھ دو رکعات نفل بھی پڑھتے ہیں، بلکہ ایسا ہوتا تھا کہ رکعات کی تعداد اسی طرح یاد کروائی جاتی تھی کہ اتنی رکعات فرض، اتنی رکعات سنتیں، اتنی رکعات نوافل۔ جیسے اگر پوچھا جاتا تھا کہ ظہر کی کتنی رکعتیں ہیں؟ تو جواب دیا جاتا تھا کہ 12۔ اور KPK میں یہ ہوتا تھا کہ جتنی رکعات ہوتی تھیں اتنی ہی بتائی جاتی تھیں، یعنی چار رکعات سنت موکدہ، چار رکعات فرض، دو رکعات سنت۔ چنانچہ اگر KPK کے کسی بھی طالب علم سے پوچھیں کہ ظہر کی کتنی رکعتیں ہیں؟ تو کہتے ہیں: دس۔ اور اگر پنجاب کے کسی سے طالب علم پوچھو۔ تو وہ کہتے ہیں: بارہ۔ ایک دفعہ ایک Administration officer کے سامنے میں نے کہا کہ نفل نفل ہوتا ہے وہ رکعتوں میں شامل نہیں ہے، جو پڑھنا چاہے پڑھ لے اور جو نہ پڑھے تو اس پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ تو اس نے چہرہ گھمایا اور کہتا ہے: اوہو! میں نے تو KPK کے بہت سے لوگوں کو انٹرویو میں فیل کیا ہے، میں ان سے پوچھتا تھا کہ ظہر کی کتنی رکعتیں ہیں؟ وہ کہتے: دس۔ تو میں کہتا: غلط۔ چنانچہ اس نے مجھے کہا کہ مجھ سے یہ بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ بہر حال پہلے اس حد تک اہتمام ہوتا تھا۔ بعد میں جب آہستہ آہستہ یہ حالت ہو گئی تو علماء کرام نے کہا کہ لوگوں کو یہ نہ کہو کہ سنتیں گھر میں پڑھو۔ بلکہ کہیں کہ سنتیں بھی مسجد میں پڑھیں۔ ورنہ پھر ان کی یہ عادت ہو جائے گی، پہلے گھر میں پڑھیں گے، پھر بعد میں مصروفیت کی وجہ سےگھر میں بھی رہ جائیں گی۔ جب چھوٹنا شروع ہوں گی تو پھر آہستہ آہستہ چھوڑنے کی عادت ہو جائے گی اور جو اچھی عادت بنی ہوتی ہے اس کو دوبارہ بنانا بڑا مشکل ہوتا ہے، لہذا پھر ہمیشہ کے لئے رہ جاتی ہیں۔ لہذا اس عادت کر بر قرار رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ سنت موکدہ مسجد ہی میں پڑھی جائیں، تاکہ عادت خراب نہ ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ علمائے کرام جمعہ کے خطبات میں، بیانات میں اور مواعظ میں ان چیزوں کا تذکرہ کیا کریں کہ سنت موکدہ کس کو کہتے ہیں اور سنت موکدہ کی حیثیت کیا ہے؟ چنانچہ سنت موکدہ اس کو کہتے ہیں جس کی آپ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ لہذا اگر اس پر اجر نہ بھی ہوتا پھر بھی اس کو کرنا لازمی تھا اس لئے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ باپ کی بات مانو۔ تو جب باپ کی بات کی اہمیت ہے تو کیا آپ ﷺ کی بات کی اہمیت نہیں ہے؟ بہر حال چونکہ امت میں یہ کمزوری پائی جا رہی ہے تو علمائے امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو سنت مؤکدہ کا مطلب سمجھائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ سنت مؤکدہ کس کو کہتے ہیں۔
ایک دفعہ ہم منٰی میں تھے اور ہم نے عرفات کے لئے نکلنا تھا تو منٰی میں ہم نماز کے لئے انتظار کر رہے تھے، ایک جماعت چل رہی تھی، ہم نے سوچا کہ ہم یہاں دوسری جماعت کرا لیں گے۔ وہاں عرب حضرات بھی تھے، انہوں نے ہمیں کہا کہ آپ جماعت کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اب جماعت تو کھڑی ہو رہی تھی اور جماعت میں شامل ہونا بھی چاہتے تھے لیکن جگہ مختصر تھی۔ لہذا ہم اس طرح نہیں کر سکتے تھے کہ کسی اور جگہ سنتیں پڑھ کے اس جماعت میں شامل ہو جائیں۔ میں عرب حضرات کے ساتھ مختصر بات کرتا، کیونکہ ہمیں عربی اتنی ہی آتی تھی۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ’’ھٰذِہٖ سُنَّۃُ الْفَجْر‘‘۔ ’’یہ فجر کی سنتیں ہیں‘‘ ’’لَمْ نُصَلِّ سُنَّۃَ الْفَجْر، کَیْفَ نَتْرُکُ سُنَّۃَ الْفَجْرِ، ھٰذَا لَیْسَ بِمُمْکِنٍ‘‘ ’’ہم نے ابھی تک فجر کی سنتیں نہیں پڑھیں، ہم فجر کی سنتیں کیسے چھوڑ دیں؟ یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘
ان کو چونکہ احادیث شریفہ بڑی یاد ہوتی ہیں تو فوراً ان کو حدیث یاد آ گئی اور کہتے ہیں: ’’نَعَمْ! اَنْتَ صَحِیْحٌ‘‘ پھر انہوں نے وہ حدیث شریف پڑھی کہ بیشک گھوڑے کے پاؤں کے تلے کچلے بھی جاؤ پھر بھی فجر کی سنتیں نہ چھوڑو۔ اب دیکھئے! اس میں کتنی تاکید ہے کہ گھوڑے کے پاؤں کے تلے روندے بھی جاؤ، یعنی ایسی مشکل ہو پھر بھی فجر کی سنتیں نہ چھوڑو۔ بہر حال فوراً انہوں نے کہا: بالکل ٹھیک ہے بس آپ انتظار کر لیں، سنتیں پڑھیں، اس کے بعد پھر فرض پڑھیں۔ اسی طرح ظہر کی سنتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے، مغرب کی سنتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے، عشاء کی سنتوں کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ تمام سننِ مؤکدہ کے بارے میں جو جو آپ ﷺ کے ارشادات ہیں، لوگوں کو بار بار بتانے چاہئیں۔ بالخصوص جو حدیث شریف پہ عمل کا دعوٰی کرتے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے لا کر پڑھنا چاہیے کہ دیکھو! یہ کیا لکھا ہے۔ تاکہ ان کو احساس ہو جائے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ آخر آپ ﷺ نے یہ ہم سے ہی فرمایا ہے۔ نعوذ بالله من ذالک ہم باپ کی بات تو مانیں، استاذ کی بات تو مانیں اور آپ ﷺ کی بات کو چھوڑ دیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لئے suppressive انداز کی بجائے aggressive انداز میں ان کو سمجھائیں کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ aggressive انداز کی میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک دفعہ میں جرمنی میں عرب حضرات کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ہم گپ شپ لگا رہے تھے، تو میں نے کہا یَا اِخْوَانَ الْعَرَبْ نَحْنُ نُحِبُّکُم ’’اے عرب بھائیو! ہم آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔‘‘ تو وہ بڑے خوش ہوئے۔ کہتے ہیں: ما شاء اللہ! میں نے کہا: لیکن اگر ایک طرف آپ ﷺ اور دوسری طرف تم ہو تو ہم تمہارے ساتھ نہیں ہوں گے، ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہوں گے۔ تو وہ تڑپ گئے۔ کہتے ہیں: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ نہ ہوں۔ میں نے کہا: یہ توپ جو تمہارا لباس ہے، کیا یہ مسنون لباس ہے کہ تم اس کے اوپر اتنا ناز کر رہے ہو؟ ہم ایسی چیزوں کو نہیں مانتے۔ یہ مسنون لباس نہیں ہے۔ تو وہ بہت خوش ہو ئے اور کہتے ہیں: شیخ! بس آپ ہم سے ایسی ہی باتیں کیا کریں، ہمیں آپ کی یہی باتیں پسند ہیں۔ گویا اگر اچھی طرح بات کی جائے اور سمجھائی جائے تو آخر مسلمان ہیں سمجھ جاتے ہیں، مان لیتے ہیں۔
بہر حال وہ احادیث شریفہ جو سننِ مؤکدہ کے بارے میں ہیں وہ ہمیں یاد بھی ہونی چاہئیں اور ہمیں لوگوں کو سمجھانی بھی چاہئیں اور aggressive انداز میں بتانا چاہیے کہ باپ کی بات ماننا ٹھیک ہے، استاد کی بات ماننا ٹھیک ہے، شیخ کی بات ماننا ٹھیک ہے، اور آپ ﷺ کی بات نہ ماننا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ انداز اس لئے ضروری ہے تاکہ لوگوں کو بات سمجھ میں آ جائے اور بعد میں اس قسم کی غلطیاں نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن