اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کھانا کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے حاصل کر کے کھایا اس سے بڑھ کر کوئی کھانا نہیں ہے، بے شک اللہ تعالیٰ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔ (بخاری شریف) اسی طرح آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے حلال کمائی وہ ہے جس میں دونوں پاؤں چلیں، ہاتھ کام کریں اور پیشانی پر پسینہ آ جائے۔ ان دونوں احادیث شریفہ سے ہمیں محنت مزدوری کے حوالے سے کیا تعلیم مل رہی ہے؟
جواب:
اصل میں یہ عملی باتیں ہیں۔ چونکہ ہمارا دین، دینِ فطرت ہے۔ اس میں تمام چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تجارت کی بھی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْق یعنی سچے تاجر کو انبیاء کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور مزدوروں کی بات بھی کی گئی ہے۔ ہدیہ دینے کی بھی اپنی فضیلت ہے اور یہ سنت ہے۔ تو ان ساری چیزوں میں گویا کہ ہمارے لئے رہنمائی ہے۔
ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ مکمل دین کے اوپر عمل کرنا ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ آدھے دین پہ عمل کرو اور آدھے پہ نہ کرو۔ یعنی ماننا سب کو ہے اور عمل بھی سب پہ کرنا ہے۔ ماننے میں قصور ہو گیا تو یہ ایمان و کفر کی بات ہے۔ یعنی کسی چیز سے بھی انکار کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ لیکن جہاں تک عمل کی بات ہے تو جتنے پہ عمل کیا اس کا اجر ملے گا اور جس پہ عمل نہیں کیا تو اس کا اجر نہیں ملے گا بلکہ اس کے بقدر سزا ملے گی اگر وہ فرائض و واجبات ہیں۔ اس لئے پورے دین کے اوپر پوری طرح چلنا ضروری ہے۔ اس لئے چونکہ قرآن پورے کا پورا نازل ہوا ہے اور آپ ﷺ کی احادیث شریفہ جو آپ ﷺ کے قلب کے اوپر اتری ہیں وہ بھی ضروری ہیں۔ اس وجہ سے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ ایک روایت کو لیں اور دوسری روایت کو نہ لیں، اس سے پھر آپ کو پریشانی ہو جائے گی۔ در اصل اس روایت سے بعض لوگ استنباط کر کے کچھ اور چیزوں پر اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ دیکھو! فضیلت تو ہر ایک چیز کی اپنی اپنی ہے، اس کو تو ماننا چاہیے۔ لیکن یہ جرأت نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو دوسرے راستوں سے دے رہا ہے تو آپ ان کا انکار کر دیں۔ مثلاً ہدایا اور تحفے ہیں، تو بعض لوگوں کے لئے اللہ پاک نے یہی راستہ بنایا ہوتا ہے۔ فرمایا اگر آپ لوگ اس پر اعتراض کریں تو یہ بات بہت دور تک جاتی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ سے بعثت کے بعد کوئی کسب ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے دنیا کے لئے کوئی کام کیا ہو۔ اگرچہ نبوت ملنے سے پہلے بکریاں بھی چرائی ہیں، تجارت بھی کی ہے۔ لیکن نبوت کے بعد توکل پر زندگی بسر فرمائی ہے۔ اللہ نے جو دے دیا، کھا لیا، نہ ملا تو روزہ رکھ لیا۔ اور آپ ﷺ کی یہ صورتحال تھی کہ کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں فاقے کی گزرتی تھیں اور پھر جب آتا تو بے حساب آتا تھا، جو سب آپ ﷺ اپنے ہاتھوں سے تقسیم فرما دیتے، اپنے لئے کچھ بھی نہیں بچاتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہدایا اگر کسی کو صحیح طریقے سے ملیں تو یہ بھی پاک مال ہے۔ ہاں غلط طریقے سے نہ ہو، اور غلط طریقے تین ہیں۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: آج کل جو بزرگوں کو بصورتِ ہدایا دیا جاتا ہے، اکثر اس کی تین قسمیں ہیں ایک تو بغرض دنیا (یعنی رشوت کہ کسی سفارش کے ذریعہ سے کوئی نا جائز کام کروانا کہ میری یہ سفارش کر دو) دوسرا بغرض ثوابِ اخروی (یعنی صدقہ و خیرات، جو آخرت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے) تیسرا کسی امر دینی کی غرض سے، مثلاً استفتاء کا جواب لینے کے لئے یا دعا کروانے کے لئے، اس کی اجرت۔ فرمایا: میں ان تینوں قسموں میں سے کسی قسم کا بھی ہدیہ نہیں لیتا۔ البتہ جو محبت سے دیا جائے وہ لے لیتا ہوں۔ کیونکہ صدقہ لینا تو مجھے بوجہ غنی ہونے کے جائز نہیں۔ اجرت امورِ دینیہ پر لینا جائز نہیں سمجھتا اور رشوت تو سب کے نزدیک حرام ہے۔ اور جو محض محبت سے ہدیہ دے تو اس کا قبول کرنا سنت ہے۔ لہذا ہم لوگوں کو ایسی چیزوں کی پرواہ کرنی چاہیے۔ اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے پھر جو ملے تو یقیناً وہ بہت اچھی چیز ہے۔
میں ایک دفعہ مولانا شریف صاحب ہزاروی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اچانک میں نے کہا: مولانا ذرا دل میں ایک بات آئی ہے۔ کہتے ہیں: کیا؟ میں نے کہا: دل میں آیا ہے کہ میں آپ کو پانچ روپے ہدیہ کروں۔ یہ بہت پرانی بات ہے اس وقت پانچ روپے کی بہت قیمت تھی۔ مولانا نے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے، میں نے اس پر پانچ روپے رکھ دیئے۔ فرمایا: ان شاء اللہ میں ان کو رکھوں گا، جب عمرہ کروں گا تو اس میں سے استعمال کروں گا۔ گویا ان پانچ روپے کی اتنی قدر کی۔ تو یہ بے تکلفی تھی۔ ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک صاحب نے 25 روپیہ ہدیہ دیا، حضرت نے اس میں سے دس روپے لے لئے اور پندرہ روپے واپس کر دیئے، تو انہوں نے کہا بڑی عجیب بات ہو گئی، میری دس روپے دینے کی نیت تھی، پھر میں نے سوچا کہ اتنے بڑے آدمی کو دس روپے دینا تو مناسب نہیں ہے، تو میں نے پچیس کر دیئے۔ حضرت نے وہی دس ہی لے لئے اور باقی نہیں لئے۔ یہ کیا بات ہوئی؟ تو کسی نے کہا کہ یہ حضرات پاک مال لیتے ہیں۔ آپ کے دل میں جو دس روپے کا خیال آیا وہ محبت کی وجہ سے تھا اور یہ پندرہ کا خیال مروت کی وجہ سے آیا ہے۔ تو مروت والے نہیں لئے اور محبت والے لے لئے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے۔ اور جو بچنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بچاتا ہے۔ بہر حال مزدوروں کی کمائی کی بہت زیادہ تعریف آئی ہے کہ مزدور جو اپنے ہاتھوں سے، اپنے پاؤں سے، اپنے اٹھنے بیٹھنے سے کماتے ہیں وہ سبحان اللہ! قابل ستائش لوگ ہیں۔ اور ان کے ماتھے پہ جو پسینہ آ جاتا ہے وہ بہت مبارک ہے۔ البتہ اپنی مزدوری کی وجہ سے دین کے کاموں کو نہ چھوڑے۔ مثلاً نماز ترک نہ کرے۔ کیونکہ بہت سارے لوگ مزدوری کرتے ہیں تو نماز روزے کی پروا ہی نہیں ہوتی۔ اور جب روزے آ جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو مزدور ہیں، ہمیں تو دھوپ میں بھی جلنا ہوتا ہے، فلاں فلاں کام بھی کرنا ہوتا ہے اس لئے ہم روزے نہیں رکھتے۔ اور نماز بھی نہیں پڑھتے کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملتا۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ بعض اچھے لوگ جب مزدوری کرتے ہیں مزدوری سے پہلے شرط لگا دیتے ہیں کہ نماز سے نہیں روکو گے اور نا جائز کام نہیں کرواؤ گے۔ تو اس طرح کی شرط سے ان کے مال میں بہت برکت ہوتی ہے۔ جب وہ صحیح طریقے سے مزدوری کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے مال میں بہت برکت عطا فرماتے ہیں۔ اور جو مزدوری وغیرہ کے لئے اور دنیا کے لئے دین کو چھوڑتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو دنیا کے پیچھے لگا دیتے ہیں اور وہ عمر بھر بھاگتا رہتا ہے، اس کو کبھی سکھ کا سانس نہیں ملتا، وہ پریشانی کے عالم میں ہی ساری زندگی گزارتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو چاہیے کہ حلال کمانے سے گریز نہ کریں، کیونکہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا بہت معیوب بات ہے چاہے وہ کسی طریقے ہو، جیسے قرض کے لئے ہاتھ پھیلانا، مجبوری ہو تو علیحدہ بات ہے کیونکہ کسی وقت اچانک کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر قرض لینا عادت ہی ہو جائے کہ ایک سے لے کر پھر دوسرے کو دینا، یہ بہت ہی معیوب ہے۔ پشتو میں اس کو ’’سپیرا عادت‘‘ یعنی منحوس عادت کہتے ہیں۔ بہر حال یہ بری عادت ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک تو انسان کو اپنے وسائل کے مطابق کام کرنا چاہیے یعنی جتنے وسائل ہوں ان کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کما کے حاصل کرنا چاہیے، مانگ کے نہیں۔ بلکہ دوسروں کو بھی کھلانا چاہیے۔ مرد تو وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو دے، وہ کسی دوسروں کے آگے ہاتھ کیوں پھیلائے گا؟ جس نے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلایا تو سمجھو کہ اس نے اپنی غیرت کو بیچ دیا۔
پانی پانی کر گئی قلندر کی ایک بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
یعنی انسان دوسرے کے سامنے کیوں جھکے؟ اللہ کے سامنے ہی جھکے۔ اسی کے لئے کام کرے۔ اور غیرت والا رویہ اپنائے۔ مفت خورہ نہ بنے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ گاؤں میں، ہسپتالوں میں، کچہریوں میں اور مختلف جگہوں پہ مفت خورے بیٹھے ہوتے ہیں اور خانوں اور چوہدریوں کی خوشامدیں کر کر کے ان کے گھر سے کھاتے ہیں اور اسی پہ گزارہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کاسہ لیسی کرتے ہیں، بعض وکیلوں اور ججوں کی چاپلوسی کرتے ہیں۔ بہر حال جس جگہ بھی اس قسم کا نظام ہے، یہ بے غیرتی والا نظام ہے غیرت والا نظام نہیں ہے۔ غیرت والا نظام یہ ہے کہ مزدوری کر کے کماؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ اس حدیث شریف کا یہ مطلب ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان تمام چیزوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَمَا عَلَيْنَآ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ