اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ایسے لوگ آئیں گے جنہیں میں جانتا ہوں گا ان کے اعمال تہامہ پہاڑ (جو کہ بہت بڑا پہاڑ ہے) جتنے ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو گرد و غبار بنا کر اڑا دیں گے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین خوف زدہ ہو گئے، عرض کیا کہ ایسے لوگوں کی نشانی بتا دیں، آپ ﷺ نے فرمایا وہ ہمارے ہی جیسے ہیں، ہماری طرح سب اعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان میں خرابی یہ ہے کہ جب وہ تنہائی میں ہوتے ہیں تو اللہ کی حرمتوں کو پامال کرتے ہیں۔ یہ حدیث آج کل کے حالات کے مطابق ہے کہ سوشل میڈیا ہماری ہر نیکی کو برباد کر رہا ہے۔ ان حالات میں جب ہم خود کو بے بس سمجھتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو ان کے زہریلے اثرات سے کیسے بچا سکتے ہیں؟
جواب:
اصل میں اس وقت تو یہ اتنی زیادہ خطرناک بات نہیں تھی، ایسے لوگ بہت کم تھے کیونکہ انسان ماحول کی وجہ سے برائی میں مبتلا ہوتا ہے اور تنہائی میں تو ماحول نہیں ہوتا، تنہائی میں تو انسان اکیلا ہی ہوتا ہے، اس لئے اس وقت اگر ایسے لوگ تھے تو وہ واقعی بہت ہی عجیب بات تھی۔ لیکن اِس وقت یہ چیز بہت زیادہ ہے کیونکہ موبائل ہے یا انٹرنیٹ ہے، یہ پورا ماحول ہے۔ یعنی انسان اس میں تنہا نہیں ہوتا بلکہ اپنے ساتھ وہ تمام چیزیں رکھتا ہے۔ بچپن میں ہم جب میلے میں جاتے تھے تو انہوں نے دور بینیں لگائی ہوتی تھیں اور آوازیں لگا رہے ہوتے تھے کہ بیٹھے بیٹھے کابل دیکھیں، بیٹھے بیٹھے لندن دیکھیں بیٹھے، بیٹھے فلاں چیز دیکھیں۔ تو دور بین میں ان چیزوں کی تصویریں آتی تھیں۔ اب وہ تو تصویریں تھیں، اس میں کوئی گڑبڑ نہیں تھی۔ لیکن اب با قاعدہ ہر چیز چلتی پھرتی نظر آ رہی ہے اور دنیا میں کہیں پر بھی جو گند ہے وہ اگلے لمحے آپ کے موبائل پہ موجود ہوتا ہے۔ تو ایسی صورت میں تنہائی تنہائی نہیں رہی۔ لوگوں کے لحاظ سے تو تنہائی ہے لیکن آپ کے اپنے لحاظ سے تنہائی نہیں ہے۔ اپنے لحاظ سے آپ اس گندے ماحول میں ہیں۔ پھر اس میں ظالموں نے ایسا انتظام کیا ہوتا ہے کہ جو شریف لوگ ہوتے ہیں ان کو پھانسنے کے لئے با قاعدہ ان کی ترتیب ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کو کسی کتاب کی تلاش ہے۔ بڑی اچھی اچھی کتابیں پڑی ہوتی ہیں۔ تو پوری لائبریری موجود ہے اور ہر قسم کی دینی کتابیں موجود ہیں، آپ ایک کتاب کو آپ تلاش کر رہے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ان کے ہاں با قاعدہ softwares ہوتے ہیں وہ تو ایک علیحدہ چیز ہے۔ لیکن اس کو آپ نیٹ پر تلاش کر رہے ہیں تو وہ تو مل جائے گی لیکن اس کتاب کے ساتھ ہی وہ گند بھی موجود ہو گا کہ آپ کتاب کو چھوڑ کر اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔ ایک دفعہ میرا بیان کسی خاتون نے یو ٹیوب پر دیا تھا، جب مجھے پتا چلا تو میں نے اس کو دیکھا تو اس کے ساتھ ہی گند کی چیزیں بھی تھیں۔ میں نے اسے کہا کہ تو نے ایسی جگہ پہ کیوں رکھوایا؟ اس نے کہا کہ میں نے ایسی جگہ پہ نہیں رکھوایا۔ در اصل یہ لوگ تلاش میں ہوتے ہیں تو جب کوئی ایسی چیز مل جاتی ہے جس کو اچھے لوگ دیکھتے ہوں تو وہ وہاں یہ چیزیں رکھ دیتے ہیں۔ تو یہ ان کا شیطانی نظام ہے اور اس شیطانی نظام کے لئے وہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ آج کل ایسے بھی ظالم اور بد بخت لوگ موجود ہیں جو اپنے آپ کو شیطان کے بندے کہتے ہیں اور اپنے آپ کو شیطانی کہتے ہیں۔ بہر حال وہ لوگ یہ سارے کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ ایسی حالت میں تنہائی کو بچانا بڑا مشکل ہے۔
اب اس سے بچنے کے لئے کیا ہو سکتا ہے؟ تو اس دفعہ جو ہمارا جوڑ ہوا تھا اس میں میں نے کہا تھا کہ کمپیوٹر کو جاننے والے ہمارے حضرات باقی لوگوں کو بتائیں کہ ہم لوگ اس شر سے کیسے بچ سکتے ہیں، لہذا انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہم بتائیں گے، پھر کچھ چیزیں بتا بھی دیں۔ مثلاً اگر آپ نیٹ پر صرف ٹیکسٹ والی چیزیں ڈھونڈنا چاہتے ہیں اور تصویروں کو نہیں دیکھنا چاہتے تو ایک ایسا انتظام موجود ہے کہ آپ تصویروں کو بلاک کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ نسخہ ان کے لئے ہے جو بچنا چاہتے ہیں۔ اور جو نہیں بچنا چاہتے، ان کو آپ کیسے بچائیں گے؟ خیر ان کی تو اپنے طور پر اپنی ذمہ داری ہے۔ لیکن جو بچنا چاہتے ہیں مثلاً وہ کسی کام کی چیز کو اور صحیح چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں اور درمیان میں کوئی غلط چیز آ جائے جس سے ان کو نقصان ہو سکتا ہے۔ تو ایسی صورت میں ان کے لئے یہ طریقہ اچھا ہو گا کہ وہ تصویریں بلاک کر لیں، ویڈیوز بلاک کر دیں اور دوسری اس قسم کی چیزیں جو نقصان پہنچانے والی ہیں ان کو بلاک کر دیں پھر باقی نیٹ کو استعمال کر لیں، تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لہذا اس صورت میں انسان بچ سکتا ہے۔ اس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں۔ بچوں کے لئے تو ہمارا مشورہ ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ اس سے ان کو بچایا جا سکتا ہے ان کو بچائیں، اس میں بڑوں کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اس میں دینی نقصان کے علاوہ دنیاوی نقصان بھی ہے۔ دنیاوی نقصان ان میں یہ ہے کہ بچے جب مسلسل دیکھتے ہیں تو کئی نقصانات ہوتے ہیں۔ کیونکہ بچے تو سمجھدار نہیں ہوتے۔ جیسے میں نے یہ سٹینڈ اس لئے سامنے رکھا ہوا ہے کہ مجھے پتا ہے کہ میں اگر مڑ کے دیکھوں گا تو میری گردن مسلسل مڑی رہے گی تو گردن میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ اب اگر ہماری عمر کے لوگوں کو درد شروع ہو جائے تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کیونکہ پوری عمر گزاری ہوتی ہے اس لئے یہ ممکن ہے۔ لیکن اگر دس سال کے یا پندرہ سال کے چھوٹے بچے کو یہ درد شروع ہو جائے تو بچہ کیا کرے گا؟ اس کی تو پوری زندگی خراب ہو جائے گی۔ اس وجہ سے اب ڈاکٹر بتا رہے ہیں کہ اب چھوٹے بچوں کے ایسے cases آ رہے ہیں۔ یہ تو دنیاوی نقصان ہیں۔ اس میں آنکھوں کو نقصان ہے کیونکہ مسلسل وہ ایک چیز کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تیسری چیز یہ ہے کہ ان کی زندگی میں ورزش اور چلنے پھرنے کی بہت اہمیت ہوتی ہے اسی سے وہ ترقی کرتے ہیں، لیکن یہ بیٹھے بیٹھے سارا دن گزارتے ہیں۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ ان میں تعلیمی کمزوری آ جاتی ہے۔ کیونکہ تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتے، کارٹونوں کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ پانچویں بات یہ ہے کہ ان کارٹونوں میں ایسا زہریلا مواد ہوتا ہے جو جادوئی طریقے سے ان میں رکھا ہوتا ہے کہ وہ بچوں کے ذہنوں کے اندر گندگی مستقل طور پہ ڈال دیتے ہیں کہ پھر اس کو نکال نہیں سکتے۔ تو اب یہ ذمہ داری والدین کی ہے، کیونکہ بچوں کو تو پتا نہیں ہے، بچوں کو تو آپ نہیں سمجھا سکتے، والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کریں، ان کو صحت مند چیزوں میں مصروف رکھیں، دوڑ میں، مقابلوں میں اور صحت مند کھیل کود میں ان کو مصروف رکھیں۔ اپنے سکول وغیرہ کا کام کرتے رہیں، دین کی چیزیں سیکھتے رہیں۔ لیکن ان چیزوں سے بچا کر رکھیں۔ اس وقت ماؤں نے یہ مصیبت بنائی ہوئی ہے چونکہ وہ خود بچوں کے سنبھالنے سے تنگ ہو جاتی ہیں۔ آخر پہلے بھی مائیں ہی ہوتی تھیں، آخر وہ بھی تو بچوں کی تربیت کرتی تھیں اور بچوں کو پالتی تھیں۔ لیکن اب مائیں خود ہی موبائل پہ بہت زیادہ مصروف ہوتی ہیں تو بچوں کو بھی موبائل دے دیتی ہیں اپنے آپ کو بچانے کے لئے۔ اس لئے بچے ابتدا ہی سے موبائل سیکھ لیتے ہیں۔ بلکہ میرے خیال میں بچے والدین سے زیادہ موبائل سیکھتے ہیں، ان کو ایسی چیزیں معلوم ہوتی ہیں کہ جو والدین کو بھی نہیں پتا ہوتیں۔ ہمارے گھر میں کمپیوٹر تھا جس پہ میں کام کرتا تھا، ہماری چھوٹی سی بھانجی تھی، اس کو پتا چل گیا کہ جب تک یہ brown ہوتا ہے تو نہیں چلتا، جس وقت یہ green ہو جائے تو پھر چلتا ہے۔ تو اس نے کہا کہ جب یہ green ہو جائے تو پھر مجھے بتائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچے ہر چیز سیکھ جاتے ہیں اور بچوں کا ذہن بہت صاف plate ہوتا ہے اس کے اوپر جو بھی آئے وہ اس کو سیکھ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے بچوں کو ان خرافات سے دور رکھا جائے اور ایسے طریقوں سے ان کی تربیت ہو جائے۔ لیکن ضروری بات یہی ہے کہ جب تک بڑوں کی تربیت نہ ہوئی ہو تو وہ بچوں کی کیا تربیت کریں گے؟ لہذا بڑے بھی اپنے آپ کو تربیت کے لئے وقف کر لیں اور ایسے حضرات کے ساتھ رابطہ رکھیں جو تربیت کرنے والے ہوں۔ تعلیم والے سلسلے تو موجود ہیں جیسا کہ مدارس ہیں، کتابیں بھی موجود ہیں۔ لیکن تربیت والے سلسلے تقریباً ختم ہو رہے ہیں۔ بلکہ اب لوگ اس چیز کو جانتے ہی نہیں ہیں کہ تربیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ حالانکہ پہلے تعلیم و تربیت دونوں چیزیں بالکل اکٹھے چلتی تھیں۔ اور ایسے ہو ہی نہیں سکتا کہ تعلیم ہو اور ساتھ تربیت نہ ہو۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تربیت سے اس حد تک اِبا ہے کہ جب کوئی تربیت کی باتیں کرنے لگے تو لوگ مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے پاس بعض بچے آتے ہیں، دیکھتے دیکھتے آ جاتے ہیں تو والدین کو بہت پریشانی ہو جاتی ہے کہ یہ کہاں چلے گئے اور یہ ہو گیا، وہ ہو گیا۔ پھر ان کو سختی کے ساتھ روکتے ہیں لیکن پھر بھی جو سمجھ دار بچے ہوتے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے۔ لیکن جب کبھی بچے چرسوں میں اور دوسری چیزوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر والدین ہمارے پاس آتے ہیں کہ جی دعا کریں کہ بچے ٹھیک جائیں۔ حالانکہ جب وہ صحیح جگہ پہ آ رہے تھے تو آپ نے ان کو روکا تھا تو کیا کمال کر لیا؟ چنانچہ پھر یہی چیزیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے اگر آپ ان کو اچھی جگہوں سے روکیں گے تو وہ بری جگہوں میں پھنسیں گے۔ اور بری جگہیں بہت زیادہ ہیں۔ بہر حال اس میں والدین کی بڑی ذمہ داری ہے۔ اللہ کرے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، خود بھی ان چیزوں سے بچیں اور اپنے بچوں کو بھی اور عورتوں کو بھی اس سے بچائیں۔
ایک خاتون نے مجھ سے request کی ہے کہ میں ایک مسئلہ سمجھاؤں جو اسی سے متعلق ہے۔ وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مخفی طور پر لوگوں کی ریکارڈنگ کر لیتے ہیں، پھر ان کو پھیلاتے ہیں۔ یہ بھی آج کل کا ایک بڑا شر ہے کہ ویڈیو بھی بنا لیتے ہیں اور وہ ریکارڈنگ بھی کر لیتے ہیں، کسی کا مکالمہ ریکارڈ کر لیتے ہیں اور موبائل وغیرہ سے کسی کی تصویر چوری کر لیتے ہیں، یہ آج کل مختلف طریقے ہیں، پھر ان کو بلیک میل کرنے کے لئے On air کرتے ہیں۔ یہ اللہ کے نزدیک بہت ہی سخت جرم ہے۔ اگر کوئی غلط بھی کر رہا ہو، لیکن اس غلطی کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ اس کو مشتہر کر دیں بلکہ اس کی اصلاح کرنی چاہیے، مشتہر کرنے سے تو اور خراب ہو گا، وہ ڈھیٹ ہو جائے گا۔ اب تو وہ چھپ کے کر رہا ہے بعد میں پھر وہ کھل کے کرے گا۔ تو یہ بالکل غلط ہے کہ آپ کسی کی مخفی باتیں چوری کر کے اس کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کریں۔ اس میں شر ہی شر ہے۔ بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ اگر کوئی آپ سے بات کر رہا ہو اور وہ ادھر ادھر دیکھے کہ کوئی ہے یا نہیں ہے۔ تو اس کے کہنے کی ضرورت نہیں ہے وہ بات آپ کے پاس امانت ہے۔ آپ اس کی مرضی کے بغیر کسی اور کو نہیں بتا سکتے۔ کیونکہ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر گویا آپ کو بتا دیا کہ میں یہ کسی اور کو نہیں بتانا چاہتا۔ اب اگر آپ نے بتا دیا تو آپ نے جرم کیا۔ لہذا ہمیں ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
جیسے کہ آج کل بڑے مسائل ہیں اور وبائی امراض بھی ہیں، کرونا ہے اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ تو یہ بھی ایک روحانی وبائی مرض ہے۔ ایسی چیزوں سے بچنے کے لئے ایک عمل ہے، وہ آج کل ہم روزانہ صبح فجر کی نماز کے بعد کرتے ہیں۔ پہلے ایک دفعہ سورہ فاتحہ پھر 100 دفعہ درود شریف ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ