مغربی دنیا کی اصلاح کے لئے مسلمانوں کی ذمہ داری

سوال نمبر 475

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں ظہورِ اسلام سے پہلے دنیا کے مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی حالات کی تفصیل میں مختلف مذاہب اور علاقوں کے حالات میں فرماتے ہیں کہ ”ہر مذہب اور ہر علاقے کے لوگ اپنے دین اور اخلاق کے دگرگوں حالات سے تنگ ہو کر گویا کہ دین اسلام ہی کو چاہ رہے تھے تاکہ اسلام ان کے یہ تمام حالات تبدیل کر دے“۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے بعد کسی اور دین نے نہیں آنا اور آپ ﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا۔آپ ﷺ کے بعد دنیا کے گمراہ لوگوں کی اصلاح امت مسلمہ ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت مغربی دنیا کی معاشرتی اور اخلاقی حالت تقریباً اسی طرح ہے جیسے مختلف علاقوں کی اسلام سے پہلے تھی۔ ایسی صورت میں مسلمانوں پر بحیثیت مجموعی کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ تاکہ مغربی دنیا کی معاشرتی اور اخلاقی حالت کو سنوارا جا سکے۔

جواب:

قرآن مجید میں سورۃ الفاتحہ میں تین قسم کے گروہوں کا ذکر آیاہے۔ فرمایا:

﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ ۙ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا الضَّآلِّيۡنَ (الفاتحہ: 4، 5، 6)

ترجمہ: ”(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تونے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں“۔

پہلا گروہ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمانعام یافتہ لوگوں کاہے جس میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین شامل ہیں۔

دوسرا گروہ مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْکا ہے۔ یعنی وہ لوگ جن پر اللہ پاک کا غضب و غصہ ہے۔ اس گروہ میں شیطان اور یہود شامل ہیں۔

تیسرا گروہ ضَالِّیْنکا ہے۔ اس گروہ سے مراد نصاریٰ ہیں۔

پہلے گروہ کے لوگ وہ ہیں جن کے راستے پر چلنے کی دعا مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے اور ان کے راستے کو ہدایت کا راستہ کہا گیا ہے۔ دوسرے اور تیسرے گروہ کے لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا کہ یا اللہ ہمیں ان کے راستے پر نہ چلا۔ یعنی یہود و نصاریٰ کے راستے پر نہ چلا۔

یہود کا گروہ مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْکہلاتا ہے۔ ان پہ اللہ پاک کا غصہ ہے کیونکہ یہ جان بوجھ کر اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں یہاں تک فرمایا گیا ہے

﴿يَعْرِفُونَهٗ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ (البقرۃ: 146)

ترجمہ: ”وہ اس کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔“

ان لوگوں میں پہلے نمبر پر شیطان ہے کیونکہ شیطان سب کچھ جانتا ہے۔ دوسرے نمبر پر یہود ہیں جو اس کے خصوصی چیلے ہیں۔ یہ دین اسلام اور نبی ﷺ کے بارے میں سبھی کچھ جانتے ہیں۔ کیونکہ یہ اہل کتاب ہیں۔ اور کتب سماویہ میں ساری نشانیاں موجود تھیں۔ صرف بغض اور حسد کی وجہ سے انہوں نے دین اسلام اور نبی ﷺ کی مخالفت کرنا شروع کر دی۔ جیسے شیطان بغض اور حسد کی وجہ سے تباہ ہو گیا انہوں نے بھی بغض و حسد کے باعث اپنی آخرت تباہ کر لی۔

اسلام کی مخالفت کے سلسلے میں یہودیوں کے ایسے عجیب عجیب واقعات ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ دور حاضر میں باقاعدہ researches ہو رہی ہیں۔ اس موضوع پہ PhDs ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں کو کیسے نقصان پہنچایا جائے، مسلمانوں کے دل و دماغ میں شکوک و شبہات کیسے ڈالے جائیں، مسلمانوں کو detract کیسے کیا جائے۔ یہ لوگ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ آخر پیغمبروں کی اولاد ہیں۔ ذہین بھی ہیں اس کے ساتھ ساتھ محنت اور dedication کے ساتھ باقاعدہ طور پر کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ دین اسلام، نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کے بارے میں سب کچھ جانتے بھی ہیں۔

کوئی یہودی اسی موضوع پر ریسرچ کر رہا تھا کہ مسلمان کو راہ حق سے کیسے بھٹکایا جا سکتا ہے۔ اس کی ریسرچ مکمل ہو گئی اور اس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان کو جب تک حضور ﷺ کے ساتھ محبت ہے اس وقت تک یہ بھٹک نہیں سکتا۔ لہٰذا کسی طرح آپ ﷺ کی محبت اس کے دل سے نکالو۔ اس کے بعد ان کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ خصوصاً یہودی بڑی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں ان کا مسئلہ محض ضد و عناد اور بغض و حسد ہے، اس بغض و حسد کی شدت میں یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کو دبانے کے لئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا نظام ایساہے کہ جب جب یہ لوگ اسلام کے خلاف کوئی بڑی کوشش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ ان کے حق میں الٹا اور اسلام کے حق میں اچھا کر دیتے ہیں۔ جیسے نیوزی لینڈ میں مسجد میں قتل عام کا واقعہ ہوا۔ اس سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوئے، انہوں نے غور کرنا شروع کیا اور ایک بڑی تعداد میں لوگ اسلام کی طرف آ گئے۔

سوال میں جو بات کہی گئی ہے وہ بالکل درست ہے کہ دین اسلام آخری دین اور حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا اور اسلام کے بعد کسی دین نے نہیں آنا۔ لہٰذا اب دنیا میں جہاں جہاں گمراہی ہے، وہاں وہاں ہدایت کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری امت مسلمہ کی ہے۔ ہمارے لئے کام کرنے کاایک وسیع میدان موجود ہے اور کئی حکمت عملیاں ہیں جنہیں مد نظر رکھ کر ہمیں کام کرنا ہوگا۔ ان میں سے چند طریقے درج ذیل ہیں:

(1)۔ پسے ہوئے طبقوں کو قریب لایا جائے۔ پوری دنیا میں بالخصوص پاکستان میں کئی غیر مسلم گروہ ایسے ہیں جن کا تعلق نچلے طبقے سے ہے، جیسے عیسائی لوگ جو کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح ہندوؤں میں شودر وغیرہ جن کو خود اعلیٰ ذات کے ہندو اپنے قریب بٹھانا پسند نہیں کرتے۔ ایسے طبقوں میں کام کیا جائے انہیں محبت دی جائے تو وہ لوگ اسلام قبول کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ ماضی میں کئی ایسے واقعات موجود ہیں کہ ایسے لوگوں کو جب جب مسلمانوں نے خود سے قریب کیا اور ان کے ساتھ محبت کا معاملہ کیا، یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور بڑے مخلص مسلمان بنے۔

(2)۔ بہت عرصے سے مسلمانوں کے خلاف ایک عالمی پروپیگنڈابرپا کیا جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح دہشت گردی کا تعلق مسلمانوں سے جوڑا جائے اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جائے۔ حالانکہ اگر تاریخ عالم پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ جتنی دہشت گردی یہودیوں اور عیسائیوں نے کی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اسرائیل، افغانستان،عراق اور کشمیر کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ ان سب مثالوں میں دہشت گرد یہ لوگ ہیں اور مسلمانوں کی حیثیت مظلوم اور لاچار کی سی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے پروپیگنڈہ کے زور پر مسلمانوں کو دہشت گرد declare کیا ہوا ہے۔ ان کی پروپیگنڈا power بہت زیادہ ہے۔یہ لوگ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پہ بہت active ہیں۔ایسی صورت میں اگر ہم ان کو صحیح معنوں میں یہ چیز دکھا دیں تو اب بھی وہ مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں۔ چاہے atheist ہو، چاہے عیسائی ہو، چاہے ہندو ہو، چاہے پارسی ہو۔ اگر کسی کو صحیح معنیٰ میں حق نظر آ جائے تو وہ اسے قبول کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ صرف یہودیوں کا معاملہ ذرا الگ ہے، یہ بہت کٹر لوگ ہیں، اس لئے ان کے اوپر بہت کڑی محنت کی ضرورت ہے۔ آپ اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیں ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

(3)۔ گمراہ لوگوں کے سامنے صحیح بات کو لانے کے لئے وہ طریقے اختیار کرنے چاہئیں جو نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اختیار کیے۔ میں نے ایک article پڑھا تھا۔جو سیارہ ڈائجسٹ کے ”رسول نمبر“ ایڈیشن میں چھپا تھا۔ اس مضمون کا نام تھا ”مکہ کی سرد جنگ“ اس میں ایک بات یہ تھی کہ آپ ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی بات کا جواب نفی سے شروع نہیں کرتے تھے بلکہ ”نَعَمْ“سے شروع کرتے تھے۔ اس عنوان کے تحت اس مضمون کے کافی واقعات بیان کئے تھے جن میں ذکر تھا اگر کافر آپ ﷺ کے سامنے اعتراض کرتے تو آپ ﷺ جواب دیتے ہوئے پہلے فرماتے ”نَعَم“یعنی ”ہاں“۔ اس کے بعد پوری بات کرتے اور اپنا مافی الضمیر واضح کرتے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ منفی تاثر نہیں دینا چاہیے۔

میں آپ کو اس کی ایک مثال اپنی زندگی کے ایک واقعہ سے دیتا ہوں۔ جب میں جرمنی میں تھا تو ایک دن میں نماز پڑھ رہا تھا ۔میرا ایک colleague مجھے بہت غور سے دیکھ رہاتھا۔ نماز کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ میں اپنی عبادت کر رہا تھا یہ ہم مسلمانوں کی عبادت ہوتی ہے ہم پانچ مرتبہ روزانہ کرتے ہیں۔ کہنے لگا: اچھا اگر کوئی یہ نہ کرے تو کیا یہ گناہ ہے؟ اب میں نے اسے یہ نہیں کہا کہ ہاں یہ بہت بڑا گناہ ہے، بلکہ مسلمان اور کافر کے درمیان کا فرق ہی نماز پڑھنا اور نماز چھوڑنا ہے۔ کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھا جبکہ گناہ اور ثواب کا تصورایمان لانے کے بعد ہوتا ہے۔ اس لئے میرے مد نظر یہ تھا کہ پہلے اسے اسلام کی طرف attract کروں کہ ایمان لے آئے۔ ایمان لانے کے بعد اسے بتایا جائے گا کہ فلاں کام گناہ اور فلاں ثواب ہے۔ میں نے اسے کہا کہ نماز پڑھنا اتنا عظیم اور مفید عمل ہے کہ کوئی پاگل ہی اسےچھوڑ سکتا ہے۔یعنی اس وقت میں نے ایک مثبت رخ اس کے سامنے پیش کیا۔ آپ سے یہی عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جب ایسے لوگوں سے بات چیت ہو، مثبت رخ میں بات کریں۔ جب آپ اس طرح بات کرتے ہیں تو وہ آپ سے متاثر ہوتے ہیں پھر مسلمان ہوتے ہیں اور یقین مانیں یہ لوگ بڑے قیمتی مسلمان ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں اور سمجھ بھی زیادہ ہے۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دوران تبلیغ بیرون ممالک کا سفر کیا تو جرمنی بھی تشریف لے گئے تھے۔ حضرت فرماتے تھے کہ جرمن قوم اتنی زبردست قوم ہے کہ اگر یہ مسلمان ہو جائے تو یہ لوگ اسلام کے باقاعدہ مشعل بردار ہوں گے۔ یہ جہاں بھی جائیں گے اسلام کا ڈنکا بجائیں گے کیونکہ ان کے اندر بڑی صلاحیتیں ہیں۔ قریش میں بھی بہت صلاحیتیں تھیں۔ ان میں جو جو مسلمان ہوتا گیا وہ کیسا عظیم انسان بنتا گیا۔

بعض لوگ سخت مخالف ہوتے ہیں لیکن ان میں صلاحیتیں بہت اعلیٰ پائے کی ہوتی ہیں۔ اگر ایسے لوگ مسلمان ہو جائیں تو ان کی یہ سب صلاحیتیں اسلام کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کا رخ اللہ اور اس کے رسول کی رضا کی طرف ہو جاتا ہے۔ جیسے عمر بن خطاب اور عمر بن ہشام کے بارے میں آپ ﷺ نے مانگا تھا کہ یا اللہ ان میں سے ایک کے ذریعے سے اسلام کو قوت دے۔ ان دونوں میں بڑی صلاحیت تھی اور یہ دونوں قبیلہ قریش کے ذہین ترین ، بہادر اور جری افراد میں شمار کیے جاتے تھے۔ ابو جہل کا تو لقب ہی ابو الحکم تھا، اس کی ذہنی قوت بہت زیادہ تھی۔ مقابل کو ایسے technical انداز میں knock out کرتے تھے کہ وہ سنبھل نہیں پاتا تھا۔ عتبہ کفار کا ایک سردار جس کا دل اسلام کے لئے نرم ہو رہا تھا اور وہ بس مسلمان ہوا ہی چاہتا تھا، لیکن اس وقت ابو جہل نے اس پر ایک نفسیاتی حربہ آزمایا، کہا کہ اصل میں تم جنگ سے ڈر گئے ہو، اس لئے بزدلی کے مارے اسلام قبول کرنا چاہتے ہو، تم ڈرپوک ہو مرنے مارنے سے ڈر گئے ہو۔ یہ سن کر عتبہ کے دل سے وہ ساری بات نکل گئی اور وہ اپنے کفر پر جم گیا اور کہنے لگا کہ کل دیکھ لینا کون ڈرتا ہے اور کون دیوانہ وار لڑتا ہے۔ بعض لوگوں کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے۔ اگر آپ ان صلاحیت والوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور وہ آ جائیں تو بہت بڑا کام ہو جاتا ہے۔

لہٰذا ہمارا کام یہ ہے کہ ہم آج کل کے دور کے لحاظ سے پروپیگنڈا کا مقابلہ کریں اور اسلام کی دعوت کو مثبت انداز میں عام کریں۔ جو لوگ اسلام پر اعتراض کر رہے ہیں۔ احسن طریقے سے ان کے ذہن صاف کریں۔ طریقہ ایسا ہو کہ بحث کی صورت نہ بنے۔ صرف information ہو۔ کیونکہ جب بحث کی صورت بنے گی تو جدال شروع ہوگا، جدال ہوگا تو پھر بغض و عناد پیدا ہوگا۔ اور بجائے اس کے کہ اس کفر و شرک سے باہر نکلیں، دلدل کی طرح اس میں مزید گھستے چلے جائیں گے۔ تو آپ اس کو بحث نہ بننے دیں بس ایک ہلکا سا اشارہ، ہلکی سی information کی صورت میں دیں۔ اس قسم کے انداز میں کہ بس سمجھنے والے سمجھ جائیں۔ اس سے اسلام کی بڑی خدمت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے لئے قبول فرما لے۔ اللہ جل شانہ ہمیں وہ عقل و فہم عطا فرما دے جو اس کے لئے ضروری ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن