اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں انبیاء کرام کی صفات کے متعلق انبیاء کرام علیہم السلام کے علم کے بارے میں صفحہ نمبر 110 پر فرماتے ہیں کہ علم کے لغوی معنی جاننے کے ہیں، مگر ہر فن کے تعلق سے جاننے کی نوعیت اور معلومات کی حيثيت مختلف ہو گی۔ انبیاء کرام کے تعلق سے جب اس کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے طبعاً خدا کی توحید، ذات و صفات، دین و شریعت کے احکام اور اخلاقی تعلیمات مراد ہوں گی۔ اسی موضوع ميں حضرت صفحہ نمبر 111 پر فرماتے ہيں کہ اس علم سے مراد وحی موقت جو گاہ بہ گاہ انبیاء کرام پر آتی ہے، نہیں ہے۔ بلکہ وحی کے علاوہ علم کا ایک دائمی عطیہ بھی نبی ﷺ کی شان ہے۔ حضرت نے یہاں انبیاء کرام کے لئے وحی کے علاوہ جس علم کا ذکر فرمایا تھا اس کی وضاحت فرمائيں؟
جواب:
اصل میں جیسا کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ علم کا معنیٰ ہے جاننا۔ اول تو یہ ایک الگ بات ہے کہ علم کس ذریعہ سے حاصل ہوا؟ اس میں ذریعے کی بات نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ کس قسم کا علم ہے۔ پس اگر کوئی شخص سائنسدان ہے تو اس کے پاس سائنس کا علم ہے، اگر کوئی شخص ادیب ہے تو اس کے پاس اس چیز کا علم ہے، اگر کوئی شخص بہت بڑا وکیل ہے تو اس کے پاس وکالت کا علم ہے۔ اب میں اگر وکیل کو عالم کہتا ہوں تو اس کے علم کی طرف اشارہ ہو گا کہ یہ وکالت کا عالم ہے اور اگر سائنسدان کو عالم کہتا ہوں تو اس سائنس کے علم کی طرف اشارہ ہے۔ اگرچہ ہمارے عرف میں ایسی بات نہیں ہے، ہم عالم عالمِ دین کو کہتے ہیں، سائنسدان، سائنسدان کو کہتے ہیں انجینئر، انجینئر کو کہتے ہیں، ڈاکٹر، ڈاکٹر کو کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ علم کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ صرف علمِ دین کے بارے میں علم کے لفظ کا استعمال ہے۔ اس وجہ سے ہمارے عرف میں جب ہم عالم کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے علمِ دین کا حاصل کرنے والا۔ چنانچہ ہم اس کو عالم کہتے ہیں جس نے کسی مدرسے میں با قاعدہ پڑھا ہو، علم حاصل کیا ہو، درس نظامی کیا ہو تا ہے۔ بے شک کوئی کتنا بڑا عالم ہو لیکن اگر اس نے درس نظامی کے ذریعے سے علم حاصل نہیں کیا تو آج کل لوگ اس کو عالم نہیں کہتے۔ گویا عرف اس پر مبنی ہے کہ جو درس نظامی سے فارغ ہو کر عالم بنے تو وہ عالم ہے اس کے علاوہ کسی کو عالم نہیں کہتے۔ لیکن پیغمبر کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا کیونکہ پیغمبر کسی کا شاگرد نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ شاگرد استاد سے کم علم رکھتا ہے، اس کا استاد زیادہ علم رکھتا ہے، جب کہ اس میدان میں تو نبی سے زیادہ کوئی عالم نہیں ہوتا، کیونکہ نبوت کا علم تو نبی کے پاس ہی ہو گا اور جو دوسرا استاد ہو گا وہ اگر نبی نہیں ہے تو اس کے پاس وہ علم کیسے آیا؟ کیونکہ نبوت پڑھنے سے تعلق نہیں رکھتی، اس کا تعلق تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی عطا کی جاتی ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکمت دل کے اوپر جاری کی جاتی ہے، اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہاں جو حضرت نے فرمایا تھا کہ وحی کے علاوہ بھی علم ہے، وہ علم یہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حکمت جو اللہ تعالیٰ نبی کے دل اتارتا ہے اور پھر نبی کی زبان پر جاری کرتا ہے وہ ایک بہت بڑا علمی میدان ہے، جو کسی اور کے پاس نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر قرآن آپ ﷺ پر اترا ہے اور آپ ﷺ ہی اس کی تشریح فرماتے تھے، تو اب یہ تشریح کہاں اتری؟ اس کے لئے کوئی اور کتاب ہے؟ کوئی اور کتاب تو نہیں ہے۔ وہ تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اتاری گئی ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن مفصل تھا، ہمارے لئے مجمل ہے۔ مجمل سے مراد یہ ہے کہ ہمیں صرف اجمالی طور پر پتا ہے، اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے کہ کون سی آیت کس لئے ہے اور اس کا کس کس چیز کے ساتھ تعلق ہے۔ اگر ہمیں پتا ہوتا ہے تو ہم نے کسی کتاب سے پڑھا ہو گا یا کسی عالم سے سنا ہو گا۔ اور اس نے پھر کسی اور عالم سے سنا ہو گا یا کسی کتاب سے پڑھا ہو گا۔ اس نے بھی پھر کسی عالم سے سنا ہو گا یا کسی کتاب سے پڑھا ہو گا۔ اخیر میں بات صحابہؓ تک جائے گی اور صحابہ سے حضور ﷺ تک جائے گی۔ لہذا جو چیز آج ہمارے علماء کو پڑھنے سے ملتی ہے، بالآخر پتا چلتا ہے کہ وہ آپ ﷺ کے سینے پر اتری ہے۔ اس وجہ سے وحی کی دو قسم ہیں، وحی متلو اور وحی غیر متلو۔ وحی متلو تو یہی قرآن ہے جس کی تلاوت جاتی ہے۔ اور وحی غیر متلو وہ ہے جس کی تلاوت تو نہیں کی جاتی لیکن وحی تو ہے۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کسی کے دل پر اتارتا ہے، اس کو بھی وحی کہتے ہیں۔ یعنی یا تو وحی اس کو کہتے ہیں جیسے genetically کوئی چیز inforce کی جائے جیسے شہد کی مکھی کو جو وحی کی گئی تھی۔ یا پھر دل پر کوئی چیز اتاری گئی ہو جیسے آپ ﷺ کے دل پر اتاری گئی وحی۔ دوسرے پیغمبروں کے دلوں پر اتاری گئی وحی۔ نیز بعض اولیاء اللہ کے دل پر بھی اس قسم کی چیزیں اتاری جاتی ہیں جو الہام کے زمرے میں آتی ہیں۔ جیسے موسٰی علیہ السلام کی والدہ کو جو وحی کی گئی تھی جیسے قرآن میں ہے کہ ان کو بتا دیا گیا کہ ہم حفاظت کریں گے، آپ اس طرح کر لیں۔ تو یہ چیزیں وحی متلو کے علاوہ ہوتی ہیں۔ بہر حال انبیاء کرام کے پاس اس قسم کا خصوصی علم ہوتا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے لئے باہر کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا، وہ ذریعہ صرف اور صرف اس علم کا دل کے اوپر اترنا ہوتا ہے، اور عام لوگوں کو جو اس طرح کی چیز حاصل ہوتی ہے وہ اصل میں معرفت کہلاتی ہے یعنی اولیاء اللہ کے دل پہ جو بات اترتی ہے تو وہ معرفت کہلاتی ہے، جسے معارف اور علوم کہتے ہیں۔ اور ان سے وہ دوسری چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں، تشریح کرتے ہیں۔
اللہ جل شانہٗ ہم سب کو بھی وہ صحیح علوم و معارف نصیب فرما دیں جو اللہ پاک کے ساتھ ہمیں ملا دیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ