سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 528

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال نمبر 1:

السلام علیکم!

Respected حضرت I pray that you are well آمین! You have inquired about the کیفیت that I am experiencing in my current 5 minutes لطیفہ قلب مراقبہ. So, when I am doing مراقبہ whilst being focused, and this is the case on a lot of days, I used my brain to think that my heart is saying اللہ اللہ and my brain wonders of to a different thought and I realized and then I revert my focus to thinking that my heart is saying اللہ اللہ. Once or twice I recall my head feeling lighter whilst doing مراقبہ. I am pretty sure that my لطیفہ قلب location itself is not saying اللہ اللہ now. Can I hear it internally in my mind or with my physical ears? My other current ذکر is:

200 times ‘‘لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله’’

400 times ‘‘لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو’’

600 times ‘‘حَق’’

and 500 times ‘‘اللہ’’

and 5 minutes ذکر on لطیفہ قلب

جزاک اللہ خیر۔

جواب:

ابھی آپ یہی جاری رکھیں۔ لیکن آپ 500 کی جگہ 1000 مرتبہ اللہ اللہ کریں۔ باقی ساری چیزیں وہی رکھیں اور لطیفہ قلب کا ذکر آپ 5 منٹ کا ہی رکھیں۔ البتہ اس دفعہ اپنے دل کے اوپر انگوٹھا رکھ کر یہ تصور کریں کہ اس انگوٹھے کے نیچے ہی اللہ اللہ ہو رہا ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی سعودی عرب سے فلاں بات عرض کر رہا ہوں۔ آپ کے ارشاد کے مطابق مراقبہ معیّت کر رہا ہوں۔ روزانہ 20 منٹ اللہ کی طرف دھیان میں اور اللہ سے محبت میں ترقی محسوس ہے اس کے ساتھ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘ 200 مرتبہ ’’إِلَّا الله‘‘ 400 مرتبہ ’’اللہُ اللہ‘‘ 600 مرتبہ ذکر کرتا ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ! ابھی آپ یہی کریں اور اگر مراقبہ معیت کی کیفیت آپ بتا دیں تو زیادہ اچھا ہے، لیکن بہر حال اب مراقبہ معیت کی جگہ آپ اسی جگہ 20 منٹ یہ تصور کریں کہ سارا کام چونکہ اللہ پاک ہی کر رہے ہیں، تو اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے دل میں اور شیخ کے دل سے آپ کے دل پہ آ رہا ہے۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم! حضرت جی میں برونائی سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ حضرت جی مجھے جہری ذکر 200، 400، 600 اور 1000 مرتبہ (یعنی ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘، لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو، ’’حَق‘‘ اور ’’اَللہ‘‘) کے ساتھ 10 منٹ دل سے اللہ اللہ محسوس کرنے کا مراقبہ کرتے ہوئے ایک مہینہ گزر گیا۔ حضور وقفے وقفے سے دھڑکن محسوس ہوتی ہے، مگر زیادہ تر دھیان بھٹکا رہتا ہے۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ابھی آپ سب کچھ یہی کریں۔ البتہ اب آپ اللہ اللہ 10 منٹ کی جگہ 15 منٹ کر لیا کریں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم حضرت جی امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ ایک سوال تھا۔ ایک شعر ہے:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

اس شعر کو خواہ مخواہ اہلِ حق صوفیاء پر بھی چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ اس کا کیا جواب دینا چاہیے؟ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اشعار کو follow نہیں کرنا، اشعار تو مختلف ہو سکتے ہیں اور اشعار کیفیت پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ کس نے کون سی کیفیت میں پڑھے ہیں۔ تو چونکہ وہ حال کے درجے میں ہوتے ہیں لہذا جس کا جو حال ہوتا ہے اسی پر ہی صادق آتے ہیں۔ باقی لوگوں کے لئے تو وہ صرف ایک information ہوتی ہے۔ لہٰذا باقی لوگوں کے حال کا مکلف نہیں ہے۔ ہم جو خانقاہ میں آتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آتے ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا(الشمس: 9-10) کہ یقیناً کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا رذائل سے اور یقیناً تباہ و برباد ہو گیا وہ شخص جس نے اس کو ویسے ہی چھوڑ دیا۔ تو چونکہ اللہ پاک کا حکم ہے لہٰذا ہم تو اللہ پاک کا حکم پورا کرنے کے لئے خانقاہوں میں آئے ہیں اور جس وقت رسمِ شبیری کا وقت آئے گا تو وہ صرف خانقاہوں والوں کے لئے نہیں ہو گا بلکہ سب کے لئے ہو گا اور سب کو جانا پڑے گا اور خانقاہ والے ان شاء اللہ سب سے پہلے جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خانقاہ والوں کو اس کا احساس ہو گا اور اس میں فرق یہ ہو گا کہ دوسرے لوگ تو کسی بھی نیت سے جائیں گے لیکن خانقاہوں والے ان شاء اللہ صرف اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے جائیں گے اور اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے ہم خانقاہوں میں آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خانقاہوں سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب فرما دے۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! میں فلاں سعودی عرب سے بات کر رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرے ذکر کی تفصیل اس طرح ہے ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘ 200 مرتبہ، ’’إِلَّا الله‘‘ 200 مرتبہ، ’’اللہُ اللہ‘‘ 200 مرتبہ اور ’’اللہ‘‘ 100 مرتبہ ہے۔ 5 منٹ لطیفہ قلب، 5 منٹ لطیفہ روح، 5 منٹ لطیفہ سر، 5 منٹ لطیفہ خفی اور 5 منٹ لطیفہ اخفیٰ پر کائنات کی ہر چیز کا ذکر سننا اور 15 منٹ مراقبۂ حقیقتِ کعبہ۔ 2 ماہ الحمد للہ مکمل ہو گئے۔ اس مراقبے کے اثرات کی وجہ سے کثرت سے اللہ کا ذکر اور درود شریف کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ آگے ذکر کرنا چاہتا ہوں، اس کے لئے درخواست ہے۔

جواب:

فی الحال آپ ایک مہینہ اور بھی کر لیں اور آپ کتنے مراقبات کر چکے ہیں؟ اس کی تفصیل بھی بھیج دیں۔

سوال نمبر 6:

شیخ محترم میرے پچھلے ذکر کا ایک مہینے سے زیادہ وقت ہو گیا ہے۔ میرے امتحانات تھے اس لئے رابطہ نہیں کر سکی۔ میرا ذکر 500 مرتبہ زبان سے اللہ اللہ تھا اور 15 منٹ لطیفہ قلب پر اور 15 منٹ لطیفہ روح پر ذکر تھا۔ کیفیت یہ ہے کہ تھوڑا فائدہ ہوا ہے۔

جواب:

تو لطیفہ قلب اور لطیفہ روح پر جو ذکر آپ کو بتایا تھا وہ دونوں جگہ پر محسوس ہو رہا ہے یا نہیں؟

سوال نمبر 7:

السلام علیکم I am فلاں from لاہور۔ حضرت میں آپ سے 2015 سے بیعت ہوں اور میں نے 40 دن والا ذکر بھی پورا نہیں کیا تھا، میں اس کے لئے انتہائی شرمندہ بھی ہوں اور اس غلطی اور بے ادبی کے لئے بہت معافی چاہتا ہوں۔ حضرت میں دوبارہ ذکر شروع کرنا چاہتا ہوں، مجھے اجازت چاہیے۔ میں کافی عرصے سے آپ کو message کرنے کرنا چاہ رہا تھا لیکن ہمت نہیں پیدا ہو رہی تھی۔ میرے دل میں عجیب سے پریشانی اور عجیب سی کیفیت ہے۔ آخرت کا خیال مجھے بہت ڈرا رہا ہے، ایسا feel ہو رہا ہے جیسے ساری زندگی ضائع ہو گئی ہے اور بس اب کچھ بھی ہاتھ میں نہیں ہے۔ آج سے پہلے کبھی ایسی کیفیت نہیں تھی۔ میری آخرت کے لئے دعا کی درخواست ہے اور میری رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

الحمد للہ یہ سلسلے میں آپ کی قبولیت کی علامت ہے۔ اور اس طرح جب کوئی سلسلے میں قبول ہو جاتا ہے تو پھر اللہ پاک کی طرف سے رہنمائی ہوتی ہے تو یہ اللہ پاک کی رہنمائی ہے کہ آپ کے اوپر یہ حالت طاری کی گئی۔ کیونکہ سب سے بڑی بات آخرت کی فکر ہوتی ہے اس لئے کہ قرآن پاک میں 3 بنیادی پیغام ہیں۔ ایک توحید کا، دوسرا رسالت کا اور تیسرا آخرت کا۔ تو قرآن پاک کے یہ 3 بنیادی مضامین ہیں۔ آپ کو آخرت والی بات جو سمجھ میں آ گئی تو اللہ تعالیٰ اس کو اور بھی بڑھائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے اور عمل کے لئے ضروری ہے کہ شریعت پر عمل ہو اور شریعت پر عمل کرنے کو چونکہ نفس نہیں چاہتا۔ لہٰذا اس کے لئے نفس کی اصلاح ضروری ہوتی ہے اور نفس کی اصلاح کے لئے پہلے ذرا انسان کو دل کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ جب دل تیار ہو جاتا ہے تو اس کے بعد نفس پر کام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دل کی تیاری والا جو ذکر میں نے آپ کو دیا تھا 300 دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ وَ الْحَمْدُ لِلهِ وَ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَ اللهُ أَکْبَرُ‘‘ اور 200 دفعہ ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ العَلیِّ العَظِیم‘‘۔ اس کو 40 دن میں نے ایک ہی نشست میں پورا کرنے کا کہا تھا۔ لہذا روزانہ ایک وقت مقرر کر کے اس میں یہ کر لیں اور ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سبحان اللہ، 33 دفعہ الحمد للہ اور 34 دفعہ اللہ اکبر، تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار، ایک مرتبہ آیت الکرسی۔ اس کو آپ مستقل طور پر بلا ناغہ مکمل کر لیں۔ اس کے بعد جب آپ بتائیں گے تو آپ کو ان شاء اللہ اگلا سبق دے دیں گے اور رابطہ بالکل با قاعدگی کے ساتھ رکھنا ہو گا اور معمول کو پورا کرنا ہو گا، تب ہی ان شاء اللہ آپ کو مزید ترقی ہو گی۔ اللہ جل شانہ توفیقات سے نوازے۔

سوال نمبر 8 :

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی میرا 20 منٹ کا مراقبہ دل پر 1000 مرتبہ اللہ اللہ کا ایک مہینے سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ اب دل پر کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے۔ حضرت جی میں نے احوال دینے میں دیر لگا دی ہے، در اصل میں وزیرستان چلی گئی تھی جس کی وجہ سے رابطہ نہیں کر پائی۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت جی میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے، میری سانس بند ہو جاتی ہے اور جھٹکے آتے ہیں، اس دوران میرے معمولات مجھ سے کبھی کبھی رہ جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟ حضرت جی کوتاہیوں پر معافی کی طلب گار ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ! اب آپ دل والا مراقبہ 20 منٹ کی جگہ آدھا گھنٹہ کر لیں اور یہی 1000 مرتبہ اللہ اللہ زبان سے کر لیا کریں اور جب کوئی مسئلہ ہو تو معمولات کا وقت تھوڑا سا آپ آگے پیچھے کر لیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن ناغہ بالکل نہیں کرنا۔ بلکہ احتیاط کر لیں تاکہ آپ کو مستقل مزاجی نصیب ہو اور مستقل مزاجی بہت ساری کامیابیوں کا زینہ ہے۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی گزشتہ ایک ماہ کے احوال پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ بس نمازِ فجر قضا ہوئی، گزشتہ فروری سے تکبیر اولیٰ کا چِلّا ادا ہوا۔ اس کے بعد نماز جماعت سے ادا ہوتی رہی، گزشتہ ماہ دو نمازیں قضا ہوئی تھیں۔ اب آپ نے جون کے مہینے میں چھ روزوں کی تاکید کی تھی جو بڑی مشکل سے پورے ہو سکے۔ اس کے بعد ذی الحج کے چند روزے رکھنے کی توفیق ہوئی۔ حضرت جی فجر کی نماز میں بیداری میں دماغی اور جسمانی تھکاوٹ اٹھنے سے مانع ہے۔ حضرت جی اس مسئلے میں دوام و استقامت نہ ہونے کی وجہ سے بندہ سلوک شروع نہیں کر پا رہا اور چند رذائل بار بار سر اٹھاتے رہتے ہیں، ہر مرتبہ قضا نماز کے ساتھ صلوۃ توبہ اور دعا کرتا ہوں۔ ذکر 200، 200، 200، 6000 ہے، جس میں ابھی یک سوئی کم ہے۔ حضرت جی مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ذکر تو آپ یہی رکھیں اور فجر کی نماز کے لئے آپ کوئی ترتیب بنا لیں، کیوں کہ جب تک آپ کا یہ hurdle رہے گا تو آگے ترقی کرنا آپ کے لئے مشکل ہو گا۔ لہٰذا سب سے پہلے اسی کو یقینی بنائیں کہ آپ کی صبح کی نماز قضا نہ ہونے پائے اور اس کی وجہ آپ مجھے تین دن کے اندر اندر بتائیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ سستی والی کوئی بات نہیں ہے۔ سستی کیوں ہے؟ یہ تھوڑا سا بتا دیں۔ جسمانی تھکاوٹ کیوں ہے؟ آپ دیر سے سوتے ہیں؟ یعنی اس کی اصل وجہ معلوم کر لیں پھر مجھے بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت صاحب آپ کے حکم کے مطابق میری اور اہلیہ کی تسبیحات جاری ہیں۔ الحمد للہ نماز کے ساتھ موکدہ سنت اب تواتر سے پڑھنے لگا ہوں اور طبیعت کی سستی بھی کم ہوئی ہے اس کے لئے جو آپ نے روزانہ 1000 مرتبہ درود کی تسبیح بتائی تھی وہ بھی کر رہا ہوں اور اس کے ساتھ روزانہ 10 منٹ اسم اللہ کا مراقبہ بھی جاری ہے۔ درج ذیل سوال میری اہلیہ کی جانب سے ہیں۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت صاحب آپ کے حکم کے مطابق 40 دن کی تسبیحات مکمل ہونے کے بعد پچھلے دس دن سے میں تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار کی ایک تسبیح اور اسم اللہ کا مراقبہ کر رہی ہوں۔ میری کیفیت یہ ہے کہ مجھے شدید غصہ آتا ہے، بے چینی اور چڑچڑے پن کا سامنا ہوتا ہے، خصوصاً مراقبے کے دوران اور بعد میں انتہائی نا امیدی اور غصہ کی کیفیت ہوتی ہے۔ کیونکہ مجھے دس دن مراقبے کے با وجود کوئی تصور قائم نہیں ہو رہا، اضطراب کی کیفیت اتنی شدید ہے کہ دل اور دماغ یہ رستہ چھوڑنے پہ اصرار کرتے ہیں کہ یہ میرے لئے بہت مشکل ہے۔ میرے لئے خصوصی رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

میں آپ کو ایک صاف بات بتا دوں کہ شیطان تو آپ کو کبھی بھی اس کے لئے نہیں چھوڑے گا۔ اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ شیطان مجھے چھوڑ دے تو اس کے لئے تو میں کہہ سکتا ہوں ورنہ شیطان کا کام تو ہی یہی ہے، اس نے تو کہا ہے کہ میں دائیں سے آؤں گا، بائیں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا، تو ان میں سے بہت کم کو شکر گزار پائے گا۔ تو اللہ پاک نے آپ کو جو یہ رستہ دیا ہے اس پہ سب سے پہلے شکر کریں تا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ یہ مزید عطا فرمائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ چڑچڑا پن، بے چینی اور غصہ اگر اس لئے ہے کہ یہ ہو نہیں رہا تو یہ غلط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تو قسمت والوں کو بڑی محنت سے ملتا ہے۔ لہذا اس کے لئے کوشش کرنا ہمارا کام ہے، آگے اللہ کی طرف سے کیا عطا ہوتا ہے یہ اس کا کام ہے۔ ہمارا کام تو جھولی پھیلانا ہے وہ اس میں جس وقت خیر ڈالے وہ اس کی مرضی ہے۔ اسی طرح نہ ہوتے ہوتے ہونا شروع ہو جاتا ہے، تو یہ صرف آپ کی بات نہیں ہے، بلکہ ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کا تجربہ آپ کو بتا رہا ہوں کہ ایسے ہی ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا، نہیں ہوتا، نہیں ہوتا، پھر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لہذا آپ کا کام یہی ہے کہ آپ اس کے لئے تیاری کر کے بیٹھ جائیں اور جیسے میں نے آپ کو بتایا ہے کہ اس کے لئے آپ اس طرح بیٹھیں کہ آپ سوچیں کہ ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے۔ جو کہ fact ہے۔ اور پھر اس کے بعد میرا دل بھی ایک چیز ہے، اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، صرف تصور کرنا ہے۔ جیسے تصور میں انسان کوئی بات سمجھ رہا ہوتا ہے۔ جیسے میں اس وقت راولپنڈی میں بیٹھا ہوں، تو کیا میں مسلسل کہہ رہا ہوں کہ میں راولپنڈی میں ہوں، راولپنڈی میں ہوں۔ میں اس طرح کہتا تو نہیں ہوں اور نہ ہی کہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن راولپنڈی میں تو ہوں، مجھے پتا ہے، اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں بتا دوں گا کہ میں راولپنڈی میں ہوں۔ یعنی میرے ذہن کے اندر یہ چیز موجود ہے۔ اسی طرح آپ کے ذہن میں یہ بات موجود ہونی چاہیے کہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کو یاد کر رہی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرا دل بھی ایک چیز ہے۔ یہ بھی آپ کے ذہن میں ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے اور میرے دل کے کان اس کو سن رہے ہیں۔ بس یہ تین چیزیں آپ نے اپنے ذہن میں رکھنی ہیں، کروانا نہیں ہے اور نہ ہی آپ کروا سکتی ہیں، نہ میں کروا سکتا ہوں۔ لیکن ہو سکتا ہے، جب بھی ہو گا ہو جائے گا۔ اس وجہ سے آپ بس اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتی رہیے، آگے کام اللہ پاک کا ہے، چڑچڑے پن کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ تو جب اللہ پاک دے گا تو دے دے گا، کیونکہ ہم محتاج ہیں، ہم کسی چیز کے مستحق نہیں ہیں۔ صرف اللہ پاک کے فضل سے ہی ہوتا ہے۔ بس آپ اتنا کر لیں، ان شاء اللہ العزیز آگے اللہ پاک کی مدد ہو گی۔ باقی آپ کے میاں نے ما شاء اللہ سنت موکدہ شروع کر لی یہ بہت بڑی بات ہے اور طبیعت میں سستی بھی کم ہو گئی یہ بھی بڑی اچھی بات ہے۔ اور درود شریف والے ذکر کو فی الحال جاری رکھیں اور 10 منٹ اسمِ اللہ کا جو مراقبہ ہے وہ بھی جاری رہے اور تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کا جو 100 100 دفعہ ذکر بتایا تھا۔ یہ بھی آپ شروع فرما لیں۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت کشف اور چھٹی حس میں کیا فرق ہے؟ اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے اور آپ کے والدین سے راضی ہو۔

جواب:

کشف تو ایک ایسی چیز ہے کہ جیسے انسان کو بغیر ظاہری اسباب کے کوئی چیز حاصل ہوجائے، جیسے آنکھ سے دیکھنا ہوتا ہے، کان سے سننا ہوتا ہے اور زبان سے بولنا ہوتا ہے۔ تو ان تینوں ذرائع میں سے کوئی ایسی چیز ہو جو سننے سے حاصل ہوتی ہو یا دیکھنے سے حاصل ہوتی ہو، لیکن وہ آپ کو ویسے ہی پتا چل جائے۔ یعنی آپ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے، آنکھیں آپ نے بند کر لی ہیں پھر بھی آپ کو نظر آ رہا ہے۔ تو یہ کشف ہے اور بعض دفعہ دل میں کسی چیز کا خیال آتا ہے کہ یہ ہونے والا ہے اور وہ ہو جاتا ہے، یہ بھی کشف کی ایک صورت ہے۔ اور بعض دفعہ کچھ علمی بات دل پہ اترتی ہے وہ الہام کے قبیل سے ہوتی ہے۔ تو یہ سب چیزیں Normal means کے ذریعے سے نہیں ہیں بلکہ کچھ Internal means ہیں ان کے ذریعے سے یہ چیزیں ہوتی ہیں۔

لیکن ہمیں اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ یہ مقصود نہیں ہے۔ تو جو چیز مقصود نہیں ہے، ہم اس کے پیچھے کیوں پڑیں، جس کو اللہ نے دینا ہو گا اس کے جانے بغیر دے دے گا، اُس کو اِس کشف کا کچھ بھی پتا نہیں ہو گا، نہ کسی کتاب میں پڑھا ہو گا، نہ کسی عالم نے بتایا ہو گا اور نہ کسی استاذ نے۔ لیکن اس کو ہونے لگے گا، جب ہونے لگے گا تو پھر وہ خود ہی دوسروں کو بتائے گا کہ یہ کیا چیز ہے۔ لہٰذا اس کے لئے کوئی علمی موشگافیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک چھٹی حس کا تعلق ہے تو یہ نفسیاتی ماہرین کی تحقیقات ہیں کہ انسان کو 5 حواسں کے علاوہ غیر معروف ذرائع کے ذریعے سے کسی چیز کا خطرہ محسوس ہونے لگے کہ alarming انداز میں یہ ہو رہا ہے تو وہ چھٹی حس کہلاتی ہے۔

مثال کے طور پر دشمن کسی پہ حملہ کر رہا ہو اور یک دم کسی کو احساس ہو رہا ہے کہ دشمن میرے اوپر کہیں حملہ نہ کر دے۔ اب یہ جو اس کے ذہن میں آیا ہے، نفسیاتی ماہرین اس کو چھٹی حس کہتے ہیں۔ لیکن ہم لوگ اس کو چھٹی حس کہنے کی بجائے کہتے ہیں کہ اگر یہ مومن ہے تو اس کو اللہ کی طرف سے الہام ہوا ہے۔ اور شیطانی الہام بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے جسم کے اندر کچھ خفیہ چیزیں طاقتیں ہوتی ہیں جن کا اس کو خود بھی پتا نہیں ہوتا وہ activate ہو جاتی ہیں اور وہ اس کو information دے دیتی ہیں۔ یہ چیزیں بھی ممکن ہیں اور کئی لوگوں کے ساتھ ہوئی ہیں، کافروں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں۔

اس لیے یہ کوئی نا ممکن بات نہیں ہے۔ باقی مجھے تو ان چیزوں کے ساتھ مناسبت ہی نہیں ہے اس وجہ سے میں تو اس پہ زیادہ بات کر بھی نہیں سکتا۔ ہاں اگر آپ کسی ایسے آدمی کے ساتھ ملیں جو ان چیزوں میں غرق پڑا ہو تو وہ شاید آپ کو بہت ساری کہانیاں بتا دے، لیکن کہانیوں کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہمیں یہ چیزیں چاہئیں۔ جتنا اللہ نے قرآن و سنت کے مطابق دے دیا وہ بہت بڑی بات ہے الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے علمائے حق کے ذریعے سے جو ہم تک پہنچا ہے یہ بہت بڑی بات ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے ہم زیادہ کشف نہیں حاصل کر سکتے، وہ بہت بڑے کشفی بزرگ تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جن کو کشف نہیں ہوتا ان کی معرفت زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کے ذرائع پکے ہیں یعنی قرآن و سنت۔ جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی کشف بہت ہوتا تھا اور اپنے کشف آپ بتاتے بھی ہیں کہ اس طرح ہوا، اس طرح ہوا۔ لیکن اخیر میں ایک بات بتاتے کہ الحمد للہ میرا کشف ہے عین قرآن اور سنت کے مطابق ہے۔ اس کا مطلب ہے اصل تو قرآن و سنت ہے۔ تو اگر کسی کو کشف کے بغیر وہ سمجھ میں آ جائے اور اس پر اگر یقین بھی آ گیا اور اس کو پتا بھی چل گیا تو اس کو مقصود حاصل ہو گیا، پھر اس کے بعد اس کو کشف کی کیا ضرورت ہے؟ البتہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اس وجہ سے ضرورت تھی کہ حضرت نے ان چیزوں کو clear کرنا تھا اور ایسے لوگوں کو جو ان چیزوں کی وجہ سے پھنسے ہوئے تھے ان چیزوں کے رستے سے ان کو clear کر دیا۔ یعنی اس رستے پہ ان کو لا کے کہہ دیا کہ دیکھو وہی چیز ہے جو قرآن و سنت بتا رہے ہیں، کوئی مختلف چیز نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس سے یہ کام لے لیا، لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہی نہیں کہ ہم نے کون سا مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ والا کام کرنا ہے، وہ تو ہم نے نہیں کرنا، وہ تو حضرت کر چکے ہیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بہت بلند فرمائے) کا ایک نتیجہ اکثر یاد رکھتا ہوں۔ فرمایا جو مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے معارف ہیں، وہ ان کے معارف ہیں ہمارے نہیں ہیں۔ باقی جو عقیدے کی باتیں ہیں وہ علمائے حق نے الحمد للہ صاف کر دی ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ صحیح عقیدہ کون سا ہے۔ اس کے لئے ہمیں کسی اور ذریعے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی بتاتے ہیں۔ کیا کشف سے انہوں نے اپنے عقیدے معلوم کئے تھے؟ ظاہر ہے قرآن اور سنت سے ہی معلوم کئے تھے، اس وجہ سے عقیدوں کے لئے تو کسی اور کی چیز کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تو عقیدے ہمیں علماء سے حاصل ہوتے ہیں۔ تیسری چیز اپنی اصلاح نفس ہے، وہ ضروری ہے اس میں ان کے تجربات سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور مزید تجربات بھی ہو سکتے ہیں، لہٰذا اسی پہ ہمیں کام کرنا چاہیے۔ کتنی آسانی کے ساتھ حضرت نے یہ فرما دیا۔ اب اگر میں حضرت کے معارف کے اندر گھستا ہی جاؤں اور اصل کام مجھ سے رہ جائے یعنی اپنی اصلاح یا دوسروں کی اصلاح کا کام بھی حوالے ہو سکتا ہے۔ تو اگر میں ان کاموں کو چھوڑ دوں جو ضروری ہیں اور جن کا مجھ سے پوچھا جائے گا اور میں وہ کام کروں جن کا مجھ سے پوچھا نہیں جائے گا۔ تو کیا ہو گا؟ دیکھو حضرت مجدد صاحب کے معارف چاہے مجھے پتا بھی چل جائیں اور صحیح معلوم بھی ہو جائیں تو یقیناً وہ میرے معارف تو نہیں ہیں وہ تو حضرت کے مجدد صاحب کے ہیں، مجھے تو صرف ان کا علم ہو رہا ہے۔ گویا وہ میرا مشہود نہیں ہیں مجھے معلوم ہیں۔ مشہود اور معلوم میں فرق ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے مشہود تھے، ہمارے لئے معلوم ہیں۔ اور معلوم تو ہمیں قرآن و سنت کے ذریعے سے بھی ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ تو ہمیں کشفی چیزوں کے اندر گھسنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ہم سے مطالبہ نہیں ہے، تو جس چیز کا ہم سے مطالبہ نہ ہو، ہم اسی میں غلطاں پیچاں رہیں اور جس چیز کا ہم سے پوچھا جائے گا، کون سی چیز کا پوچھا جائے گا؟ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ کیا پوچھا جائے گا۔ پہلا یہ کہ تو نے اپنی زندگی کیسے استعمال کی؟ دوسرا یہ پوچھا جائے گا کہ مال کیسے کمایا؟ تیسرا یہ کہ اپنا مال کیسے خرچ کیا؟ چوتھا یہ کہ اپنا علم کیسے استعمال کیا؟ پانچواں یہ کہ اپنا جسم کیسے استعمال کیا؟ لہذا ان 5 سوالوں کے لئے تیاری کرو۔ ظاہر ہے ہم سے یہی پوچھا جائے گا، لہذا اپنی پوری زندگی میں یہ monitor لگا دو کہ میری زندگی کس طرح استعمال ہو رہی ہے، میرا جسم کیسے استعمال ہو رہا ہے، میرا مال کیسے کمایا جا رہا ہے، کیسے خرچ ہو رہا ہے، علم کیسے استعمال ہو رہا ہے۔ کیونکہ علم مناظروں کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے، یعنی اپنی فوقیت اور مقام جتانے کے لئے اور اپنے آپ کو عالم ظاہر کروانے کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے، جو کہ استعمال صحیح نہیں ہے۔ اور یہ بڑا عجیب شغل ہے، کہتے ہیں پوچھا گیا کہ مناظرہ کیا ہوتا ہے۔ جواب ملا کہ علماء کے درمیان جو مناظرہ ہو رہا ہے اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ یعنی فیصلہ عوام پہ چھوڑنا ہے۔ اب یہ کوئی چیز ہے؟ گویا اگر میں کوئی کام اس لئے کروں کہ عوام مجھے بہت واہ واہ کہہ دے۔ بتایئے میں نے کیا کما لیا؟ بس واہ واہ کما لی؟ تو واہ واہ کو میں قبر میں لے جا کے کیا کروں گا؟ اس کا تو مجھے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے مجھے للہیت چاہیے، مجھے سنت کی اتباع چاہیے، مجھے اس میں اخلاص چاہیے۔ بس یہی ہمارا کام ہے، اس کے کرنے کے لئے جتنے بھی ذرائع ہیں ان ذرائع کو استعمال کرو۔ باقی ان چیزوں کو چھوڑ دو۔ کہتے ہیں اگر کسی نے اپنے شیخ کا مزاج نہیں سمجھا تو بہت کچھ رہ گیا، مزاج سمجھنا چاہیے کہ شیخ کا مزاج کیا ہے۔ میرے خیال میں اس سے بہت آسانی ہو جاتی ہے۔ کافی مسئلہ حل ہو جاتا ہے ورنہ پھر اس قسم کی چیزیں سوجھتی ہیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس امید ہے مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ الحمد للہ حضرت کی تعلیمات سے بندہ کو بے حد نفع ہو رہا ہے، پچھلے سوموار کو پردے کے بارے میں جو ارشادات عرض کئے، اس میں بندہ کے نفس میں بہت کشمکش پیدا ہوئی کیونکہ اب تک بندہ اس طرح عمل نہیں کرتا تھا کہ اقرباء کہیں گے کہ ملا جی کا پردہ کہاں گیا۔ ایسے ہی دیگر خیالات دل میں آ رہے تھے لیکن دل کو سمجھایا کہ عمل وہی کروں جو حضرت نے بتایا۔ بالآخر عمل حضرت ہی کی تعلیم پر کیا الحمد للہ۔

جواب:

اللہ کا شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید کی بھی توفیق عطا فرمائے اور استقامت نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت جی اللہ پاک سے آپ کی صحت و تندرستی کے لئے دعا گو ہوں۔ میرا ذکر مکمل ہو گیا ہے 200، 400، 600 اور 13000 مرتبہ اللہ اللہ کا ذکر۔ اس میں کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ البتہ اس ذکر کے دوران جسم میں بے چینی اور درد پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بار بار ٹانگوں کو حرکت دینی پڑتی ہے اور یکسوئی کی کمی ہے۔ 5 منٹ کا مراقبہ کہ اللہ پاک کو محبت سے دیکھنا ہے۔ اس میں ناغہ ہے اور 10 منٹ کا مراقبہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ (البروج: 16) کا ہے۔ اس میں 3 ناغے ہیں۔ حضرت جی کل میں نے بھیڑ کی قربانی کی ایک video دیکھ لی، اس کے بعد سے طبیعت میں بہت بے چینی اور اضطراب ہے۔ اگرچہ توبہ بھی کی اور صلوٰۃ التوبہ تو با قاعدہ ادا کرتا ہوں۔ پھر بھی طبیعت بے چین ہے۔ حضرت جی پچھلے ہفتے کے بیان میں آپ نے ’’پاس انفاس‘‘ کے ذکر کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا۔ کیا یہ ذکر مجھے مل سکتا ہے؟ مزید عنایت کی درخواست ہے۔ اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے آمین۔

جواب:

یہ 200، 400، 600 اور 13000 کا جو ذکر ہے اس کو اب 200 400 600 اور 13500 کر لیں۔ باقی وہی جاری رکھیں اور دوسری بات یہ ہے کہ جب کبھی ڈاکٹر کے پاس آپ کو جانا ہو تو ان کو بتا دیجئے گا کہ ازراہِ کرم مجھے فلاں دوائی دے دیجئے گا۔ بس وہ جو آپ کو بتائیں گے، ان شاء اللہ میں بھی عرض کروں گا۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم حضرت!

I wanted to say that I didn't fast this month. I face two difficulties; one is that it is very difficult to rise up so early and do سحری. But this can be overcome through will power I know. But the other difficulty is that I don't want anyone to know I am fasting for this purpose because I just don't like to be praised. I just want to hide it because my mother, if I ask her to cooperate with me, accidentally tells every guest and people on the phone which makes me very curious. Please tell me the solution.

جواب:

یہ جو آپ نے نفلی روزے نہیں رکھے اگر آپ ان کی بات کر رہی ہیں تو ٹھیک ہے، نفلی روزے نفل ہوتے ہیں۔ مختلف عوارض کی وجہ سے اگر کوئی نہ رکھے تو محرومی تو یقیناً ہے کیونکہ ان سے جو ثواب مل سکتا تھا وہ تو نہیں ملا، لیکن آپ سے چونکہ اللہ کا مطالبہ نہیں ہے تو میں بھی مطالبہ نہیں کر سکتا، وہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ باقی یہ بات تو آپ کی صحیح ہے کہ اپنے آپ کو تعریف سے بچانا چاہیے کہ لوگ تعریف کریں۔ البتہ accidentally اگر لوگ کسی چیز کو جان لیں اور وہ خود تعریف کر دیں تو جس چیز کی آپ نے کوشش نہ کی ہو اس پہ آپ کا کوئی مواخذہ نہیں ہے کیونکہ آپ نے اس کے لئے کوشش نہیں کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آئندہ کے لئے اگر اس قسم کے روزوں کا مسئلہ آ جائے تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ روزوں کے لئے سحری کوئی فرض یا واجب نہیں ہے، ہاں بہتر ہے، اس کا ثواب ضرور ہے لیکن اس کے بغیر بھی روزہ ہو جاتا ہے۔ پس اگر آپ سونے سے پہلے جتنا کھانا کھا پی سکتی ہیں آپ کھا پی لیں اور سو جائیں اور پھر اگر آپ نے روزہ رکھ لیا تو روزہ ہو جائے گا۔ لیکن صرف آپ کو سحری کا ثواب نہیں ملا، اگر آپ سحری کا ثواب حاصل کرنا چاہتی ہیں تو آپ اس وقت اٹھ جائیں اور صرف پانی بھی پی لیں تو آپ کو سحری کا ثواب مل جائے گا۔ اس کے لئے مزید کھانے کا مطالبہ نہیں ہے۔ اور اگر آپ کچھ کھانا ہی چاہتی ہیں تو ضروری نہیں کہ cooking کی ہوئی چیز ہو۔ آپ کوئی ایک توس کھا لیں، اس کے بعد پانی پی لیں یا کوئی دودھ کا cup پی لیں، جس کے لئے cooking کی ضرورت نہیں پڑتی، اس طرح ما شاء اللہ شہد ہے، شہد بھی Full diet ہے، چنانچہ اگر آپ کے پاس شہد ہے تو اس کو توس کے اوپر لگا کے کھا لیں اور اس کے بعد پانی پی لیں یا دودھ پی لیں یا juice پی لیں۔ تو یہ بھی کافی ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس کے لئے کچھ زیادہ اہتمام کرنا پڑے اور میرا تو خیال ہے کہ خواتین اس مسئلے میں کافی آگے ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان کی طبیعت روزوں کے ساتھ زیادہ مانوس ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ خواتین کے معدے مرطوب ہوتے ہیں، لہذا ان کے لئے روزہ آسان ہے، ان کے لئے نماز مشکل ہوتی ہے اور مردوں کے لئے روزہ مشکل ہوتا ہے، نماز آسان ہوتی ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ اور مرد واقعی عورتوں سے زیادہ کھاتے ہیں، چونکہ ان کو چلنا پھرنا زیادہ ہوتا ہے اس لئے میرے خیال میں شاید زیادہ کھاتے ہیں۔ اور ویسے بھی جسم کی growth کے حساب سے خوراک ہوتی ہے مثال کے طور پر 6 فٹ کے قد والا زیادہ کھائے گا بمقابلہ 5 فٹ قد والے کے، جو ایک فطری بات ہے۔ تو چونکہ مردوں کے قد ذرا زیادہ ہوتے ہیں اس لئے مردوں کا معدہ بھی بڑا ہو گا میرے خیال میں۔ اس وجہ سے زیادہ کھا سکتے ہیں۔ لہذا آپ اس میں سستی نہ کریں، کیونکہ اگر آپ یہ کرنا چاہیں تو آپ کر سکتی ہیں۔ ان شاء اللہ العزیز۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم!

میں مراقبہ حقیقتِ کعبہ کر رہا ہوں۔ مراقبہ حقیقتِ صلوٰۃ اور مراقبہ حقیقتِ قرآن میں نے نہیں کئے۔ میرے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:

گویا مراقبۂ حقیقت کعبہ آپ کر رہے ہیں اور مراقبہ حقیقتِ صلوٰۃ اور مراقبہ حقیقتِ قرآن آپ نے نہیں کیا۔ تو اب آپ مراقبہ حقیقتِ صلوٰۃ شروع کر لیں اور اس کے لئے ہمارے شیخ کی کتاب ’’سلوک سلیمانی‘‘ جو net پر بھی موجود ہے اور آج کل ہفتے کے دن ہمارے ہاں جو بیان ہو رہے ہیں ان میں پڑھی جا رہی ہے، جو آخری دو تین بیان ہوئے ہیں وہ نماز کی حقیقت کے بارے میں ہیں، وہ آپ پڑھ لیں۔ اور پھر نماز میں اس حقیقت کو پانے کی کوشش کریں اور ساتھ یہ محسوس کریں کہ اس حقیقتِ صلوٰۃ کا جو فیض ہے وہ آپ ﷺ کے قلب مبارک پہ آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے میرے شیخ کے دل میں آ رہا ہے اور میرے شیخ کے دل سے میرے پورے جسم پہ آ رہا ہے۔ میرے خیال میں ان شاء اللہ العزیز آپ کو اس کا فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر 16:

محترم شاہ صاحب السلام علیکم! عیسائی ملازمہ سے گھر میں کھانے کے برتن وغیرہ دھلوانا کیسا ہے، کیا استعمال سے پہلے کھنگال لینا چاہیے؟

جواب:

جتنی دوائیاں Europe سے آ رہی ہیں کیا پہلے ان کو دھونا چاہیے؟ در اصل اس میں صفائی کی ضرورت ہوتی ہے اگر صفائی ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ میں آپ کو ایک بڑا عجیب واقعہ سناتا ہوں۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان تھا، ان کے بیان کے لئے لوگ دور دور سے آتے تھے، حتیٰ کہ نہرو بھی حضرت کا قرآن سننے کے لئے آتے تھے۔ حضرت کا بیان تھا، منتظمین حضرات اس میں مشغول تھے، جب بیان ہو گیا اور کھانا لگ گیا تو دور ایک sweeper کھڑا تھا جو صفائی پر مامور تھا اس کو حضرت نے اشارہ کیا کہ آ جاؤ۔ اس نے کہا حضرت کیا مسئلہ ہے؟ فرمایا: ہمارے ساتھ کھانا کھا لیں، آپ کیوں اتنی دور بیٹھے ہیں؟ اس نے کہا میں آپ کے ساتھ کھانا کھاؤں؟ حضرت نے فرمایا دیکھو آپ کے ہاتھ استعمال ہوئے ہیں ناں تو ہاتھوں کو اچھی طرح دھو لو، اس کے بعد کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے دھلوا دیئے اور پھر اس کو اپنے ساتھ بٹھایا اور ایک پلیٹ میں کھانا کھلایا، ایک طرف سے حضرت کھا رہے ہیں اور دوسری طرف سے وہ کھا رہا ہے، یوں کھانا لیا۔ اب حضرت تو مہمانوں کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف ہو گئے۔ جب سب لوگ چلے گئے تو دیکھا کہ وہ sweeper آیا اور اس نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ حضرت فلاں درخت کے نیچے میری بیوی بھی ہے، بچے بھی ہیں، ہم سب مسلمان ہونا چاہتے ہیں، آپ ہمیں مسلمان کر لیں۔ پھر اس کے بعد وہ سارا خاندان مسلمان ہو گیا۔ لہذا یہ تالیفِ قلب ہے، اگر ہم لوگ ان سے نفرت کریں گے تو وہ کبھی بھی قریب نہیں آ سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے طریقے اپنے اندر نہیں لانے چاہئیں، اس بارے میں تو محفوظ ہونا بہت ضروری ہے، لیکن بطورِ انسان ان سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اور اگر ان کے ہاتھ صاف ہوں تو وہ صاف ہاتھوں سے برتن دھو سکتے ہیں، کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ آخر ہر آدمی toilet میں استنجا کرتا ہے۔ تو جب استنجا کرتا ہے اور اس کے بعد جب وہ دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو دونوں ہاتھ آپس میں مل جاتے ہیں، پھر ان ہاتھوں سے وہ کھانا کھاتا ہے یا نہیں کھاتا؟ لہذا دھونے سے صاف ہو جاتے ہیں، تب ہی تو کھاتا ہے ورنہ اگر نہ دھوئے تو وہ اپنے ہاتھوں سے بھی نہیں کھا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دھونا ہی بنیاد ہے۔ باقی جہاں تک ایمان کی بات ہے تو ان کے ایمان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ (البقرۃ: 256) لہذا دین میں ہم جبر نہیں کر سکتے، البتہ ترغیب دے سکتے ہیں، ترغیب دینی چاہیے اور نفرت کی بجائے ان کو قریب کرنا چاہیے۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم حضرت جی امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ ایک سوال یہ تھا کہ یہ جو شعر ہے کہ:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

اس کو خواہ مخواہ اہلِ حق صوفیاء پر بھی چسپاں کر دیا جاتا ہے اس کا کیا جواب ہونا چاہیے؟ رہنمائی چاہیے۔

جواب:

ہم خانقاہوں میں اللہ کے لئے آئے ہیں اور اپنے نفس کی اصلاح کے لئے آئے ہیں اور یہ اللہ کا حکم ہے، اللہ پاک نے قرآن پاک میں اس کے لئے فرمایا ہے: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ‎(الشمس: 9-10) تو اپنے نفس کے تزکیہ کے لئے جو ذرائع ہیں ان کو ہمیں استعمال کرنے کا حکم ہے۔ جیسے workshop میں کوئی جاتا ہے جہاں وہاں گاڑی کو ٹھیک کرنے کے ذرائع اور اوزار موجود ہوتے ہیں، وہاں mechanic موجود ہوتا ہے، اسی لئے ہی ہم workshop جاتے ہیں ورنہ workshop کی بجائے کسی جگہ چلے جاتے۔ لہذا اگر صحیح خانقاہ ہو جس میں نفس کی تربیت ہو سکتی ہے تو وہاں بھی اس قسم کا نظام موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم نفس کی تربیت کے لئے آئے ہیں جو اللہ پاک کا ایک حکم ہے۔ اور خانقاہ سے اللہ کے حکم سے ہی باہر نکلیں گے، چنانچہ اگر جہاد کی ضرورت پڑ گئی تو سب سے پہلے خانقاہوں والوں کو نکلنا ہو گا کیونکہ اگر وہ اللہ کے لئے آئے ہیں تو جب اللہ پاک کا حکم ہو گا تو اللہ کے لئے جائیں گے بھی۔ ہاں فرق یہ ہو گا کہ دوسرے لوگ جو جائیں گے تو عین ممکن ہے کسی اور نیت سے جائیں گے لیکن جو صحیح خانقاہوں والے ہوں گے وہ بالکل اللہ پاک کو راضی کرنے کی نیت سے جائیں گے۔ اس وجہ سے بلا وجہ خانقاہوں سے نکلنا بھی نہیں چاہیے اور اگر ضرورت پڑے تو پھر ان میں رہنا بھی نہیں چاہیے۔ ہر ایک چیز subject to condition ہے۔ اصل میں آج کل ان چیزوں پر اعتراض کرنے کا ایک fashion بنا ہوا ہے کہ نہ خود کریں گے نہ دوسروں کو کرنے دیں گے، یہ ترتیب کچھ ایسی بنی ہوئی ہے۔ جیسے قربانی کے بارے میں ہے لوگ کیا کیا کہتے ہیں؟ اسی طرح نفلی حج کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ آپ حج کرنے کی بجائے کسی غریب کے گھر کا طواف کر لیں۔ حالانکہ اس میں مقابلے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ بھی اچھے کام ہیں ضروری ہیں اور یہ بھی اچھا کام ہے۔ آپ دو اچھے کاموں کا مقابلہ کیوں کر رہے ہو؟ برے کام اور اچھے کام کا مقابلہ کر لو کہ برے کام نہ کرو۔ برے کام یہی ہیں کہ آپ فضول اڑا رہے ہیں جیسے قرآن پاک میں ہے: ﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ( الإسراء: 27) شادی میں جو اتنا فضول خرچ کر رہے ہیں، آپ نے جو 70، 80 ہزار روپے کا mobile لیا ہے، اس پہ اتنا زیادہ فضول خرچ کر رہے ہیں، اس کو کم کر لو۔ اسی طرح اگر آپ کے گھر کے اندر 3 صوفے رکھے ہیں اور ایک صوفے سے کام ہو سکتا ہے تو یہ دو صوفے بیچ دو۔ لہذا یہ چیزیں غریبوں کو دے دو۔ یہ کون سا طریقہ ہے کہ آپ حج نہ کرو غریبوں کو دے دو۔ آپ قربانی نہ کرو غریبوں کو دے دو۔ تو یہ آج کل fashion بنا ہوا ہے، اس میں لوگ اپنے آپ کو خراب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

سوال نمبر 18:

حضرت چشتی، قادری اور سہروردی سلاسل میں ابتدا نفس سے ہوتی تھی اور نقشبندی سلسلہ میں ابتدا دل کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ لیکن دل کے بارے میں بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ مستقل نہیں ہوتا۔ تو تیسرا جو عقل کا لطیفہ ہے کیا اس سے بھی اصلاح کی ابتدا ہو سکتی ہے؟

جواب:

جی یہ بالکل By default ہے یعنی اس کے اندر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ آپ نفس سے جو کر رہے ہیں اس کے لئے بھی آپ کی عقل استعمال ہو رہی ہے اور آپ دل کے لئے جو چل رہے ہیں اس کے لئے بھی آپ کی عقل استعمال ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے تو convincing ہوتی ہے تو جو convinced ہے وہ عقل کا استعمال کر رہا ہے۔

سوال نمبر 19:

حضرت جی یہ شاعرِ مشرق کا شعر ہے

یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور

تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

جواب:

اصل میں سب سے پہلے تو ہمیں خودی کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کیا ہے۔ ہم خود کچھ نہیں کہتے بلکہ ہم علامہ اقبال کے استاذ اور پیر سے پوچھتے ہیں کہ خودی کیا چیز ہے۔ علامہ اقبال نے خود کہا ہے کہ میرے پیر و استاذ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ تو مولانا روم رحمۃ اللہ خود کہتے ہیں:

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

ختم شد و اللہ اعلم بالصواب

یعنی بے خودی حاصل کر نے کے لئے کوشش کرو۔ یعنی فنائیت حاصل کرو، اپنے سے نظر ہٹاؤ۔ پھر اس کے ذریعے سے آپ اپنے آپ کو پہچان لو گے ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ یہ وہی بات ہے۔ جب اپنے آپ کو پہچان لو گے تو پھر بات ختم ہو گئی۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اتنی سی بات ہے۔ تو یہ جو علامہ اقبال نے کہا ہے، در اصل لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہوئی ہے۔ علامہ اقبال نے اس کو مجموعی طور پہ قوم کے لئے کہا ہے اور لوگوں نے اس کو فرد کے اوپر منطبق کر دیا۔ فرد کے لئے غلط ہے قوم کے لئے صحیح ہے۔ قوم کے احساسِ کمتری کو دور کرنے کے لئے کہا ہے۔ احساسِ کمتری کے مقابلے میں عزتِ نفس ہے اور اپنی خودی ہے۔ تو یہ Positive sense میں قوم کے لئے ٹھیک ہے، لیکن فرد کے لئے ٹھیک نہیں ہے کیونکہ فرد اس سے خود داری کی طرف نہیں جاتا وہ تکبر کی طرف جاتا ہے۔ کیونکہ خودی کا مطلب ہے اپنے اوپر نظر ہونا۔ لہذا سب سے پہلے اپنے اوپر سے نظر ہٹانا ضروری ہے۔ اب یہ جو مراقبات وغیرہ ہیں اگر ان کا مقصد شہرت ہے تو وہ تو یقیناً کچھ بھی نہیں ہیں۔ لیکن اگر ان سے مقصود خلافت والی وہ حیثیت ہو جو اللہ نے انسان کو دی ہے تو پھر بالکل ٹھیک ہے۔ اس خودی سے مراد یہی ہے۔ بطورِ انسان جو مقام ملا ہے اس کو حاصل کرنا ہو تو وہ صحیح ہے۔ لیکن وہ ہوتا کیا ہے؟ چنانچہ سب سے پہلے تو بے خودی ہو گی یعنی فنائیت ہو گی، اس کے بعد پھر یہ خودی آئے گی۔ اس سے پہلے والی بات نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے style کو سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ خود ان کی زندگی کو سامنے رکھا جائے کہ انہوں نے کس دور میں یہ کہا ہے، کیونکہ ان کے اوپر مختلف احوال گزرے ہیں تو جن احوال میں انہوں نے کہا ہے ان احوال کے بارے میں آپ کو معلوم ہونا ضروری ہے۔ جیسے شانِ نزول کا جس کو پتا ہوتا ہے تو وہ صحیح تشریح کر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر علامہ اقبال کے اس وقت کے احوال معلوم ہوں تو ہی اس کے بارے میں صحیح بات ہو سکتی ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال پہ کچھ ایسا وقت بھی گزرا ہے جس میں اشتراکیت کے حق میں بھی انہوں نے اشعار کہے ہیں۔ تو کیا ہم اس کو سامنے رکھ کر یہ کہیں گے کہ یہ بات علامہ اقبال نے کہی ہے؟ بھئی علامہ اقبال نے کہی ہے، لیکن کس وقت کہی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے رسمِ شبیری والی جو بات گزری ہے۔ اس سے پہلے میں نے یہی کہا تھا کہ ہم ماننے میں کسی شاعر کے مکلف نہیں ہیں۔ ہم اللہ اور اللہ رسول کے ماننے کے مکلف ہیں۔ کسی شاعر نے اگر اللہ اور اللہ کے رسول کے مطابق کہا ہے تو بسر و چشم۔ اس کو لینے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہے، لیکن اگر ایک طرف قرآن اور حدیث کی بات ہے اور دوسری طرف کسی فرد کی بات ہے تو ہم قرآن و حدیث کی طرف ہی جائیں گے۔ یہ ہمارے لئے رہنما اصول ہے۔ جرمنی میں، میں عربوں کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا، ان کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات تھے الحمد للہ۔ محفلوں میں، میں ان کے ساتھ میں ہوتا تھا۔ ہمارے تقریباً وہاں آخری دن تھے، میں وہاں سے آنے والا تھا، تو ایک دن میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا، تو میں نے کہا: ’’یَا أَخْوَانَ الْعَرَبِ نَحْنُ نُحِبُّکُم‘‘ تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے کہ ما شاء اللہ بالکل صحیح ہے۔ پھر میں نے کہا کہ: چونکہ آپ ﷺ عربی تھے، قرآن کی زبان عربی ہے اور اہلِ جنت کی زبان عربی ہو گی، اس وجہ سے ہم آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے کہا یاد رکھو! اگر ایک طرف حضور ﷺ اور دوسری طرف تم ہو تو ہم حضور ﷺ کے ساتھ ہوں گے، تمہارے ساتھ نہیں ہوں گے۔ تو اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ حضرت بتائیں کہ وہ کون سی بات ہے جو آپ ﷺ کی ہے اور ہماری نہیں ہے۔ میں نے کہا یہ جو آپ لوگوں نے توپ پہنا ہوا ہے کیا یہ مسنون لباس ہے؟ انہوں نے فوراً کہا شیخ ہم آپ سے یہی باتیں چاہتے ہیں، بس آپ ہمیں ایسی باتیں بتایا کریں۔ اصل بات یہی ہے کہ ہماری دوستی بھی اللہ کے لئے ہونی چاہیے، ہماری دشمنی بھی اللہ کے لئے ہونی چاہیے۔ جیسے آپﷺ نے فرمایا: ’’الْحُبُّ فِي اللهِ، وَالْبُغْضُ فِي اللهِ‘‘ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 4599) لہذا ہماری کسی کے ساتھ نہ بنیادی طور پر محبت ہے، نہ بنیادی طور پر نفرت ہے۔ اگر ہے تو اللہ کے لئے ہے۔ بس یہی بات ہے۔ علامہ اقبال یقیناً ہمارے بڑے مایۂ ناز شاعر ہیں، شاعرِ مشرق ہیں اور ہم ان کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کی بہت قدر فرماتے تھے اور ہمارے جتنے بھی اکابر ہیں جیسے سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے اور حضرت سے اصلاح بھی لی ہے۔ تو یہ بات صحیح ہے کہ ہمارے اکابر کے ساتھ ان کے تعلقات تھے اور ہم بھی ان کے بارے میں یہی حسن ظن رکھتے ہیں۔ اور اخیر میں وہ ما شاء اللہ بالکل ہمارے اکابر کے مسلک پہ آ گئے تھے، اس وجہ سے ہمارے درمیان کوئی دوری نہیں ہے۔ لیکن لوگوں نے ان کو جو مقام دیا ہے وہ ہم صرف آپ ﷺ کو دیتے ہیں، کسی اور کو نہیں دیتے۔ لوگوں نے ان کا یہ جو مقام بنایا ہے کہ بس آنکھیں بند کر کے ان کی ہر بات مان لو، سن لو۔ نہیں! آنکھیں بند نہیں کر سکتے، کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ ہمیں کدھر لے جا رہے ہیں۔ اگر ہمیں آپ ﷺ اور اللہ تعالیٰ کی طرف آپ ﷺ کی طرف لے جا رہے ہیں تو بسر و چشم بالکل ساتھ ہیں اور اگر کوئی دوسری بات ہے تو ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں۔

سوال نمبر 20: حضرت میرا مراقبہ لطیفہ قلب اور لطیفہ روح پر محسوس ہو رہا ہے اب آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

اگر یہ محسوس ہو رہا ہے تو اب لطیفہ سر پر بھی آپ 15 منٹ کر لیں، لطیفہ قلب اور لطیفہ روح پر 10 ,10 منٹ اور لطیفہ سر 15 منٹ کر لیں۔ لطیفہ سر اصل میں دل سے چار انگل اوپر اور دو انگل سینے کی طرف جو جگہ ہے، وہاں ہے۔ اگر آپ ہماری website استعمال کرتی ہیں تو اس میں ذکر کے سیکشن میں اس کا نقشہ بھی دیا ہوا ہے، وہاں آپ کو جگہ معلوم ہو جائے گی کہ لطیفہ سر کدھر ہے۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

نمبر 1:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع 15 منٹ، اللہ تعالیٰ کی شیونات کا ادراک بہت بڑھ گیا ہے۔ میرا جو حال ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی شان محسوس ہوتی ہے۔ سورۃ رحمٰن کی شان والی آیت کی سمجھ میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس کا ادراک بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ زبان پر بھی اکثر ذکر جاری رہتا ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! مراقبہ شان جامع تو آپ کا ہو گیا ہے۔ اب اس کے بعد مراقبہ معیت آپ شروع کر لیں اور ہر لطیفے پہ 5 منٹ کا ذکر آپ کا جاری رہے گا اور مراقبہ معیت یہ ہے کہ اس میں آپ یوں محسوس کریں کہ اللہ پاک میرے ساتھ ہیں، کیسے ساتھ ہیں؟ یہ تو اللہ کو پتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں، میں نہیں جان سکتا۔ لیکن اللہ جل شانہ جیسے کہ اس کی شان ہے، اس طرح میرے ساتھ ہیں۔ 15منٹ آپ نے اس کا مراقبہ کرنا ہے۔

نمبر 2:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع 15 منٹ۔

جواب:

اس کے لئے بھی یہی ہے۔

نمبر 3:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع 15 منٹ۔

جواب:

ان کے لئے بھی یہی ہے۔

نمبر 4:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ معیت 15 منٹ۔

جواب:

مراقبہ معیت اگر آپ کا ہو چکا ہے تو اب حقیقت کعبہ کا مراقبہ کر لیں کہ کعبہ کی حقیقت کا جو فیض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے پورے جسم پر آ رہا ہے۔ اس کو محسوس کر لیں اور نماز میں کعبہ کی طرف ہی چونکہ ہم رخ کرتے ہیں تو یہ محسوس کریں کہ کعبہ سے مسلسل فیض آ رہا ہے۔

نمبر 5:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ، اکثر اوقات تمام لطائف پر ذکر جاری رہتا ہے اور سینے میں کشادگی محسوس ہوتی ہے۔ نفس اور روح کا آپس میں جھگڑا محسوس ہوتا ہے، کبھی نفس دبتا ہے اور کبھی روح غالب ہوتی ہے، کبھی روح مغلوب اور نفس غالب ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! مراقبہ شیونات ذاتیہ آپ نے کر لیا ہے، اب اس کے بعد مراقبہ صفات سلبیہ کر لیں۔ یعنی کچھ صفات ایسی ہیں جو مخلوق کی تو ہو سکتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ تو ان کا جو فیض ہے وہ آپ ﷺ کے قلب پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفہ خفی پر آر ہا ہے۔

نمبر 6:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع 15 منٹ۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ ہوتی ہے، صفات پر توجہ نہیں ہوتی۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کیفیت آپ کے زیادہ بیانات سننے کی وجہ سے راسخ ہوئی ہے یا مراقبات کی وجہ سے؟

جواب:

ابھی آپ مراقبہ معیت جیسے پہلے ہم نے باقیوں کو بتایا ہے اس طریقے سے آپ بھی شروع فرما لیں اور 5 منٹ کا ذکر تو ہر لطیفے پر ہے۔

نمبر 7:

لطیفہ قلب 10 منٹ، لطیفہ روح 10 منٹ، لطیفہ سر 10 منٹ، لطیفہ خفی 15 منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفہ اخفیٰ پر 15 منٹ اور باقی پہ 10 منٹ۔

نمبر 8:

تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ معیت 15 منٹ۔

جواب:

تو ابھی جیسے حقیقت کعبہ کا مراقبہ میں نے بتایا ہے، اس طرح ان کو بھی بتا دیں۔

سوال نمبر 22:

السلام علیکم! حضرت اگر میں خانقاہ میں وقت لگانے کا فیصلہ آپ پر چھوڑ دوں تو ٹھیک ہو گا؟

جواب:

جی بالکل مناسب ہے ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت صاحب میں مراقبہ کے دوران تصورِ اسم ذات تصور، اسم اللہ قائم کرتا ہوں اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرا دل اور آپ کا دل ایک ساتھ اسم اللہ کر رہا ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے۔ تصورِ شیخ جو خود بخود حاصل ہوتا ہے یہ اسی قبیل سے ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ہمارے سلسلہ میں یہ چیز ہے کہ جو تصورِ شیخ خود بخود حاصل ہو جائے اس کو نہیں روکتے۔ کیونکہ اللہ پاک ہی شروع کرتے ہیں تو اللہ پاک اس کی حفاظت بھی فرماتے ہیں۔ جبکہ خود اپنی مرضی سے کوئی نہ کرے، کیونکہ اس میں مسائل ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا، مرضی سے بھی ہوتا تھا، کیونکہ پہلے لوگوں میں صلاحیت تھی اور وہ اپنے آپ کو سنبھال سکتے تھے۔ لیکن اب نہیں ہوتا ہے، اب مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ بعض دفعہ اس میں ایسی کیفیات آ جاتی ہیں کہ ندائے غیب منہ سے نکل جاتی ہے۔ پھر کچھ اس قسم کے مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ