اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ہم کو زیادہ آرام طلبی سے منع فرماتے تھے اور ہم کو حکم دیتے تھے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی چلا کریں۔ آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا اگر ہم مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ان کی تمام زندگی مشقتوں میں گزری ہے لیکن ان مشقتوں کے ہوتے ہوئے بھی آپ ﷺ صحابہ کرام کو موقع بموقع تن آسانی سے منع فرماتے تھے اور آج کل ہم اتنی سہولیات کے ہوتے ہوئے بھی ہر وقت مزید سہولتوں اور تن آسانیوں کی خواہشات رکھتے ہیں اور آپ ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتوں کے مطالعے سے ہم محنت و مشقت کی عادت اپنے اندر عملی طور پر کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
جواب:
خدا کی شان ہے کہ یہ سوال کرنے والے کو پتا نہیں تھا کہ آج ہم قرآن پاک کا کونسا سبق پڑھیں گے، تو یہ بالکل اس سے متعلق سوال آ گیا۔ یہ عیسائیوں کی باتیں تھیں کہ جنہوں نے اپنے اوپر خود پابندیاں لگوائیں، جو کہ جائز نہیں تھیں، اس لئے اللہ پاک نے ان کی باز پرس فرمائی۔ یہاں جو سوال ہے کہ آپ ﷺ کبھی کبھی ننگے پاؤں چلنے کا فرماتے تھے تاکہ ہم مشقتوں کے عادی ہو جائیں۔ اس سے ہمیں ایک بہت بڑی چیز مل گئی ہے وہ یہ کہ ان لوگوں کا منہ بند ہو گیا جو تصوف کی مشقتوں پہ اس آیت قرآنیہ کے ذریعے سے آواز اٹھاتے ہیں کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ یہ اب تم لوگوں نے کہاں سے نکالی ہے؟ تو آپ ﷺ سے بڑھ کر قرآن پاک کی تفسیر کون کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے ان مشقتوں کے لئے یہ جو فرمایا ہے۔ یہ کیوں فرمایا؟ حالانکہ ان کے اوپر یہ لازم تو نہیں کی گئی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے مشقت فوری غیر اختیاری طور پہ آ جائے، اس کو برداشت کرنا بھی دین ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اگر مشقت آ جائے تو اس وقت ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جیسے آرمی والے training کرتے ہیں تو ان کو training کے دوران بڑی مشقتوں سے گزارا جاتا ہے۔ تو اگر کوئی کہہ دے کہ خدا کے بندو! تم لوگوں نے ہمیں غلام کیوں بنا لیا ہے؟ ہمیں آپ کام دیں، ہم کام کریں گے۔ یہ کیا بات ہے کہ کبھی آپ گرمی میں رکھتے ہیں، کبھی سردی میں رکھتے ہیں، کبھی کیا کراتے ہیں، کبھی کیا کارتے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ اگر آپ کو ایسے کام پڑ جائیں تو اگر آپ کی training نہ ہو چکی ہوئی تو آپ کر ہی نہیں سکیں۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں: په جنک کښی اسونه نه څربیګی ’’جنگ میں گھوڑے نہیں تیار ہوا کرتے‘‘ لہذا پہلے سے تیاری کرنی پڑتی ہے، تو پہلے سے تیاری ضروری ہے۔ اسی طرح تصوف میں جو مشقتیں برداشت کی جاتی ہیں مقام ریاضت کو حاصل کرنے کے لئے۔ وہ اصل میں ان ممکنہ تکالیف کو برداشت کرنے کی تیاری ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں آ سکتی ہیں۔ یہ بلاوجہ نہیں ہیں، ان کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ دین پر چلنے میں اگر رکاوٹیں آ جائیں یا مشکلات آ جائیں تو ان مشکلات پر ہم control کر سکیں اور ان کے مقابلے میں ہم اپنے جسم کو سخت کر سکیں۔
شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ گرم گرم جگہوں پہ اور ٹھنڈی ٹھنڈی جگہوں پہ ننگے پاؤں چلا کرتے تھے، لوگوں نے کہا حضرت آپ کو اللہ پاک نے تو اس کا مکلف نہیں کیا، آپ کیوں یہ کرتے ہیں؟ فرمایا میں چل سکتا ہوں تبھی تو چل رہا ہوں۔ میں اپنے اندر یہ چیزیں پیدا کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں چل سکوں، کیونکہ میں نے جہاد کی نیت کی ہے، اس میں تو مشقتیں آئیں گی، اپنی مرضی کے مطابق تو کام نہیں ہوں گے۔ یہ جو آرمی والوں کی گوریلا training ہوتی ہے اور ان سے اتنے سخت سخت کام کرواتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے، تبھی تو وہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً تنگ سے تنگ جگہ میں گزرنا، اونچی سے اونچی جگہ میں پھلانگ جانا، گہرائی کے اندر کود جانا، مشکل حالات میں تیر لینا، یہ ساری باتیں ان کو سکھائی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کو کسی بھی وقت اس قسم کے حالات پیش آ سکتے ہیں۔ لہذا جو تیاری آئندہ کی مشکلات کے لئے کی جاتی ہے، اور اس کے لئے اختیاری مجاہدہ اختیار کرنا تاکہ وہ غیر اختیاری مجاہدات برداشت کئے جا سکیں، یہ اصل میں تیاری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اپنی طرف سے پابندی نہیں ہے، کیوں کہ جب وہ چیز حاصل ہو جائے گی تو بس چھوڑ دیں گے، پھر جب کبھی ضرورت پڑے گی تو پھر کر لیں گے۔ کیونکہ یہ بذات خود مطلوب نہیں ہیں۔ ایک ہوتا ہے مقصود بالذات اور ایک ہوتا ہے مقصود بالغرض۔ مقصود بالذات خود اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا ہوتا ہے کہ ایسا کرو۔ جس طرح روزے رکھنا مقصود بالذات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے روزے رکھنے ہیں، یہ اللہ کا حکم ہے، اس میں جو بھی حکمت ہے وہ اللہ کو پتا ہے۔ لیکن ہم نے تو اللہ پاک کے حکم کے ماننے کے لئے رکھنے ہیں، اور ایک ہوتا ہے بالغرض، مثال کے طور پر آپ dieting کریں تاکہ آپ کا جسم ٹھیک رہے اور اس سے آپ صحیح کام لے سکیں۔ تو یہ مقصود بالغرض ہے۔ اور مقصود بالغرض الگ ہوتا ہے۔ اور ہمارے تصوف کے اندر جو مشقتیں، مشکلات اور غیر اختیاری مجاہدات ہیں، یہ مقصود بالغرض ہیں اور ذرائع میں سے ہیں۔ جب یہ ذرائع کے طور پہ استعمال ہوں گے تو ان میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ ہاں مقصد کے طور پر ان کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ مقاصد تو متعین ہیں، ان میں تبدیلی نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن