اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر 1:
حضرت جی میرے مندرجہ ذیل اذکار کو تقریباً 30 دن ہو گئے ہیں۔ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘ 200 مرتبہ ’’إِلَّا الله‘‘ 400 مرتبہ ’’اللہُ اللہ‘‘ 600 مرتبہ اور اللہ، اللہ 6500 مرتبہ۔ پانچ منٹ کے لئے اللہ اللہ دل میں محسوس کرنا ہے۔ حضرت جی عرض یہ ہے کہ دل میں کبھی کبھار ہلکی سی ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ آگے ذکر کی کیا ترتیب رکھنی ہے؟
جواب:
اب بھی باقی سارا کچھ وہی کرنا ہے، لیکن اللہ، اللہ 7000 مرتبہ کرنا ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ کیا اس ذکر کو جاری رکھوں؟
جواب:
جی ہاں ایک مہینے کے لئے اس کو جاری رکھیں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم حضرت جی! قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مومنین سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آیا۔
جواب:
اس سے مراد یہ ہے کہ محبت میں زیادہ عزیز ہیں۔ یعنی مومنین اپنی جانوں سے بھی زیادہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم! حضرت امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت میں تصوف پہ پوچھے جانے والے سوال اور ان پر آپ کے جواب پڑھ رہا ہوں، ما شاء اللہ مجھے کافی فائدہ ہو رہا ہے اور میرے ذریعے دوسرے احباب کو بھی فائدہ ہو رہا ہے، مگر میرے ذہن میں ایک سوال کافی دن سے چل رہا ہے یہ سوال خود میرا اپنا ہے، سوال یہ ہے کہ آپ کی بات سے یہ تو سمجھ میں آیا کہ مراقبہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا بہت بہترین اور بڑا عظیم علم ہے، مگر کیا مراقبے کے مقابلے میں کوئی دوسرا ایسا عمل ہے جو مراقبہ کا نعم البدل ثابت ہو اور اس دوسرے عمل کے ذریعے بھی وہ فوائد اور مقصود حاصل ہو جائیں جو مراقبہ سے حاصل ہوتے ہیں یا حاصل کئے جاتے ہیں؟
جواب:
اصل میں مراقبہ ذریعہ ہے مقصود نہیں ہے، مجاہدہ بھی صرف ذریعہ ہے مقصود نہیں ہے اور علاجی ذکر بھی ذریعہ ہے مقصود نہیں ہے اور اشغال وغیرہ بھی ذریعے ہیں مقصود نہیں ہیں۔ تو جب آپ نے اس کو ذریعہ سمجھ لیا تو پھر آپ یہ بھی سمجھیں گے کہ ذریعہ چونکہ مقصود نہیں ہوتا لہٰذا جس ذریعے سے بھی کام ہو جائے وہی ٹھیک ہے، اس کے علاوہ آپ خواہ مخواہ اسی کے اوپر زور نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سلسلوں میں مختلف طریقوں سے کام ہو رہا ہے، چونکہ دو قسم کی باتیں ہیں، ایک ہماری روح کے اندر جو صفات تھیں اور اللہ پاک نے ہمارے اندر جو صفات رکھی ہیں یعنی صلاحیتیں رکھی ہیں۔ اور ایک وہ ہیں جو نفس کی خواہشات کی وجہ سے چھپ گئی ہیں یعنی نفس نے ان کو جکڑا ہے اور وہ استعمال میں نہیں آ رہیں، نفس ان کو استعمال نہیں ہونے دے رہا۔ جیسے کوئی آدمی بینا ہو، لیکن اس کی آنکھوں پہ پردہ آیا ہو، تو جب تک وہ پردہ پڑا ہے اس وقت تک اس کو نظر نہیں آئے گا، حالانکہ اس کی بینائی تو ہے۔ اسی طرح سماعت موجود ہو، لیکن وہ پردے تک بات پہنچ نہ رہی ہو، تو جب تک اس چیز کو ہٹایا نہیں جائے گا تو اس وقت تک سماعت نہیں ہو گی، گویا بعض صلاحتیں ایسی ہوتی ہیں جو دبی ہوتی ہیں، ان کو نکالنا پڑتا ہے، اجاگر کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے جو ذرائع ہیں ان کو فاعلات کہتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ نفس کی جو خواہشات ان کے روکنے کا باعث ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے انسان اللہ پاک سے دور ہوتا ہے، ان خواہشات کو دبانا پڑتا ہے۔ اب یہ بالکل دو متضاد چیزیں ہیں۔ فاعلات اجاگر کرتے ہیں، باہر لاتے ہیں اور مجاہدہ دباتا ہے وہ نہیں آنے دیتا۔ جیسے مثبت کو آنے دینا اور منفی کو نہ آنے دینا۔ تو جیسے ہر چیز میں یہ دو کام ہوتے ہیں، اسی طریقے سے یہاں بھی یہ کام ہیں، چنانچہ تصوف میں ان دو چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے فاعلات بھی ہوتے ہیں اور مجاہدات بھی ہوتے ہیں۔ پھر ان کی اپنی اپنی تفصیل ہے اور مشائخ کو اس کا پتا ہوتا ہے۔ لہٰذا مختلف سلاسل میں مختلف طریقوں سے کام ہوتے ہیں۔ تو فاعلات میں ذکر بھی ہے جیسے ہمارے چشتی سلسلہ میں ذکر بالجہر ہے اور بارہ تسبیح کا ذکر ہے، اس طرح قادری سلسلہ میں بھی ذکر بالجہر ہے، اس طرح سہروردی سلسلے میں بھی ذکر بالجہر ہے۔ لہذا مشائخ ان چیزوں سے کام لیتے ہیں، مراقبات بھی ہوتے ہیں لیکن بعض میں مراقبات نہیں ہیں۔ جیسے یہ لطائف ہمارے چشتی سلسلے میں اس طرح نہیں ہیں جس طرح نقشبندی سلسلہ میں ہیں، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اصل لطیفہ تو قلب ہی ہے باقی سارے اس کے اندر ہیں۔ لہذا وہ صرف دل پر محنت کرتے ہیں۔ تو یوں ان کے بھی وہ کام شروع ہو جاتے ہیں بہرحال میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ مختلف طریقے ہیں اور چونکہ یہ مقصود نہیں ہیں ذرائع ہیں، لہٰذا ہم ان کے اوپر زیادہ زور نہیں دیتے، پس آپ بھی یہی کریں کہ جس سے آپ کو فائدہ ہو اسی کو کرنا ہے اور یہ بات آپ کو شیخ پر چھوڑنی ہے۔ تو جیسے بھی آپ کو اس سے فائدہ ہو گا تو ان شاء اللہ آپ اس سے فائدہ حاصل کرتے رہیں گے۔
سوال نمبر 5:
حضرت السلام علیکم!
I have been reciting
اللہ، اللہ
4000 times followed by
’’یَا اَللہُ یَا سُبْحان یا عَظیمُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَھَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافِی‘‘
100 times for the past one month. Kindly advise me for the next zikar.
جواب:
So you should do now ذکر of اللہ اللہ
4500 ان شاء اللہ . The rest will be the same.
سوال نمبر 6:
حضرت جی دل کی کیفیت تو ایسی ہے کہ دل اتنا زیادہ محسوس نہیں کرتا لیکن میں یہ کیفیت بتانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جب دل دھڑکتا ہے تو میں محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ جیسے اللہ اللہ کر رہا ہے۔
جواب:
یہ در اصل میں نے ان سے پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا ہے۔ بہر حال آپ کو کوشش تو یہی کرنی چاہیے کہ آپ خود ذکر نہ کروائیں، کیونکہ دل سے کوئی بھی ذکر نہیں کروا سکتا۔ البتہ یہ ہے کہ تصور کر لیں کہ ساری چیزیں اللہ اللہ کر رہی ہیں اور میرا دل بھی ایک چیز ہے وہ بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔ بس آپ نے صرف یہ تصور کرنا ہے۔ اس سے پھر ان شاء اللہ یہ چلے گا۔ چنانچہ آپ نے اس سے کروانا نہیں ہے بلکہ آپ نے اس کی سننے کی کوشش کرنی ہے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی میں اپنی والدہ کے سلسلے میں رہنمائی کی منتظر ہوں۔ آپ نے جو مراقبہ 10 منٹ کا مجھے دیا تھا وہ بھی میں زیادہ دن تک نہیں کر پائی۔ والدہ کو جو مشکلات آئیں ان کی وجہ سے مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں بھی کہیں ذہنی توازن کی خرابی کا شکار نہ ہو جاؤں۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
جواب:
آپ مجھے ایک بات بتائیے کہ کیا سارے مریض ایک جیسے ہوتے ہیں یا سارے ڈاکٹر ایک جیسے ہوتے ہیں؟ اگر سارے ڈاکٹر ایک جیسے نہیں ہیں اور سارے مریض ایک جیسے نہیں ہیں تو کسی ڈاکٹر کے پاس جانا تو پڑتا ہے، جس میں آپ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس جاؤں جو مریضوں کے حال کو زیادہ بہتر جانتا ہو اور اس کا علاج کر سکتا ہو۔ آپ صرف یہی کر سکتی ہیں، باقی اگر آپ صرف اپنی مرضی کرنا چاہیں گی تو پھر اس میں اور مسائل پیدا ہوں گے۔ اور جہاں تک ہماری بات ہے تو ہم الحمد اللہ کوشش کرتے ہیں کہ ان چیزوں کو مقصود نہ سمجھیں، بلکہ ذریعہ سمجھیں، ابھی ابھی ایک سوال کا جواب میں نے یہی دیا ہے کہ یہ ذریعہ ہے، مقصود نہیں ہے، جب مقصود نہیں ہے تو ہم اتنا ہی ذکر دیں گے جس سے وہ کام ہو سکے جس کے لئے وہ ذکر ہے۔ مثلاً خود میرے شیخ نے کافی عرصہ مجھے 3 تسبیح سے زیادہ ذکر نہیں دیا، پھر بہت عرصے کے بعد 4 تسبیح کا دیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقیوں کو بھی ایسا نہیں دیا، کسی کو کتنا دیا، کسی کو کتنا دیا۔ کیونکہ یہ مریض کے مطابق ہوتا ہے۔ تو اگر آپ کی والدہ کے ساتھ mishap ہو چکا ہے تو اصل میں شیخ کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے خیال نہیں کیا۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کیونکہ بہر حال بعض لوگ اس کی پروا نہیں کرتے، خیال نہیں رکھتے۔ لہذا اس سے بھی مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ جیسے آپ نے کہا کہ میری والدہ کو ذکر کے ساتھ بڑی محبت تھی، تو محبت اور چیز ہوتی ہے، مثلاً دوائی کے ساتھ کسی کو محبت ہو تو کیا وہ زیادہ دوائی کھائے گا؟ وہ زیادہ دوائی تو نہیں کھا سکتا، محبت تو اس کے نتیجے کے ساتھ ہونی چاہیے، مثلاً صحت کے ساتھ محبت ہونی چاہیے، دوائی کے ساتھ تو محبت نہیں ہوتی۔ دوائی تو مجبوری ہے۔ البتہ اس کا جو اثر یعنی صحت ہے اس کے ساتھ محبت کرنی چاہیے۔ لہذا آپ کو بھی میں کہوں گا کہ اس کو ذریعہ سمجھو، اتنا ہی کرو جتنا بتایا جائے، اس سے زیادہ نہ کرو۔ مردان کے علاقے کے قادری سلسلہ کے ہمارے ایک بزرگ تھے وہ اپنے مرید کو جب ذکر دیتے تھے تو ساتھ کہتے تھے کہ میں نے اتنا ذکر آپ کو دیا ہے، نہ اس سے کم کرنا ہے نہ اس سے زیادہ کرنا ہے۔ اگر کم کیا یا زیادہ کیا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ یہ بات انہوں نے بالکل صحیح کہی ہے، کیونکہ دوائی میں Dose calculation ہی ہوتا ہے تو underdose بھی نہیں ہونی چاہیے، overdose بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جتنا چاہیے اتنا دے دیں۔ باقی جو خواب والی بات ہے اس کا ان شاء اللہ میں آپ کو direct جواب دے دوں گا۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 30 دن ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَق‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ، تیسرا کلمہ 100 مرتبہ، درود شریف 100 مرتبہ، استغفار 100 مرتبہ، لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ۔ یہ مکمل ہو گیا ہے۔ آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
آپ مجھے یہ بتا دیں کہ آپ کو 10 منٹ قلب پر اور لطیفۂ روح پر 15 منٹ تک آپ کو ذکر محسوس ہو رہا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب دیں گے تو پھر میں آپ کو اس کا جواب دوں گا ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم شیخ محترم! اللہ کے فضل و کرم سے میرا تیسرا ذکر لطیفۂ سر مکمل ہو چکا ہے۔ ذکر کے پہلے روز جیسے ہی میں نے ذکر شروع کیا مجھے ایسے لگا کہ کوئی connection ہے جہاں سے button press کر دیا ہو اور فوراً سے لطیفۂ سر کے مقام پر ذکر شروع ہو گیا اور اس لطیفہ کے ذکر کے ابتدائی دنوں میں ایسے جسم ہلتا تھا جیسے کہ سر اور پشت کو کوئی ہاتھ لگا کر ہلا رہا ہو۔ اور باقی سب معمول کے مطابق رہا۔ زیادہ تر غور کرنے پر ذکر سنائی دیا اور کبھی ذکر کے مقام پر دھڑکن یا اس میں جیسے اللہ کی ضرب لگ رہی ہو۔ شیخ محترم چوتھے ذکر کی رہنمائی فرما دیجئے۔ شیخ محترم میری ایک کیفیت نے بہت شدت پکڑی کہ میں کوئی کتاب یا کچھ پڑھنے لگتی ہوں تو میں focus نہیں کر پا رہی، یہی احساس ہوتا ہے کہ ذکر ہی کر لوں بس۔ کچھ پڑھوں گی تو کہیں ذکر کم نہ پڑ جائے۔ ایسی کیفیت میں کیا کروں ذکر ہی کرتی رہا کروں یا اسلامی کتب یا مواد بھی پڑھا کروں؟
جواب:
ماشاء اللہ! اب چونکہ تیسرا ذکر لطیفۂ سر کا ہے تو اس کے بعد لطیفۂ خفی کا ہے۔ تو لطیفۂ خفی پہ آپ نے 15 منٹ اور باقی پہ 10 ,10 منٹ کرنا ہے۔ لطیفۂ خفی چوتھا مقام ہے اور یہ لطیفۂ روح سے 4 انگل اوپر اور 2 انگل سینے کی طرف جو جگہ ہے یہاں پر ہوتا ہے۔ اس پر آپ نے 15 منٹ ذکر محسوس کرنا ہے۔ اور جو علاجی ذکر جتنا بتایا گیا ہے اتنا ہی کرنا ہے، اس سے زیادہ نہیں کرنا۔ تاہم ثوابی ذکر آپ حسبِ ذوق کر سکتی ہیں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت صاحب الحمد للہ آپ کے حکم کے مطابق 40 دن کی تسبیحات گزشتہ شب جمعہ پر مکمل ہو گئیں اور اس کے بعد میں نے اور میری اہلیہ نے مندرجہ ذیل تسبیحات شروع کر دی ہیں۔ ایک تسبیح تیسرا کلمہ، ایک تسبیح درود شریف، ایک تسبیح استغفار۔ 10 منٹ اسمِ اللہ کا مراقبہ۔
جواب:
یہ آپ کے لئے نہیں ہے آپ کے گھر والوں کے لئے ہے۔ البتہ آپ کے لئے جو میں دے رہا ہوں وہ یہ ہے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار دفعہ 100 ,100 دفعہ کرنے کے بعد آپ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘ 100 دفعہ ضربی یعنی ضرب کے ساتھ کریں، جیسے ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهْ‘‘، ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهْ‘‘ 100 دفعہ یہ کرنا ہے اور ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو‘‘، ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو‘‘ 100 دفعہ یہ کرنا ہے۔ 100 دفعہ ’’حَقْ حَقْ حَقْ‘‘، 100 دفعہ ’’اَللہْ اَللہْ اَللہْ‘‘ کرنا ہے۔ آپ نے ایک مہینہ یہ کرنا ہے اور آپ کی گھر والی نے تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار اور 10 منٹ اسمِ اللہ کا مراقبہ کرنا ہے کہ ’’اَللہْ اَللہْ‘‘ کا ذکر دل میں ہو رہا ہے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! 2 دن مجھے تاخیر ہوئی ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ‘‘ کے ذکر میں۔ کیا میں اس کو چھوڑ سکتا ہوں؟
جواب:
مجھے ابھی تک آپ کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں، آپ نے پہلے کہا کہ میں کیا اس کو کروں؟ جب میں نے آپ کو کرنے کے لئے کہا تو اب آپ کہتے ہیں کہ کیا میں اس کو چھوڑ دوں؟ ان دونوں باتوں پہ میں کیا کہوں؟ یہ باتیں متضاد ہیں۔ آپ ذرا اپنا ذہن درست کر لیں، اس کے بعد میں کچھ کہوں گا۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ حضرت جی علاجی ذکر کو تقریباً ایک ماہ مزید گزر گیا ہے، 5 منٹ سب لطائف کا ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ 15 منٹ ملا ہوا تھا۔ اسی کو اب 6 ماہ ہو گئے ہیں۔ حضرت جی اس کا اثر مجھ میں کتنا آیا ہے، مجھے یہ نہیں سمجھ آ رہی۔ البتہ اللہ کی نا فرمانی اور گناہ سے بچنے کی فکر تو زیادہ رہتی ہے۔ حضرت جی جب وہ وقت آیا تھا کہ شدید مشکل حالات پر صبر کا تصور کیا کہ شاید کرنا ہی پڑے تو مجھے لگا تھا کہ میں کسی بھی چیز کے قابل نہیں ہوں اور ساتھ ہی رو بھی رہی تھی۔ بس اس وقت کے بعد سے ایک ایک کر کے اللہ پاک نے راستے کھولنے شروع کئے اور پھر ایسے لگ رہا ہے کہ دنیا کی نعمتوں کی بارش شروع ہو گئی ہے۔ بار بار شکر کر رہی ہوں اور ڈر بھی رہی ہوں کہ آگے مجھ سے نا شکری نہ ہو جائے اور میں دنیا کی محبت میں گم نہ ہو جاؤں اور اللہ کو بھول نہ جاؤں۔ دین اور معمولات پر استقامت آگے بھی قائم رہے اور آپ کی برکت سے جو جو اللہ نے عطا کیا وہ بھی قائم رہے، بلکہ بڑھ جائے اور میری فکر بھی بڑھ جائے۔ آپ کی دعاؤں کی محتاجی ہے کہ اللہ پاک کی مدد میرے ساتھ رہے۔ میں ہر ایک کے لئے خیر کا باعث بن سکوں۔ علاجی ذکر کے لئے بھی رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ کی شان ہی ایسی ہے کہ اس میں اللہ پاک کی صفات کھلتی ہیں۔ ظاہر ہے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مراقبات ویسے تو نہیں بتائے ہیں، ان کے اپنے فوائد ہیں۔ تو مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی صفات کا ادراک ہونے لگتا ہے اور اس کے قدیم اور لا متناہی ہونے کا جب انسان کو ادراک ہو جاتا ہے تو پھر انسان حیرت کے ساتھ شکر کے جذبات کا حامل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق عطا فرمائی، اللہ پاک مزید نصیب فرمائے۔ اب آپ صفات سے ذات کی طرف متوجہ ہو جائیں اور وہ یہ ہے کہ شیوناتِ ذاتیہ کے مراقبے کو شروع کر لیں اور وہ لطیفۂ سر پر ہے، یعنی اللہ جل شانہ کی ذات یعنی شیوناتِ ذاتیہ کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک کی طرف آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے دل میں آ رہا ہے اور شیخ کے دل سے آپ کے لطیفۂ سر پر آ رہا ہے۔ یہ مراقبہ اب آپ ان شاء اللہ ایک مہینہ کریں گی اور اس چیز کو یاد رکھیں جیسے کہ میں نے ابھی عرض کیا۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم! آپ نے جو ذکر بتایا تھا ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَق‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ اور 15 منٹ کے لئے یہ تصور کہ دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے اس کا ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ آگے مزید guide کریں شکریہ۔ دل سے ہلکی ہلکی اللہ کی آواز سنائی دے رہی ہے، محسوس ہو رہی ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! ابھی اس طرح کر لیں کہ 10 منٹ کے لئے تو اسی لطیفۂ قلب پہ ذکر کا تصور کریں اور 15 منٹ کے لئے لطیفۂ روح جو کہ اس کے دائیں طرف ہے یعنی اگر آپ جسم کو آدھا کر لیں تو جس طرف، جتنے فاصلے پر بائیں طرف دل ہے تو دائیں طرف اتنے ہی فاصلے پر لطیفۂ روح ہے۔ اس پر 15 منٹ اللہ اللہ کے محسوس کرنے کا تصور کریں۔ باقی چیزیں ساری وہی پرانی ہیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
Respected حضرت I pray that you are well آمین! I have been continuing with my completed اصلاحی ذکر so far beyond 30 days without missing a day
200 time ‘‘لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله’’
400 times ‘‘لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو’’
600 times ‘‘حَق’’ and
500 times ‘‘اللہ’’ and 5 minutes ذکر of لطیفۂ قلب. I have sadly and shamefully been lazily delaying contact around three weeks past 30 days. But I have still been doing my prescribed اصلاحی ذکر without missing a day because my نفس still does not want an increase in مراقبہ time as it requires much discipline. But certainly, if during these blessed days, I gain some روحانیت and will power, so I have been granted توفیق to contact you again الحمد للہ. Sorry for this but I understand that I should feel sorry for myself by not making contact for اصلاح. I am only harming myself. ان شاء اللہ I will not delay like this again. Kindly inform me what ذکر I should do next? جزاک اللہ خیر! May اللہ سبحانہ تعالیٰ bless you and your family آمین!
جواب:
ماشاء اللہ آپ نے سچ سچ بتایا اور یہ بڑی اچھی بات ہے اور ظاہر ہے اپنے مصلح اور مرشد کو اپنی صحیح صورتِ حال بتانی چاہیے، اسی میں ہی فائدہ ہوتا ہے۔ باقی جو آپ نے بتایا ہے کہ میرا دل ڈرتا ہے کہ کہیں میرے لئے ذکر کو بڑھا نہ دیا جائے، تو میں آپ کو یہ بتاؤں کہ یہی ہمارے سلسلے کے صحیح ہونے کی علامت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کبھی بھی نہیں اس کو کرنے دیتا، دوسری جگہوں پر آپ دیکھیں 6، 6 گھنٹے لوگ مراقبات کر رہے ہیں، تو شیطان کیوں کرنے دے رہا ہے؟ لیکن وہی لوگ جب یہاں آتے ہیں تو 15 منٹ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آخر وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اب line پہ آ جاتے ہیں، جب line پہ آ گئے تو مسئلہ تو ہوتا ہے، پھر تو شیطان نے چھوڑنا نہیں ہے۔ اس وجہ سے ایک لحاظ سے آپ کو کم از کم ایک ادراک ہو گیا اور ایک حقیقت کا پتا چل گیا کہ یہاں پر انسان جو مراقبہ کرتا ہے وہ بھی ایک مجاہدے کی صورت بن جاتی ہے اور ان شاء اللہ اس سے مزید باتیں کھلتی ہیں۔ تو آپ اس طرح کر لیں کہ ابھی آپ نے قلب کا جو ذکر کیا ہے اس کی کیفیت ذرا مجھے بتا دیں۔ یعنی 5 منٹ کا جو لطیفۂ قلب کا ذکر ہے کیا وہ آپ کو محسوس ہو رہا ہے یا نہیں؟ محسوس ہو رہا ہے تو کیسے محسوس ہو رہا ہے؟ کیونکہ اس کی بنیاد پر میں ان شاء اللہ جواب دوں گا۔ فی الحال تو آپ اتنا ہی رکھیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم! حضرت آپ نے جو اذکار دیئے تھے، ان کو 30 دن مکمل ہو چکے ہیں الحمد للہ۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَق‘‘ 600 مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ 1500 مرتبہ۔ اور اس کے ساتھ 5 منٹ تصور کرنا ہے کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ حضرت ابھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔
جواب:
کوئی بات نہیں۔ اب آپ اللہ اللہ 2000 مرتبہ کریں اور باقی وہی ہے جیسے بتایا گیا ہے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت شاہ صاحب میرا مہینہ الحمد للہ ہو گیا ہے اور ذیل کا بتایا ہوا ذکر کرتا ہوں۔ 200 مرتبہ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو‘‘، 600 مرتبہ ’’حَق‘‘ اور 2500 مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ 15 منٹ کا مراقبہ اسمِ ذات اللہ کا اور اب دل اعمال کی طرف مائل ہوتا ہے اور گناہ سے بچنے کی کوشش بھی ہے اور احساس بھی ہوتا ہے اور استغفار بھی فوری کرتا ہوں۔ صرف ایک دن ناغہ ہوا اور یکسوئی مکمل حاصل نہیں ہو پا رہی، لیکن الحمد للہ ذکر چھوڑنے کی طرف دل نہیں مانتا۔ ازراہِ کرم آئندہ کے لئے رہنمائی چاہتا ہوں۔
جواب:
الحمد للہ فائدہ ہو رہا ہے اور اصل فائدہ یہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ اصل ذکر وہ ہے جو انسان کو گناہ سے روک دے۔ تو اگر ذکر یہ کام کر رہا ہے تو سبحان اللہ اصل کام تو ہو رہا ہے۔ باقی چیزیں ان شاء اللہ وقت پہ ملیں گی۔ انفعالیت نہیں یہ اعمال ہیں اور ہمارے سلسلے میں اعمال کی زیادہ قیمت ہے، انفعال کی اتنی زیادہ نہیں ہے۔ لہذا ٹھیک ہے ما شاء اللہ یہ بھی اچھی بات ہے۔ ابھی آپ 3000 مرتبہ اللہ کر لیں اور باقی ساری چیزیں وہی ہوں گی۔ یہ ایک مہینہ کرنا ہے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے 7 مہینے پہلے کہا تھا کہ میں ہر مہینے پابندی کے ساتھ اپنے معمولات آپ کو بھیجا کروں، میرا یہ ذکر چل رہا ہے 200 مرتبہ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُو‘‘، 600 مرتبہ ’’حَق‘‘ اور ساتھ 5، 5 منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر۔ 6 مہینے پہلے آپ نے ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) کی جگہ صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ اضافہ فرمایا تھا جو کہ لطیفۂ روح سے 15 منٹ کا تھا۔ 2 مہینے تک آپ نے میری کیفیت سن کر تبصرہ فرمایا تھا کہ میرے اندر وہ تبدیلی نہیں آئی جو ہونی چاہیے۔ لہٰذا آپ نے یہ عمل جاری رکھنے کا فرمایا جو کہ اب تقریباً ساڑھے 5 مہینے ہو گئے ہیں۔ لطائف والے مراقبے میں بہت زیادہ خیالات آتے ہیں لیکن صفاتِ ثبوتیہ والے مراقبے میں نسبتاً کم ہیں۔ خیالات کا ہجوم رہتا ہے، کافی مشکل سے توجہ کا ارتکاز کرتا ہوں۔ ذکر میں اب زیادہ پابندی ہے لیکن کافی ایسے دفعہ ایسا ہوا کہ مصروفیت کی وجہ سے time کم ملا تو اس صورت میں قلوب کا مراقبہ مختصر کر لیتا ہوں اور صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ پورا کر لیتا ہوں۔ لیکن کوشش کرتا ہوں کہ ناغہ نہ ہو۔ ذکر کا جذبہ کافی زیادہ ہے، آخرت کی طرف دھیان بہت زیادہ ہے، نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ زیادہ ہے اور خیالات نسبتاً کم ہیں، خیالات کافی حد تک پاک ہیں لیکن وہ وساوس بھی آتے ہیں جیسے اللہ کی ذات کے بارے میں اور اپنے مسلک کے بارے میں۔ کسی حد تک تہجد کی نماز بھی پڑھ رہا ہوں، موت کا خوف رہتا ہے اور دعا یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کئے ہوئے موت آئے۔ خواب میں پریشانی اور حالات اکثر نظر آتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا نظر آتا ہے کہ اس کے بعد میں اپنی روح کے پرواز کرنے کا انتظار کر رہا ہوں۔
جواب:
اصل میں مقصود تو اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے اور اللہ پاک کے پسندیدہ اعمال کی طرف رجوع ہے، کیونکہ نفس اسی میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور اس کی محنت دل پر یہی ہوتی ہے کہ انسان اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو، اور نفس پر اس کی محنت یہی ہوتی ہے کہ اعمال نہ کرے۔ ما شاء اللہ آپ کو جو اتنی توفیق ہو رہی ہے کہ اعمال کی طرف توجہ ہے اور موت کا خیال ہے۔ تو یہ اس کے اثرات ہیں۔ باقی آپ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ کا مراقبہ بھی کر چکے ہیں، صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ بھی آپ کر چکے ہیں، تو اب اس کی جگہ آپ لطیفۂ سر پر شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ کریں۔ شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ اس طریقے سے ہوتا ہے کہ انسان صفات میں نہ پھنسے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ کرے۔ کیونکہ ساری صفات ذات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اور شیوناتِ ذاتیہ کا یہ مراقبہ 15 منٹ کا ہو گا، اس میں آپ نے تصور کرنا ہے کہ جو اللہ پاک کی ذات یعنی شیوناتِ ذاتیہ کا جو فیض ہے وہ آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفۂ سر پر آ رہا ہے۔ اس کو آپ 15 منٹ کریں اور باقی چیزیں ساری وہی پرانی ہوں گی۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی ایک رات بغیر آپ کی اجازت کے مراقبہ موت کر لیا، اس سے اگلے کئی دن طبیعت میں بہت بے چینی اور گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ لیکن اس کے بعد طبیعت کافی حد تک بحال ہو گئی۔ آپ کو بے وقت تنگ کیا، اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ دنیا میں انسان پر اتنی بے چینی طاری ہو سکتی ہے تو قبر میں کیا حال ہو گا اور قبر کی وحشت اور گھبراہٹ سے کیوں کر بچاؤ ہو سکے گا، جب کہ وہ تو ایک تنہائی کی جگہ اور تنہائی کا گھر ہے۔ اس بارے میں نصیحت اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
نصیحت تو یہ ہے کہ اپنی مرضی سے کچھ نہ کریں سب سے پہلے تو یہ بات ہے۔ مراقبہ موت ہمارے اکابر آج کل کسی کو نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں برداشت نہیں ہے۔ ہاں اللہ جل شانہ جس میں برداشت دیکھ لیتا ہے کیونکہ اللہ پاک تو قادر و قدیر ہے اس کو تو پتا ہوتا ہے۔ تو پھر ٹھیک ہے وہ پھر اس کو برداشت کرنے کی توفیق بھی دے دیتے ہیں۔ لیکن خود سے نہیں کرنا چاہیے، اپنی طرف سے نہیں کرنا چاہیے اور بغیر مرشد کے تو بالکل اس قسم کی کوئی بھی چیز نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو بہت زیادہ گہرے ہوتے ہیں، اس وجہ سے اس پر توبہ کر لیں، آئندہ کے لئے ایسی کوئی حرکت نہ کریں۔ اور ان شاء اللہ اگر آپ صحیح راستے پہ چل رہے ہیں تو پھر کوئی پروا نہیں ہے۔ جیسے کہتے ہیں: ’’بر صراط مستقیم اے دل کسے گم راہ نیست‘‘ اس وجہ سے آپ بس سیدھے راستے پہ رہیں اور سیدھا راستہ شریعت ہی کا ہے، اس پر جب آپ رہیں گے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس راستے پر استقامت کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ! حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں اور اللہ پاک ہمیں آپ کی قدر کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ حضرت جی میرے ذکر کی ترتیب کچھ یوں ہے 200 مرتبہ ’’لَآ إِلٰهَ إِلَّا الله‘‘، 400 مرتبہ ’’إِلَّا الله‘‘، 600 مرتبہ ’’اللہُ اللہ‘‘، 500 مرتبہ زبان سے خفی طور پر اللہ اللہ، 5 منٹ لطیفۂ قلب، 10 منٹ لطیفۂ روح، 5 منٹ لطیفۂ سر، 10 منٹ لطیفۂ خفی، 5 منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر اللہ اللہ محسوس کرنا اور 15 منٹ لطیفۂ سر پر شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ ہے۔ حضرت جی الحمد للہ ذکر تو ٹھیک ہو رہا ہے۔ 15 منٹ والا مراقبہ صفات ٹھیک نہیں ہوا، اس میں ناغہ بھی ہوا ہے۔ اس مراقبے کی اب دوبارہ تشریح فرما دیں۔
جواب:
اچھا ہے کہ آپ نے دوبارہ تشریح کے لئے کہہ دیا۔ اصل میں ساری صفات شیونات سے وجود میں آتی ہیں یعنی اللہ پاک کی جو شان ہے اس سے صفات وجود آتی ہیں۔ جیسے کہتے ہیں فلاں کی بہت اونچی شان ہے تو اونچی شان سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ سخی بھی بہت ہو گا، عادل بھی بہت ہو گا اس طرح بہت ساری صفات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ تو اس سے بہت سارے صفات وجود میں آ جاتی ہیں۔ اور آپ نے جو صفات شیوناتِ ذاتیہ کہا ہے یہ ایسے نہیں ہے، شاید آپ کو یہی غلطی لگی ہے۔ یہ شیوناتِ ذاتیہ ہے۔ بہر حال آپ شیوناتِ ذاتیہ کا جو مراقبہ کر رہے ہیں تو شیوناتِ ذاتیہ کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آ رہا ہے۔ میں ذرا اس کے بارے میں بھی عرض کر لوں، سارے لوگ یہ سن لیں کہ فیض کا مطلب کیا ہے؟ فیض ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی کو فائدہ ہو رہا ہو۔ تو اس میں ہر مراقبے کا کوئی فائدہ ہوتا ہے، وہی فائدہ اس کا فیض ہے، فیض اصل میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے، اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا یہ بنیادی بات ہے۔ پھر سارے فیوضات آپ ﷺ کی طرف آتے ہیں اور آپ ﷺ سے پھر تقسیم ہوتے ہیں اور ہر شخص کے لئے اس کا شیخ ذریعہ ہوتا ہے ان چیزوں تک رسائی کا۔ چنانچہ آپ جب تصور کرتے ہیں کہ شیخ کے قلب پر آتا ہے پھر شیخ کے قلب سے آپ کو آ رہا ہے، تو یوں وہ پورا chain مکمل ہو جاتا ہے۔ لہذا اللہ جل شانہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی شیوناتِ ذاتیہ کا فیض آپ ﷺ کے قلب پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفۂ سر کے اوپر آ رہا ہے۔ بس یہ اس کی تشریح ہے۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اقدس مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ پچھلے سوموار کو بندے نے شرعی پردہ کے بارے میں رہنمائی حاصل کی تھی جس سے کافی فائدہ ہوا، اب صرف ایک خاص جزئیہ کے بارے میں رہنمائی کر دیں، وہ یہ ہے کہ گھر والے اس بات پر مصر ہیں کہ عید میں اقرباء کے گھر بھی جانا ہو گا۔ جہاں شرعی پردہ بالکل نہیں ہے۔ اب تک بندہ نے یہ بات تسلیم نہیں کی ہے۔
جواب:
اصل میں جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ وہاں وقت کو کم سے کم کر لیں اور دوسری بات ہے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں، یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے ہم دفتر میں جاتے تھے تو وہاں خواتین بھی ہوتی تھیں، ایسی صورت میں ہمیں اپنی آنکھیں نیچی رکھنی ہوتی تھیں۔ کیوں کہ ان کو تو ہم منع نہیں کر سکتے تھے کہ تم سامنے نہ آؤ۔ اس بارے میں ہمارے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا تھا، میں اپنی class میں backbencher ہوتا تھا یعنی میری عادت تھی کہ میں سب سے پیچھے بیٹھا کرتا تھا، class میں 3 لڑکیاں تھیں، وہ آگے بیٹھا کرتی تھیں۔ اور آج کل کلاسوں میں یہ ہوتا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کو تنگ کرتے ہیں، یہ ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔ جب وہ تنگ ہو گئیں تو پیچھے کی طرف آ گئیں تو میں اسی وقت اٹھا اور ان کی سیٹوں پر بیٹھ گیا اور اس کو انہوں نے دل میں بڑا mind کیا اگرچہ کہا کچھ نہیں، سمجھیں کہ ان میں بڑا غرور ہے، ہمارے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کیا، وہ کراچی کی تھیں اور کراچی والوں کا culture ایسا ہی ہے، بہر حال انہوں نے اپنے خیال میں mind کر لیا، پھر اتفاقاً ان کی ہمارے گھر والوں سے ملاقات ہو گئی تو انہوں نے بر سبیل تذکرہ وہی بات کی تو انہوں نے کہا وہ تو اپنی cousins سے بھی پردہ کرتے ہیں۔ ان کا تو یہ مزاج ہے کہ وہ نہیں بات کرتے۔ پھر ان کو پتا چل گیا کہ اچھا یہ بات ہے، ہمارے ساتھ کوئی خصوصی اختلاف نہیں ہے بلکہ عمومی وجہ ہے۔ پھر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جب ہم جرمنی سے آئے تھے تو وہاں سے ہم ایک گھڑی لائے تھے، وہ گھڑی fm بھی وہ پکڑتی تھی اور fm کی آواز بڑی صاف آتی تھی۔ تو tv کی جو آواز ہوتی ہے یہ fm پہ آ جاتی ہے، چونکہ آواز بڑی صاف آتی تھی اس لئے ہم اس پہ خبریں سن لیتے تھے۔ کیونکہ دیکھنا نہیں ہوتا تھا لیکن خبریں اس کی سن لیتے تھے۔ تو اس کی خبریں چل رہی تھیں، آواز چونکہ کافی تیز تھی تو باہر تک جا رہی تھی، وہ walk کر رہی تھیں Round up تھا ہمارے گھر کے سامنے۔ تو انہوں نے آواز سنی تو بڑی حیرت ہوئی کہ شبیر صاحب کے گھر سے tv کی آواز کیسے آ رہی ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ خیر انہوں نے گھنٹی دی، ہمارے گھر والوں نے دروازہ کھول لیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے گھر tv ہے؟ گھر والوں کو بھی مزہ آ گیا، انہوں نے کہا: جی بالکل ہے۔ تو انہوں نے کہا: شبیر صاحب نے اجازت دی ہے؟ گھر نے کہا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہاں ہے؟ یوں وہ اندر آ گئیں تو گھر والے ان کو Drawing room میں لے گئے تو وہ گھڑی پڑی ہوئی تھی، جب دیکھا تو وہ ہنسیں کہ اچھا اچھا یہ tv ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر اس طرح انسان کرے تو شریعت پر چلنا کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ شیطان اس کا ہَوّا بنا دیتا ہے کہ اس پر عمل کرو گے تو پتا نہیں کیا ہو گا، یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ ہمیں تو ہمارے شیخ نے یہی بتایا تھا، ہمارے ساتھ جب اس قسم کی بات ہوئی تھی تو فرمایا کہ اچھا جب تم باہر بازار میں کھڑے ہو اور ساتھ کوئی خاتون کھڑی ہو جائے تو تم اس کو روک سکتے ہو؟ میں نے کہا نہیں روک سکتا۔ تو انہوں نے فرمایا اس وقت کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا نیچے دیکھتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا بس آپ رشتے داروں میں بھی نیچے دیکھا کریں۔ یہ اس صورت میں ہے جب فتنے کا امکان ہو کہ اگر ہم نہ جائیں تو فتنہ ہو اور اگر نہ جانے سے فتنہ نہ ہو تو پھر جانے کی بات ہی نہیں ہے، بلا وجہ جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ اس صورت میں جیسے آپ بتا رہے ہیں کہ فتنے کا امکان ہے کہ لوگ اس کو اپنی انا بنا لیتے ہیں، جن میں والدین بھی ہوتے ہیں، جن میں چچا بھی ہوتے ہیں، ماموں بھی ہوتے ہیں، مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
ایک خاتون مجھ سے بیعت ہوئیں، وہ پہلے پردہ نہیں کرتی تھیں، چونکہ ان کے خاندان میں نہیں تھا، بعد میں الحمد للہ جیسے ہی بیعت ہوئیں تو اسی دن سے ہی انہوں نے شرعی پردہ شروع کر لیا۔ جب شرعی پردہ شروع کر لیا تو ان کے خاندان کے جو رشتے دار آئے تو ان سے انہوں نے پردہ کیا، جس کو انہوں نے بہت mind کیا کہ کمال ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہ بیعت ہوئی ہے۔ چونکہ عموماً پنجاب اور سندھ میں پیروں سے عورتیں پردہ نہیں کرتیں، عادت نہیں ہے یا کوئی اور وجہ ہے، بہر حال یہ بڑی خطرناک بات ہے، لیکن ایسا ہی ہے۔ ان لوگوں نے بھی یہ سمجھا کہ شاید شیخ سے تو پردہ نہیں کرتی ہو گی ہم سے پردہ کرتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا اگر ہم سے پردہ کرتی ہے تو شیخ سے کیوں پردہ نہیں کرتی؟ اس نے خود جواب دیا کہ میں نے پردہ سیکھا ہی شیخ سے ہے، ان سے کیوں پردہ نہیں ہے وہ تو خود ہی پردہ کرتے ہیں، اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ پھر انہوں نے با قاعدہ check کیا، تحقیق کی۔ تحقیق میں جب صحیح ثابت ہوا تو پھر وہ سارے خود بیعت ہو گئے، یوں ان کا پورا خاندان بیعت ہو گیا۔ لہذا ابتدا میں یہ مسائل ہوتے ہیں۔
سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بڑی تکلیفیں آئی تھیں، بہت پریشانیاں تھیں۔ وہ احد احد کہتے تھے، بس ان کا یہ خاص ذکر تھا کہ احد احد احد کہتے رہتے تھے۔ توکسی نے بعد میں ان سے پوچھا کہ حضرت آپ پہ تو بڑی تکلیفیں تھیں، کیسے آپ نے یہ کیا؟ انہوں نے کہا دیکھو! جب ہم بازار سے کوئی گھڑا خریدتے ہیں تو اس کو بھی ٹھوکتے ہیں کہ اندر سے اس کی آواز کیسے آ رہی ہے، ٹھیک آ رہی ہے یا نہیں۔ لہذا اگر ہم گھڑا خریدتے وقت اس طرح کرتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ ہمیں قبول کرنے کے لئے ایسا نہیں کرے گا؟ کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ لہذا کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ یعنی جب اس line پہ کوئی آتا ہے تو ایک طرف شیطان کے ہاں کہرام مچ جاتا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک امتحان کے طور پر کچھ چیزیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن جیسے ابھی ابھی ایک خاتون کی بات گزری ہے کہ ابتدا میں ان کو بڑی مشکلات پیش آئیں، ان کو خطرہ تھا کہ کہیں میرا سب کچھ ختم نہ ہو جائے، لیکن اللہ پاک نے پھر اس پر رستے کھولنا شروع کر دیئے اور اب الحمد اللہ کہتی ہیں کہ میں شکر پر شکر کر رہی ہوں۔ لہذا بعد میں پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسانیاں آتی ہیں۔
سوال نمبر 21:
حضرت صاحب یہ سوال بھی ہے کہ آپ سے دعا کی اپیل ہے، میرے اندر کوئی بھی کام کرنے کا ولولہ نہیں ہے یہاں تک کہ میں فرض نماز بھی بمشکل ادا کرتا ہوں اور سنت نہیں پڑھتا، smoking کی عادت ہے جو با وجود کوشش کے نہیں چھوڑ پا رہا۔
جواب:
یقیناً میں دعا کرتا ہوں دل سے۔ دعا کرنے میں کوئی انکار نہیں ہے۔ البتہ ولولے کا انتظار نہ کریں، شیطان نے آپ کو ولولے کے پیچھے ڈال دیا ہے کہ جب تک آپ میں ولولہ نہیں آئے گا اس وقت تک آپ یہ نہیں کریں گے۔ یاد رکھئے جس کام کو کرتے ہوئے آپ کے نفس پر بوجھ آ رہا ہو تو نفس پر بوجھ بھی مجاہدہ ہوتا ہے، اور پھر اس وقت آپ کو مجاہدے کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بات ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے یہی بات کی کہ نماز پڑھنا میرے لئے بہت ہی زیادہ مشکل ہے۔ حضرت نے فرمایا خدا کے بندے جب آپ کے لئے 100 فیصد نمبر لینے کا وقت آ گیا تو اس وقت پیچھے ہوتے ہو، کیونکہ جس وقت انسان کا نماز پڑھنے کا شوق ہو تو اس وقت شوق کے نمبر کٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ تو granted ہیں۔ اور جب آپ کو شوق نہ ہو اور اللہ کا حکم سمجھ کر آپ پڑھ رہے ہوں تو آپ کو وہ نمبر بھی مل جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو ما شاء اللہ 100 فیصد نمبر ملنے کا امکان ہے۔ لہذا سب سے پہلے توبہ کر لیں، اور ابھی تک جو سنتیں آپ نے چھوڑی ہیں ان کے لئے دو رکعات صلوٰۃ التوبہ پڑھ لیں اور اس کے لئے روزانہ 1000 مرتبہ درود شریف شروع کر لیں۔ کیونکہ حضور ﷺ کا طریقہ آپ نے چھوڑا ہوا ہے۔ اور ساتھ سنتوں کو پڑھنا شروع کر لیں اور مجھے ہفتہ بہ ہفتہ report دے دیا کریں کہ آپ سنتیں پڑھ رہے ہیں یا نہیں اور نماز کی کیا position ہے اور smoking کے بارے میں بعد میں دیکھیں گے ان شاء اللہ۔ وہ ایک الگ issue ہے۔ لیکن کم از کم سب سے پہلے فرض اور سنت موکدہ تو صحیح ہو جائیں۔ اس لئے آپ یہ شروع کر لیں۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! حضرت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور آپ کی دعا سے عشرہ ذی الحج کے سارے 9 روزے رکھنے کی توفیق ہوئی۔ آج ہمارا یوم عرفہ کا روزہ ہے، پچھلے سال بھی پورے 9 روزے رکھے تھے، یہاں روزہ تقریباً انیس تا بیس گھنٹے کا ہے۔ میں جتنا بھی شکر کروں وہ کم ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے خاص فضل، آپ کی دعاؤں اور سلسلے کی برکت سے ممکن ہوا۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ جزاک اللہ خیرا۔
جواب:
اللہ جل شانہ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔ دل بڑا خوش ہوا۔ اللہ پاک آپ کو انتہائی قبولیت نصیب فرما دے۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
شیخ I had a question in the نقشبندی chain. It goes from سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ to امام قاسم ابن محمد بن ابنِ ابو بکر but امام قاسم رحمۃ اللہ علیہ was born after the passing away of سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ . The only way this can be reconciled in my opinion is, if I believe in اویسی transmission of the سلسلہ . What is your opinion?
جواب:
ما شاء اللہ بڑا خوب صورت سوال ہے۔ آپ نے بالکل صحیح بات کی ہے بس تھوڑی سی معلومات کی کمی ہو گی شاید۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نقشبندی سلسلے کا جو بنیادی chain ہے وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے جس کو لوگ recognize نہیں کرتے۔ بیعت کا سلسلہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلا ہے۔ بعد میں حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ جن کی آپ نے بات کی ہے ان کے ذریعے سے آیا ہے اور یہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس لئے آیا ہے کہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا ننہال صدیقی تھا۔ اس وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیض خاندانی آیا ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام محمد بن قاسم کی اویسی نسبت اگر آئی ہو گی تو اویسی نسبت سے کوئی انکار نہیں ہے، اویسی سلسلہ سے انکار ہے۔ سلسلہ کبھی بھی اویسی نہیں ہوتا، سلسلہ با قاعدہ زندہ حضرات پہ مبنی ہوتا ہے اور نسبت کے لئے کسی شخصیت کی ضرورت نہیں ہے وہ direct بھی ہو سکتی ہے۔ کسی کو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نسبت حاصل ہو سکتی ہے، کسی کو شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ کے ساتھ اویسی نسبت حاصل ہو سکتی ہے، کسی کو کسی اور بزرگ کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ بھی براہِ راست ہو سکتی ہے۔ گویا یہ سب ممکن ہے۔ تاہم یہ نسبتِ اویسی تقویتِ نسبت کے لئے ہوتی ہے، یعنی آپ کو بیعت کے ذریعے سے، بیعت والے سلسلہ کے ذریعے سے نسبت حاصل ہو گئی اب آپ کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو گئی کہ آپ دوسرے حضرات سے، چاہے وہ اویسی نسبت ہو، چاہے دوسری نسبت ہو، اس کو حاصل کر سکتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں بزرگوں کا فرمان ہے کہ قبر سے فیض حاصل کرنے کے لئے صاحبِ نسبت ہونا ضروری ہے۔ تو اگر کوئی صاحب نسبت ہو تو پھر وہ مزید نسبتیں حاصل کر سکتا ہے۔ اور اویسی نسبت بھی اسی قسم کی ہوتی ہے جسے اگر کوئی حاصل کر لے تو اس سے اس پہ مزید تقویت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے نقشبندی سلسلے میں اس کی تقویت ہو چکی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ ان کا واحد source ہے۔ لہذا سلسلے والا source یہ نہیں ہے۔ سلسلہ تو جو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے آیا ہے، وہی ہے، بیعت والا سلسلہ وہی ہے۔ البتہ نسبت والا ذریعہ یہ بھی ہے۔ لہذا نسبت تو کہیں سے بھی ہو سکتی ہے اور آج کل کوئی بھی اس سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ چاروں سلسلے آپس میں مل گئے ہیں تو اگر اوپر مل سکتے ہیں تو نیچے بھی مل سکتے ہیں۔ اور نیچے ملے ہوئے ہیں، تو اب تو تقریباً یہ فخر کرنے کی بات نہیں ہے، اب تو سب ملے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کو چشتی سمجھا جاتا ہے لیکن وہ نقشبندی بھی ہیں، سہرودی بھی ہیں، قادری بھی ہیں۔ تو وہ فیض ان کو کہاں سے آ گیا؟ بس آ گیا۔ یوں سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ لہٰذا کسی کی فوقیت اور کسی کی کمی والی بات نہیں ہے۔ اس لئے اب سب اپنے اپنے عمل کی طرف متوجہ ہو جائیں اور ان چیزوں سے ذرا اپنی نظر کو ہٹا دیں۔ بس وہ بیعت والے سلسلے کی نسبت کافی ہے اور اس میں دو باتیں ہیں تعلیم اور تربیت۔ تعلیم کتاب سے بھی ہو سکتی ہے، لیکن تربیت کتاب سے نہیں ہو سکتی، وہ کسی زندہ شیخ سے ہوتی ہے۔ یہ بات اچھی طرح جاننی چاہیے۔ جیسے حدیث شریف کا معاملہ ہے کہ حدیث شریف تو آپ براہِ راست آپ ﷺ سے بھی سن سکتے ہیں جیسے خواب میں، اور کشف میں بھی ممکن ہے۔ لیکن وہ حدیث نہیں ہو گی اور اس خواب سے آپ صحابی نہیں بنیں گے۔ ٹھیک ہے آپ کو علم حاصل ہو گیا، لیکن وہ چیز حاصل نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے آپ کو یہ چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں اویسی طور پر۔ لیکن اصل بات آپ کی تربیت ہے جو زندہ شیخ سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کو اچھی طرح مان لینا چاہیے اور لوگوں نے یہ confusions ڈالی ہوئی ہیں، کیونکہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل ثابت کرنا چاہتے ہیں اور یہ شغل جاری رہتا ہے۔ اس کے لئے پھر وہ رستے ڈھونڈتے ہیں کہ میں کون سے ذریعے سے اپنی بات کر لوں۔ ورنہ بات تو بڑی simple ہے۔ مثلاً مجھے آج کل کوئی بزرگ بتا دو جو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ افضل ہو۔ میں کیسے تصور کر سکتا ہوں کہ میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت کے ساتھ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاؤں؟ عجیب و غریب بات ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا فرما رہے ہیں کہ اب بعد میں چاہے کوئی اقطاب ہو، چاہے کچھ اور ہو، سب کو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے مل رہا ہے۔ پھر اس کے بعد ان کی اولاد کے ذریعے سے مل رہا ہے۔ پھر اس کے بعد ان کی اولاد ہے۔ جلد نمبر سوم کے مکتوب نمبر 123 میں حضرت نے یہ باتیں بتائی ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں اس احساس کمتری میں نہیں جانا چاہیے۔ بس ہمارے جو بھی شیخ ہیں ان کے ساتھ لگے رہنا چاہیے۔ فارسی میں بڑی پیاری ضرب المثل ہے۔ کہتے ہیں ’’پیر من خس است ما را بس است‘‘ میرا پیر اگر خس بھی ہے میرے لئے کافی ہے۔ یعنی اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہیے کہ میں کیا کر رہا ہوں، کیا نہیں کر رہا۔ مجھے بس اپنے شیخ کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ہاں شیخ چننے سے پہلے خوب سوچو۔ اس لئے ہم کہتے ہیں شیخ چننے سے پہلے استخارہ کرو اور سوچو، سب کچھ کرو۔ لیکن اس کے بعد پھر اور کچھ نہ کرو۔ بس اس کے بعد پھر شیخ کی بات مانو، بلکہ ہمارے ہزارہ کے کچھ حضرات ہیں، پائمال شریف کے بزرگ ہیں، اس طرح اور حضرات بھی ہیں۔ وہاں پر ایک صاحب تھے جو اپنے پیر کے پاس جا رہے تھے، چونکہ وہ ایک پہاڑ سے نیچے اتر رہے تھے اور دوسرے پہاڑ پہ چڑھ رہے تھے تو راستے میں ان کو آواز آئی کہ ادھر آؤ، انہوں نے آواز سنی ان سنی کر دی۔ پھر آواز آئی کہ میں خضر ہوں، چونکہ خضر علیہ السلام کے پیچھے تو لوگ دور دور سے جاتے ہیں۔ جب انہوں نے کہا کہ میں خضر ہوں تو انہوں نے بغیر دیکھے کہا میرے خضر ادھر ہیں۔ جس وقت وہ اپنے شیخ کے پاس گئے تو چونکہ شیخ کو پہلے سے اطلاع ہو گئی تھی اور یہ ایک امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ہو گئے۔ تو بس سب کچھ ان کو مل گیا۔ اس وجہ سے اس میں انسان کو خوب یکسوئی ہونی چاہیے، بعد میں پھر ادھر ادھر نہیں دیکھنا چاہیے۔ بس اللہ پاک کے اوپر بھروسہ کر کے اپنے شیخ کی بات کے اوپر عمل کرنا چاہیے اور ادھر ادھر سے سننا بھی نہیں چاہیے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِينَ