اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم حضرت جی۔ ھو کا ذکر ایک ساز کی طرح سنائی دیتا ہے یا محسوس ہوتا ہے۔ ایک ہفتہ ہوا کہ ”ھُو، ھُو“ سے ایک سر سا پیدا ہو گیا ہے، بس وہی یاداشت میں رہنے لگا ہے۔ اس کی کیفیت میں جذب کی شدت محسوس نہیں ہوتی بس آرام آرام سے یہی دھن چلتی رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں دل کی طرف سے ہونے کا خیال نہیں کرتا۔ کوشش کی کہ کچھ کلام سنا جائے جس سے یہ ساز اور سر ختم ہو جائے لیکن زیادہ اثر نہیں ہوا۔ لسانی ذکر کرنے کی بھی کوشش کی لیکن لسانی ذکر سے کچھ بوجھ محسوس ہوا۔ کیفیت یہ ہے کہ دل مسجد میں بیٹھے رہنے کو کرتا ہے اور چلتے رہنے کو کرتا ہے۔ تنہائی میں جانے کو بالکل دل نہیں کرتا۔
جواب:
یہ ساری کیفیات ہیں اور انفعالات ہیں۔ ہمارے ہاں اصل بات اعمال کی ہوتی ہے، انفعالات پہ توجہ نہیں دی جاتی بلکہ اعمال پہ زور ہوتا ہے۔
مثلاً ہم اگر کوئی ذکر کرتے ہیں تو اس ذکر کا اثر اعمال میں دیکھتے ہیں کہ اعمال میں کیا اثر ہوا ہے۔ آپ ان چیزوں کی طرف توجہ نہ کریں۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ کے اعمال میں کیا تبدیلی آ رہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اصل ذکر وہ ہے جس سے انسان گناہ سے رک جائے۔ آپ بھی اسی طرف توجہ فرمائیں۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم حضرت جی!
I hope that you are fine with the blessings of almighty Allah! حضرت جی that ذکر you have given me, I have started and I have done for 30 days but 4 days ناغہ is also there. ذکر you have given me is 200 times “لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ”
400 times “اِلَّا اللہ”
600 times “اللہُ اللہ” and 100 times “اللہ” and 5 minutes لطیفۂ قلب، لطیفۂ قلب is needed more concentration to be done as حضرت جی I am facing احساسِ کمتری and too much anger. I am very much lazy as I do ذکر and فرض نماز only. My فجر prayer is getting missed and many thoughts are coming to me like one day I will become rich and do good stuff. I think this is because I want to make a name. My mother and father are very upset with me just because of my anger. I destroyed everything which I have earned. Some of the matters I get upset and get mad after my anger is gone. I realise I have done wrong .حضرت جی please give light to the darkness of my life and forgive me if I have said anything wrong in it.
جواب:
ایک کام صحیح ہوتا ہے اور ایک غلط۔ صحیح کام میں اگر سستی ہو تو اسے چستی کے ذریعے دور کرنا چاہیے۔ اگر غلط کام ہو رہا ہو تو اسے دبانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی دو باتیں انسان کو سیکھنی چاہییں۔ غصہ ہر کسی کو آتا ہے لیکن غصہ کے محل کو دیکھنا چاہیے کہ وہ صحیح ہے یا غلط۔ اگر غصہ کا صحیح موقع ہے تو جتنی مقدار میں غصہ کرنا بنتا ہو اتنی مقدار میں ہی کرنا چاہیے۔ اگر غصہ کرنے کا موقع غلط ہے تو بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ صحیح موقع پر ضرورت کے مطابق غصہ کرنے اور غلط موقع پر بالکل غصہ نہ کرنے کے لئے اپنے آپ پر control کرنا سیکھیں۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی بڑے پر غصہ آئے تو جسے غصہ آ رہا ہے وہ اس جگہ سے ہٹ جائے، اگر چھوٹے پر غصہ آئے تو اسے اس جگہ سے ہٹا دے۔ اپنی حالت کو بدل دے، کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔ اس طریقے سے غصہ کی انتہائی حالت گزر جائے گی اور اس کے برے اثرات سے آدمی بچ جائے گا۔
کوئی بھی کام جب ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے تب اسے روکنا اور اس پر قابو پانا آسان ہوتا ہے، اگر اُسے اس وقت نہ روکا جائے تو بعض اوقات اس کے نتائج اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ ان پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً کسی کو گالی دی تو عین ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے بہت بڑی لڑائی چھڑ جائے۔ اس لئے ابتدا میں ہی غصہ پر control کرنا ضرروی ہے۔
جو ذکر میں نے دیا تھا اسی کو کرنے کی کوشش کریں۔ ناغہ سے بچنے کے لئے ریمائنڈر لگا دیا کریں تاکہ یاد دہانی ہو جایا کرے کہ ذکر کرنا ہے۔ رابطہ پابندی سے کرتے رہا کریں۔
احساسِ کمتری بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ پاک نے جس کو جیسا بنایا ہے وہ اسی طرح اچھا ہے۔ ہم لوگوں کو اپنے آپ پر احساس کمتری نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی کو اللہ نے کالا بنایا ہے تو اس کے لئے اسی میں خیر ہے، کوئی گورا ہے تو اس کے لئے اسی میں خیر ہے۔ اگر کوئی توتلا ہے تو اسی میں خیر ہے، الغرض جس کو جیسا بھی بنایا ہے اسی میں خیر رکھی گئی ہے۔ دنیاوی چیزوں میں انسان کبھی احساس کمتری کا شکار نہ ہو کیونکہ اصل اعتبار آخرت کا ہے۔ آخرت میں انسان کی زندگی اچھی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم حضرت جی۔ کیا مراقبات اور لطائف کو روزانہ ایک ہی وقت پہ کرنا ضرروی ہوتا ہے؟ اگر وقت آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہوتا۔ نیز یہ بھی فرما دیں کہ مراقبہ اور لطائف وضو کے بغیر بھی کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اور زمین پہ ہی بیٹھ کر کرنا ضرروی ہے یا بیڈ اور چارپائی پہ بیٹھ کر بھی کر سکتے ہیں؟
جواب:
در اصل مراقبہ کسی چیز پہ concentrate کرنے کی ایک مشق ہے۔ اس مشق کو اسی حالت میں کرنا زیادہ مناسب ہے جس حالت میں زیادہ سے زیادہ توجہ آسانی سے مرکوز کی جا سکے۔ کھڑے ہو کر یا لیٹ کر توجہ کرنا مشکل ہوتا ہے، اس کی نسبت بیٹھے بیٹھے توجہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ اس لئے بیٹھ کر مراقبہ کرنا زیادہ مناسب ہے۔
مراقبہ اور معمولات کے لئے ایک وقت مقرر کر کے روزانہ اسی وقت مراقبہ اور معمولات کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ایک ہی وقت پر کرنے کی بجائے مختلف اوقات میں کیا جائے تو آہستہ آہستہ ناغے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ناغوں کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے اور آدمی وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے اس نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ ناغے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایک وقت مقرر کیا جائے پھر روزانہ اسی پر ہی مراقبہ کیا جائے۔
مراقبہ اور لطائف کے لئے وضو ضروری نہیں ہے لیکن اگر کر لیا جائے تو مفید ہے۔ جب انسان حالت وضو میں ہوتا ہے تو اس کی روحانیت زیادہ ہوتی ہے اور سفلی چیزیں دور رہتی ہیں لہذا کوشش کرے کہ با وضو ہو کر مراقبہ کرے لیکن بعض دفعہ مجبوری ہوتی ہے وضو نہیں ہو پاتا اس صورت میں بغیر وضو کے بھی کیا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی۔ میں نے 30 دن کا ذکر مکمل کر لیا ہے۔ اور یہ معمول بھی 30 دن مکمل کر لیا ہے کہ 5 منٹ کے لئے زبان کو روک کر یہ غور کرنا ہے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ ذکر یہ تھا: ”لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لآ اِلٰہَ اِلَّا ھو“ 400 مرتبہ، ”حَق“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 500 مرتبہ۔
جواب:
اب آپ ذکر کی ترتیب اس طرح کر لیں۔ ”لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ 400 مرتبہ، ”حَق“ 600 مرتبہ اور ”اللہ“ 1000 مرتبہ کر لیا کریں۔ زبان کو روک کر 5 منٹ کے لئے جو قلبی ذکر کرتے ہیں وہ جاری رکھیں اور یہ بتائیں کہ ذکر محسوس ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی۔ 10 مئی کو جو سوال پوچھا تھا اس کا جواب وٹس ایپ پہ نہیں ملا لیکن سوال و جواب کی مجلس میں مل گیا تھا۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ 10 منٹ کا مراقبہ کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ ذکر محسوس ہوتا ہے، دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ کبھی واضح سنائی دیتا ہے، کبھی صرف محسوس ہوتا ہے اور کبھی کچھ دن کے لئے مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔
حضرت جی کلمہ، درود شریف اور استغفار کی تین تسبیحات دو دنوں سے رہ گئی ہیں۔ مراقبہ عصر یا مغرب کے بعد کرتی ہوں لیکن ایک دن ان اوقات میں نہیں کر سکی۔ عشاء کے بعد بیٹھی تو بہت نیند آ رہی تھی۔ مراقبہ میں شروع کے چند منٹ دھیان رہا، پھر کب نیند میں چلی گئی پتا ہی نہیں چلا۔ آنکھ کھلی تو 10 منٹ گزر چکے تھے۔ اس کے بعد دوبارہ مراقبہ شروع کیا دوبارہ نیند آ گئی یہاں تک کہ تیس چالیس منٹ اس حال میں گزرے، ہر دفعہ دوبارہ شروع کرتی مگر چند منٹ کے بعد پھر نیند آ جاتی۔ سمجھ نہیں آئی کہ اسے ناغہ شمار کروں یا نہیں۔
مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی منتخب آیات والی منزل، صبح و شام کے اذکار اور دعائیں وغیرہ پڑھ رہی ہوں۔ پتا نہیں مجھے ان کی اجازت ہے یا نہیں لیکن مجبوراً پڑھ رہی ہوں۔ چھوڑ دوں تو طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔
جواب:
مراقبہ ایسے وقت میں کیا کریں جس وقت آپ بالکل تازہ دم اور ہشاش بشاش ہوں۔ سب سے بہترین وقت تہجد کا ہوتا ہے، دوسرے نمبر پر فجر کے بعد کا وقت فریش وقت ہوتا ہے، تیسرے درجہ میں عصر کے بعد کا وقت ہوتا ہے، اس وقت بھی نہ ہو سکے تو پھر مغرب اور عشا کے درمیان کا وقت بھی ٹھیک ہے۔ عشاء کا وقت ان چیزوں کے لئے سب سے زیادہ مشکل وقت ہے کیونکہ اس وقت انسان تھکاوٹ کی وجہ سے چور ہو چکا ہوتا ہے، نیند آ رہی ہوتی ہے، مراقبہ میں ویسے بھی انسان آنکھیں بند کر لیتا ہے، گویا نیند کے لئے جو چیزیں چاہیے ہوتی ہیں وہ سب مہیا ہو جاتی ہیں تو پھر نیند نہیں آئے گی تو اور کیا ہو گا۔ لہٰذا آپ مراقبہ ایسے وقت میں کر لیا کریں جب آپ fresh ہوا کریں۔
اگر آپ منزل پڑھتی ہیں تو منزل جدید پڑھ لیا کریں اس میں حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ والی منزل بھی شامل ہے اور کچھ مزید آیات بھی ہیں آپ وہ پڑھ لیا کریں۔ جو دعائیں اور ذکر بتائے گئے ہیں ان کو جاری رکھیں۔
جو مراقبہ اب تک دس منٹ کے لئے کر رہی تھیں اسے اب 15 منٹ کیا کریں۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم۔ حضرت امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے درج ذیل علاجی ذکر دیا تھا۔ ”لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللہ“ 400 مرتبہ، ”اللہ ھُو“ 600 مرتبہ، ”اللہ“ 1000 مرتبہ۔
اس کے علاوہ درج ذیل مراقبات دئیے تھے۔ لطیفۂ قلب 5 منٹ، لطیفۂ روح 5 منٹ، لطیفۂ سر 5 منٹ، لطیفۂ خفی 5 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 5 منٹ، لطیفۂ ثبوتیہ 15 منٹ۔ لطیفۂ ثبوتیہ ابھی محسوس نہیں ہو رہا۔
حضرت آپ نے جو معمولات بتائے الحمد للہ ٹھیک ہوئے ہیں مگر صبح کی نماز میں کافی ناغہ ہوتا ہے، رات کو بارہ بجے سوتا ہوں۔ ایک فرم میں کام کرتا ہوں صبح جب فرم جاتا ہوں تو کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔ اس کام کا کیا فائدہ جس میں جماعت کی نماز رہ جائے۔
ذکر کے ساتھ ساتھ بلا ناغہ قرآن مجید کی ایک پاؤ تلاوت اور درود شریف کا ورد کرتا ہوں۔ رات کو دو رکعت صلاۃ التوبہ پڑھتا ہوں۔ حضرت صاحب مزید رہنمائی اور اصلاح فرما دیں۔
جواب:
سب سے پہلے تو آپ یہ کام کریں کہ صبح کی نماز کا معمول درست کریں۔ اس کے لئے آپ کو جو بھی کرنا پڑے کریں۔ اور کچھ نہیں تو مجاہدہ سمجھ کر کیا کریں۔ سب سے بڑا مجاہدہ یہی ہے کہ وقت پر نماز پڑھی جائے اور سنت کے مطابق زندگی گزاری جائے۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سنت پہ چلنے سے بڑا مجاہدہ اور کوئی نہیں ہے۔ اس حساب سے فرائض کو پورا کرنا تو اس سے بھی بڑا مجاہدہ ہے۔ لہٰذا آپ اس کو مجاہدہ سمجھ کر کر لیا کریں۔ باقی معمولات آپ کے وہی رہیں جو پہلے کر رہے ہیں، انہیں اسی طرح جاری رکھیں، بس فجر کی نماز کا معاملہ درست کریں اور مجھے جلد ہی اس کی اطلاع کریں۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اللہ کے فضل و کرم سے ساتواں ذکر مکمل ہوا۔ ذکر یہ تھا: ”لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لآ اِلٰہَ اِلَّا ھو“ 400 مرتبہ، ”حَق“ 600 مرتبہ، ”اللہ“ 300 مرتبہ۔ روزانہ کی تسبیحات معمول کے مطابق جاری ہیں۔ ذکر سے میرا قلب جاری تو ہو گیا مگر ہر لمحہ جاری نہیں رہتا اور بالکل غافل بھی نہیں ہوتا۔ کئی بار ایسے ہوتا ہے کہ دل کے ساتھ ناف کا حصہ بھی دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔ میرا دماغ میرے دل کا ساتھ نہیں دیتا، دل معصوم معلوم ہوتا ہے۔ خود سے بھی اللہ کرتا ہے اور دھیان کرنے سے بھی اللہ اللہ کرتا ہے لیکن دماغ دل کے تابع آنے میں دیر کرتا ہے، دماغ کو دل کے تابع کیسے کروں۔ کوئی ایسا عمل بتا دیں جو ہر وقت کروں جس سے باطن بھی پاک ہو۔
جواب:
اب آپ ذکر کی ترتیب اس طرح کر لیں کہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھو“ 400 مرتبہ، ”حَق“ 600 مرتبہ، ”اللہ“ 500 مرتبہ کر لیا کریں۔ 5 منٹ کے لئے یہ تصور کیا کریں کہ آپ کا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔ باقی معاملات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے، آپ یہی معمولات باقاعدگی سے کرتے رہیں ان شاء اللہ آپ اس کی برکات محسوس کریں گے۔
سوال نمبر8:
حضرت جی سیدی و مرشدی۔ جہلم سے ایک صوفی عالم جو میاں چنوں کے رہنے والے ہیں، خانقاہ بنا کر طریقت کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کے والد مولانا شہاب الدین قاضی اور مولانا درخواستی صاحب کے ہم عصر اور اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ ان کے والد بزرگوار سے سلسلۂ چشتیہ میں اجازت تھی اور قادری سلسلہ میں سید احمد حسین شاہ صاحب حسینی نے خلافت و اجازت دی تھی۔ ان کی مجلس روزانہ منعقد ہوتی ہے، ان کی مجلس میں جانے سے فائدہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ کیا میں ان کی مجلس شریک ہوکر ان کی صحبت کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟ اگر شرکت کروں تو کس طریقے اور کس نیت سے کروں؟
جواب:
جی ہاں بالکل آپ صحبت صالحین کی نیت سے اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ تربیت کا معاملہ اپنے شیخ کے ساتھ ہی رکھیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم مجھے تسبیحات اور ذکر کرتے ہوئے 40 دن مکمل ہو گئے ہیں۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اگر آپ یہ تسبیحات اور ذکر کر رہیں تھیں: 300 مرتبہ ”سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرُ“، 200 دفعہ ”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“۔ تو اب آپ تیسرا کلمہ مکمل 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ اور استغفار 100 دفعہ کیا کریں۔ اس کے علاوہ 10 منٹ کے لئے آنکھیں بند زبان بند کر کے قبلہ رخ بیٹھ کے یہ تصور کریں کہ ساری چیزیں اللہ کو یاد کر رہی ہیں، میرا دل بھی ایک چیز ہے وہ بھی اللہ اللہ کر رہا ہے، آپ نے اس اللہ اللہ کو محسوس کرنا ہے۔ ایک مہینہ بعد اطلاع کریں۔ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار عمر بھر کے لئے ہے اور 10 منٹ کا جو تصور والا ذکر دیا ہے وہ ایک مہینہ کرکے مجھے اطلاع کریں۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم۔ مجھے 40 تسبیحوں کی ہدایت کی گئی تھی، یہ تسبیحات پوری ہو گئی ہیں۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ تیسرا کلمہ مکمل، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ کریں۔ یعنی تینوں اذکار کی ایک ایک تسبیح روانہ کریں۔ یہ عمر بھر کے لئے ہے۔ اس کے علاوہ روزانہ 10 منٹ کے لئے آنکھیں بند زبان بند قبلہ رخ بیٹھ کر یہ تصور کرنا ہے کہ ساری چیزیں اللہ اللہ کر رہی ہیں میرا دل بھی ایک چیز ہے وہ بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اس اللہ اللہ کو آپ نے محسوس کرنا ہے۔ یہ معمول ایک مہینے کے لئے ہے، ایک مہینہ بعد مجھے اطلاع کریں۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت اقدس مزاج بخیر عرض یہ ہے کہ بندہ کے خاندان میں شرعی پردے کا بالکل اہتمام نہیں ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کا اہتمام کرتا ہے لیکن بندہ کو سب گھر والے بے پردگی پر مجبور کرتے ہیں ایسی صورتِ حال میں بندہ کیا کرے؟ حضرت والا رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
یہ معاملہ صرف آپ کے ساتھ نہیں بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہے۔ ایک ہوتا ہے رواجی پردہ اور ایک ہوتا ہے شرعی پردہ۔ شرعی پردہ وہ ہے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے اور رواجی پردہ وہ ہے جو رواج میں چلا آ رہا ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ رواج کے ساتھ ہوتے ہیں جبکہ دین دار لوگ شرعی پردہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ بعض لوگ برائے نام دین دار ہوتے ہیں وہ اسی کو دین داری سمجھتے ہیں جو ان کی سمجھ کے مطابق دین ہوتا ہے، یہ اصلی دین دار نہیں ہوتے۔ اللہ ان کو بھی دین دار بنا دے، ہم سب کو بھی دین دار بنا دے (آمین)۔
آپ بالکل مت گھبرائیں، ان شاء اللہ اللہ پاک آپ کی مدد فرمائیں گے۔ آپ اس طرح سمجھیں کہ اگر آپ باہر ہوں کسی بازار میں ہوں آپ کے ساتھ ایک بے پردہ خاتون کھڑی ہو جائے تو اس وقت آپ کیا کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے اس وقت آپ صرف نظریں ہی جھکا سکتے ہیں۔ اور اللہ پاک کا بھی آپ سے ایسے وقت میں اتنا ہی مطالبہ ہے جتنا آپ کر سکتے ہیں۔ یہی کام آپ اپنے گھر میں بھی کریں، اور گھر کو ایسا ہی سمجھیں جیسے کوئی بازار ہے جہاں بے پردہ عورتیں موجود ہیں، جہاں تک ممکن ہو گھر میں بھی اپنی نظریں جھکا کے رکھا کریں اور نظریں نیچی رکھ کر بات چیت کرنا سیکھ لیں۔ بعض لوگ آنکھیں نیچی کر کے باتیں کرتے ہیں ان کی عادت ہی ایسی ہوتی ہے، انہیں کوئی عجیب نہیں سمجھتا، آپ بھی ایسا ہی کر لیں۔ جب کچھ عرصہ تک ایسا کریں گے تو لوگ کہ یہ تو نظریں نیچی کر کے بات کرتا ہے۔
جب تک آپ کو اپنے خاندان میں ایک رسوخ حاصل نہ ہو تب تک کسی کو پردے کا نہ کہیں۔ اپنے خاندان میں رسوخ کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آپ کی بات ماننا شروع کر لیں۔ جب تک آپ کو یہ حالت نصیب نہیں ہوتی تب تک کسی کو بھی پردے کا نہ کہیں۔ صرف اپنے آپ کو control کریں یہی آپ کی بڑی ہمت ہو گی۔ جس وقت رسوخ حاصل ہو جائے تب بہت نرمی کے ساتھ یہ باتیں دوسرے لوگوں کو سمجھایا کریں۔ ان شاء اللہ اللہ پاک آپ کی مدد فرمائے گا۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی۔ پرسوں رات مجھ سے تہجد کی نماز قضا ہو گئی۔ عموماً سستی نہیں کرتا لیکن اس رات آنکھ نہیں کھلی۔ عجیب سی حالت ہو جاتی ہے جب اللہ کی اس نعمت سے محروم ہو جاتا ہوں۔ اللہ میری حفاظت فرمائے۔ کوتاہی پر معذرت خواہ ہوں۔
جواب:
اول تو کوشش کریں کہ تہجد کی نماز قضا نہ ہو اگر خدا نخواستہ قضا ہو جایا کرے تو پھر چاشت کے وقت 12 رکعت پڑھ کر اس کی تلافی کر لیا کریں۔ کیونکہ تہجد کی نماز نفل ہے اور نفل کی قضا نہیں ہوتی ہاں دوسرے نفل کے ذریعے compensation ہو سکتی ہے۔ چاشت کی نماز بھی نفل ہے تہجد رات کی نفل ہے اور چاشت دن کی نفل ہے، تو جب کبھی تہجد کی نماز رہ جائے اس دن چاشت کی نماز بارہ رکعت پڑھ کے تلافی کر لیا کریں۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ کچھ دنوں سے موت کا خوف کافی بڑھ گیا ہے۔ اللہ پاک کو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا واسطہ دے کر صحت و تندرستی والی عمر دراز کی دعا مانگتا ہوں۔ ذرا سا بیمار ہو جاؤں تو بہت ڈر جاتا ہوں کہ کہیں اس بیماری سے مر ہی نہ جاؤں۔ حضرت جی دل میں اللہ سے ملاقات کا شوق کیسے پیدا ہو اور اس شوق کو کیسے بڑھایا جائے؟
اس کے علاوہ بعض اوقات ادارے میں لوگوں کے ساتھ کبھی جھوٹ بھی بول لیتا ہوں۔ بعد میں اس پر افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اس حالت پہ قابو نہیں پایا جا رہا۔ اس پر شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ براہِ مہربانی اس کے لئے ہدایت فرمائیں۔
جواب:
ایک ہے ہماری سوچ اور ہمارا ارادہ، کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے کام شریعت کے مطابق ہوں، ہم اختیاری طور پر اس بات کی پوری کوشش کرتے ہیں اور ایک ہے اللہ پاک کا ارادہ۔ اللہ پاک کے ارادہ کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ آپ نے لکھا کہ آپ کو موت سے بہت ڈر لگتا ہے، اس کے بارے میں یہ سمجھیں کہ اللہ پاک نے آپ پر مراقبۂ موت طاری کر دیا ہے۔ آپ مجھے لکھتے رہتے تھے کہ یہ نہیں ہو رہا اور یہ نہیں ہو رہا، اب اللہ تعالیٰ نے آپ پر موت کا ڈر طاری کر دیا ہے، عموماً لوگوں کو ان کے حالات کے حساب سے کئی بار مراقبۂ موت دیا جاتا ہے، لیکن آپ پہ خود طاری ہو گیا ہے، یہ اللہ پاک کی طرف سے ایک فضل ہے۔ جس پر مراقبہ موت طاری ہو جائے اسے اپنی عمر کی قدر آ جاتی ہے۔ جیسے کسی کو چھ گھنٹے بعد پھانسی ہونی ہو تو وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ چھ گھنٹے بہترین طریقے سے گزر جائیں، اس وقت زندگی کی قدر آ جاتی ہے۔
اس طرح کبھی کبھی اللہ پاک اس موت کے ڈر کے ذریعے زندگی کی قدر نصیب فرماتے ہیں۔ یہ اللہ پاک کا بہت فضل اور مہربانی ہے۔ البتہ آپ اس کو بہتر کرنے کے لئے درود شریف کی کثرت کیا کریں تاکہ اللہ پاک کی رحمت متوجہ ہو اور عافیت کے ساتھ یہ سارا کام ہو جائے۔
باقی رہی بات جھوٹ بولنے کی، جھوٹ ایک اختیاری چیز ہے، اختیاری بیماری کا علاج بھی اختیاری ہوتا ہے۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی درج ذیل ذکر و مراقبات کرتے ہوئے تیس دن مکمل ہو گئے ہیں۔ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ“ 200 مرتبہ، ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو“ 400 مرتبہ، ”حَق“ 600 مرتبہ، ”اللہ“ 500 مرتبہ۔ 5 5 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی، اور لطیفۂ اخفیٰ پر مراقبہ۔ 15 منٹ کے لئے مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ، جس میں یہ تصور کرنا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر، وہاں سے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے میرے لطیفۂ سر پر آ رہا ہے۔
حضرت جی کوئی غلطی ہو جائے تو دل میں بہت ملامت ہوتی ہے۔
حضرت جی آپ نے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کا کہا تھا۔ میں ہر ماہ اپنی تنخواہ سے 5000 کا صدقہ کرتا ہوں۔
اس کے لئے ایک Senior colleague ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے لے لئے WhatsApp پر campaign چلاتے ہیں اور پوری تصدیق کے بعد مستحق افراد تک امداد پہنچاتے ہیں۔ اس دفعہ راولپنڈی کے ایک مدرسے کے خادم کی بیٹی کے دل کا operation تھا total خرچہ 650000 تھا اس میں میں نے 5000 روپے دیئے تھے، الحمد للہ ان کی ضرورت پوری ہو گئی تھی۔
حضرت جی میرے لئے آگے کے لئے کیا حکم ہے آپ کی دعاؤں کا طلب گار ہوں۔
جواب:
باقی چیزیں بالکل ٹھیک ہیں۔ مراقبہ شیونات ذاتیہ کے بارے میں آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا آپ کو کیا فائدہ ہوا، اس کا آپ کے اوپر کیا اثر ہوا۔
بعض لوگ بات کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے۔ شیوناتِ ذاتیہ سے مراد اللہ پاک کی شان ہے۔ اللہ پاک کی شان ہر وقت رہتی ہے، شان کا تعلق ذات کے ساتھ ہے، اس لئے اس کو شیونات ذاتیہ کہتے ہیں۔ پہلے صفات کی طرف توجہ ہوتی ہے اس سے شیونات سامنے آتے ہیں، گویا انسان آہستہ آہستہ صفات سے ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جب ذات کی طرف توجہ ہوتی ہے تو اس کا فیض پانے کے لئے یہ تصور کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے دل پر فیض آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے دل سے شیخ کے دل پر اور شیخ کے دل سے مرید کے لطیفۂ سر پہ فیض آ رہا ہے۔
اس کو اسی طریقے سے 30 دن مزید کریں اس کے بعد مجھے بتائیں کہ اس کا آپ کے اوپر کیا اثر ہوا ہے۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم۔ حضرت جی تقریباً ایک سال سے میرے دل پر ایک خوف سا طاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے میرے دل پر بہت زیادہ بوجھ اور تکلیف ہوتی ہے، اس کی وجہ سے بہت پریشان رہتا ہوں۔
جواب:
ہمارے سلسلہ کی ایک برکت ہے، بلکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پورے سلسلہ کے اندر یہ چیز ہے کہ بعض لوگ جو اختیاری مجاہدہ نہیں کر سکتے ان پر غیر اختیاری مجاہدہ طاری کر دیا جاتا ہے جس کی برکت سے ان کو اللہ تعالیٰ وہ چیزیں از خود نصیب فرما دیتے ہیں جو چیزیں انہوں نے محنت کر کے حاصل کرنی تھیں۔ آپ یہ جو پریشانی اور خوف محسوس کرتے ہیں یہی خوف ان شاء اللہ آپ کو عمل کی طرف لائے گا۔
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کر سکتا ہے لیکن اس کا نفس اسے نہیں کرنے دیتا، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خوف سا طاری ہو جاتا ہے جس کی وجہ انسان وہ چیزیں خود بخود کر لیتا ہے۔ اصل مطلوب تو اختیاری خوف ہوتا ہے لیکن اگر کوئی اختیار طور پر یہ چیز حاصل نہ کر سکے، اس کی توجہ نہ ہو یا غفلت ہو تو پھر اللہ پاک اس پر خوف طاری کر دیتے ہیں۔ وہی خوف آپ پر بھی طاری ہے۔ آپ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اس خوف کے تقاضے پہ عمل کریں۔ جب آپ اس خوف کی وجہ سے اعمال شروع کر لیں گے تو اس کا نفسیاتی منفی اثر ختم ہو جائے گا، کیونکہ وہ خوف عمل میں بدل جائے گا۔ جیسے انسان بہت اونچی جگہ سے گرے، اگر سخت زمین پہ گرے تو بہت چوٹ لگتی ہے اور اگر نرم زمین پر گرے ریت وغیرہ پہ گرے تو پھر چوٹ نہیں لگتی۔ سائنسدان اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ریت چونکہ نرم ہوتی ہے اس لئے اس کے وزن کا کچھ حصہ اپنے اندر سمو لیتی ہے اس لئے کم چوٹ لگتی ہے۔ اگر آپ اس خوف سے فائدہ اٹھا کر اچھے اعمال شروع کر لیں تو آپ کا خوف عمل میں بدل جائے گا جس سے اس کا نقصان ختم ہو جائے گا۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم،
My dear and respected مرشد دامت برکاتہم hope you are well.
ان شاء اللہ حضرت جی دامت برکاتہم . Unfortunately, I missed فجر this morning. I am having a fever due to the change in weather in the UK and fear I may become more unwell if I fast. Can you please guide me in this matter?
جواب:
آپ کو فجر کی نماز قضا کرنے کی وجہ سے تین روزے رکھنے پڑیں گے۔ البتہ اس کے بارے میں ڈاکٹر سے consult کر لیں اگر وہ کہیں کہ آپ روزہ چھوڑ دیں تو پھر آپ روزہ نہ رکھیں اور اگر وہ اجازت دیں تو پھر آپ روزے رکھ لیں۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میرے والد صاحب پابند شریعت ہیں، عمر 70 برس سے زیادہ ہے، ایک عرصے سے اذکار کرتے ہیں لیکن طبیعت میں سختی بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آپ سے ان کو ملوانا چاہتا ہوں۔
جواب:
جی بالکل Most welcome وہ ہمارے بڑے ہیں، جب بھی تشریف لانا چاہتے ہیں تشریف لے آئیں، آنے سے پہلے اطلاع کر دیجیے گا۔
سوال نمبر18:
کبھی کبھی بے تکلف ساتھی بلاتے ہیں ان کے ساتھ پرانی یادیں وابستہ ہوتی ہیں، جب وہ محفل سجائیں تو وہی پرانے کام کرتے ہیں، کیا ان کے پاس جانا چاہیے یا نہیں، اور کیا ایسے دوستوں میں دعوت و تبلیغ کی نیت سے جا سکتے ہیں؟ پھر اگر ایسی محفل میں جائیں اور وہ آپس میں ایسی باتیں کریں جو درست نہ ہوں تو کیا ان کو روک ٹوک سکتے ہیں یا نہیں، اگر چپ رہیں تو پھر ان تک صحیح بات نہیں پہنچے گی، اور اگر منع کریں تو وہ بالکل ہی کٹ جاتے ہیں۔ بعض دوست کہتے ہیں بھئی یہاں آنا ہے تو بزرگی گھر چھوڑ کے آؤ۔ ایسے مواقع پر کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے؟
جواب:
بے تکلفی کی definition کرنی پڑے گی پھر اس سوال کا واضح جواب دیا جا سکتا ہے۔ بے تکلفی تو مشائخ بھی کیا کرتے تھے۔ مثلاً حضرت خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہت خاموش طبع بزرگ تھے، بات بالکل نہیں کرتے تھے، صرف ضرورت کے تحت بات کرتے تھے۔ مولانا مجاہد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے اسکول کے استاذ تھے وہ فاضل دیوبند تھے، خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دیوبند سے پڑھا تھا۔ یہ دونوں حضرات کلاس فیلو تے۔ ایک دن مولانا مجاہد صاحب حضرت خواجہ صاحب کے ساتھ ملنے کے لئے گئے، خواجہ صاحب کو پتا چلا کہ مولانا مجاہد خان صاحب آ رہے ہیں تو اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور ان کا سامان اٹھا لیا۔ انہوں نے کہا تیرے سارے مرید دیکھ رہے ہیں۔ خواجہ صاحب نے کہا: مرید بے شک دیکھتے رہیں تمہارا میرا معاملہ الگ ہے، ہم تو کلاس فیلو ہیں، لہذا آپ کے ساتھ تکلف نہیں چلے گا۔
حالانکہ نقشبندی حضرات نسبتاً باوقار رہتے ہیں اور بے تکلفی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اپنے دوستوں کے ساتھ پرانی بے تکلفی اگر جائز حدود میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
بعض لوگ بے تکلفی میں حد سے بڑھ جاتے ہیں، ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے دیتے ہیں، اور کچھ باتیں شرعی حدود سے تجاوز کر جاتی ہیں، یہ سب نا جائز ہے۔ یہ بے تکلفی نہیں ہے یہ تو بے شرمی ہے، اسے بے تکلفی کا نام دے دیا گیا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو جائز بے تکلفی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جائز بے تکلفی آپ ﷺ بھی فرماتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں فرمایا کرتے تھے۔ جائز بے تکلفی میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ناجائز بے تکلفی نہ دوستوں کے ساتھ جائز ہے نہ کسی اور کے ساتھ جائز ہے۔
دوستوں کی ایسی محافل میں دعوت کی نیت سے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شاہ اسمٰعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ رنڈیوں کے پاس بھی تبلیغ کے لئے جاتے تھے۔ وہ ایک الگ بات ہے دعوت والا میدان بہت وسیع ہے، البتہ اس میں اپنے آپ کو بچانے کا انتظام لازماً ہونا چاہیے۔
جب وہ کوئی ایسی بات کریں جو جائز نہ ہو تب خاموش نہ رہیں لیکن صاف منع بھی نہ کریں، اس میں لطائف الحیل سے کام لینا ہوتا ہے، ایسی بات کو ٹال دیا جاتا ہے اور گفتگو کا رخ تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ ہم نے اس کا طریقہ کار حلیمی صاحب میں دیکھا تھا ان کو یہ چیز بہت زبردست آتی تھی۔
جو لوگ یہ کہنے لگیں کہ بھئی یہاں آنا ہے تو بزرگی چھوڑ کر آؤ۔ ان کا جواب یہ ہے کہ بزرگی چھوڑ بھی دیں، انسانیت تو نہیں چھوڑ سکتے۔ آپ ان سے گپ شپ میں کہہ دیں کہ ہمارے ہاں بزرگی تو ہے ہی نہیں مگر انسانیت تو کسی صورت نہیں چھوڑنی چاہیے۔
سوال نمبر19:
حضرت جی آپ نے فرمایا تھا کہ ہر کوئی صحبت کا اثر لیتا ہے خواہ اچھا ہو یا برا۔ آج کل معاشرے میں اچھے لوگ کم ہوتے ہیں۔ دوستوں رشتے داروں میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں کتنی دیر بیٹھنا چاہیے کہ ہمیں زیادہ نقصان نہ ہو؟
جواب:
اپنے آپ کو بچانے کی نیت سے ایسے لوگوں سے نہیں ملنا چاہیے جن میں شر کا عنصر زیادہ ہو۔ لیکن اس کا اعلان نہ کریں کہ میں آپ سے نہیں ملوں گا، بس خاموشی سے اپنے آپ کو بچاتے رہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن