خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبیﷺ کے حصہ ششم میں صفحہ نمبر 365 پر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص گھوڑا اللہ کی راہ میں باندھتا ہے اور اس کا حق ادا کرتا ہے وہ اس کے لئے ثواب کا موجب ہے۔ جو اس کو ضرورت کے لئے باندھتا ہے وہ اس کے لئے پردہ پوش ہے۔ اور جو نمائش کے لئے باندھتا ہے وہ اس کے لئے عذاب ہے۔ اس حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت محمدیہ میں نیت کا سوال سب سے اہم ہے اس لئے ضروری ہے کہ حق کے مخالفوں کے ساتھ ایک مسلمان کو جس عدم موالات کا حکم دیا گیا ہے اس کا منشاء ذاتی و قومی نفرت اور بیزاری نہ ہو بلکہ وہ صرف حق کی نصرت کی خاطر اور اللہ کے لئے ہو لیکن اس کے با وجود باطل کے حامیوں کے ساتھ عدل و انصاف اور نیک برتاؤ سے اسلام نے اپنے پیرؤوں کو نہیں روکا ہے۔ یہاں حضرت نے جو بہت اہم بات فرمائی ہے کہ مخالفین کے ساتھ عدم موالات صرف حق کی نصرت کی خاطر ہو نہ کہ ذاتی و قومی نفرت کی سبب اور اس کے ساتھ باطل کے حامیوں کے ساتھ نیک برتاؤ کا بھی حکم ہے۔ ان سب چیزوں کو ایک انسان عملاً کیسے جمع کر سکتا ہے اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
در اصل انسانیت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور مسلمانیت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ سارے انسان ہیں لیکن ان میں کچھ مسلمان ہیں تو انسانیت کے لحاظ سے وہ کافر جو حربی نہیں ہیں جن کے ساتھ جنگ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ امن کا معاملہ ہے، ان کے انسانی حقوق برقرار ہیں اور ان کی با قاعدہ حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ جزیہ جو لیا جاتا تھا، یہ اس لئے نہیں لیا جاتا تھا کہ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ وہ کوئی ٹیکس تھا، بلکہ وہ ان کی حفاظت کے لئے تھا اور اس کے ذریعے سے ان کی حفاظت کی جاتی تھی۔ اور جس وقت مسلمان ان کی حفاظت معذور ہوتے تھے تو وہ جزیہ انہیں واپس کر دیتے تھے۔ اس کی مثالیں موجود ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانیت کا جو احترام ہے وہ تو اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن جس وقت حق اور باطل کی بات آ جاتی ہے تو حق اور باطل کے معرکے میں اگر باطل آپ کے ساتھ بر سرِ پیکار ہے اور نا صرف آپ کی ذات کو بلکہ آپ کے دین کو بھی نقصان پہنچانے کے درپے ہے تو اس وقت اس کے ساتھ جو لڑائی ہے وہ مختلف صورتوں کی ہو سکتی ہے۔ وہ لڑائی با قاعدہ میدان جنگ میں بھی ہو سکتی ہے۔ بلکہ آج کل تو میدان جنگ کا مسئلہ ہی نہیں ہے کیونکہ آج کل بہت ساری ہوائی چیزیں ہیں تو ہر جگہ میدان جنگ بن جاتا ہے۔ بہر حال اگر میدان جنگ گرم ہو جس میں لوگوں کو مجموعی طور پر نقصان پہنچانے کے سارے ذرائع کھل کے استعمال کئے جاتے ہوں تو ایسی صورت میں جنگ کا جو طریقۂ کار ہے وہ بھی شریعت نے طے کیا ہے کہ کیسے رہنا ہے اور جہاد کی با قاعدہ فقہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر کچھ ایسی نقصان پہنچانے والی چیزیں ہوں جن کی اس دور کے مطابق روک تھام کی جا سکتی ہو جیسے کسی کا معاشرتی یا معاشی بائیکاٹ کرنا جس کی وجہ سے گویا کہ ان کو حق پر آنے پہ مجبور کیا جاتا ہے تو وہ جہاد کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی اللہ کے لئے یہ کرتا ہے تو یقینًا اس کا اجر پائے گا کیونکہ وہ جہاد کا ایک ذریعہ ہے اور اس وقت آپ اس کو اس ذریعے سے نیچا دکھا رہے ہیں اور اسے مذاکرات کی میز پر لا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی کہتا ہے کہ آپ جو بھی کہتے ہیں، میں نہیں مانتا تو انہوں نے اس کا راستہ بند کر دیا اور کہا کہ آپ نکل کے دکھائیں۔ جب اس کا راستہ بند کر لیں گے تو وہ بات کرنے پہ مجبور ہو جائے گا۔ اس طرح آپ اس کے سامنے اپنی شرائط پیش کر لیں گے۔
آج کل آپ یہ نہیں کر سکتے تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ آپ ان کی چیزیں خریدنا چھوڑ دیں، ان کی معیشت کو زک پہنچائیں، کیونکہ ان کی چیزیں لینا آپ کے اوپر لازم تو نہیں ہے، آپ جس چیز کو بھی لینا چاہیں لے سکتے ہیں اور جس چیز کو بھی نہ لینا چاہیں نہ لیں، آپ کے پاس اس کا option ہے۔ اب اگر آپ option کا یہ حق اسلام کے لئے استعمال کر لیں کہ میں ان سے نہیں خریدوں گا جو مجھے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ پیسہ ان کے پاس جا رہا ہے جس کے ذریعے سے وہ مجھے نقصان پہنچا رہے ہیں لہٰذا میں خود کو نقصان پہنچانے والے پیسے ان کو کیوں پہنچاؤں تو گویا آپ ان کا معاشی بائیکاٹ کر لیتے ہیں۔ آج کل یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی بدولت ان کو بات پر لانے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس میں اصل مقصد معاشی بائیکاٹ نہیں ہوتا بلکہ اصل میں اس کو مذاکرات پہ لانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ کم از کم آپ کی بات سنیں اور مانیں۔ اس میں بنیاد یہی یہ۔ اب اس طرح کے حالات میں اگر کوئی کاروباری آدمی صرف اپنی ذاتی ضرورت کے لئے یہ سوچے کہ لوگ مجھ سے چیز خریدیں گے اور قرآن پاک کی آیتیں اور احادیث شریفہ بڑے بڑے سائز میں لکھوا کر لوگوں کو ان کے بائیکاٹ کا بتا رہے ہوں تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی نیت تجارت کی ہے۔ أصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللہِ یعنی بخاری شریف میں پہلی حدیث شریف ہی یہی ہے کہ "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (البخاری، حدیث نمبر: 1) ”تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پہ ہے“ اور ساتھ مثال بھی دی گئی ہے کہ اگر کسی نے اللہ اور اللہ کے رسول کے لئے ہجرت کی تو اس کے لئے وہی ہے اور جس نے کسی کے ساتھ شادی کرنے کے لئے ہجرت کی تو اس کے لئے وہی ہے۔ حالانکہ شادی کوئی نا جائز بات نہیں ہے لیکن اگر آپ نے شادی کے لئے ہجرت کی تو وہ اس کا اجر کاٹ دے گی اسی طرح تجارت بھی نا جائز بات نہیں ہے، لیکن چونکہ آپ نے اپنے دل میں اپنی تجارت کے Point of view سے یہ بات کی ہے، اللہ کے دین کے Point of view سے نہیں کی تو آپ کے لئے پھر وہی ہے۔ اس وجہ سے اس میں ہمیں نیت کو دیکھنا پڑے گا۔ یہ ریا بھی تو نیت ہی کا مسئلہ ہے۔
ریا میں انسان اعمال تو وہی ثواب والے کرتے ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا لیکن نیت میں فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں نماز میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہوں، اگر یہ تلاوت اس لئے کر رہا ہوں کہ قرآن کا حق ادا ہو جائے اور اللہ کو پسند آ جائے تو اس پر بہت اجر ہے لیکن اگر اس لئے کر رہا ہوں کہ لوگوں کو پسند آ جائے، اور اس میں اگرچہ کسی کو پتا نہیں چلے گا، صرف اللہ کو پتا ہو گا یا آپ کو ہو گا لیکن عین اسی وقت وہاں سے معاملہ disconnect ہو جائے گا جہاں پر ہونا چاہیے تھا۔ یعنی اللہ کے لئے نہیں ہے تو اُدھر نہیں جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ نیت بہت اہم ہے اور ہر چیز کے اندر نیت important ہے۔ ہم عمل اگر جسم کہہ سکتے ہیں تو نیت اس کی روح ہے۔ اگر کسی چیز میں روح نہ ہو تو وہ لاش بن جاتی ہے اور لاش سے تعفن پھیلتا ہے۔ اسی طرح ریا والی چیزوں سے بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ لہذا اگر کوئی کاروباری لحاظ سے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں تو اس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کسی جگہ ایک درخت تھا، اس کے پاس شرک والے اعمال شروع ہو گئے۔ لوگ وہاں جانا لازمی سمجھتے تھے اور منتیں مانتے تھے۔ گویا کہ وہ شرک کا ایک اڈہ بن گیا تھا۔ وہاں ایک ولی اللہ تھے ان کو بڑا غصہ تھا کہ یہ لوگ ٹھیک نہیں کر رہے۔ ایک دن وہ اس درخت کو کاٹنے کے لئے آئے تو ایک بوڑھا آدمی نظر آیا، وہ راستے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ درخت کاٹنے جا رہا ہوں کیونکہ یہ شرک کا اڈہ بن گیا ہے۔ اس نے کہا بھئی! لوگوں کے لئے اللہ پاک نے ایک رستہ بنایا ہے تمہیں کیا ضرورت ہے اس کو ختم کرنے کی؟ لوگوں کے اوپر بدگمانی نہ کرو، انہوں نے کہا کہ میں نے اس کو کاٹنا ہے۔ لیکن بوڑھے نے کہا میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔ اس پر دونوں میں لڑائی ہو گئی۔ یہ جوان تھے چنانچہ انہوں نے اس بوڑھے کو اٹھا کے زمین پر پٹخ دیا اور اس کے اوپر بیٹھ گئے۔ اس بوڑھے نے کہا کہ ہم آپس میں deal کرتے ہیں، آپ اگر مجھے چھوڑ دیں تو آپ کو اپنے تکئے کے نیچے روزانہ ایک روپیہ ملا کرے گا، انہوں نے یہ سوچ کر اس کی بات مان لی کہ چلو ٹھیک ہے آج اس کو چھوڑ دیتا ہوں، پھر جب آؤں گا تو یہ مجھے منع نہیں کرے گا۔ اور اسے چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ وہاں روز ان کو تکئے کے نیچے ایک روپیہ مل جاتا۔ تین چار دن تک روپیہ ملتا رہا لیکن اس کے بعد نہیں ملا تو پھر یہ درخت کاٹنے نکل پڑے۔ راستے میں وہ بوڑھا ملا، اس کے ساتھ مقابلہ بھی ہوا لیکن اس بار وہ بوڑھا ان پر غالب آ گیا اور یہ نیچے گرے۔ انہوں نے پوچھا کہ پہلے تم نیچے تھے میں اوپر تھا، اب میں نیچے ہوں تم اوپر ہو، یہ کیوں ہوا؟ اس نے کہا کہ پہلے تو خدا کے لئے آیا تھا اور اب تو پیسوں کے لئے آیا ہے، اس لئے میں غالب آ گیا۔ وہ بوڑھا، شیطان تھا۔ اس طرح شیطان نیت خراب کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے disconnect کر دیتا ہے۔ اگر کوئی زور زور سے نعرے لگا رہا ہو اس میں اس کی نیت یہ ہو کہ لوگ کہیں کہ یہ بڑا مخلص ہے تو معاملہ خراب ہو جائے گا۔ اس وجہ سے اپنی نیت کی جانچ ہر وقت صحیح معنوں میں ہونی چاہیے کیونکہ "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح نیتیں نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ