خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
کل کی مجلس میں آپ نے فرمایا تھا کہ جسم اور روح دونوں کی حفاظت ضروری ہے، جسم کی حفاظت کے لئے فرض عین درجہ کا علم سب کے لئے ضروری ہے اور یہی فرض عین درجہ کی ساٸنس ہے۔ فرض عین درجے کی ساٸنس تو ہمیں آپ ﷺ کی سنت سے ہی مل جاتی ہے جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے۔ اسی طرح جو چیزیں انسان کے جسم کو نقصان پہنچاتی ہیں آپ ﷺ نے ان کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ساٸنس بھی ہمیں روح کی حفاظت کے لئے کچھ بتا سکتی ہے کہ اپنی روحانیت کی حفاظت کیسے کی جا سکتی ہے؟
جواب:
در اصل پہلے ذرا اس چیز کو دیکھنا چاہیے کہ سائنس کیا چیز ہے۔ سائنس در اصل حقیقت کی تلاش ہے جو تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہوتی ہے اور پھر اس کا استعمال ہوتا ہے اور یہ مسلسل ایک دوسرے پر منحصر ہو کے آگے بڑھتی ہے۔ اس میں تجربات اور مشاہدات کا تعلق ہوتا ہے۔ جو مشاہدات ہیں وہ صرف ظاہری چیزوں کے ہو سکتے ہیں، باطنی چیزوں کے آثار کے مشاہدات ہو سکتے ہیں، براہ راست ان چیزوں کے نہیں ہو سکتے۔ مثال کے طور پر بجلی کو ہم سب مانتے ہیں لیکن بجلی کسی نے دیکھی نہیں ہے۔ اب اگر کوئی کہہ دے کہ بجلی نظر نہیں آتی لہذا بجلی کا وجود نہیں ہے تو اس کو کہا جائے گا کہ چلو ذرا تم اس تار کو پکڑ لو جس میں بجلی موجود ہے، وہ تمہیں بتا دے گی کہ بجلی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ اسی طریقے سے روحانیت کے آثار نظر آتے ہیں۔ ﴿أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ﴾ (الرعد: 28) ”آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے“۔ آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ روحانیت والے ہیں ان کو اطمینان ہوتا ہے اور جو روحانیت والے نہیں ہیں ان کا اطمینان غائب ہوتا ہے تو یہ ہمارے لئے ایک مشاہدہ ہے۔ اگرچہ ہم اس چیز کو نہیں دیکھ سکتے جس کی وجہ اطمینان ہوتا ہے لیکن جو اطمینان ہو رہا ہے وہ چیز ہم دیکھ رہے ہیں تو ہم اس چیز کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
اب اس طرف آتے ہیں کہ تصوف کیا چیز ہے؟ تصوف اصل میں indirect مشاہدات کی ایک پوری سائنس ہے۔ indirect مشاہدات سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے۔ مثلًا ہم ذکر کرتے ہیں تو ذکر کا ہمارے اوپر اثر ہوتا ہے۔ اب اس اثر کو بڑھانے کے لئے تجربات کئے جاتے ہیں۔ مشائخ جو ذکر دیتے ہیں یہ کوئی قرآن اور سنت میں منصوص نہیں ہوتا لیکن تجربے سے ثابت ہوتا ہے اور اس کے اثرات انہوں نے دیکھے ہوتے ہیں اور ان کے اثرات کو آگے مزید develop بھی کرتے ہیں۔ یہ شریعت میں اضافہ نہیں ہوتا، شریعت اپنی جگہ پر ویسے ہی قائم ہے جیسے آپ ﷺ کے دور میں تھی۔ ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ﴾ (المائدہ: 3) کا جو اعلان ہوا تھا وہ قائم ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی لیکن اس عمل پر آنے کے لئے جن راستوں کی ضرورت ہے وہ حالات کے مطابق، جگہوں کے مطابق، اشخاص کے مطابق اور شخصیتوں کے مطابق مسلسل develop ہو رہے ہیں۔ گویا کہ جیسے سائنس develop ہوتی ہے ویسے یہ سب develop ہوتے ہیں۔ شریعت develop نہیں ہوتی کیونکہ شریعت اس وقت پوری ہو گئی تھی۔ شریعت اپنی جگہ پر پوری ہے، ہاں شریعت کو سمجھنے کے لئے نظام develop ہو رہے ہوں گے۔ مثال کے طور پر یہ تفسیر کا علم آ گیا تو ممکن ہے کہ بعض آیات جن کے بارے میں کچھ چیزیں سامنے نہیں تھیں اور وہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں، وہ بعد میں پتا چل گئیں تو گویا وہ develop ہو گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ قرآن میں تو فرق نہیں آتا لیکن اس کی تفسیر میں حالات اور واقعات کے مطابق سمجھنے کے لئے مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں پہلے اس میں ذکر نہیں ملے گا بعد میں اس کا ذکر مل جائے گا کیونکہ ان کی ضرورت بعد میں آئے گی۔ اس طرح جو احادیث شریفہ کی تشریح ہے، اس میں بھی development ہو سکتی ہے۔ جیسے پہلے دین کا علم سادہ طریقے سے پڑھایا جاتا تھا اب اس کے لئے با قاعدہ ایک منظم طریقہ کار ہے۔ مدارس ہوتے ہیں، ان کا پورا ایک نظام ہوتا ہے، سلیبس ہوتا ہے، امتحان ہوتا ہے؛ یہ ساری چیزیں پہلے نہیں تھیں۔ بلکہ میرے خیال میں ماضی قریب کے بعض حضرات ایسے ہیں جنہوں نے مدرسوں میں نہیں پڑھا تھا، وہ اسی طرح پڑھتے تھے کہ کسی عالم کے پاس جاتے تھے، ان سے ایک کتاب پڑھ لیتے تھے اور پھر کسی اور جگہ پہ جا کے کسی اور کتاب کو پڑھ لیتے تھے اور اس طریقے سے وہ علم حاصل کرتے تھے۔ آج کل ایک منظم طریقۂ کار ہے، با قاعدہ مدرسے ہیں، ان کا وفاق ہے، ان کے امتحانات ہوتے ہیں، ان کے انتظام ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی کہہ دے کہ جو اس نظام کے تحت نہیں پڑھا وہ عالم نہیں ہے، تو ٹھیک ہے، آج کل کے لحاظ سے اس کو عالم نہ کہو لیکن کیا اللہ تعالیٰ بھی اس کو عالم نہیں کہے گا؟ یا وہ ﴿هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ﴾ (الزمر: 9) میں ہو گا یا نہیں ہو گا؟ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ عالم کس کو کہتے ہیں؟ کتنے علوم پڑھنے کے بعد کوئی عالم بن سکتا ہے؟ کیا موجودہ عالم جو مدرسے میں پڑھتا ہے، کیا وہ ساری چیزیں پڑھ لیتا ہے؟ تو اگر ساری چیزیں پڑھنے والے کو عالم کہا جائے تو پھر یہ بھی عالم نہیں ہے۔ اور اگر ساری چیزوں کو پڑھنا ضروری نہیں ہے تو پھر سادہ طریقے سے پڑھنے والے بھی عالم ہیں، کیونکہ وہ بھی ایسے ہوتے ہیں۔
بہر حال! یہ ساری چیزیں scientific ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تجربات کے لحاظ سے جو تبدیلی ہوتی ہے وہ scientific ہوتی ہے اور اس میں scientific طریقے سے عمل کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مدرسے کا حساب کتاب آپ کس طرح رکھیں گے؟ ظاہر ہے کہ scientific طریقے سے رکھیں گے، اس کا کوئی رجسٹر ہو گا اور حساب کا پورا انتظام ہو گا۔ بلکہ آج کل تو تقریباً ہر مدرسے میں کمپیوٹر ہوتا ہے، وہ excel کے ذریعے سے با قاعدہ پورا حساب کتاب رکھتے ہیں اور وہ جو ان کے منتظمین ہوتے ہیں وہ ان کے لئے باقاعدہ اس کا انتظام کرتے ہیں۔ تو ان کا سارا نظام scientific طریقے سے چلے گا اور جتنا scientific طریقے سے چلے گا اتنا ہی زیادہ وہ موثر ہو گا۔ دارالعلوم کراچی میں Computer center کافی منظم ہے، لہذا ان کا نظام بالکل ایک منظم ادارے کی طرح چل رہا ہے۔ اب اس کو ہم غلط تو نہیں کہیں گے بلکہ ان لوگوں نے اس طرح اس چیز میں ترقی کر لی اور اپنے انتظام کو زیادہ بہتر کر لیا لیکن جو گزشتہ طریقے سے ہو رہا تھا اس کو بھی ہم غلط نہیں کہیں گے۔ ہم کہیں گے اُس وقت اسی طریقے کی ضرورت تھی، اب اس سے develop ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ گیا لہذا یہ بھی صحیح ہے۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ روحانیت کو حاصل کرنے کا نظام scientific ہے لیکن روح کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روح کے بارے میں ہمیں صرف ایمان بالغیب کے ذریعے سے اطلاع ملی ہے اب اس کے اثرات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اثرات کا جو مشاہدہ ہے اس پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے باقاعدہ تفصیل سے لکھا ہے اور اس میں یہاں تک فرمایا ہے کہ روح کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے: ﴿وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ﴾ (بنی اسرائیل: 85) کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ یہ تو یہودیوں کو جواب دیا گیا تھا۔ یہودیوں کے پاس اس کا علم بہت تھوڑا تھا، ان کو دیا ہی نہیں گیا تھا لیکن اگر کسی مومن کو اللہ پاک دے دے تو اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ حضرت نے بڑا عجیب نکتہ اٹھایا اور پھر اس کے بعد روح کا پورا نظام بتا دیا کہ اس کے تین حصے ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد لطائف ثلاثہ کا نظام چلایا ہوا ہے، پھر اس کے بعد لطائف خمسہ کا نظام چلایا ہوا ہے، پھر لطائف خفیہ کا نظام چلایا ہوا ہے اور اس سے اس روحانیت کو منظم scientific طریقے سے سجھمنے کا طریقہ انہوں نے بتایا۔ اس طریقے سے ہم کر سکتے ہیں لیکن جیسے آپ ایک ڈاکٹر سے انجینئرنگ کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے اور انجینئر سے ڈاکٹر کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے حالانکہ یہ بھی Scientific field ہے، وہ بھی Scientific field ہے اس طریقے سے physics اور chemistry والے جو سائنسدان ہیں، ان سے آپ روحانیت کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے اور روحانیت والوں سے physics اور chemistry کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی field ہے۔ اب اگر کسی کو روحانیت کا scientific مطلب معلوم ہے تو ہم اس سے کہیں کہ تم physics اور chemistry کے بارے میں بھی بتاؤ تو یہ غلط بات ہے۔
ایک مرتبہ ایک کشتی میں ملاح کے ساتھ تین سائنسدان سفر کر رہے تھے، ایک physicist تھا، ایک chemist تھا اور ایک mathematician تھا۔ یہ آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ ملاح سے physicist نے پوچھا کہ کیا تجھے physics آتی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ اس نے کہا کہ اوہ! تو نے اپنی تہائی زندگی ضائع کر دی۔ پھر chemist نے اس سے پوچھا کہ تمہیں chemistry آتی ہے؟ اس نے کہا نہیں، تو اس نے کہا کہ تم نے اپنی دو تہائی زندگی ضائع کر لی۔ پھر mathematicians نے پوچھا کہ کیا تمہیں ریاضی آتی ہے؟ اس نے کہا نہیں، اس نے کہا تو نے اپنی پوری زندگی ضائع کر دی۔ اتنے میں بھنور آ گیا جس کی وجہ سے کشتی ڈولنے لگی۔ ملاح نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں کو تیرنا آتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں تیرنا نہیں آتا، اس پر ملاح نے کہا کہ ابھی پتہ چل جائے گا کہ میں نے ضائع کی ہے یا نہیں کی لیکن تم لوگوں نے زندگی ضائع کر دی۔ ظاہر ہے ملاح چاہے کچھ بھی نہیں تھا لیکن وہ اپنی سائنس جانتا تھا اور اس کے حساب سے وہ کام کر رہا تھا۔ لہذا ایک انجینئر کا کسی پہ پھبتی کسنا یا ایک ڈاکٹر کا یا کسی physics کا یا کسی chemist کا اس طرح کرنا ایک فضول اور غلط بات ہے۔ اس سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا، اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے روحانیت والوں کے اوپر موجودہ سائنسدان اگر ہنستے ہیں تو یہ ان کا خیالِ خام ہے اور روحانیت والوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ physics chemistry کے بارے میں جاننے لگیں، یہ خیال خام ہے۔ باقاعدہ ہم لوگوں کو ہر ہر field میں research کرنی ہوتی ہے۔ اور جس جس field میں جو research کر رہا ہوتا ہے وہ اس کا ماہر ہے اور اس سے اسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا کسی اور چیز کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو Phd ہوتا ہے وہ بہت آسانی کے ساتھ کہہ دیتا ہے مجھے یہ چیز نہیں آتی حالانکہ Phd کم از کم سائنس کی بڑی ڈگری ہوتی ہے، اس کے بعد اونچی ڈگری نہیں ہوتی۔ جب اس کے area کا سوال نہیں ہوتا یا اس کے area کا بھی ہو لیکن اس کے اوپر اس کی research نہ ہو تو وہ کہہ دیتا ہے کہ میں نے اس پہ کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن ایک طالب علم کے لئے یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ مجھے یہ نہیں آتا کیونکہ طالب علم کا سارے کا سارا image مفروضات پر بنا ہوا ہے، حقائق کے قریب نہیں ہے، وہ مفروضات ہیں اور اس کو ابھی پتا نہیں ہے کہ مجھے علم نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس بات کا علم کہ مجھے علم نہیں ہے، یہ بھی ایک علم ہے اور جس کے پاس یہ علم نہیں ہوتا اس کا علم کچا ہوتا ہے۔ اور جس کا علم پکا ہو جاتا ہے اس کو یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ مجھے کس چیز کا علم ہے اور کس چیز کا علم نہیں ہے۔ اور جس چیز کا علم ہے، وہ کتنا ہے۔ وہ ایک حد سے زیادہ بات نہیں کرتے۔ وہ آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ میں صرف یہاں تک بات کر سکتا ہوں، میری تحقیق یہیں تک ہے۔ یہ جو specialist ڈاکٹر ہوتے ہیں، وہ بہت آرام سے کہتے ہیں کہ مجھے اس کا پتہ نہیں ہے، میرا اس پہ کوئی کام نہیں ہے، میں اس کے بارے میں نہیں جانتا لہذا اس کو فلاں صاحب کے پاس لے جاؤ۔ لیکن جو میڈیکل کا آج کا طالب علم ہوتا ہے وہ اس بات کا اقرار نہیں کرے گا، وہ آرام سے کہہ دے گا کہ یہ تو ایسا ہے، یہ تو ویسا ہے۔ کیونکہ اس کا علم ابھی تک مفروضات پر قائم ہے، ابھی وہ حقیقت کے قریب نہیں ہوا۔ لہٰذا ہم لوگوں کو بھی روحانیت جیسی چیزوں کے بارے میں یہ گمان کرنا چاہیے کہ جس کی اس بارے میں research ہے (جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ) وہ ٹھیک ہے۔ اگر میں کہہ دوں کہ مجھے ان چیزوں کا پتہ نہیں لہذا یہ چیزیں نہیں ہیں تو یہ غلط ہو گا۔ البتہ جب مجھے پتہ چل جائے گا تو پھر اس کے بارے میں میں کہہ سکوں گا۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے جو مراقبات ہیں، وہ کیسے scientific انداز سے حضرت نے develop کئے ہیں۔ یعنی لطائف کا اجرا، اس کے بعد ان لطائف کے اجرا سے فیض کا اجرا اور پھر فیض کے اجرا پہ ایک general فیض کا اجرا، پھر اس کے بعد خاص فیض کا اجرا، پھر اس خاص اجرا کے تمام فیوضات کا آخری لطیفے پر اجرا اور اس کے بعد اس فیض کے اجرا کو مختلف مراقبات کے لئے اتنے organised طریقے سے استعمال کرنا اگر scientific نہیں ہے تو کیا ہے؟ اگر یہ scientific نہیں ہے تو کیا آپ اس کو منصوص کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں کہ یا منصوص ہو گا یا غیر منصوص ہو گا، اگر منصوص ہے تو اس میں تو صرف یہی research ہوتی ہے کہ یہ ثابت ہے یا نہیں۔ اس میں اور کچھ نہیں ہوتا، فقہا کرام یہ نہیں کرتے کہ یہ چیز کیوں ہے، وہ یہ فقط یہ بتاتے ہیں کہ یہ چیز ثابت ہے اور یہ چیز ثابت نہیں ہے اور اگر ثابت ہے تو کس طرح۔ کیوں والی بات وہ اس لئے نہیں کرتے کیونکہ کیوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ پر ہے۔ جیسے صحابہ کرام فرماتے تھے کہ ”اَللہُ وَ رَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ“ یعنی اللہ اور رسول کو پتا ہے، اسی طریقے سے وہ اپنے میدان سے آگے نہیں جاتے۔ اور جو لوگ تصوف والی چیزوں میں یہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ فلاں فلاں ہے، اس لئے کہتے ہیں کیونکہ وہ ان چیزوں کو منصوص نہیں کہتے۔ جو نا سمجھ لوگ ہوتے ہیں وہ منصوص چیزوں میں بھی اپنی طرف سے وجوہات بتانے لگتے ہیں کہ یہ اِس وجہ سے ہے اور یہ اُس وجہ سے ہے۔ جیسے حروف مقطعات کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہے تو ہم نے کہہ دیا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ قرآن پاک میں علماء راسخین کی تعریف یہی تعریف کی گئی ہے کہ ﴿وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ﴾ (آل عمران: 7) کہتے ہیں کہ یہ بس اللہ کی طرف سے ہے اس لئے ﴿اٰمَنَّا بِهٖ﴾ (آل عمران: 7) وہ اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے علماء راسخین کہا ہے۔ یعنی انہوں نے عقلی گھوڑے وغیرہ نہیں دوڑائے، بس جہاں تک ان کو معلوم ہے اتنا بتا دیتے ہیں، اس سے زیادہ آگے نہیں جاتے۔ جب کہ یہ جو تصوف والے حضرات ہوتے ہیں وہ باقاعدہ ہر چیز کا link بتاتے ہیں، وجہ بتاتے ہیں، اس پہ experience بتاتے ہیں اور اس کے references دیتے ہیں؛ یہ ساری باتیں ان کو کرنی پڑتی ہیں لیکن وہ ان باتوں کو منصوص نہیں بتاتے۔ یہ اس علم کے راسخون ہیں کیونکہ یہ اس کو منصوص نہیں بتاتے۔ لیکن درمیان میں جو لوگ غیر راسخ لوگ ہوتے ہیں وہ اِدھر کی چیز اُدھر شامل کر دیتے ہیں اور اُدھر کی چیزیں اِدھر شامل کرتے ہیں اور ہمیشہ confused اور پریشان رہتے ہیں۔ خود بھی مصیبت میں پڑے ہوتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی مصیبت میں ڈالتے رہتے ہیں۔ مثلًا کہیں گے کہ میں تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، یہ بات بالکل صحیح ہے، ہمیں تقویٰ کی وصیت کرنی چاہیے لیکن کیا اس تقویٰ کی وصیت سے وہ تقویٰ آ جائے گا؟ یہاں پر جب وہ چھوڑ دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے وہ غیر راسخ ہیں یعنی ان کو اس بات کا پتا نہیں ہے کہ اس کے لئے اپنے طور پہ کچھ اعمال ہیں جن کے ذریعے سے تقویٰ آتا ہے۔
ایمان کی بات تو ہے ہی کیونکہ آپ کا ایمان تو ایمان بالغیب ہے، وہ تو آپ میں آ گیا لیکن اس کے بعد تقویٰ لانے کے لئے محنت ہے۔ کیوں تقویٰ کی ضد کو ختم کرنا ہے اور وہ ضد نفس ہے۔ وہ ایک حقیقت ہے، اس نفس کے اثر کو ختم کئے بغیر آپ کو تقویٰ نہیں حاصل ہو سکتا۔ اب نفس کے اثر کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے، یہ پورا ایک experience ہے، یہ پورا ایک نظام ہے اور پوری ایک سمجھ ہے جس کے بغیر انسان تقویٰ حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ سب کی ابتدا میں نفس امارہ ہے، جب آپ نفس امارہ سے نفس مطمئنہ کے لئے نکلیں گے تو اس میں رکاوٹیں آئیں گی، ان رکاوٹوں کو دور کرنا پڑتا ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے نظام کو مقامات کہتے ہیں۔ ان مقامات کو عبور کر کے نفس مطمئنہ تک پہنچو گے اور پھر اللہ کی رضا تک پہنچو گے اور پھر قبولیت پر پہنچو گے اور یہ سارا معاملہ اللہ تعالیٰ اپنے قبضے میں رکھتا ہے۔ لیکن تمہارے ذمے کیا ہے؟ وہ ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا﴾ (العنکبوت: 69) میں بیان فرما دیا ہے کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تجربے کے جو نظام ہیں ان کے مطابق آپ نے محنت اور مشقت کرنی ہے، اس کے بعد پھر آپ کے اوپر چیزیں کھلتی جائیں گی، معرفت کے دروازے کھلتے جائیں گے۔ یعنی جتنی آپ کی محنت ہو گی، اللہ تعالیٰ اتنا آپ کے اوپر وہ چیز کھولتے جائیں گے اور پھر وہ چیز جتنی آپ کے اوپر کھلی ہوئی ہے آپ وہ دوسروں کو بھی بتا سکیں گے اور یہی وہ experience ہے جو لوگوں کو ہوتا ہے۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جو experience ہوا انہوں نے اپنے مکتوبات میں بیان کیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو جو experience ہوا انہوں نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو جو experience ہوا انہوں نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ یہ سب research ہے، اگر کوئی بعد میں کہہ دے کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہ بات نہیں لکھی لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی کی ہے تو سائنس میں ایسا ہوتا ہے۔ مختلف سائنسدان اپنے اپنے جو تجربات کرتے ہیں ان میں سب چیزیں آپس میں tally نہیں کرتیں، وہ ان کے اپنے اپنے تجربات ہوتے ہیں۔ اسی طریقے سے یہاں بھی ہوتا ہے۔ جیسے پہلے توجہ سے تربیت ہوا کرتی تھی لیکن بعد میں حضرات نے دیکھا کہ اس سے لوگوں کا نقصان ہوتا ہے چنانچہ اب یہ research ہے کہ چونکہ لوگوں کو توجہ سے نقصان ہوتا ہے لہذا ان کو توجہ کی بنیاد پہ develop نہ کرو۔ کیونکہ اس سے ان کا اپنا احساس ذمہ داری ختم ہو جائے گا، نتیجتاً وہ کام نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ بس شیخ ہی مجھ پہ توجہ کر لیا کریں۔ اگرچہ توجہ ایک اچھی چیز ہے لیکن اس اچھی چیز کو غلط استعمال کیا گیا ہے اس وجہ سے سد باب کے طور پر اس سے بچنے کا حکم ہو گا۔ چنانچہ بعد میں جو حضرات آئے وہ یہی کہتے ہیں کہ توجہ نہ کرنا بالکل ٹھیک ہے۔ اب دیکھیے! پہلے یہ بھی بالکل صحیح بات تھی کہ سینے سے سینے کو علوم ملتے تھے اور اب بھی ملتے ہیں۔ ہمارے مشائخ ابھی بھی یہ کہتے ہیں کہ شیخ کی مجلس میں بیٹھو تو شیخ کے قلب کی طرف متوجہ رہو کیونکہ اس شیخ کے قلب میں جو آ رہا ہے وہ آپ کے دل میں بھی آ جائے گا۔ اس سے ہمیں انکار نہیں ہے، یہ اپنی جگہ درست ہے لیکن پہلے دور میں عموماً اپنے دل سے دوسرے کے دل پر اپنے دل کی بات کا تصرف کیا جاتا تھا، اس کو توجہ کہتے ہیں اور یہ چیز ایک مثبت انداز میں تھی۔ لیکن اب اس سے یہ نقصان ہوا کہ ایک تو لوگوں نے اس کو دنیا کے لئے استعمال کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے اس کا اصل مقصد اٹھ گیا یعنی اس کو مزے کے لئے استعمال کیا گیا۔ دوسرا اس کو سستی کے لئے استعمال کیا گیا کہ میں نے کچھ نہیں کرنا، سارا کام میرے شیخ کر دیں۔ یہ دونوں باطل چیزیں تھیں نتیجتاً ہمارے قریبی مشائخ نے اس سے ہاتھ کھڑے کر دیئے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اب یہ research ہے کہ اس کو استعمال نہ کیا جائے۔ لیکن اگر میں کہتا ہوں کہ یہ research ہے تو وہ انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ تو فرماتے تھے کہ توجہ کا طریقہ ٹھیک ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت کی research تھی اور یہ موجودہ دور کی research ہے اور موجودہ دور کی research میں آج کل کے حالات کے مطابق چیزیں ہیں۔
لہذا یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جس طریقے سے سائنس develop ہوتی ہے اس طرح تصوف بھی develop ہوتا ہے۔ اگر تصوف develop ہو رہا ہے اور اس میں نئی چیزیں آ رہی ہیں تو یہ بدعت نہیں ہے کیونکہ اس کو منصوص کہا ہی نہیں گیا۔ جب منصوص کہا جائے گا پھر یہ بدعت ہو جائے گی اور پھر اس کو ثابت کرنا پڑے گا حالانکہ یہ تو سنت کے مقابلے میں ہے ہی نہیں بلکہ سنت پہ لانے کے لئے ہے۔ جب کہ بدعت وہ ہوتی ہے جو سنت کے مقابلے میں ہوتی ہے جس کے نتیجے میں سنت کو چھوڑنا پڑتا ہے جب کہ یہاں سنت کو نہیں چھوڑا جاتا۔ مثال کے طور پر ایک صوفی ادھر مراقبہ کر رہا ہے اس کے درمیان اس نے کھانا کھانا شروع کیا اور سنت کے مطابق کھانا کھایا تو کون سی سنت کی مخالفت ہو گئی؟ وہ تو سنت پہ آنے کے لئے اس کو استعمال کر رہا ہے، سنت کے مقابلے میں استعمال نہیں کر رہا۔ اور سنت پر آنے کے لئے جو چیز ہوتی ہے وہ بدعت نہیں ہوتی۔ وہ چیز جس کے ذریعے سے سنت چھوٹ جائے وہ بدعت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سارا دین منصوص ہے، ثواب اور گناہ والی باتیں اللہ پاک نے اپنے اختیار میں رکھی ہیں، میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کہہ سکتا۔ یہ میرا کام نہیں ہے اور نا ہی میں یہ جرأت کر سکتا کہ ”ھٰذَا حَلَالٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ“ بلکہ یہ سب اللہ پاک کی طرف سے آئے گا اور یہ فقہاء کا کام ہے کہ قرآن اور سنت سے وہ ساری چیزیں اخذ کر لیں کہ کون سی چیز حرام ہے کون سی چیز حلال ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ لہذا اگر میں آج research کروں کہ فلاں چیز کو قرآن میں حرام لکھا ہے لیکن آج کل کی research کے مطابق یہ حلال ہے تو یہ بات ٹھیک نہیں ہو گی، یہ الحاد ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ بدعت ایک ثواب والی چیز کی صورت میں آتی ہے جو دین سے متعلق ہوتی ہے اس لئے اس پہ گناہ ہو گا۔ کیونکہ دین کی بات کو آپ تبدیل نہیں کر سکتے کیونکہ فرمایا گیا ہے: ﴿اَلْیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ﴾ (المائدہ: 3) یہ دنیا کے بارے میں یا کسی اور research کے بارے میں نہیں کہا گیا کہ تمہاری research میں نے مکمل کر دی۔ ﴿وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ﴾ (المائدہ: 3) کہ اس دین سے متعلق جو نعمت ہے وہ بھی مکمل کر دی ﴿وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًاؕ﴾ (المائدہ: 3) اور جس کو اسلام میں نے کہہ دیا وہی تمہارے لئے پسندیدہ دین بنا دیا۔ اب میرا پسندیدہ دین یہی ہے۔ یہ چیز اگر اس کے خلاف اگر نہیں ہے تو یہ بدعت نہیں ہے۔
اور یہ وبائی امراض کے خلاف اور ان سے بچنے کے لئے جو پورا عمل ہم نے ترتیب دیا ہے، اسی کو دیکھ لیجئے۔ اس میں ہر ہر لفظ قرآن پاک اور حدیث شریف کا ہے، اس میں ہم مان سکتے ہیں کہ ثواب ہے لیکن جس ترتیب سے جمع کیا گیا ہے اس ترتیب میں ثواب نہیں ہے۔ اگر میں نے اس میں ثواب سمجھ لیا تو معاملہ بگڑ جائے گا۔ اس ترتیب کو میں ثواب نہیں سمجھتا، اس کو تو میں ضرورت سمجھتا ہوں کہ یہ research ہے لیکن اس میں جو قرآن پاک کی آیتیں ہیں وہ جب بھی میں پڑھوں گا تو ان کا مجھے ثواب ملے گا۔ اسی طرح ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘ کا جو ذکر ہم کرتے ہیں اس میں ثواب ہے، لیکن جس ترتیب سے جہر کے ساتھ ہم کر رہے ہیں، اس میں ثواب نہیں ہے، اس میں ہماری ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں اور وہ ضرورتیں روحانیت والی ہیں۔ اور research میں جو کشف یا خواب ہوتا ہے وہ منع نہیں ہے۔ research میں کشف و خواب سائنسدانوں کو بھی کشف ہوتا ہے چاہے وہ کافر کیوں نہ ہوں۔ انہیں خواب آتے ہیں اور ان سے وہ فائدے بھی اٹھاتے ہیں۔ chemistry کی کتاب میں لکھا ہے کہ Benzene ring خواب کے ذریعہ سے دریافت ہوا تھا اور وہ کوئی مسلمان سائنسدان نہیں تھا۔ اس لئے اگر یہ ترتیب کسی کو کشفی طور پہ یا خواب کے ذریعے سے پتہ چلی ہو تو اس کو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ research, research ہوتی ہے، اس میں یہ چیزیں شامل ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ ہم جب یہ بات کرتے ہیں کہ معرفت عبدیت کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے یعنی معرفت کے ذریعہ سے عبدیت میں improvement ہوتی ہے اور عبدیت کے ذریعے سے معرفت حاصل ہوتی ہے، چونکہ یہ عارفین کی بات ہے اور ان لوگوں پہ اللہ پاک نے یہ بات کھولی ہے تو اسی طرح سائنس میں بھی یہ بات ہوتی ہے کہ جب آپ Scientific development کرتے ہیں تو اس میں جو research آپ کرتے ہیں تو اللہ پاک آپ کے اوپر وہ چیز منکشف کرتے ہیں۔ گویا کہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک محنت بنیاد ہے کہ آپ جتنی محنت کریں گے، آپ کو اس کے حساب سے اتنا صلہ عطا کیا جائے گا۔ جیسے چیونٹی بعض اوقات بالکل قریب پہنچ کے واپس چلی جاتی ہے، اسی طرح Phd والوں کے بھی ساتھ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ Phd والے بہت قریب پہنچ جاتے ہیں لیکن پھر کسی وجہ سے وہ اپنے مقصد سے دور ہو جاتے ہیں لیکن اخیر میں ان کو وہ چیز مل جاتی ہے کیونکہ منکشف تو اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے سائنس میں یہ ہوتا ہے لیکن وہ لوگ اس کو مانتے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کے عارفین نہیں ہیں۔ ان کو یہ روحانیت والی چیز نہیں ملی نتیجتاً وہ اس چیز کو جانتے بھی نہیں ہیں اور مانتے بھی نہیں۔ لیکن جو عارفین ہیں وہ اس چیز کو مانتے ہیں کیوں ان کو معرفت ہی یہی ملی ہے کہ انسان جتنی محنت کرتا ہے ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا﴾ (العنکبوت: 69) اتنا اللہ پاک اس پہ وہ چیزیں کھولتے ہیں اور وہ معرفت ان کو بھی نصیب ہوتی ہے۔ تو جو انسان کسی راستے میں محنت اور کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر وہ چیز کھول دیتے ہیں۔
حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آخری وقت میں ان کے ساتھ ایسا ایسا معاملہ تھا جیسے ان کے اوپر اپنے راستے کی موسلا دھار بارش ہو رہی ہو۔ چونکہ ان کی محنت بہت آگے چلی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پھر ان تمام چیزوں کا ذریعہ بنایا۔ اس طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے ایک خاص کام کا ذریعہ بنایا، حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ صاحب کو اپنے ایک خاص کام کا ذریعہ بنایا، اس طرح مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے خاص کام کا ذریعہ بنایا۔ یعنی جو لوگ کسی میدان میں جتنی محنت بھی کر رہے ہیں ان پہ اللہ پاک وہ چیزیں کھولتے رہتے ہیں۔ اور یہ گویا کہ اللہ پاک نے انکشاف کا ایک نظام بنایا ہوا ہے کہ جو حضرات کسی شعبے سے متعلق ہوتے ہیں ان کے اوپر وہ ہوتا رہتا ہے۔
بہت سارے لوگ تصوف کی باتوں میں بالکل ایسے ہی behaviour کرتے ہیں جیسے قرآن و سنت کے معاملے میں behaviour ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے بات نہیں کرنی۔ حالانکہ اپنی طرف سے بات نہ کرنا شریعت میں ہے، یہاں تو research ہے، آپ کو اپنی research بتانی پڑے گی۔ ایک دفعہ میں ایک بات کر رہا تھا، چونکہ وہ بات اللہ پاک نے مجھ پہ کھولی تھی تو میں نے اس کو اس انداز میں بیان کیا کہ جیسے کسی اور کی بات ہو۔ کیونکہ ظاہر ہے میں نے سوچا کہ میں اپنا بیان کروں اور لوگ مجھ سے پوچھیں گے تو میں حوالہ نہیں دے سکوں گا۔ تو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی طرف سے یہ بات سامنے آ گئی کہ تمہیں اپنے حوالے سے یہ بات کرنی چاہیے کہ یہ تمہاری research ہے۔ جو تمہاری تحقیق ہو وہ اپنے طور پہ بیان کرو کہ یہ میری تحقیق ہے، بھلے کوئی مانے یا نہ مانے، وہ اس کی مرضی ہے کیونکہ اگر کوئی کسی محقق کا یا ڈاکٹر کی research کو نہ مانے تو ڈاکٹر کو کیا نقصان ہے؟ جو اس کو نہیں مانتا اس کا اپنا نقصان ہو گا کیونکہ وہ اس سے محروم ہو جائے گا۔ یعنی حکم ہو گیا کہ کہو کہ یہ میری research ہے۔ کیونکہ اگر میں کسی اور کی کہتا ہوں تو جھوٹ ہو گا اور اگر میں اپنی کہتا ہوں تو اس میں وہی ڈر تھا کہ لوگ کہیں گے کہ تو نے یہ بات کہاں سے لی ہے؟ حالانکہ یہ سب اللہ پاک کی طرف سے ہے ﴿كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللهِؕ﴾ (النساء: 78) لہٰذا اللہ پاک جس طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اوپر لا سکتے ہیں اس طرح کسی اور کے اوپر بھی لا سکتے ہیں۔
حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا جو سیاسی دور تھا اس میں قائد اعظم کو خواب میں آپ ﷺ کی طرف سے پاکستان بنانے کا حکم تھا، وہ خواب ان دنوں مشہور ہو گیا تھا، مسلم لیگ والے اس کو بہت زیادہ publicize کرتے تھے اور کانگرس والے اس کے خلاف تھے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق بھی کانگریس کے ساتھ تھا چنانچہ ان کے جو ساتھی تھے وہ بھی خواب کے خلاف تھے۔ حضرت مدنی کے ساتھیوں میں سے کسی نے ان سے کہا کہ یہ دو ٹکے کا خواب آج کل مارکیٹ میں چل رہا ہے تو حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ان سے ناراض ہو گئے۔ آپ نے کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ آپ ﷺ کسی کے خواب میں بھی آ سکتے ہیں، یہ کوئی نا ممکن نہیں ہے لہذا جب تک آپ کو یہ تحقیق نہ ہو کہ یہ جھوٹا ہے آپ اس کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ یعنی حضرت نے باقاعدہ اصول کی بات بتائی کہ اختلاف اپنی جگہ پر لیکن اگر کسی ایک کے خواب میں آپ ﷺ آ سکتے ہیں تو دوسرے کے خواب میں بھی آ سکتے ہیں، اس کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے۔ اور لیاقت علی خان جب شہید ہو گئے تو مسلم لیگی حضرات میں سے کسی نے کہا کہ یہ تو شہید نہیں ہے (نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ، پتہ نہیں ان کو کیا سمجھتے ہوں گے) تو حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بالکل شہید ہے۔ کون کہتا ہے شہید نہیں ہے؟ مسلمان تھے، مسلمان جب بھی اس طرح مظلوم مارا جائے گا تو شہید ہو گا لہٰذا آپ اس کو کیوں شہید نہیں کہتے؟ یہ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی اعلی ظرفی تھی کہ وہ اس کو صرف اپنے لئے خاص نہیں سمجھتے تھے کہ شہادت صرف میرے لئے ہے یا میرے ساتھیوں کے لئے ہے، بلکہ یہ ایک تحقیق کی طرح ہے اور تحقیق کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں اس بات میں پڑنا ہی نہیں چاہیے۔ ہاں آپ اس کو analyze کر لیں اور غلط ثابت کر دیں تو یہ ٹھیک ہے۔ یہ آپ کی سائنس ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے، یہ آپ کا حق ہے لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں صاحب کے اوپر یہ چیز نہیں آ سکتی۔ بلکہ کسی کے دل کا بھی شرح صدر ہو سکتا ہے۔ آپ شرح صدر کا انکار نہیں کر سکتے لیکن آپ کے اوپر اس کا ماننا لازم نہیں ہے۔ مشورے میں جب بات ہو رہی ہو تو شرح صدر تو کسی کا بھی ہو سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ اس کا شرح صدر ہو گیا تو آپ بھی اس کو مان لیں کہ یہ ٹھیک ہے۔ بلکہ آپ اپنے شرح صدر کی بات کریں۔ مجھے حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا تھا کہ آپ لوگوں کو دین کا کام کرتے ہوئے دیکھیں گے تو آپ کے دل میں آئے گا کہ میں بھی اس طرح کام کروں۔ لیکن آپ ایسا نہیں کرنا بلکہ اپنے شرح صدر پہ چلنا ہے۔ گویا کہ حضرت نے باتوں باتوں میں مجھے یہی اصول بتا دیا تھا جو میں نے ابھی بتایا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرا ذہن حضرت کی برکت سے کھل گیا اور ان تمام چیزوں کے بارے میں علم ہو گیا کہ یہ چیزیں تحقیقی ہیں اور تحقیقی چیزوں میں جس رخ کا بھی شرح صدر ہو، اس کے اوپر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ ڈرنا بھی چاہیے کیوں کہ شرح صدر ظنی ہوتا ہے، یقینی نہیں ہوتا لہٰذا ظنی بات میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور ظنی بات پر عمل بھی ہو سکتا ہے۔ ان دونوں کے ڈانڈے آپس میں اس طرح ملے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے نہ تو کسی کے شرح صدر کو قطعی طور پر غلط سمجھو اور نہ اپنے شرح صدر کو قطعی طور پر صحیح سمجھو۔ دوسرے کے شرح صدر کو بھی ظنی سمجھو، اپنے شرح صدر کو بھی ظنی سمجھو۔ اپنے شرح صدر کو اپنے عمل کے لئے استعمال کر لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اگر کوئی اور اس پر عمل نہیں کرتا اس کے ساتھ مت لڑو کیونکہ یہ تمہارا شرح صدر ہے، اس کا نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا اصول ہے، اس میں بہت باریک باتیں ہیں جو تفصیل چاہتی ہیں لیکن جتنی تفصیل ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ