سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 520

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال نمبر: 1

السلام علیکم حضرت جی! please اتنا بتا دیں کہ آپ نے جو یہ whatsapp بھیجی ہے اس میں صرف لطائف کا کہا ہے کہ 10، 10 منٹ کر لوں۔ تو کیا مراقبہ نہیں کرنا؟

جواب:

جی ہاں جناب! یہ چل پڑے گا تو پھر ان شاء اللہ مراقبہ دیں گے۔ مفت کی نعمت کی قدر نہیں ہوتی۔ در اصل یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مراقبات کی حقیقت کیا ہے۔ مراقبہ در اصل دل کی سوچ کو کہتے ہیں، جب ایک خاص بات پہ سوچ کو مرکوز کیا جائے۔ یعنی یہ فکر کی ایک قسم ہے۔ اللہ ویسے بھی بڑے ہیں، چاہے ہم مراقبہ کریں یا نہ کریں، اس مراقبے سے اللہ کی بڑائی پہ فرق نہیں پڑتا لیکن ہمارا استحضار بڑھ جاتا ہے کہ اللہ بڑے ہیں، ہمیں اللہ کی بڑائی کا احساس ہونے لگے گا۔ اس احساس کو پیدا کرنے کے لئے اگر ہم یہ سوچیں کہ اللہ بڑے ہیں، اور اتنے بڑے ہیں ہر چیز پر ان کی حکومت ہے تو جتنا زیادہ سوچیں گے، اس پر ہمارا خیال جمے گا۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا یقین ہمارے دل میں بیٹھے گا تو پھر ہم اللہ پاک کے حکم کے مقابلے میں باقیوں کی پرواہ نہیں کریں گے۔ یہی اس مراقبے کا فائدہ ہو گا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ: ﴿وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَّ اتَّقُوا اللهَ﴾ (الحشر: 18) ”چاہیے کے لوگ خود ہی دیکھ بھال لیں کہ کل کے لئے انہوں نے کیا بھیجا ہے“۔ یہی سوچ مراقبہ ہے۔ یہ سوچ پیدا کرنے کے لئے در کار ذرائع اور وسائل ہمارے اندر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر عالمِ بالا کے ساتھ ہمارا رابطہ جن چیزوں کے ساتھ ہے، ان میں سرِ فہرست دل ہے جس کے ذریعے سے ہمارا رابطہ ہوتا ہے۔ پھر دل کے باہر مزید ترقی یافتہ صورتیں ہیں جیسے لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفیٰ۔ جب ان کو ذکر کے ساتھ متحرک کیا جائے اور یہ فعال ہو جائیں تو ہم ان پہ باری باری خاص خاص مراقبات کرتے ہیں تو عالمِ بالا کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اس کا فیض ان پر آتا ہے اور بعد میں ہم وہ باتیں یقینی طور پر مان لیتے ہیں۔ اور ان سے کام لیتے ہیں۔ بہر حال! پہلے لطائف کا کام ہو جائے تو اس کے بعد مراقبات شروع ہوتے ہیں۔

سوال نمبر: 2

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! میں نے مراقبۂ نور 30 دن پورا کیا، آپ نے رمضان میں جاری رکھنے کا فرمایا تھا، میں نے کچھ ہی دن کیا ہو گا کہ بیماری نے ایسا گھیرا کہ میرا مراقبہ، ذکر، جماعت کی نمازیں، روزے سب کچھ رہ گیا۔ آج اس بیماری کے تقریباً 34 دن ہو گئے۔ اس کی وجہ مجھے یہ لگتی ہے کہ میں جہاں کام کرتا ہوں ادھر افسر مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔ اس نے ایک دن سب کے سامنے میری بے عزتی کی تو واپس آ کے میں نے دو رکعت نفل نماز پڑھ کر اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ پاک! مجھے اس کا قصاص دے۔ ظہر کو میں نے یہ نفل نماز پڑھی اور عصر کے وقت تک میری یہ حالت ہو گئی کہ میں اٹھنے کے قابل نہیں رہا اور ابھی تک ٹھیک نہیں ہو رہا۔ میں نے توبہ بھی کی کہ آئندہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو کچھ نہیں کہوں گا لیکن ایسے لگتا ہے جیسے اللہ پاک کو ابھی تک منظور نہ ہو۔ اگر میں ٹھیک سوچ رہا ہوں تو رہنمائی فرمائیں اور اگر میری سوچ ٹھیک نہیں ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میرے اعمال پورے نہیں ہو رہے جو مزید پریشانی کا سبب ہے۔

جواب:

در اصل آپ نے جن کے بارے میں بتایا ہے تو انسان کو جو اللہ پاک نے وجاہت دی ہے اس کے ذریعے سے ادب کے ساتھ اپنی بات پیش کرنی چاہیے۔ لیکن بجائے اس کے کہ انسان کُڑھتا رہے اور احساس کمتری کا شکار ہوتا رہے، یہ بات سامنے لانی چاہیے۔ ورنہ اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کے لئے یہ مناسب تھا کہ آپ اسے مناسب انداز میں بتا دیتے، اس طرح بات ختم ہو جاتی لیکن بہر حال! اب چونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ مخالف بھی ہیں اور آپ نے ان کو موقع بھی دے دیا ہے تو اس میں آپ کی اپنی کمزوری ہے۔ اس کمزوری کا علاج کرنا چاہیے، احساس کمتری کو دور کرنا چاہیے، اس کے ذریعے سے بڑے نقصان ہوتے ہیں۔

سوال نمبر: 3

السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت جی مجھ سے ایک رات تہجد کی نماز غیر ارادی طور پہ قضا ہو گئی۔ غفلت بھی نہیں کی، alarm بھی set کیا تھا لیکن پتہ نہیں کیسے وہ ایک رات چھوڑ کے اگلی رات کے لئے set ہو گیا تھا۔ حضرت جی! میری سمجھ میں نہیں آیا لیکن یہ حادثہ مجھے پیش آیا، اللہ تعالیٰ آئندہ کے لئے میری حفاظت فرمائیں۔

جواب:

ابھی ابھی میں نے ذکر کیا ہے کہ انسان کو اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس میں آپ نے یہ غلطی کی تھی کہ اس کو check نہیں کیا۔ آئندہ کے لئے آپ جب alarm set کرنے لگیں تو اس کو check کر لیا کریں کہ آیا یہ صحیح طور پر set ہو گیا یا نہیں تا کہ آئندہ اس قسم کی غلطی نہ ہو۔ بہر حال! چونکہ یہ غلطی نا دانی اور نا سمجھی میں ہوئی ہے لہٰذا اس سے ان شاء اللہ آپ کو نقصان نہیں ہو گا۔ آپ تہجد کی نماز کے برابر اشراق کے وقت نماز پڑھ لیتے۔

سوال نمبر: 4

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! میرا ذکر 2، 4، 6 ایک مہینے کے لئے تھا جو الحمد اللہ مکمل ہو گیا ہے، آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب آپ 2، 4، 6 اور 3 شروع کر لیں۔ یعنی 2 تسبیح "لَا الٰہَ اِلََّا اللہ"، 4 تسبیح "لَا الٰہَ اِلََّا ھُو"، 6 تسبیح "حَق" اور 3 تسبیح "اللہ"۔

سوال نمبر: 5

السلام علیکم حضرت جی! میرا نام فلاں ہے۔ میرا تعلق England سے ہے۔ میرا ذکر قلب پر 10 منٹ ہے۔ الحمد للہ ذکر محسوس ہو رہا ہے اور کان میں بھی ذکر سنائی دے رہا ہے۔ رہنمائی فرما دیں کہ اب کیا کرنا ہے۔

جواب: اب یہ کریں کہ اگر آپ جسم کو آدھا کر لیں تو ایک Right side بنتی ہے اور ایک Left side بنتی ہے۔ تو آدھا کرنے والی line سے بائیں طرف جتنے فاصلے پر دل ہے، اس طرح اس line سے دائیں طرف اتنے فاصلے پر جو جگہ ہے وہ لطیفۂ روح کہلاتی ہے۔ اس لطیفۂ روح پر بھی آپ 15 منٹ کا مراقبہ کر لیا کریں۔ یعنی 10 منٹ قلب کا مراقبہ کر لیا کریں اور 15 منٹ لطیفۂ روح پر کر لیا کریں۔ یہ ایک مہینے کے لئے کر کے بعد میں مجھے بتانا ہے۔

سوال نمبر: 6

مجھے یہ مجاہدہ کرنا تھا کہ جب دو عورتیں آپس میں بحث کر رہی ہوں تو میں خاموشی کے ساتھ سنوں۔ اس کے بعد فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے بعد آپ نے سبق حاصل کرنے کا کہا تھا کہ اس سے کیا سبق حاصل ہوا۔ مجھے یہ سبق ملا کہ درمیان میں اگر میں نہ بولوں تو میں محفوظ رہ سکتی ہوں۔ اگر لڑائی کے دوران میں بول پڑی تو میں بھی اس کیچڑ میں پھنس سکتی ہوں۔ آگے آپ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

یہ بالکل ٹھیک ہے بلکہ اس کا ایک اور سبق بھی ہے کہ سیانے کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔ تولنے کے لئے وقت چاہیے ہوتا ہے تو جب تک انسان خاموشی نہ سیکھے اس وقت تک وہ بات کو تول نہیں سکتا کہ میں کون سی بات کروں اور کون سی بات نہ کروں۔ اس کے ذریعے سے آپ کو ما شاء اللہ تولنے کا وقت بھی مل گیا۔ ابھی آپ اس کے اوپر عمل کر لیں اور مجھے اگلے مہینے بتائیے گا کہ آپ کو اس کے کتنے فائدے حاصل ہوئے۔ ابھی آپ اس کو جاری رکھیں۔

سوال نمبر: 7

السلام علیکم حضرت جی! مجھے اپنے اوپر مردود ہونے کا گمان ہونے لگا ہے۔

جواب:

دیکھیں! در اصل "اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَ الرَّجَاءِ" ”ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے“ تو اتنا خوف کہ انسان نا امید ہو جائے، یہ بھی ٹھیک نہیں اور اتنا امید والا ہو جانا کہ انسان بے خوف ہو جائے یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر کوئی مردود نہ ہونا چاہے تو کوئی بھی نہیں ہوتا کیونکہ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286) اور اللہ تعالیٰ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے، اگر ہم خود مردود نہ ہونا چاہیں تو اللہ پاک ہمیں کیوں مردود فرمائے گا۔ اس لئے طریقہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اللہ پاک کے ساتھ نیک گمان رکھے اور عمل میں کوتاہی نہ کرے۔ اصل اعمال ہیں، بڑی بڑی باتوں سے کوئی کام نہیں بنتا، عمل سے بات بنتی ہے۔ اس لئے آپ عمل صحیح کر لیں اور اللہ کے ساتھ نیک گمان رکھیں۔ ان شاء اللہ، اللہ پاک سارے حالات بہتر فرمائیں گے۔

سوال نمبر: 8

السلام علیکم

May Allah preserve you and grant us توفیق! I have two questions regarding the اوراد. We know that while reciting "ھو" or "حق", there are specific thoughts to keep in mind while reciting them. For example, while reciting "حق" we should imagine that the false thoughts in our heart are perishing. But when we are told to recite combined names such as "حق ھو", are we supposed to imagine the meaning of both the names and combine them? Also, when the ورد is consequent, sometimes the mind is distracted by thoughts. Is there any method to keep the mind straight during ورد?

بارك الله فيك.

جواب:

By "حق ھو", it means that actually اللہ جل شانہ for which the word pronoun "ھو" is used. So by "ھو" you will keep in mind " اللہ" and he is "حق", so this will make "حق ھو"

I mean "ھو" is "اللہ" which means "اللہ" and He is "حق" . So this way, you will combine them ان شاء اللہ العزیز.

سوال نمبر: 9

السلام علیکم و رحمۃ اللہ حضرت اقدس! مزاج بخیر حال۔ بندے کا ایک مقتدی جو English میں مہارت رکھتا ہے اور بندہ English سیکھنے میں اس کا محتاج بھی ہے لیکن محض اس وجہ سے استفادہ نہیں کرتا کہ استاذ ہونے کی وجہ سے اس کا احترام بھی لازم ہو جائے گا، بس یہ حالت ہے بندہ کی حضرت! رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

آپ اس سے دنیا سیکھیں گے اور وہ آپ سے دین سیکھے گا تو دین کا استاد دنیا کے استاد سے اعلیٰ ہوتا ہے لہٰذا آپ کے لئے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہو گا۔ آپ بھلے اس سے کتنی ہی چیزیں سیکھ لیں لیکن چونکہ آپ اس کو دین سکھا رہے ہیں اس لئے ان شاء اللہ آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

سوال نمبر: 10

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت! علاجی ذکر 300 بار تیسرا کلمہ، 200 بار لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ہے۔

(میں نے پوچھا تھا کہ اس کے ساتھ مزید کیا تھا) تو فرمایا کہ

جی حضرت! ما شاء اللہ "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 100 بار، "لَا اِلٰہَ اِلَّا ھو" 100 بار، "حق" 100 بار اور "اللہ" 100 بار پورے سال سے یہ کر رہا ہوں۔

جواب:

اب آپ اس کو بڑھائیں۔ آپ ہر مہینے پوچھا کریں۔ اور وہ یہ ہے کہ اب اس کی 200 مرتبہ "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 200 مرتبہ "لَا اِلٰہَ اِلَّا ھو"، 200 مرتبہ "حق" اور 100 مرتبہ "اللہ" شروع فرما لیں اور مہینے کے بعد مجھے بتانا ہے۔

سوال نمبر: 11

ابھی میں نے ایک خاتون سے مجاہدے کے بارے میں بات کی تھی کہ یہ آپ کرتی رہیں تو اس نے آگے سے پوچھا ہے کہ وظیفے کا کیا کروں؟ پہلے 8000 مرتبہ اسمِ ذات کا وظیفہ کرتی تھی۔

جواب: اب 8500 مرتبہ اسمِ ذات کا وظیفہ کر لیا کریں۔

سوال نمبر: 12

السلام علیکم حضرت! آپ نے مجھے دو ہفتے قبل لطیفہ روح پر 15 منٹ کا اور لطیفہ قلب پر 10 منٹ کا مراقبہ دیا تھا۔ مجھے لگ رہا ہے کہ اللہ کے فضل سے دونوں جاری ہو گئے ہیں تو کیا میں اس کو جاری رکھوں؟

جواب:

ما شاء اللہ! اگر آپ ابھی محسوس کر رہے ہیں تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ آپ اس کو جاری رکھیں اور جب مہینہ پورا ہو جائے تو پھر مجھے بتا دیجئے گا۔ ابھی فی الحال یہی ہے کہ 10 منٹ لطیفۂ قلب پر اور اس کے بعد 15 منٹ لطیفۂ روح پر اس کو جاری رکھیں۔

سوال: 13

السلام علیکم حضرت جی! کچھ دن پہلے ایک بیان میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ شیخ کا رنگ اختیار کرو۔ براہِ مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ مرید کو شیخ کا رنگ اختیار کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائیں آمین۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! یہ بہت اچھی بات آپ نے پوچھی ہے اور یہ عملی بات ہے۔ در اصل شیخ کا رنگ اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو شیخ کا ذوق ہے انسان وہ ذوق اپنائے۔ کیونکہ ذوق میں فرق ہوتا ہے یعنی سب لوگوں کا اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے تو شیخ کا ذوق جب انسان اپنا لیتا ہے تو اس سے شیخ کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ مرید کے دل میں منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں وہی بات آتی جو آپ ﷺ فرماتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے پوچھا کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم بالکل حق پر ہیں۔ پوچھا کہ پھر یہ صلح کیسی ہے؟ فرمایا یاد رکھو! میں اللہ کا پیغمبر بھی ہوں۔ ان سے رہا نہیں گیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اے عمر یاد رکھو! آپ ﷺ اللہ کے پیغمبر بھی ہیں۔ یعنی اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کرتے۔ ذوق کا مطلب یہ ہے کہ جیسے بعض دفعہ ایک انسان چھوٹی چھوٹی باتوں کو کرتا ہے اور بڑی باتوں کو چھوڑتا ہے تو اگر شیخ کا رنگ یہ نہیں ہے اور شیخ بنیادی باتوں کی طرف جاتا ہے تو آپ بھی بنیادی باتوں کی طرف جائیں کیونکہ جب لوگ رسمی باتوں میں لوگ پڑ جاتے ہیں تو رسمی باتوں سے اصلاح نہیں ہوتی، صرف ایک رسم ہی پوری ہوتی ہے۔ جو صحیح مشائخ ہوتے ہیں وہ رسمی باتیں نہیں کرتے بلکہ جو بنیادی باتیں ہوتی ہیں، وہ کرتے ہیں۔ جیسے انسان نے مثال کے طور پر تہجد بھی شروع کر لی، اوابین بھی شروع کر لی، باقی ساری عبادات بھی شروع کر لیں لیکن معاملات میں گڑ بڑ کرتا ہے، رشوت بھی لے رہا ہے، سود بھی کھا رہا ہے، جھوٹ بھی بول رہا ہے؛ تو اس کی بجائے اگر ان چیزوں سے بچ جاتے اور بھلے نوافل نہ پڑھتا تو یہ اس کے لئے زیادہ اچھا تھا۔ بہر حال ہمارے سلسلے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا رنگ آ رہا ہے۔ ان چیزوں کا خیال ہمیں رکھنا چاہیے اس سے ان شاء اللہ العزیز شیخ کا رنگ آپ کے اوپر چھا جائے گا۔ لیکن اس کے لئے کوئی line نہیں کھینچی جا سکتی ہے۔ بس یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ شیخ کے ساتھ محبت رکھتے ہیں اور محبت کے ساتھ اس کی باتیں سنتے ہیں تو آہستہ آہستہ اس کا رنگ ان کے اوپر چڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

سوال: 14

السلام علیکم حضرت جی! اللہ پاک آپ کو سلامت فرمائے آمین۔ میرے چھوٹے بھائی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے جس کا نام میری والدہ محمد رکھنا چاہ رہی ہیں لیکن باقی گھر والے اور رشتے دار کہہ رہے ہیں کہ صرف محمد نام رکھنا ٹھیک نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور لگانا چاہیے۔ میری والدہ نے گزارش کی ہے کہ حضرت جی سے پوچھیں کہ صرف محمد نام رکھا جا سکتا ہے یا نہیں؟ نیز اس نام کی کیا حکمتیں ہیں اور کیا برکتیں ہیں؟

جواب:

ما شاء اللہ! میں یہ بات record کروا رہا ہوں تاکہ آپ ان کو سنوا سکیں۔ میرے بیٹے کا نام صرف محمد ہے۔ جب میں نے اس کا نام محمد رکھنا چاہا تو میرے دل میں یہ تھا کہ لوگ اکیلے اس نام کو نہیں رکھنا چاہتے، جس سے یہ ہوتا ہے کہ محمد رہ جاتا ہے اور دوسرا نام چل پڑتا ہے۔ اس طرح اس کی برکت سے محرومی ہو جاتی ہے۔ جیسے محمد قاسم کو لوگ قاسم ہی کہتے ہیں، اس کو محمد قاسم بہت کم لوگ کہتے ہیں۔ اس لئے میں نے سوچا کہ اس کا رواج نہیں ہے تو اس کا رواج پڑنا چاہیے۔ عربوں میں یہ رواج ہے، بلکہ وہ تو جب بھی کسی غیر عرب یا کسی اجنبی آدمی کو پکاریں اور وہ لڑکا ہو تو اس کو یا محمد اور یا ولد کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بخارا میں ایک قبرستان ہے جس میں شرط یہ ہے کہ وہاں دفن ہونے والا محدث ہو اور اس کا نام صرف محمد ہو تب اس کو اس قبرستان میں جگہ ملتی ہے۔ اس میں 600 سے زیادہ قبریں ایسے محدثین کی ہیں جن کا نام محمد ہے۔ اور محدث کوئی معمولی شخص نہیں ہوتا، یہ علم کا بہت اونچا درجہ ہے۔ اگر اس کا نام صرف محمد رکھا گیا ہے تو آخر یہ فضیلت والی بات تو ہو گی۔

صحابہ کی اولاد کے نام بھی محمد رکھے گئے ہیں۔ اس وجہ سے اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کے نام کی نسبت اللہ تعالیٰ کسی کو نصیب فرمائے تو یہ بہت بڑی بات ہے، اس میں ڈرنا نہیں چاہیے۔ میں نے جب محمد نام رکھا تو ایک بہت بڑے عالم تھے جو اب فوت ہو گئے ہیں، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ اس کے ساتھ کوئی اور نام بھی ساتھ ملا لیں۔ میں نے کہا حضرت! یہ تو اب رکھ دیا گیا ہے، اب تو اس کو تبدیل کرنا مناسب نہیں ہے البتہ اگر اللہ نے مجھے دوسرا بیٹا دے دیا تو اس کا نام آپ جو بھی رکھنا چاہیں رکھ لیجئے گا۔ ان سے یہ بات طے ہو گئی، جب میرا دوسرا بیٹا ہوا تو میرے دل میں تھا کہ اس کا نام احمد رکھوں گا، لیکن چونکہ ان سے وعدہ کیا تھا اس لئے میں ان کے پاس چلا گیا۔ میں نے کہا حضرت! اللہ تعالیٰ نے دوسرا بیٹا دیا ہے تو چونکہ آپ کے ساتھ وعدہ تھا کہ آپ اس کا نام رکھیں گے تو آپ اس کا نام رکھیں۔ انہوں نے پوچھا کہ پہلے کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا کہ محمد۔ فرمایا کہ اس کا نام احمد رکھو۔ میں نے کہا الحمد اللہ بغیر مسئلے کے کام ہو گیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بہت برکت والے نام ہیں۔ اس کو اگر آپ رکھنا چاہیں تو بلا جھجھک رکھ لیں۔ ہمارے ہاں یہ بات ہے کہ جن کے ہاں کوئی نام ہو وہ دوسرا رکھ لے تو ان کے ساتھ لڑتے ہیں کہ آپ نے ہمارا نام چرا لیا حالانکہ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ مثال کے طور پر اگر کوئی میرے گھر کی طرح گھر بنانا چاہے تو میں کہوں گا کہ میرا گھر اس کو اتنا پسند آیا کہ اس کی طرح یہ گھر بنا رہا ہے۔ یہاں ہم جب گھر بنا رہے تھے تو ساتھ ہی دوسرا گھر بن رہا تھا تو اس نے اپنا گھر جتنا بنا تھا، اس کو دوبارہ گرا دیا اور نقشہ ہمارے گھر کی طرح کر لیا کیونکہ Plot size ایک تھا۔ تو کیا میں اس کے ساتھ لڑتا کہ آپ نے یہ کیوں کیا؟ میں تو خوش ہو گیا کہ یہ اچھی بات ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس میں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔

سوال نمبر: 15

حضرت جی! خانقاہ میں جب وقت ملے اس وقت آ جانا چاہیے یا اس کی کوئی ترتیب بنا کر وقت لگانا چاہیے؟

جواب:

مدرسے اور خانقاہ میں بنیادی فرق ہے یہ ہے کہ مدرسے کا تعلق اسباق کے ساتھ ہے۔ یعنی اسباق کا ایک با قاعدہ اکٹھا نظام ہوتا ہے، علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتا، نتیجتاً کسی خاص دن ہی ان کے لئے admission ہوتا ہے اور پھر خاص دن ہی پورا ہوتا ہے اور پورا نظام چلتا ہے۔ خانقاہ میں یہ ہوتا ہے کہ ہر ایک کی انفرادی بات ہوتی ہے۔ شیخ کا بھی ہر شخص کے ساتھ الگ تعلق ہوتا ہے۔ یعنی سب کا ایک جیسا نہیں ہوتا، کوئی کہاں سے شروع کرتا ہے اور کوئی کہاں سے شروع کرتا ہے تو اس وجہ سے ان کا وقت لگانے کا بھی اپنا نظام ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ خواہ مخواہ کسی ایک وقت معینہ پہ لوگ داخل ہوں گے اور پھر بعد میں نہیں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ جب بھی انسان کو فرصت ہو اور وہ ضروری سمجھے کہ اس وقت میرے لئے بہت ضروری ہے کہ میں آ جاؤں تو آ سکتے ہیں۔ البتہ نظام کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔

سوال نمبر: 16

سالک خانقاہ میں آ کر اپنے معمولات کرے یا کچھ بھی تلاوت وغیرہ کرنا چاہے تو کر لے؟

جواب:

اس کے لئے پھر خانقاہ کے نظام کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بتا دے کہ میرا یہ معمول ہے تو اس کے ساتھ اس کو adjust کیا جا سکتا ہے لیکن خانقاہ کے مجموعی معمول کے ساتھ adjust ہونا پڑتا ہے۔

سوال نمبر: 17

اگر خانقاہ میں اس وقت سونے کا معمول ہو تو اس میں آ کے سو جائے؟

جواب:

جی بالکل، اس وقت تو سونا چاہیے۔ اگر کوئی خاص کام اس کے لئے اس وقت ضروری ہو تو دوسری جگہ جہاں پر دوسروں کی نیند میں خلل نہ پڑتا ہو وہاں پر وہ کام کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ نیند ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے لئے ایک اجتماعی نظام چاہیے۔ ورنہ جب کوئی ایک وقت اور دوسرا کسی اور وقت سونے لگے تو کوئی بھی نہیں سو سکے گا اور سارا نظام گڑ بڑ ہو گا۔ اس وجہ سے ہم نے کہا ہے کہ رات کو 10:30 بجے سے پہلے پہلے سب سو جائیں۔ یعنی ہم نے اس کی پابندی لگائی ہے کہ ساڑھے 10 سے پہلے پہلے سارے معمولات کر لیں اور تہجد کے وقت اٹھنا لازم ہے۔ بھلے گھر میں تہجد نہ پڑھتا ہو لیکن خانقاہ میں تہجد پڑھے کیونکہ ایک نظام ہے، اس کے ساتھ adjust کرنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ باقی معمولات جیسے اشراق، چاشت، اوابین وغیرہ سب کرنے ہوتے ہیں، خانقاہ کے معمولات میں شامل ہونا پڑتا ہے اور اپنے انفرادی معمولات کو adjust کرنا پڑتا ہے۔

سوال نمبر: 18

مثلًا دوپہر کا وقت قیلولے کا وقت ہے، تو اگر ایک آدمی نے گھر میں قیلولہ کرنا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں جا کر خانقاہ میں قیلولہ کر لوں تو اس طرح مناسب قیلولہ کر کے چلا جائے یا اس کے علاوہ بھی کرنا ضروری ہے؟

جواب:

ابھی اس پہ شرح صدر نہیں ہو رہا۔ بعض لوگوں کا شرح صدر ہوتا ہے۔ در اصل یہ من جانب اللہ طریقہ کار کا فرق ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ جس کے دل میں جو ڈالتا ہے وہ اس طرح کرتا ہے۔ جیسے ہمارے ڈاکٹر فدا صاحب کہتے ہیں کہ بھلے آپ دنیا کے کام کے لئے آ جائیں، مثال کے طور پر پڑھنا چاہیں تو وہیں پر پڑھیں لیکن خانقاہ میں وقت گزاریں تاکہ آپ کا کچھ تو ذہن بن جائے۔ یہ ان کی سوچ ہے، اس پر ان کا شرح صدر ہے اور ما شاء اللہ اس میں بڑی برکت ہے۔ لیکن ہمارے دل میں کسی نے یہ بات ڈالی ہے کہ اگر ہم یہ کر لیں گے تو یہ خانقاہ بالکل یہ اسی کی ہو کر رہ جائے گی کیونکہ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ مجھے یاد آتا ہے جو بہت زبردست ملفوظ ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب پہ یہ پیش نہیں کروں گا کیونکہ ان کی اپنی سوچ، اپنا مزاج اور اپنا معیار ہے۔ لیکن میرا ذوق مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق سے بہت زیادہ قریب ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ دنیا اور دین اگر کسی چیز میں اکٹھی ہو جائیں تو دنیا کی جیت ہو جاتی ہے اور آخرت رہ جاتی ہے کیونکہ دنیا عاجلہ ہے اور آجلہ کے لئے عاجلہ کا قربان کرنا لوگوں کے لئے مشکل نہیں ہے، اللہ پاک نے خود فرمایا ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَة وَ تَذَرُونَ الْآخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 20-21) اس پر پہلے سے قرآن پاک کی یہ نص موجود ہے۔ اور ظاہر ہے، ہم غیر معمولی لوگ نہیں ہیں، تربیت کے لئے آتے ہیں۔ یعنی پہلے تربیت نہیں ہوئی اور تربیت نہیں ہوئی تو عاجلہ والی بات کو پسند کریں گے، نتیجتاً وہی بات ہے کہ اگر دنیا اور دین دونوں اکٹھے ہو جائیں تو پھر اس میں دنیا باقی رہ جائے گی اور دین چلا جائے گا۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ اگر دنیا سے لوگ کٹ کے آتے ہیں اور یہاں پر بھی ہم ان کے سامنے دنیا پیش کر دیں تو پھر کون سی جگہ ہو جہاں پر ان کو کچھ ملے گا؟ اس وجہ سے ہماری خانقاہ میں بہت سی ایسی چیزیں نہیں ہیں جو دوسری خانقاہوں میں ہیں۔ اور ہم ان خانقاہوں کے خلاف بھی بات کرتے۔ ہم کہتے ہیں ان کا اپنا شرح صدر اور اپنی سوچ ہے لیکن ہمارا شرح صدر جس چیز پر ہے ہم اس پر عمل پیرا ہیں۔ اس پہ ہم نے استخارے بھی کئے ہیں جن کی بنیاد پر شرح صدر کی مضبوطی حاصل ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ ہماری اس خانقاہ کو بالکل مختلف رکھنا چاہ رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس میں ایسی چیزیں نہیں ہیں جیسے یہاں تعویذ کا نظام نہیں ہے۔ حالانکہ تعویذ یا دم سب جگہوں پر ہوتے ہیں، خود ہمارے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ با قاعدہ تعویذ بھی دیتے تھے اور دم بھی کیا کرتے تھے تو میں ان کو غلط تو نہیں کہہ سکتا لیکن حالات اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ میرے اپنے حالات ہیں حضرت کے اپنے حالات تھے، ان حالات کے مطابق وہی چیز ٹھیک تھی اور ان حالات کے مطابق یہی چیز ٹھیک ہے کہ یہاں پر اگر میں یہ چیزیں کرنا شروع کر دوں تو یہ میدان بھر جائے گا۔ پھر کوئی اور کام نہیں ہو گا، صرف اور صرف یہی ہو گا۔ کیونکہ سادات کی یہ کمزوری ہے کہ سادات اگر ایک دفعہ عملیات کی طرف آ جائیں تو ان کے عملیات بہت چلتے ہیں اور پھر لوگ ان کو کسی اور کام کا رہنے نہیں دیتے۔ پھر لوگ ان سے یہی مانگتے ہیں اور نتیجتاً لوگ اسی کے رہ جاتے ہیں۔ لاہور کے حامد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا، وہ سید تھے اور بہت بڑے بزرگ تھے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے لیکن چونکہ ان کا یہ کام چل پڑا تو آپ کو ان کے خلفاء نظر نہیں آئیں گے، آپ کو ان کے عملیات کے شاگرد نظر آئیں گے۔ تو بس یہی مسئلہ ہے۔

سوال نمبر: 19

حضرت ہمارے گھر کے ساتھ مفتی عدنان کاکا خیل صاحب خطیب ہیں۔ ان کی ایک رات وہاں محفل تھی جسے وہ تزکیہ کی رات کہتے ہیں۔ میں ماحول کی نیت سے وہاں چلا گیا کہ اچھا ماحول ہو گا، ادھر ایک صاحب سے بات ہوئی، ان سے میں نے ذکر کا پوچھا کہ یہ کون سا اصلاحی ذکر کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ چشتی ذکر کرتے ہیں۔ میں نے کہا اس میں کون کون سے سلاسل آتے ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ چاروں سلاسل اس میں آ جاتے ہیں۔ تو حضرت! میں تو وہی کرتا ہوں کیونکہ آپ نے بھی مجھے وہی دیا ہوا ہے لیکن آپ نے چونکہ ساتھ ساتھ اس کو آگے کر دیا ہے تو پھر اس کی طرف بھی دل مائل ہوتا ہے۔ خاص طور پہ شاید اعتکاف میں آپ نے چاروں سلاسل کا ذکر کرایا تھا تو ہر ایک کا اپنا مزہ تھا۔ اب میرے جیسے بندے کے لئے کیا ہونا چاہیے کیونکہ کبھی کبھار ذکر کرتے ہوئے مجھ سے غیر اختیاری طور پر الگ سلاسل کا ذکر جاری ہو جاتا ہے۔

جواب:

یہ آپ نے بالکل صحیح کہا کیونکہ یہ بھی ہمارے سلسلے ہی کا ایک طرہ امتیاز ہے کہ یہاں کام کے لحاظ سے بھی چاروں سلسلوں کا با قاعدہ نام لیا جاتا ہے۔ ایک تو یہ صورت ہے کہ چار سلسلوں میں بیعت کر لیا جاتا ہے اور چار سلسلوں میں اجازت دی جاتی ہے، یہ تو سب جگہ ہے، لیکن ان کا با قاعدہ اس انداز سے تذکرہ کہ سب کو ایک جتنی اہمیت دینا اور سب کے ساتھ اپنا رابطہ ظاہر کرنا، یہ اسی سلسلے کے اندر اللہ پاک نے اس کو شروع کیا ہوا ہے۔ اس پہ کسی اور سے الجھنا نہیں چاہیے کیونکہ ہم دوسروں کو غلط نہیں کہتے، نقشبندی سلسلے کو بھی غلط نہیں کہتے، چشتیہ کو بھی غلط نہیں کہتے، سہروردیہ کو بھی غلط نہیں کہتے اور قادریہ کو بھی غلط نہیں کہتے کیونکہ سارے ہی اپنے ہیں۔ اگر میں کسی قادری بزرگ کے پاس جاؤں اور اس سے توقع کروں کہ وہ مجھے چشتی ذکر کرائے گا تو یہ میری خام خیالی ہو گی۔ لیکن ہمیں یہ مجبوراً اس وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے کہ بہت ساری جگہوں پر سلسلوں کی ایسی صورت ہو گئی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں صرف اپنے سلسلے کی بات ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی تنقیص کر لیتے ہیں۔ اس تنقیص سے بچنے کے لئے ہم نے مجبوراً یہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ چاروں کو اکٹھا کر لیں اور اللہ کا شکر ہے کہ الحمد اللہ اس کی تائید بھی بہت زور دار طریقے سے ہو گئی ہے لہٰذا ہمیں اس پہ کوئی شرم ساری اور پشیمانی نہیں ہے۔ لیکن باقی ساتھیوں کو ہم نہیں چھیڑتے۔ ہم کہتے ہیں کہ بس صحیح ہو اپنے اپنے طریقے پہ۔

سوال نمبر: 20

حضرت! میں اپنا وہی ذکر جاری رکھوں؟

جواب:

جی ہاں! آپ کو اپنا جاری رکھنا چاہیے آپ کو دوسروں کے لئے اپنا نہیں بدلنا چاہیے البتہ دوسروں کو چھیڑنا بھی نہیں چاہیے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے لئے سارے اچھے ہیں۔ اگر کوئی چشتی طریقے سے میرے سامنے ذکر کر رہا ہو تو مجھے تکلیف کیوں ہو گی؟ میں کہتا ہوں، چشتی بھی صحیح ہے۔ کوئی نقشبندی طریقے پہ کرے گا تو مجھے کیا تکلیف ہو گی؟ ہم کہیں گے نقشبندی طریقہ بھی صحیح ہے۔

سوال نمبر: 21

تو حضرت وہ جو ایک چیز ذہن میں آتی ہے کہ اگر میں نیا والا ذکر نہیں کر رہا جو با قاعدہ چاروں کی نمائندگی کر رہا ہے تو کیا کروں؟

جواب:

وہ تو ہم اجتماعی طور پر کرا رہے ہیں۔ آپ کو جو انفرادی طور پہ دیا ہے وہ تو چشتی طریقے کا ہے جو پرانا چل رہا ہے۔ اگر کسی کو پرانے ذکر دیئے ہیں تو در اصل اس میں بھی ہم نے یہ حکمت سمجھی ہے کہ ان کو نئے دے کر چھیڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کو غلط کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ جرأت تو ہم نہیں کر سکتے کہ ہم کسی سے کسی خاص سلسلے کا طریقہ چھڑوا دیں۔ جیسے مثال کے طور پر کوئی حنفی طریقے پہ پیدا ہوا ہے اور میں خود شافعی ہوں، مجھے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ محبت بھی ہے اور شافعی طریقے پہ چلوں گا بھی لیکن میں بلا وجہ کسی دلیل کے بغیر کسی کو حنفی سے شافعی نہیں کروا سکتا۔ یعنی اس کی ضرورت کے بغیر میں اس کو کیوں میں حنفی سے شافعی کرواؤں گا؟ یہ غلط طریقہ ہو گا۔ اسی طریقے سے جو چشتی یا نقشبندی ہیں، ہم ان کو کچھ اور نہیں بنانا چاہتے۔ ہم ان کو وہی رکھنا چاہتے ہیں جو وہ ہیں۔ وہ جس جگہ پر ہیں، بالکل صحیح ہیں۔ البتہ ہم خود اسی طریقے پر رہیں ھے۔ یہ بھی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی سوچ ہے، حضرت نے فرمایا کہ یہ کیا تم لوگوں نے دکان داری شروع کی ہوئی ہے کہ چشتی کا نام لے رہے ہو تو بس چشتی ہے اور نقشبندی نہیں۔ حضرت نے فرمایا میرا دل تو چاہتا ہے کہ کسی چشتی بزرگ کے ساتھ چند مرید نقشبندی بھی ہوں اور کسی نقشبندی شیخ کے ساتھ چند مرید چشتی بھی ہوں۔ یہ بات حضرت نے بالکل صحیح فرمائی ہے تو اس لحاظ سے ہم یہ اپنے لئے کر رہے ہیں لیکن اگر کسی کو اس پہ شرح صدر نہیں ہو رہا تو ہم ان کو مجبور نہیں کرتے، ہر ایک کا اپنا اپنا نظریہ اور نظام ہے۔ میرے خیال میں لوگ اجتہادی چیز کا مفہوم نہیں سمجھتے، اجتہادی چیز مشورے کی طرح ہوتی ہے۔ مشورے میں آپ کے دل میں جو آیا ہو وہ آپ نے بلا کم و کاست بیان کرنا ہوتا ہے لیکن اگر کسی اور کے دل میں وہ بات نہیں آتی تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مشورہ ہی صحیح ہے۔ آپ کہیں گے کہ میرا شرح صدر یہی ہے لیکن دوسرے کا مشورہ بھی اپنے طور پہ قابلِ احترام ہے۔ پھر امیر بھلے جس کی بات بھی مان لے اس کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے میں اپنے شرح صدر پہ تو قائم ہوں لیکن اگر کوئی میرے شرح صدر پہ نہیں چلتا تو مجھے اس سے کوئی عار نہیں ہے کہ میں خواہ مخواہ ان کے ساتھ الجھ جاؤں کہ آپ میرے شرح صدر پہ آ جائیں۔ یہ خارجیت والا طریقہ ہے کہ میں صرف اپنے کو صحیح کہہ دوں اور باقی لوگوں کو میں غلط کہہ دوں، یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس وجہ سے جیسے ابھی ذوق والی بات آئی تھی تو ہمارا ذوق یہی ہے۔ اس میں ہمارے ساتھیوں میں سے جن کا یہ ذوق ہو گا تو ان کو زیادہ فائدہ ہو گا کیونکہ ہم سب کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ اور اللہ کی طرف سے اس کی تائید بھی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک نقشبندی سلسلے کے ساتھی ہیں لیکن کبھی کبھی ادھر بھی آتے ہیں، وہ صاحب کشف ہیں۔ وہ حضرت علی ہجویری صاحب رحمۃ اللہ کے مزار پہ گئے تو مراقبے میں حضرت کے ساتھ ملاقات ہوئی تو حضرت نے ہماری کتاب فہم التصوف کا نام لے کر فرمایا کہ یہ آج کل کے زمانے کی کشف المحجوب ہے۔ یعنی اپنی نسبت سے فرمایا کیونکہ کشف المحجوب حضرت کی کتاب تھی۔ یعنی اس وقت اس دور میں کشف المحجوب سے جتنا فائدہ ہوتا تھا اس دور میں فہم التصوف سے اتنا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے، یہ سارا نظام اللہ پاک نے بنایا ہوا ہے۔ اسی کا کرم ہے کہ اس میں بہت سے بزرگوں کی چیزیں آ گئیں۔ ہم نے اپنے طور پہ کچھ نہیں کیا۔ جیسے اس میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جو چیزیں ہم نے لی ہیں تو وہ ہماری نہیں ہیں، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہی ہیں، ہم نے صرف ان کو لیا ہے۔ اسی طرح اس میں اگر حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ یا کچھ اور بزرگوں کی چیزیں ہیں تو وہ سب انہی کی ہیں، ہم نے صرف ان کو compile کر لیا ہے۔ اور یہ چیز ما شاء اللہ اگر اللہ پاک کے ہاں مقبول ہے جس کی ہمیں بڑی خوشی ہے۔

سوال نمبر: 22

حضرت اگر بندے سے کوئی خاص قسم کا ایک ذکر نکل رہا ہے تو اس کو آگے جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس اپنے ہی ذکر پہ ہی رہیں؟

جواب:

آپ اپنا ذکر کرتے رہیں اور خود بخود جو ہوتا رہے اس کو نہ چھیڑیں۔

سوال نمبر: 23

یعنی اس کو ہونے دیں؟

جواب:

جی ہاں! اس کا مقابلہ نہ کریں، اس کو روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کبھی کبھی حضرت ہمارے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے بھی "اِلَّا اللہ" کا نعرہ نکلتا تھا حالانکہ حضرت چشتی تھے۔ کچھ عرصے میں ہماری زبان سے بھی اس قسم کے نعرے نکلنے لگے تو میں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت کو بتایا اور کہا کہ میں اس کو روکتا ہوں۔ فرمایا روکنا ٹھیک نہیں ہے، اگر روکو گے تو مزید تیزی کے ساتھ آئے گا۔ یعنی یہ Pressure cooker کی طرح ہوتا ہے، اگر آپ نے روکا ہے تو پھر اتنا کھلے گا کہ پھر سارے جسم کو ہلا دے گا۔ اس لئے خود بخود اگر کوئی چیز ہوتی ہے تو اس کو بلا وجہ روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ بات فرمائی ہے، ان کا ملفوظ موجود ہے کہ بھئی ضبط ہونا چاہیے، اپنے احوال کو قابو کرنا چاہیے لیکن اللہ پاک اگر گلے میں خود ہی کوئی ڈھول ڈال دے تو خوب بجانا چاہیے اور کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، یہ ہمارے بزرگوں کی بات ہے۔

سوال: 24

حضرت میرا تو نعرہ نہیں ہے، وہ تو ذکر ہے۔

جواب:

یہ مختلف صورتیں ہوتی ہیں، کسی کا ذکر جاری ہوتا ہے کسی کا نعرہ چلتا ہے، کسی کے جسم میں جھرجھری آتی ہے اور بعض کو جھٹکے لگتے ہیں۔ ہر ایک کا مختلف علاج ہے۔

در اصل یہ سب انفعالات ہیں، ہم انفعالات کو اتنی توجہ نہیں دیتے صرف معمول کو نبھاتے ہیں۔ اصل مطلوب چیز اعمال ہوتے ہیں۔ اگر اعمال کے ہوتے ہوئے انفعالات ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اعمال کے بجائے انفعالات ہوں تو ہم ان کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں اعمال ہونا ضروری ہیں، انفعالات ہوں تب بھی ٹھیک ہے، نہ ہوں تب بھی ٹھیک ہے، ان کا ہم لوگوں کو خاص شوق نہیں ہے۔

اس قسم کی کچھ اپنی باتیں میں نے حضرت کو بتائیں تو حضرت نے فرمایا کہ دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ یہ ہمارے سلسلہ کی برکت ہے کہ ہمیں یہ چیزیں پہلے سے ہی اللہ پاک نے clear کروائی ہیں کہ ان چیزوں کے پیچھے نہیں پڑنا ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں ایک مخلوق پھنسی ہوئی ہے اور انہی چیزوں کے اندر ہی سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بہت بڑے پیر صاحب کے بارے میں ان کے ایک مرید نے کہا کہ ہمارے شیخ نے کہا کہ میری توجہ اتنی دور جگہ تک پہنچتی ہے۔ بھئی اگر پہنچتی بھی ہے تو ٹھیک ہے، پہنچ جائے گی۔ لیکن اس کے بتانے اور اس پہ فخر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کوئی فخر کی چیز تو نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے اولیاء اللہ اپنی کرامات کو ایسے چھپاتے تھے جیسے عورتیں حیض کا خون چھپاتی ہیں۔ اور آپ کرامت کو ڈنڈے پہ اٹھا کے پھر رہے ہیں کہ میں بہت بڑی چیز ہوں اور یہ میرا کمال ہے۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی؟ جو چیز آپ کی نہیں ہے اس پہ فخر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کرامت کسی کی اپنی ملکیت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکمت کی بنا پر ایک چیز ودیعت کی گئی ہوتی ہے۔ مثلاً سادات میں کوئی آدمی اپنے کمال سے پیدا نہیں ہو سکتا، تو جو چیز اپنے کمال سے نہیں ہے تو اس پر فخر کرنا زیب نہیں دیتا۔ بلکہ اس پہ ڈرنا چاہیے کہ کہیں میرے ساتھ اُدھر معاملہ خراب نہ ہو جائے۔ اس طرح جو بھی غیر اختیاری چیزیں ہیں ان پہ اترانا نہیں چاہیے۔

مجھے بعض لوگ اپنی اس قسم کی کیفیات ذرا طریقے سے بتاتے ہیں کیونکہ میرا ذوق ایسا ہے کہ وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو فوراً discourage کر دے گا کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ طریقے طریقے سے بتاتے ہیں تو میں بھی طریقے سے ان کو جواب دیتا ہوں۔ کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہوتا ہے، بعض لوگ بزرگوں کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں، مثلاً ہمارے قریب ترین جناب حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں پڑھ لیں یا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت السالک پڑھ لی۔ اب تربیت سالک میں انہوں نے دیکھا ہو گا کہ کسی نے کہا ہے کہ حضرت میں تو مردود ہو گیا ہوں، میں تو فلاں ہو گیا ہوں تو حضرت نے اس پر اس کو مبارک دی ہو گی کہ یہ تو اچھی بات ہے۔

؏ کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

یعنی جو اصل ہوتا ہے اس کی بات ہی اور ہوتی ہے۔ اس کا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت عجیب طریقہ بتایا ہے۔ فرمایا کہ اگر کوئی اپنے بارے میں کہہ دے کہ میں تو حقیر پُر تقصیر ہوں تو آپ صرف ان کو یہ کہہ دیں حضرت! آپ جھوٹ کب بول سکتے ہیں ایسے ہی ہو گا۔ پھر آپ دیکھیے گا ان کے چہرے پہ کیا رنگ آتا ہے۔ فوراً پتہ چل جائے گا کہ واقعی کہہ رہے ہیں یا ویسے ہی کہہ رہے ہیں۔ اس میدان میں "لَا یَخْدَعُ وَ لَا یُخْدَعُ" کا قاعدہ ہے کہ دھوکہ کھانا بھی نہیں چاہیے اور دھوکہ دینا بھی نہیں چاہیے۔

سوال: 25

بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں کہ بندے کو پتا ہوتا ہے کہ میں غلط کر رہا ہوں یا اپنی کوئی چیز لیکن وہ اس پہ کبھی کبھار بات شروع ہی نہیں کر سکتا کیونکہ کبھی اتنا زیادہ ڈر ہوتا ہے اور کبھی اس کو سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح approach کرے، تو اس کے لئے کوئی ایسا عمل ہے جس سے یہ مسئلہ حل ہو؟

جواب:

اس کو چاہیے کہ جس طرح بات ہو اسی طرح ہی بتائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ سوچتے ہیں کہ میں اس کو کس طرح بتاؤں تو اس میں آپ کی fabrication آ جائے گی۔ مثال کے طور پر میرا اپنا ایک حال ہے جو اچھا نہیں ہے، اب میں اس کو اس طرح ظاہر کر دوں کہ اچھا نظر آئے تو وہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ لیکن اگر میں اپنا حال جیسا ہے، اس طرح بتا دوں تو پھر شیخ کا کام ہے کہ وہ اس کو کیسے سمجھتا ہے۔ اس کے لحاظ سے بات ہو جائے گی۔

سوال: 26

اور جب کبھی اس کا حل نہیں نکل رہا ہوتا تو کیا صبر کر لینا چاہیے؟

جواب:

نہیں، حل نکل رہا ہوتا ہے لیکن پورا حل نہیں نکلتا کیونکہ ابھی پورے حالات نہیں بنے ہوتے۔ مثلًا آپ پانی boil کر رہے ہیں تو جب درجہ حرارت Thrity degree centigrade پر پہنچے گا تو اس میں صرف بخارات ہی اڑیں گے، boiling تو نہیں ہو گی۔ آپ اس وقت اس سے boiling کی توقع تو نہیں کر سکتے۔ boiling تو تب ہو گی جب وقت آئے گا۔ لہذا جس وقت جو شخص جس position پر ہے اس position کے احوال اس سے ظاہر ہوں گے۔

ہم میخ بند بابا جی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئے تھے۔ وہ قادری سلسلے کے بڑے بزرگ تھے۔ وہ ہمارے پھوپھا جان کو اجازت دے رہے تھے اور اجازت بڑے simple الفاظ میں دے رہے تھے۔ فرمایا کہ آپ نے تو بہت ساری بوریاں بھر لی ہیں، اب دوسرے لوگوں کو بھی دینا شروع کر لیں۔ میں تو نہیں سمجھا لیکن میرے ساتھی سمجھ گئے کہ یہ ان کو اجازت دے رہے ہیں۔ وہ کچھ مسکرائے تو میرے پھوپھا جان نے کہا کہ بابا جی ان شیطانوں کے سامنے ایسی باتیں نہ کریں، یہ مجھے چھیڑیں گے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ یہ شیطان نہیں ہیں، نہیں چھیڑیں گے۔ بہر حال! حضرت نے اس دوران فرمایا کہ چشتی اور نقشبندی سلسلے باریک ہیں، پل میں کچھ اور پل میں کچھ ہوتے ہیں۔ قادری سلسلے میں یہ بات ہے کہ اوّل تو یہ گرم نہیں ہوتا اور جب گرم ہوتا ہے پھر اس پہ جتنا مرضی پانی ڈالو، یہ ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ میرے پھوپھا جان نے کہا کہ اس کے لئے تو بہت زیادہ لکڑیاں چاہیے ہوں گی۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ایک سلسلے کا اپنا رنگ ہے۔ قادری سلسلے کا رنگ یقیناً ایسا ہی ہے۔

ایک دن حضرت نے ہمیں بٹھا کے مختلف سلسلوں کے ذکر بتائے کہ فلاں سلسلے کا ذکر ایسا ہے، فلاں کا ذکر ایسا ہے؛ حضرت کو سارے معلوم تھے۔ اس وقت ہمارے پاس Tape recorder تھا نہیں اگر Tape recorder ہوتا تو بہت مفید ہوتا، ہمیں کافی چیزیں اس سے مل جاتیں لیکن ہم تیار ہو کر نہیں گئے تھے۔ حضرت نے کافی سلاسل کے بارے میں بتایا کہ چشتیہ میں سے صابریہ کا یہ طریقہ ہے، نظامیہ کا یہ طریقہ ہے۔ قادریہ میں مختلف سلسلے ہوتے ہیں، ان کا یہ طریقہ ہے۔ نقشبندیہ کا یہ طریقہ ہے؛ یعنی بہت سارے طریقے بتائے۔

حضرت کو بہت تیز کشف ہوتا تھا، اتنا تیز کہ آدمی ڈر جاتا تھا۔ جیسے صحابہ ڈرتے تھے کہ ابھی وحی آ جائے گی تو ہمارا ان کے ساتھ اسی طرح معاملہ تھا۔ ایک دن ہم ان کے ساتھ ہی تھے تو حضرت نے اپنے خلیفہ میرے پھوپھا جان کو بڑی محبت کے ساتھ سینے سے لگایا۔ میرے دل میں آیا کہ کاش مجھے بھی اس طرح سینے سے لگائیں۔ حضرت نے مجھے پشتو میں کہا: "په زړه کي پاټکی مه اچوه خه" یعنی دل میں باتیں نہ رکھو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ تسنیم الحق صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہمارے آپس کی بات ہے۔ ایک دن میں حضرت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، مجھے کشف نہیں ہوتا، یہ بات میں آپ کو 100 دفعہ میں بتا چکا ہوں۔ البتہ احساس ہوتا ہے، احساس، کشف سے مختلف چیز ہے۔ حضرت میری طرف متوجہ تھے، مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کیا ہو گیا تھا، مجھے بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے میرے شیخ کا حلقہ میرے اردگرد پورا تیار ہے اور میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں اس حلقے سے نکل نہ جاؤں۔ میں خوب مضبوطی کے ساتھ جم کے بیٹھا رہا۔ بعد میں، میں نے کسی سے اس کی بات کی تو انہوں نے پوچھا کہ نکلے تو نہیں تھے؟ میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگے کہ بس بچ گئے۔ یہ ایک امتحان تھا۔ اس وقت بھی تسنیم الحق صاحب نے مجھے دور سے کہا کہ آپ کو کیا ہو رہا ہے، یہ انقباض کیوں ہے؟ میں نے کہا کہ آج طبیعت ایسی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ اپنے شیخ کے ساتھ ایسا تعلق ہونا چاہیے۔

حضرت میخ بند بابا جی بہت بڑے بزرگ تھے لیکن شیخ تو شیخ ہوتا ہے۔ چونکہ میں حضرت کی عمر سے بہت متاثر تھا ان کی 140 سال عمر تھی اور اس عمر میں پہاڑ پر چڑھتے تھے کیونکہ ان کا گھر وہیں تھا۔ اور ان کے ساتھ طی ارض والا معاملہ بھی ہو جاتا تھا کیونکہ ایک بار ہمیں رخصت کر رہے تھے تو پیدل چلتے ہوئے ہمیں ساتھ لے کر اپنے station پہ بہت جلد پہنچ گئے تھے۔ چونکہ میں حضرت کی عمر سے متاثر تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عمر بہت زیادہ ہے، بہت بوڑھے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ بھی اللہ نے دکھا دیا کہ یعنی تمہارے لئے شیخ ہی سب کچھ ہیں، اور کسی چیز کی طرف نظر نہ کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے تربیت ہوتی ہے۔ انسان کمزور ہے اور کمزوری کی وجہ سے گڑ بڑ کر سکتا ہے، جب اللہ پاک حفاظت فرماتے ہیں تو اس طرح کرتے ہیں۔ بہر حال! یہ میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ ہمیں اپنے سلسلے کے ساتھ جڑنا چاہیے اور یہی ذوق اپنانا چاہیے۔ کسی اور کے بارے میں نہ منفی رائے رکھو نہ اس کو اپنے سلسلے پہ بڑھاؤ۔ یہ دونوں باتیں اس لئے نہ رکھو کہ منفی ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں ہے کیونکہ فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کرے گا۔ اور اپنے اوپر بڑھانا اس لئے ٹھیک نہیں ہے کہ اس میں آپ کا نقصان ہے۔ یعنی جتنا آپ کا اپنے سلسلہ کے ساتھ تعلق ہو گا اتنا ہی آپ کا فائدہ ہے۔ اس لئے کسی اور کے ساتھ الجھنا ٹھیک نہیں ہے۔

سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَ بِحَمْدِكَ أشْهدُ أنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ و أَتُوْبُ إِلَيْكَ