اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
السلام علیکم!
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب کوئی سائل آتا یا آپ سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ صحابہ سے فرماتے تم سفارش کرو اس کا تمہیں ثواب ملے گا اور اللہ جو چاہتا ہے اسے نبی کی زبان سے جاری کرا دیتا ہے یا فیصلہ کرا دیتا ہے۔ (بخاری شریف، کتاب الزکوۃ، باب التحریص علی الصدقۃ و شفع فیھا، مسلم شریف، کتاب البر و الصلۃ و الأدب، باب الاسفتاء و الشفاء فیما لیس بحرام) اس ارشاد مبارک اور سیرت سے آج کل کے دور کے لحاظ سے ہمیں کیا عملی رہنمائی حاصل ہوتی ہے؟
جواب:
کچھ الفاظ بعض دفعہ بہت معروف ہوتے ہیں لیکن انسان اپنے نفس کے جال سے نہیں نکل پاتا لہذا ان کو نیا جامہ پہنا لیا جاتا ہے۔ سفارش کا لفظ بھی اسی طرح ہے۔ یہ لفظ حدیث شریف میں بھی آتا ہے جیسے ابھی آیا ہے اور قرآن پاک میں شفاعت کے عنوان سے جو لفظ آتا ہے وہ بھی یہی ہے۔ لیکن لوگوں نے اس لفظ کے اپنے اپنے معانی نکالے ہیں۔ مثلاً شفاعت کا کفار نے یہ معنی نکالا کہ یہ بت ہماری سفارش کریں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بت کیسے سفارش کریں گے؟ در اصل یہ بت usually کچھ اولیاء اللہ کے یا نیک لوگوں کے مجسمے ہوتے تھے، بلکہ پیغمبروں کے بھی بنائے جاتے ہیں جیسے عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بنائے ہیں جو گرجوں میں رکھے ہوتے ہیں، اسی طرح مریم علیہا السلام کی تصویریں بنا کر رکھی جاتی ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں وہی بات ہوتی ہے۔ اگر ان سے آپ پوچھیں تو وہ آپ کو یہی کہیں گے کہ ہم ان کو تو سجدہ نہیں کر رہے بلکہ ہم تو ان کو سجدہ کر رہے ہیں جن کے یہ symbolic ہیں۔ یعنی انہوں نے ان کو شفیع بنایا ہوتا کہ یہ ہماری سفارش کریں گے۔
سفارش کا اصل مطلب جب تک معلوم نہیں ہو گا، اس وقت تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ سفارش کا مطلب یہ ہے کہ ایک غریب یا بے وسیلہ آدمی ہے جس کی صحیح لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کی پہنچ نہیں ہے۔ اس کا حق بنتا ہے لیکن اپنے حق کو مانگنے کے لئے جو forum ہے وہاں تک اس کی رسائی نہیں ہے اور رسائی نہ ہونے کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ مثلاً ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ایک جائز کام ہے، ڈپٹی کمشنر اگر سب کو اجازت دے دے کہ ہر وقت مجھ سے مل لیا کرو تو وہ کام بھی نہیں کر سکے گا اور سو بھی نہیں سکے گا۔ حالانکہ اس کو بھی آرام کرنا ہوتا ہے، اس لئے وہ کچھ پابندیاں بھی لگائے گا جن کی وجہ سے ہر وقت کوئی شخص اس سے نہیں مل سکتا۔ ایسی صورت میں بہت سے با رسوخ لوگ ہوتے ہیں جن کی ڈپٹی کمشنر تک رسائی ہوتی ہے، وہ اس کو ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں اور اس سے مل بھی سکتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنا number ہر ایک کو نہیں دیتے جیسے specialist ڈاکٹر بھی اپنا number share نہیں کرتے بلکہ تبدیل کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کو یہی اندیشہ ہوتا ہے کہ لوگ بعض اوقات رات کے دو بجے بھی ٹیلی فون کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ ان کے اور بھی مسائل ہوتے ہیں۔
اس پر میں آپ کو لطیفہ بھی سناتا ہوں، ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ ایک مرتبہ سردیوں کی راتوں میں ساڑھے تین بجے ہمارے گھر ہمارے ایک ساتھی کا ٹیلی فون آیا۔ میں تو سو رہا تھا، ہمارے گھر والے اٹھے اور انہوں نے ٹیلی فون attend کیا تو وہ کہنے لگا کہ میں نے سہ پہر کو چار بجے تربوز کھایا تو اب پانی پی لوں؟ ہمارے گھر والے کافی غصہ ہوئے کہ یہ ڈاکٹر کا گھر تو نہیں ہے کہ آپ یہ بات پوچھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا آپ کو پتا ہے اس وقت کیا time ہے؟ اس نے کہا کہ کیا time ہے تو انہوں نے کہا کہ رات کے ساڑھے تین بجے ہیں۔ اس نے اچھا اچھا، غلطی ہو گئی کہہ کر ٹیلی فون بند کر دیا۔ خود سوچیے کہ حالانکہ ہم ڈاکٹر نہیں ہیں لیکن ہمارے ساتھ اگر کوئی ایسے کر سکتا ہے تو اصل ڈاکٹروں کے ساتھ لوگ کیا کرتے ہوں گے۔ پشتو میں کہا جاتا ہے کہ "مطلبی په خټه اور لګوی" ”جو مطلبی ہوتا ہے، وہ کیچڑ کو بھی آگ لگاتا ہے“۔ اس کو کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی کو کتنی تکلیف ہو گی۔
ہم تعویذوں کے چکر میں اس لئے نہیں پڑتے کہ اس کا ایک سب سے بڑا reason یہ بھی ہے کہ پھر ہمیں لوگ کام نہیں کرنے دیں گے۔ بیچارے حیات صاحب کو تو قبر تک پہنچا دیا تھا۔ لوگ اپنے مطلب کے لئے کسی اور کو آرام کا موقع نہیں دیتے۔ خیر! ان کی بھی مجبوری ہوتی ہے۔ اگر کسی کا با رسوخ آدمی کے ساتھ تعلق ہے جو اس کا مسئلہ لے کے ان کو فون کر لے اور کہہ دے کہ آپ اس کی یہ condition check کر لیں، اگر یہ جائز ہے تو آپ اس کا مسئلہ حل کر دیں، بس اس کا اتنا کام ہے تو یہ سفارش ہے۔ صحیح اور جائز سفارش یہی ہے، یہ ٹھیک نہیں کہ آپ نا جائز معاملے کی سفارش کریں۔ آپ کا کام اتنا ہے کہ اس کیس کو آگے کر کے مطلوبہ شخص کو پہنچائیں، اس کے بعد وہ خود ہی merit پر دیکھے گا تو اگر وہ جائز ہو گا تو وہ اسے حل کر دے گا۔ لیکن سفارش کرنے والے کو اس بات کا خیال رہنا چاہیے کہ اگر یہ نا جائز ثابت ہو اور اگلا اس کو نہ کرے تو اس پر اس کو خوشی ہو۔ یعنی سفارش کرنے والا اگلے کو pressurize نہ کرے کہ ہر حال میں یہ کام کرنا ہے۔ اس کے پہنچانے سے اگر کسی کا بھلا ہوتا ہو تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ حدیث میں مذکور سفارش اسی قسم کی تھی اور یہ ابھی بھی جائز ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ مثلًا بہت سارے دفتروں میں رشوت چلتی ہے، اگر آپ رشوت سے بچنے کے لئے کسی سے سفارش کر دیں تو جائز تو ہو گا۔ اسی طرح اگر آپ کا حق بنتا ہے لیکن اگلا آپ سے رشوت مانگ رہا ہے، اب اگر آپ کا کسی کے ساتھ تعلق ہے تو اس تعلق والے سے کہہ دیں کہ میری سفارش کر دیں کیونکہ یہ مجھ سے رشوت مانگ رہے ہیں۔ اس طرح آپ کا bypass ہو گیا تو سبحان اللہ! آپ کا کام بھی ہو گیا اور آپ رشوت سے بھی بچ گئے۔
حاصل یہ ہے کہ یہ ایک اچھا channel ہے، اس کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ایک مسلمان کے ساتھ خیر خواہی اور اس کی help ہے اس لئے یہ کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے آداب یہ ہیں کہ نا جائز کام کی سفارش بالکل نہ کریں۔ اور اگر آپ کو پتہ نہیں ہے کہ یہ کام جائز ہے یا ناجائز تو ان کو بتا دیں کہ بھئی اگر یہ کام جائز ہو تو کر لیجئے گا۔ آپ اس پہ خواہ مخواہ pressure نہ ڈالیں کہ اس کو ہر صورت میں کریں۔ آج کل لوگ جس کو سفارش سمجھتے ہیں وہ یہی نا جائز امور کی سفارش ہے، کیونکہ جائز کام کے لئے تو کوئی کسی کے پاس نہیں جاتا البتہ نا جائز کام کے لئے جاتا ہے کیونکہ وہ عموماً آسانی سے نہیں ہوتا۔ اگر کوئی strong آدمی ہے اور وہ نا جائز کام نہیں کرتا تو وہ نا جائز کام کرنے کو مانتا ہی نہیں ہے، ایسی صورت میں لوگ سفارشی ڈھونڈتے ہیں کہ ہمارا یہ کام کر دو۔ اگر اس سے مجبور ہو کر وہ شخص یہ کام کر دے تو یہ سفارش نہیں ہے۔ اگر لوگوں نے اس کو سفارش سمجھا ہے تو غلط سمجھا ہے۔ اس میں نہ سفارش کرنے والوں کو سفارش کرنی چاہیے اور نہ سفارش ماننے والوں کو سفارش ماننی چاہیے۔ البتہ اگر جائز کام کا پتہ چل جائے تو اس کو کرنا بھی چاہیے اور ماننا بھی چاہیے۔ یہ چھوٹا سا عمل ہے اگر کوئی اس پر عمل کرتا ہے تو یہ واقعی اچھی بات ہے۔ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ