سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 519

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

آج پیر کا دن ہے پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات ہوتے ہیں ان کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔

سوال 1:

حضرت مجھے آگے ذکر دے دیں۔ پچھلا ذکر 15 منٹ مراقبہ قلب پر اور 3 تسبیحات اللہ اللہ قلب پہ۔ یہ میں نے کیا لیکن clearly نہیں ہوتا۔ بس کچھ دن ہی ہوا تھا۔ اور بھی کچھ کرنا ہے تو بتا دیں۔

جواب:

اصل میں یہ اتنی جلدی عموماً نہیں ہوتا، اس کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ بس آپ روزانہ وقت فارغ کر کے 15 منٹ کے لئے اس مراقبہ کے لئے بیٹھ جایا کریں اور اللہ پاک کی طرف متوجہ ہو جایا کریں کہ اللہ پاک فضل فرما دے اور یہ تصور کریں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ یعنی 15 منٹ کے لئے آنکھیں بند کر کے اور زبان بند کر کے، قبلہ رخ بیٹھ کے، اور کوئی خاص وقت مقرر کر کے۔ اور تین تسبیحات بھی کر لیا کریں، ان شاء اللہ العزیز یہ چل پڑے گا۔ ایک مہینہ اور کر کے پھر مجھے بتا دیں۔ ان شاء اللہ آگے بتا دیں گے۔ اگر آپ مزید کچھ کرنا چاہیں تو کلمہ طیبہ صبح سے لے کر دوپہر تک جتنا بھی پڑھ سکیں اور دوپہر کے بعد درود شریف جتنا بھی پڑھ سکیں اور مغرب کے بعد استغفار جتنا بھی کر سکیں۔

سوال 2:

السلام علیکم حضرت جی میں فلاں ہوں۔ اللہ پاک آپ سے راضی ہو۔ آپ کا فیض سارے عالم میں پھیلائے۔ حضرت جی ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مجھے پہلے بھی اپنے اندر کمیاں محسوس ہوتی تھیں، لیکن اب کبھی کبھی اس کا احساس بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ احساس کمتری یا مایوسی نہیں ہے، لیکن لگتا ہے۔ اعمال سب کر رہی ہوں الحمد للہ جیسے آپ فرما رہے ہیں۔ ہم سے سوال بھی اختیاری اعمال کا ہی ہو گا، کیفیات کا نہیں یا غیر اختیاری اعمال کا نہیں ہو گا۔ لیکن ایک بات تو آپ فرماتے ہیں کہ جب ہم اپنی نظر میں برے ہوتے ہیں، تب ہی اللہ کی نظر میں اچھے ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب مایوس ہونا نہیں ہے۔ حضرت جی مجھے یہ لگ رہا ہے کہ میری کوشش گناہ سے بچنے میں اور نیکی کرنے میں زیادہ ہو رہی ہے۔ محنت کرتی ہوں جتنا کر سکوں اور اپنے اندر اعمال میں لگ رہا ہے کہ ابھی جان نہیں ہے اور محنت کرنی ہے۔ پہلے بھی میں کوشش تو کرتی رہی ہوں آپ کی دعاؤں کی وجہ سے، لیکن اب لگتا ہے کہ کمی زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ یعنی ابھی بھی کمی ہے اور محنت کرنی پڑے گی۔ مایوسی نہیں ہے لیکن اپنی کمی کا احساس زیادہ ہو رہا ہے کہ ابھی بھی اللہ پاک کے سامنے میری سب چیزیں بہت کم ہیں۔ کیا یہ احساس بھی مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ کی وجہ سے ہو رہا ہے؟ کیونکہ پہلے اس طرح محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اچھا تو نہیں سمجھتی تھی اپنے آپ کو لیکن اب اندر سے زیادہ خالی خالی لگتا ہے۔ ابھی تو بہت ہی زیادہ کمی ہے۔

جواب:

ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خط میں لکھا کہ حضرت مجھے اپنے اوپر خطرہ ہے۔ حضرت نے فرمایا: یہی خطرہ معرفت کا قطرہ ہے۔ یعنی انسان کو جب اپنے اندر کمی محسوس ہوتی ہے تو کوشش کرے گا اور اللہ پاک سے مانگے گا۔ اللہ کے سامنے گڑگڑائے گا اور اپنی کمی کا احساس تواضع میں بدلے گا اور تواضع اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ احساسِ کمتری اور تواضع میں بہت بڑا فرق ہے۔ انسان دنیا میں اپنے آپ کو کسی دنیاوی چیز کے لحاظ سے کم سمجھتا ہے کسی اور سے، وہ احساس کمتری ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نظروں میں اپنے آپ کو کم سمجھنا ہے تو عین ضروری ہے۔ اسی کو تواضع کہتے ہیں۔ یعنی انسان اپنی کسی چیز کو اپنا نہ سمجھے بلکہ اللہ کا فضل سمجھے اور اس بات سے ڈرے کہ میں اگر اپنے آپ کو کسی سے اچھا سمجھوں تو عین ممکن ہے کہ یہ ختم ہو جائے۔ تواضع تو بہت بڑی بات ہے اور ممکن ہے مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ سے اس میں جان آ گئی ہو۔ البتہ دنیاوی چیزوں میں جو کمی کا احساس ہوتا ہے اس سے احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنی مقبولیت میں اور اپنے کمال میں اللہ کے سامنے اگر اپنے آپ کو عاجز سمجھتا ہے تو یہ تواضع ہے۔ اور اگر ایک انسان کسی دینی کام کو دنیا کے لئے استعمال کر رہا ہو، اس میں بھی جو کمی ہو گی، وہ بھی احساس کمتری ہو گا۔ مثلاً ایک شخص خلافت کو اصل سمجھ رہا ہے (آپ تو خیر عورت ہیں، خواتین کو تو اس کا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن مردوں کو ہوتا ہے) اور خلافت کے لئے ذہن بنا رہا ہے۔ اب جب تک اس کو نہیں مل رہی، تو احساس کمتری میں جا رہا ہے۔ کیونکہ فلاں کو تو خلافت ملی ہے اور مجھے نہیں ملی۔ یہ دنیا کا شوق ہے یہ دین نہیں ہے۔ چنانچہ اس میں بھی احساس کمتری ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر میں نماز میں اپنی کمزوری محسوس کر رہا ہوں کہ میری نماز اچھی نہیں ہے اور مجھے نماز اچھی پڑھنی چاہیے، حضور ﷺ کی طرح پڑھنی چاہیے۔ تو اس کے لئے مسلسل محنت کرے گا تبھی اس کی طرف جائے گا۔ جیسے سیر الی اللہ ہے، یعنی اللہ جل شانہ کی رضا کے کاموں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا۔ اگر چہ اللہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، لیکن محنت اسی کی کرے گا کہ میں اللہ کو پا لوں۔ جیسے "اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَانَّکَ تَرَاہُ" (البخاری، حدیث نمبر: 50) تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔ یہ چیز انسان کر نہیں سکتا لیکن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طریقے سے ہم حضور ﷺ کی طرح نماز تو کبھی بھی نہیں پڑھ سکیں گے، لیکن ہم کوشش کریں گے کہ آپ ﷺ ہی کی طرح نماز پڑھیں تو اس میں کمی کا احساس ہمیشہ ہو گا اور نتیجتاً انسان ترقی ہمیشہ کرے گا۔

سوال 3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت آپ نے مجھے علاجی ذکر تلقین کیا تھا، الحمد للہ چالیس دن پورے ہو چکے ہیں۔ اب اس کو جاری رکھنا ہے یا ساتھ کچھ اور بھی کرنا ہے؟

جواب:

معافی چاہتا ہوں آپ نے بتایا نہیں کہ میں نے آپ کو کون سا ذکر بتایا تھا؟ ہمیشہ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ جب بھی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ آپ نے مجھے فلاں دوائی دی تھی اور میں نے اتنے دن استعمال کی ہے اور اس کے یہ یہ اثرات ہیں۔ آپ تو ما شاء اللہ خود ڈاکٹر ہیں۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ آپ مجھے پورا لکھ دیں کہ آپ کو کون سا ذکر دیا تھا تا کہ اس حساب سے عرض کیا جا سکے۔

سوال 4:

السلام علیکم، حضرت مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ کے دوران یہ تصور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی شان صفات کی صورت میں ہر وقت تبدیل ہوتی ہے اور جیسے کہ آپ نے فرمایا کہ اس کو ذات کے ساتھ منسلک کرنا ہے۔ تو میں یہ تصور کرتا ہوں کہ جو اللہ کی صفات ہیں، صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات اور شان ہے جو اس کے لائق ہے۔ اس کا فیض لطیفۂ سر پہ آ رہا ہے، لطیفۂ سر پہ صرف اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے اور ہر وقت غشی سی آتی ہے۔

جواب:

اصل میں یہ بات آپ کی صحیح ہے کہ اللہ جل شانہ کی صفات اللہ پاک کی شان سے ظہور پذیر ہو رہی ہیں، تو اللہ کی شان ہر لمحہ بدلتی ہے۔ لہذا اللہ پاک کی صفات کا کوئی منتہیٰ نہیں ہے، وہ لا متناہی ہیں۔ ان صفات کا ہمارے اوپر جو اثر ہوتا ہے، یعنی اس عظیم شان کی وجہ سے، وہ انسان کو محسوس کرنا چاہیے۔ وہ پھر مجھے بتا دیجئے گا۔

سوال 5:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی میں نے 30 دن ذکر کر کیا ہے۔ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 مرتبہ اور "اَللہ" 500 مرتبہ۔

جواب:

ماشاء اللہ اب اس کے ساتھ 5 منٹ کے لئے یہ تصور کر لیا کریں کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ جیسے کہ زبان سے آپ اللہ اللہ کر رہے تھے 500 مرتبہ، اب زبان کو روک کر یہ تصور کرنا ہے کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔

سوال 6:

السلام علیکم حضرت جی یہ جو غزہ والی اور کشمیر والی situation ہے، اس پہ ہم جیسے لوگوں کی کیا سوچ ہونی چاہیے، مدد کی یا جہاد کی؟ باقی ساری امت کو کیا کرنا چاہیے ان موقعوں پر؟

جواب:

جو چیز انسان کر سکتا ہے اس کو چھوڑے نہیں اور جو نہیں کر سکتا اس کو سوچے نہیں۔ ہم جو کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کا Social boycott کریں اور ان کے culture کو نہ اپنائیں۔ ان کے طور طریقوں پہ نہ جائیں۔ یہ ہم لوگ اس کا مثبت طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اب اگر ہم ان کے طریقوں پہ چلتے جائیں اور پھر کہیں کہ یہ ہمارے دشمن ہیں تو کیسے دشمن ہیں؟ ایک تو ان کے طریقوں پہ نہ جائیں ان کا Social boycott کر لیں یا ان کی چیزیں ہم نہ خریدیں، بے شک ہمیں بظاہر اس میں نقصان بھی نظر آتا ہو۔ جیسے جہاد میں کیا تکلیف نہیں ہوتی؟ جہاد میں کیا نقصان نہیں ہوتا؟ لیکن برداشت کرنا پڑتا ہے۔ انسان کا جانی نقصان بھی ہوتا ہے، مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے اس میں اگر ہمیں نقصان بھی ہو، تب بھی ہمیں ان کی چیزیں نہیں لینی چاہئیں۔ اس ذریعے سے ہم ان کی معیشت کو control کر سکتے ہیں۔ اس سے ان کو جو زک پہنچے گی، تو وہ ہماری مخالفت سے باز آئیں گے۔

سوال 7:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی میں نے مراقبہ نور 30 دن پورا کیا، آپ نے رمضان میں جاری رکھنے کا فرمایا، میں نے کچھ ہی دن کیا ہو گا کہ ایسی بیماری لگی کہ میرا مراقبہ، ذکر و جماعت کی نمازیں، روزے سب کچھ رہ گیا۔ آج کوئی 34 دن ہو گئے ہیں اس بیماری کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں میں کام کرتا ہوں ادھر ایک sir بہت تنگ کرتا ہے، ایک دن سب کے سامنے میری بے عزتی کی، واپس آ کر میں نے دو رکعت نفل نماز پڑھ کے دعا مانگی کہ اللہ پاک مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ پھر ظہر کی نماز پڑھی اور عصر کو میں اٹھنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ اب تک ٹھیک نہیں ہو رہا۔ میں نے توبہ بھی کی کہ آئندہ اللہ کے بندوں کو کچھ نہیں کہوں گا۔ لیکن جیسے اللہ پاک کو ابھی تک منظور نہ ہو۔ اگر میں ٹھیک سوچ رہا ہوں تو رہنمائی فرمائیں، اگر ٹھیک نہیں ہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میرے اعمال بھی پورے نہیں ہو رہے جو مزید پریشانی کا سبب ہے۔ اللہ پاک ہمیں آپ سے فیض یاب فرما دے۔

جواب:

باقی چیزیں جو آپ کر رہے ہیں، ان میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن یہ جو آپ نے حرکت کی ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ آپ میں کچھ بزرگی کی بیماری آئی ہے اور بزرگی کی بیماری بڑی خطرناک ہے، اس لحاظ سے مسئلہ ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر اللہ پاک اپنی توفیقات چھین لے تو پھر انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ایک تو یہ ہے کہ اللہ پاک سے معافی مانگیں۔ اور دوسرا یہ ہے کہ اس افسر کے بارے میں تھوڑا سا مجھے تفصیل سے بتا دیں کہ کس طرح تنگ کرتا ہے؟ پھر میں عرض کروں گا کہ حق پر وہ ہے یا آپ ہیں۔ بہر حال بزرگی کی سوچ بہتر نہیں ہے، نقصان دہ ہے۔ اس سے توبہ کرنی چاہیے۔

سوال 8:

حضرت السلام علیکم

Reminder for the next ذکر.

I have been reciting Allah Allah 4000 times followed by

"یَا اللہ، یَا سُبحَان، یَا عَظِیم، یا رَحْمٰن، یَا رَحِیم، یَا وَھَاب، یَا وَدُوْد، یَا کَرِیمُ، یَا شَافِی"

100 times for the past one month. Kindly advise next

جواب:

Now add یَا سَلام to these and the rest will be the same ان شاء اللہ۔

اس کے ساتھ اب یا سلام بڑھا دیں باقی اس طرح ہی ہو گا ان شاء اللہ۔

سوال 9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،

Respected حضرت, I pray that you are well آمین! I have been continuing with my completed اصلاحی ذکر so far every night beyond 30 days without missing a day

200 times "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"

400 times "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"

600 times "حَق"

and 500 times "اَللہ"

Kindly inform me what ذکر I should do next?

جواب:

So you should add 5 minutes خفی ذکر. It means as if your heart is saying اللہ اللہ. Like your tongue is saying, you are not doing this ذکر by tongue but by heart. So for 5 minutes you should add this ذکر.

آپ پانچ منٹ کے لئے اس ذکر کر بڑھا دیں، جب یہ پورا ہو جائے تو پھر اس کے بعد 5 منٹ کے لئے یہ سوچیں کہ جس طرح آپ کی زبان اللہ اللہ کر رہی ہے، اسی طرح آپ کا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے۔

سوال 10:

السلام علیکم، میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے سات مہینے پہلے کہا تھا کہ میں ہر مہینے پابندی کے ساتھ اپنے معمولات آپ کو بھیجوں۔ میرا ذکر چل رہا ہے 200 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، 600 مرتبہ حق اور اس کے ساتھ 5 منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر تھا۔ چار مہینے پہلے آپ نے ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) کی جگہ صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبہ کا اضافہ فرما دیا تھا جو کہ لطیفہ روح پر ہے 15 منٹ۔ پچھلے مہینے آپ نے فرمایا کہ میرے اندر وہ تبدیلیاں نہیں ہوئیں جو کہ ہونی چاہئیں لہذا آپ نے یہ عمل جاری رکھنے کا بتایا تھا۔ لطائف والے مراقبے میں بہت زیادہ خیالات آتے ہیں۔ لیکن صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبہ میں نسبتاً کم ہیں۔ خیالات کا ہجوم رہتا ہے، کافی مشکل سے توجہ کا ارتکاز کرتا ہوں۔ ذکر میں زیادہ تر پابندی ہے، لیکن کافی دفعہ ایسا ہوا کہ مصروفیت کی وجہ سے time کم ملا تو اس صورت میں قلوب کا مراقبہ مختصر کرتا ہوں اور صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ پورا کرتا ہوں۔ لیکن کوشش کرتا ہوں کہ ناغہ بالکل نہ ہو۔ آخرت کی طرف توجہ بہت زیادہ ہے۔ ذکر وغیرہ کی طرف کوشش رہتی ہے، ہر وقت کرتا رہتا ہوں۔ دنیا کے کاموں سے بیزار رہتا ہوں، لیکن یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اتنے وسائل جمع ہو جائیں کہ بڑھاپا آسانی کے ساتھ گزرے اور اس بارے میں planning اور پریشانی رہتی ہے۔ شاید اللہ پر یقین کی کمی ہے۔ یہ بھی ڈر رہتا ہے کہ کوئی بیماری نہ آ جائے اور نماز وغیرہ چھوٹ نہ جائے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ میرے کاموں میں چاہے مکمل ہو یا نا مکمل اللہ کی مرضی شامل ہے۔ اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ اس کی مرضی میں راضی برضا رہوں۔ لیکن یہ سوچ پختہ نہیں ہو پاتی ہے اور یہ خیال آتا ہے کہ کاش میرے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ تہجد کے موقع پر اور سنتوں میں سستی ہوتی ہے، کبھی نماز اور ذکر میں کافی جذبہ آتا ہے اور کبھی بہت کم ہو جاتا ہے۔ دعا کرتا ہوں زندگی آسان ہو جائے تاکہ پوری توجہ سے ذکر وغیرہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے مصروف رہوں۔ گناہوں پر دھیان نہیں ہے۔

جواب:

تھوڑا سا مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ جیسا کہ ہے، اس پر غور کر لیں۔ پھر دیکھیں اس سے آپ کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ یعنی آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی اس کے ساتھ آنی چاہیے۔ صفاتِ ثبوتیہ کے مراقبہ سے پانچ منٹ پہلے یہ سوچیں کہ یہ ہے کیا؟ اور اس کے ساتھ کیا تبدیلیاں آنی چاہئیں۔ تو میرا خیال ہے کہ آپ کو بات سمجھ میں آ جائے گی جو میں کہنا چاہتا ہوں۔

سوال 11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ محترم حضرت الحمد للہ مندرجہ ذیل ذکر کو اور مراقبات کو ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 مرتبہ، "اَللہ" 100 مرتبہ۔ "حَق اَللہ" 500 مرتبہ، "ھُو" 500 مرتبہ۔ "اَللہ ھُو" 200 مرتبہ۔ حق اللہ کے ساتھ یہ تصور کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں۔ مراقبات: پہلا مراقبہ، تصور کیا کہ اللہ جل شانہ میرے ساتھ ہیں جیسے کہ اس کی شان ہے۔ دوسرا مراقبہ، میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طریقے اور شریعت پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تیسرا مراقبہ، اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کی امت کو تمام فتنوں سے بچائیں اور ہمارے سلسلہ کو قبول فرمائیں، کامیاب و کامران کریں، دل میں دعا کی، مقدار 10 منٹ۔ غیبت، جھوٹ اور بد نظری پر control۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور آپ کے فیض کی وجہ سے رمضان المبارک میں تقریباً مکمل بچا رہا الحمد للہ۔ اس کے بعد بھی مکمل بچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ غصے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے control رہا دو موقعوں کے علاوہ۔

جواب:

اللہ جل شانہ آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔ اب آپ 5 منٹ کے لئے روزانہ اس کے بعد سوچیں کہ اللہ پاک نے آپ کو کون کون سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور ان پر شکر کی کیفیت آپ کو پیدا کرنی چاہیے۔ گویا کہ شکر کے حالات کو اپنے سامنے لانا چاہیے کہ انسان شکر کرے۔ تو 5 منٹ کے لئے آپ شکر کا مراقبہ کریں گے۔

سوال 12:

السلام علیکم میری بیٹیوں کے مراقبہ کا مہینہ مکمل ہو گیا ہے جن کی report مندرجہ ذیل ہے۔

پہلی بیٹی: پہلے پانچ منٹ لطیفہ پر یہ توجہ کرنا کہ اس لطیفہ کو اللہ محبت سے دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ اللہ اللہ کر رہا ہے۔ اس کے بعد 10 منٹ مراقبہ احدیت کرنا ہے۔ الحمد للہ ناغہ نہیں ہوا۔ کیفیات، لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے مگر مراقبہ احدیت میں فیض کا اجرا نہیں ہو رہا۔ اس کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ جب فیض کا اجرا ہو گا تو اس کو کیا محسوس ہو گا؟ کوئی خواب، خیال، ذکر وغیرہ۔ اس کے علاوہ ماہانہ report کہ نمازیں، 100، 100 وظائف، منزلِ جدید اور قرآن با قاعدگی سے پڑھا اور ناغہ نہیں ہوا۔

دوسری بیٹی: مراقبہ کی تفصیلات، 10 منٹ قلب، 10 منٹ روح، 15 منٹ سر پر مراقبہ کرنا کہ اللہ محبت سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اور ہر لطیفہ میں اللہ اللہ کا ذکر ہوا، لیکن ایک دن ناغہ ہوا۔ الحمد للہ تین لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ لطیفۂ سر پہ سب سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد لطیفۂ روح، پھر لطیفۂ قلب۔ باقی ماہانہ report الحمد للہ نمازیں، قرآن پاک کی تلاوت، ذکر 100، 100 والا پورا مہینہ کیا اور ناغہ نہیں ہوا۔

اس دفعہ الحمد للہ رمضان المبارک میں ہمارے گھر میں اجتماعی تین لاکھ درود پاک پڑھا گیا۔ باقی آگے کے لئے حضرت کی رہنمائی در کار ہے۔ جزاکم اللہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

جواب:

ماشاء اللہ یہ بہت اچھی خبر ہے، اللہ پاک مزید توفیقات سے نوازے۔ مراقبہ احدیت کا ان کو سمجھا دیں کہ فیض کس کو کہتے ہیں؟ پھر فیض کا اجرا ان کو سمجھ میں آئے گا۔ اکثر لوگ فیض روشنی کو سمجھتے ہیں کہ روشنی آ رہی ہے۔ روشنی کا اس کے ساتھ تعلق نہیں ہے، وہ تو کشفی چیزیں ہیں۔ اصل فیض یہ ہے کہ انسان کو جس طرح بھی فائدہ پہنچتا ہے، وہ فیض ہے۔ جیسے فیاض اس شخص کو کہتے ہیں جس سے لوگوں کو فیض مل رہا ہو۔ چاہے وہ سخی ہو، چاہے استاد ہو، چاہے خدمت گار ہو۔ بہر حال اللہ جل شانہ کا فیض، انسان سوچے کہ وہ کیا ہو سکتا ہے؟ اور پھر وہ فیض آنے کا تصور کر لے۔ اور دوسری بات یہ جو دوسری بیٹی ہے تو وہ اس کا چوتھا لطیفہ یعنی لطیفۂ خفی شروع کرا دیں۔ باقی 10، 10 منٹ اور لطیفہ خفی 15 منٹ۔

سوال 13:

السلام علیکم حضرت جی میرا نام فلاں ہے۔ میں راولپنڈی سے ہوں۔ میرے پانچوں لطائف جن کی مقدار 5 منٹ تھی اور مراقبہ جس کی مقدار 15 منٹ تھی، اس کا ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ اور بد قسمتی سے چھ ناغے ہو گئے۔ اب مجھے مراقبہ اور لطائف محسوس نہیں ہوتے، بہت مشکل ہو گئے ہیں، مجھے نہیں سمجھ آ رہی ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ مراقبہ میں فیض کا تصور کرتی ہوں، کچھ خاص محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

آپ نے خود ہی اطلاع کر دی ہے کہ چھ ناغے ہوئے ہیں، ناغے کا کوئی اثر تو ہوتا ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ناغے سے انسان بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ بعض دفعہ انسان کو ایک نعمت مفت ملتی ہے جس کی قدر نہیں ہوتی تو پھر اس کو واپس لے لیا جاتا ہے کہ اب خود حاصل کر لو۔ اب محنت کرو۔ اب اس پر استغفار بھی کرو اور یہ مراقبہ جو آپ کو محسوس نہیں ہو رہا اس مراقبہ کو 5 منٹ کی جگہ پانچوں لطائف پر 10 منٹ کرو۔ تصور کرو کہ وہاں پر اللہ اللہ ہو رہا ہے۔ اور اگر آپ کو محسوس نہیں ہو رہا تو اس جگہ پہ انگوٹھا رکھ لیا کریں۔

سوال 14:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نمبر ایک:

تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور 15 منٹ مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ۔ اللہ کی صفات پر عقیدہ بہت پختہ ہو گیا ہے۔ اللہ کے شکر سے دل ہر وقت لبریز ہوتا ہے اور غربت کے با وجود دل میں کوئی شکوہ و شکایت پیدا نہیں ہوتی۔ اور اللہ پاک اپنے غیبی خزانوں سے ہماری امداد فرماتا ہے۔ مراقبہ کے دوران سخت گریہ طاری ہو جاتا ہے۔ مراقبات کے اثر کی وجہ سے ہر وقت زبان پہ اللہ اللہ کا ذکر جاری ہے۔

جواب:

اب آپ مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ کے بعد مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ کا ان کو بتا دیں۔ اور باقی لطائف پر 10 منٹ کا ذکر چلے گا۔ شیوناتِ ذاتیہ والا مراقبہ 15 منٹ کا ہی ہو گا۔

نمبر 2:

2500 مرتبہ اسمِ ذات کا زبانی ذکر۔

جواب:

ان کو 3000 کا بتا دیں۔

نمبر 3:

ان دونوں لطائف یعنی لطیفۂ قلب پر 10 منٹ اور روح پر 15 منٹ ذکر کرنے کے بجائے لطیفۂ قلب پر 15 منٹ اور روح پر 10 منٹ ذکر کیا، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ان کو اب 10، 10 منٹ ان دو لطائف پر اور 15 منٹ لطیفۂ سر والا بتا دیں۔

نمبر 4:

لطیفۂ قلب 10 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ان کو اب لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ کا بتا دیں۔

سوال 15:

السلام علیکم حضرت جی میں فلاں ہوں۔ حضرت جی 30 منٹ کا ذکر ہے۔ 10 منٹ قلب، 10 منٹ روح اور 10 منٹ قلب سے اوپر اللہ اللہ محسوس کرنے کا۔ تینوں جگہ پر اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے۔ تیسری جگہ پر زیادہ تر ذکر کے آخری دس منٹ میں دھیان ہٹ جانے سے یا پھر نیند کے غلبہ کی وجہ سے اللہ اللہ محسوس نہیں ہو پاتا، کوشش ہوتی ہے کہ ذکر پہلے کر لیا کروں لیکن رات کو دیر ہو جاتی ہے اور پھر آخری کچھ منٹ میں کبھی نیند بھی آ جاتی ہے۔

جواب:

ایک تو یہ ہے کہ Fresh time پہ کر لیا کریں اور لطیفۂ روح پر اب 15 منٹ کر لیا کریں۔ باقی ٹھیک ہے۔

سوال 16:

السلام علیکم حضرت جی میرے اندر احساسِ ذمہ داری کی بہت کمی ہے۔ اکثر اوقات ضروری کام بھی لا پروائی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ نیند کا تو بے حد رسیا ہوں۔ بعض اوقات تو جماعت میں بھی نیند کی وجہ سے چھوڑ دیا کرتا ہوں اور کبھی کبھی نیند کی وجہ سے ہی قضا ہو جاتی ہے۔ براہِ مہربانی اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اس کے بارے میں میں کیا رہنمائی کر سکتا ہوں، جس کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا ہو کہ ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾ (النساء: 103) نماز اپنے وقت کے اندر ہی فرض ہے۔ ﴿اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ﴾ (البقرة: 110) بار بار کہا گیا ہے۔ اگر آپ اللہ پاک کی بات نہیں سمجھ رہے تو میری بات کیا سمجھ آئے گی؟ آپ اس پر سوچیں کہ مجھے یہ بات کس نے بتائی ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا ہے اور آپ ﷺ نے عملاً اس کو کر کے دکھایا ہے اور اس پر زور دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات کافی ہونی چاہیے۔ اور نیند تو سب کو پیاری ہوتی ہے لیکن اگر انسان کو خطرہ ہو کہ کسی وقت کوئی بم مجھ پر آ سکتا ہے اور میں تباہ ہو سکتا ہوں تو اس وقت اس کو نیند آئے گی؟ ظاہر ہے اس وقت نیند نہیں آئے گی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کی ایک نماز رہ گئی تو وہ ایسا ہے جیسے اس کا سب کچھ تباہ ہو گیا۔ تو اس بات کو آپ ذہن میں رکھیں کہ نیند کی وجہ سے اگر آپ کا سب کچھ تباہ ہوتا ہے تو ایسی نیند کا آپ کیا کریں گے؟ چنانچہ یہ اختیاری چیزیں ہیں، غیر اختیاری نہیں ہیں۔ اختیاری چیزوں میں اختیار کو استعمال کریں، عقل کو استعمال کریں اور اس کی فکر کریں۔

سوال 17:

"لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 100 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 100 مرتبہ، "حَق" 100 مرتبہ اور "اَللہ" 100 مرتبہ۔

جواب:

اب "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 200 مرتبہ، "حَق" 200 مرتبہ اور "اَللہ" 100 مرتبہ۔ ایک مہینے کے لئے۔

سوال 18:

السلام علیکم حضرت کچھ قرآنی آیات جن کو رقیہ کہتے ہیں۔ Arab countries میں بھی کافی سنی جاتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر آپ کے اوپر جنات کا اثر ہو یا جادو کا یا نظرِ بد کا تو اگر آپ اس کو مسلسل سنتے رہیں، دو، تین دن تو اس سے آپ کی طبیعت خراب ہوتی ہے یعنی کہ اگر آپ کے اوپر کچھ اثر ہے تو آپ کو الٹیاں لگیں گی، پھر وہ آہستہ آہستہ آپ سے ختم ہو جائے گا۔ مختلف قرآنی آیتیں ہیں جو ڈیڑھ گھنٹے کی ہیں۔ اس کے آگے وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ cancer اور دوسری بیماریاں، یہ بھی جنات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

جواب:

منزل جدید میں بھی مختلف قرآنی آیتیں ہیں۔ مجھے ان چیزوں میں نہیں جانا کہ کون سی چیز کس وجہ سے ہوتی ہے؟ البتہ اگر اللہ پاک اس میں شفا رکھ دے اور شفا اس سے ہو جائے تو ہمیں اس سے غرض ہے۔ باقی وہ ایک پوری field ہے۔ ڈاکٹر حضرات اپنی بات کرتے ہیں۔ حکیم حضرات دوسری بات کرتے ہیں۔ یہ تو اجتہادی باتیں ہیں۔ اجتہادی باتوں میں اختلاف بھی ہوا کرتے ہیں۔ اس میں ہم کوئی part ادا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ نہ میں ڈاکٹر ہوں، نہ حکیم ہوں، نہ مفتی ہوں۔ ایسی صورت میں اس مسئلے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اس میں جس کا جو opinion ہے وہ اس کا ذمہ دار ہے۔ باقی اگر وہ خلوص کے ساتھ دے رہا ہے تو وہ اس کی اپنی بات ہے، ہم تو یہ جانتے ہیں کہ منزل اگر کوئی با قاعدگی کے ساتھ پڑھے تو اس کو ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔

سوال 19:

السلام علیکم حضرت شاہ صاحب اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ ہفتے کے دن میں فلاں جگہ اپنے سسرال میں تھا، جہاں آپ کی برکت سے صبح فجر کے بعد ذکر کی سعادت حاصل ہوئی۔ جس میں ذکر نہایت بشاشت اور دھیان سے کیا۔ لیکن آج اتوار کو میں جب اپنے گھر راولپنڈی میں آیا تو فجر کے بعد ذکر کرنے کے لئے بہت کوشش کرنی پڑ رہی تھی، بار بار سو جاتا اور کسی قسم کا دھیان نہیں تھا۔ ذکر میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

آپ اپنے گھر کی قریبی مسجد میں جا کر ذکر کر لیا کریں۔ اگر آپ کے گھر پر کوئی اثر ہے تو اس کا تدارک ہو جائے گا اور فرق بھی محسوس ہو جائے گا، پھر بتا دیجئے گا۔

سوال 20:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی معذرت۔ علاجی ذکر یہ تھا 300 بار تیسرا کلمہ اور 200 بار "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" ماشاء اللہ اب صحیح ہو گیا ہے۔

جواب:

اب آپ 100 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 100 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، 100 مرتبہ "حَق" اور 100 مرتبہ "اَللہ" یہ ذکرِ جہری ہے۔ ایک مہینے کے لئے کرنا ہے۔ اور تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار پورا پورا، 100، 100 مرتبہ روزانہ عمر بھر کے لئے کرنا ہے۔ علاجی ذکر آپ کو مہینہ بھر کرنا ہے۔

سوال 21:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ یہ جو علاجی ذکر ہوتا ہے، اس کا ثواب بھی ہوتا ہے؟

جواب:

اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہوں گا البتہ میں آپ کو مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ سناتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا ہے مکتوب نمبر 57، دفتر دوم میں کہ عموماً عام ذکر سے درود شریف زیادہ افضل ہے۔ لیکن مشائخ جو ذکر دیتے ہیں وہ درود شریف سے بھی زیادہ افضل ہے۔ پہلے میرا بھی یہ خیال تھا کہ ہم اس کو ثواب کی نیت سے نہ کریں لیکن اصلاح فرضِ عین ہے، تو فرض کا ثواب ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ تو جو اس کا ذریعہ ہو گا اس کا بھی ثواب ہو گا۔ جیسے ضرب و جہر جس میں ہوتا ہے، چونکہ یہ ایک اضافی چیز ہے، اس میں ثواب کی نیت نہ کرے۔ ذکر میں ثواب ملتا ہے جیسے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ آپ جیسے بھی کہیں اس کا ثواب ہو گا۔ اور نیت اصلاح کی ہے لہذا اس کا ثواب اور بھی بڑھ جائے گا۔ اور جو اس میں ضرب ہے اس کا ثواب نہیں ہے بلکہ وہ ایک علاج ہے اور جو اس میں جہر ہے اس میں بھی ثواب نہیں ہے بلکہ وہ ایک علاج ہے۔ باقی ذکر بذاتِ خود اپنے طور پر اس میں ہوتا ہے۔ مجھے بعض حضرات نے یہ بتایا تھا لیکن بہر حال مجھے شرح صدر نہیں ہوتا تھا۔ جب مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب شریف میں پڑھا تو مجھے پھر اس پہ شرح صدر بھی ہو گیا۔

سوال 22:

حضرت، شیخ سے جو تعلق ہوتا ہے اس میں بے تکلفی ہونی چاہیے یا نہیں؟ بعض اوقات دل میں خوف سا ہوتا ہے کہ آدمی صحیح بات کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے کہ شیخ کی ناراضگی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بہت زیادہ خوف بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

میں اس بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ ایک حدیث شریف سے میں اس کی طرف اشارہ کر سکتا ہوں۔ "اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَ الرَّجَآء" ایمان خوف اور امید کے درمیان میں ہے۔ ایسی بے تکلفی جس سے ناراضگی کا اندیشہ ہو وہ نہ کرے۔ اور وہ تکلف جس سے انسان محروم ہو جائے وہ بھی نہ کرے۔ درمیان درمیان میں رہے۔ کیونکہ واقعی بعض دفعہ ایسی بے تکلفی ہو جاتی ہے جس میں انسان کی زبان سے ایسے کلمات نکل جاتے ہیں جو ذرا مناسب نہیں ہوتے۔ بے شک اس کا اظہار نہ بھی ہو لیکن اس سے مسئلہ پڑ سکتا ہے۔ لیکن اتنا تکلف بھی نہیں کرنا چاہیے کہ انسان محروم ہو جائے۔ آپ ﷺ کے وقت میں جب یہ آیت نازل ہوئی یہ ﴿لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾ (الحجرات: 2) تو ایک صحابی تھے جن کی آواز طبعی طور پر بلند تھی، وہ گھر میں بیٹھ گئے۔ اور آپ ﷺ کی مجلس میں آنا چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے کسی سے پوچھا: وہ کیوں نہیں آتے؟ عرض کی ان کی آواز بلند ہے اس وجہ سے نہیں آتے۔ فرمایا: ان کے لئے نہیں ہے کیونکہ طبعی بات ہے۔

قصداً انسان جو آواز بلند کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص بات کر رہا ہے اور آپ درمیان میں آ جائیں اور اس بات کو توڑ دیں تو ایسا نہیں کرنا کیونکہ مرشد کے سامنے ایسی بات نہیں کرنی۔ (یہ سوال چونکہ مرشد سے کیا گیا ہے اس لئے میں کہتا ہوں) ورنہ اس وقت تو آپ ﷺ کی بات تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ سراپا زبان تھے اور صحابہ کرام سراپا کان تھے۔ وہ ہر وقت اس انتظار میں ہوتے کہ کوئی بات آپ ﷺ کی زبان اطہر سے نکلے اور ہم لوگ اس کو miss نہ کریں۔ یہاں تک کہ با قاعدہ آپس میں باریاں لگتی تھیں چونکہ کام وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ جیسے دو بھائی ہوتے تو ایک کو کہہ دیا کہ آپ فلاں وقت جائیں، میں فلاں وقت جاؤں گا اور پھر آپس میں share کرتے تھے۔ اور صحابہ کرام جب آپس میں ملتے تھے تو با قاعدہ ایک دوسرے سے پوچھتے کہ آپ ﷺ نے کوئی ایسی نئی بات تو نہیں فرمائی؟ گویا کہ اس بات کا احساس ان کو ہوتا تھا۔

عموماً انسان میں ایک جذبہ خود نمائی کا ہوتا ہے۔ وہ جذبہ انسان کو بولنے پہ مجبور کرتا ہے۔ شیخ کے سامنے سب سے پہلے یہ جذبہ kill ہوتا ہے۔ وہ جتنا جلدی kill ہو جائے اتنی جلدی کامیابی ہوتی ہے۔ یعنی انسان کہتا ہے: میں اپنی بات کو کیا سمجھوں؟ مجھے تو اپنے شیخ سے سیکھنا ہے۔ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ جو استاذ تھے سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے، لیکن بعد میں سید احمد شہید ان کے شیخ بن گئے تو پھر کیسا کر دکھایا؟ اسی طریقے سے سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ، خانقاہ سراجیہ جن کے نام سے ہے۔ حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے والد عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ اس وقت یہ حضرت سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ تھے۔ لیکن جس وقت عثمان دامانی رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوئے، اس وقت حضرت سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کی سترہ سال عمر تھی اور یہ والد صاحب کی جگہ پر بیٹھ گئے۔ تو با وجود استاذ ہونے کے، با قاعدہ آ کر انہوں نے سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ سے تجدیدِ بیعت کی اور ایسے با ادب ان کے سامنے بیٹھے ہوتے تھے کہ ذرا بھر بھی بے ادبی نہ ہو، کیونکہ اس وقت وہ شیخ تھے۔ حالانکہ ان سے زیادہ بے تکلفی کس کے ساتھ ہو سکتی تھی؟ استاد رہ چکے تھے۔ خود حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے اور پھر بعد میں مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خلیفہ تھے، ان کے ہاتھ پہ بیعت ہو گئے۔ حالانکہ مولانا ابرار الحق صاحب شاہ عبد العلی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بھی جاتے تھے، با قاعدہ اس وقت حضرت کے نوجوان خلفاء میں تھے ۔ اور ان کے ساتھ لٹھ چلانے والا کھیل بھی کھیلتے تھے۔ اور با قاعدہ آپس میں مقابلے ہوتے تھے۔ لیکن حضرت شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد ان سے تجدیدِ بیعت کی، اور بعد میں بالکل وہی شیخ والا معاملہ ہو گیا۔ اصل میں شیخ دروازہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلتا ہے۔ اللہ جل شانہ جو دینا چاہتا ہے اس شیخ کے ذریعے سے دیتا ہے۔ جب مجھے پتا چل گیا کہ فلاں میرا ذریعہ ہے، اس سے اگر مجھے کوئی نعمت مل رہی ہے تو میں اس کو کیسے چھوڑوں؟ مجھے تو اس سے لینا ہے کیونکہ دینا تو اللہ تعالیٰ نے ہے۔ جیسے یہ کھڑکی ہے، میں اس کھڑکی کے سامنے با ادب کھڑا ہوں، تو کیا میں کھڑکی کے لئے کھڑا ہوں؟ نہیں بلکہ کھڑکی کے پیچھے سے جو دینے والا ہے اس کے لئے کھڑا ہوں۔ اب جیسے ہی کھڑکی کھلتی ہے تو آپ غفلت کے لحاظ سے اگر بیٹھے ہوں اور وہ آپ کو اس حالت میں دیکھیں تو کیا اثر ہو گا؟ اور اگر آپ کو با ادب کھڑے ہوئے دیکھیں تو اس کا اثر کیا ہو گا؟ بالکل یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ساتھ ہے کہ اللہ جل شانہ جب دیکھتے ہیں کہ شیخ کی طرف متوجہ ہے، با ادب ہے اور اس سے لینا چاہتا ہے تو اللہ پاک پھر اس کو دیتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اسی کے لحاظ سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ نہ تو ایسا تکلف کیا جائے جس سے محرومی ہو، اور نہ اتنی بے تکلفی ہو جس کی وجہ سے انسان کو نقصان مل سکتا ہو۔ یعنی دونوں طرح نقصان سے بچ جائے۔

یہ بات بہت دیر کے بعد کسی پہ کھلتی ہے۔ اور بعض دفعہ آدمی افسوس کرتا ہے کہ مجھ پہ پہلے کھلتی تو میں کچھ زیادہ حاصل کر لیتا۔ لیکن تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔ تربیت میں انسان پہلے کامل نہیں ہوتا، کیونکہ پہلے عام انسان جیسا ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس میں کمال، معرفت اور سمجھ بھی آتی ہے۔ اور اس کے ساتھ پھر اللہ پاک کی مدد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی بعض مثالیں ایسی ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ ذہانت ان حضرات کی کتنی تھی۔ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ تو ذہانت کے پہاڑ تھے اور سید صاحب ان پڑھ جیسے تھے۔ کیونکہ سید صاحب نے کچھ عرصہ کچھ کتابیں پڑھی ہیں، لیکن بعد میں ان کا وہ حال آ گیا کہ ان کو کتاب کے حروف نظر نہیں آتے تھے۔ باقی سب چیزیں نظر آتی تھیں۔ پھر حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو کتابیں چھڑا دیں کہ آپ سے اللہ تعالیٰ اور کام لینے والے ہیں۔ اس کے بعد کتابی علم اس کے پاس نہیں تھا اور دوسری طرف شاہ صاحب کے پاس کتابی علم بہت زیادہ تھا۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے حضرات میں سے تھے اور علم ان حضرات کے پاس بہت تھا۔

اللہ پاک غنی ہیں۔ یعنی اللہ جل شانہ مختلف ادوار میں، مختلف حالات میں، مختلف لوگوں سے کام لیتا ہے۔ کبھی علم کسی کو دیتا ہے تو اس کے ذریعے سے کام لیتا ہے، کبھی اللہ پاک مجاہدے کے ذریعے سے کام لیتا ہے، کبھی کسی اور کمال کے لحاظ سے کام لیتا ہے۔ یہ سب اللہ پاک کی تقسیم ہوتی ہے۔ جیسے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا ایک انداز تھا اور حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا تھا اور آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب کا اپنا تھا۔ حالانکہ دونوں حضرت کے خلفاء تھے، پھر بھی ان کا اپنا اپنا نظام تھا۔ پھر حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا style تھا، ان پہ عقلیت کا غلبہ زیادہ تھا۔ اور سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مجاہدے کی طرف زیادہ سلسلہ تھا، کتابی علم زیادہ نہیں تھا۔ اسی طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اللہ پاک نے کام لیا۔ یہ اللہ پاک کا ایک نظام ہے۔ اور جیسے میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ نماز کے لئے صف میں لوگ کھڑے ہوتے ہیں، تو ان کو کہا جاتا ہے کہ سیدھے ہو جاؤ۔ پہلے وقتوں میں لوگوں کی صفیں سیدھی کرانے کے لئے با قاعدہ لوگ ہوتے تھے، ان کو کہا جاتا کہ اپنے مونڈھے ذرا relax رکھو تاکہ جو آگے پیچھے کریں، تو ان کی مزاحمت نہ کرو۔ اسی طریقے سے ہم جب اللہ پاک کے سامنے ہیں اور اللہ تعالیٰ جن سے جو کام لینا چاہتے ہیں، تو انسان دل سے اس پر راضی ہو کہ بس یہ منجانب اللہ ہے۔ بس ٹھیک ہے، درمیان میں کوئی resistance نہیں آنی چاہیے کہ ایسا کیوں ہے اور ایسا کیوں نہیں ہے؟ بس جب اللہ پاک کا کام ہے تو اللہ پاک کی مرضی۔ شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ جیلانی سادات میں سے تھے، خود فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرما ہیں، میں ان کے سامنے سے گزر کے نقشبندی حضرات کے خیمے میں چلا گیا۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔ اللہ کے لئے ہے، اللہ کے لئے ہے۔ یعنی جب اللہ پاک نے آپ کے دل میں ڈال دیا اور آپ کو نقشبندی سلسلہ دلوانا چاہتے ہیں تو اگر میرے پاس نہیں آئے تو کوئی بات نہیں۔ یعنی پہلے سے ان کو ایک قسم کا Green signal دے دیا۔ واقعی جتنے بھی اہل اللہ ہوتے ہیں، ان میں یہ چیز نہیں ہوتی کہ اس کے ساتھ کیوں ہے اور اس کے ساتھ کیوں نہیں ہے! اللہ پاک ان کا ادب سکھاتے ہیں۔

جیسے نوح علیہ السلام کا معاملہ ہے کہ جیسے ہی اللہ پاک نے فرما دیا تو فوراً واپس ہو گئے۔ تو جتنے بھی اہل اللہ ہیں، وہ اس مسئلے میں کافی relaxed ہوتے ہیں۔ تو اگر اللہ پاک آپ کو کسی بھی چیز سے دلوا رہے ہیں، جیسے مجھے دیوار سے دلوا رہے ہیں تو میں دیوار کا بھی خیال رکھوں گا۔ یعنی وہ میرے لئے ایک ذریعہ بن گیا۔ جیسے مجھے کسی کتاب سے فائدہ ہو اور اللہ پاک کی یاد مجھے اس سے نصیب ہو تو میں اس کی قدر کروں گا۔ میں اکثر لوگوں سے کہا کرتا ہوں کہ علماء کرام کا ایک تو عمل ہے، وہ اللہ کے ساتھ معاملہ ہے۔ لیکن ان کا علم اللہ کی طرف سے آیا ہے ان کے پاس، اب اگر وہی علم کتاب میں ہے تو آپ اس کتاب کی قدر کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ حالانکہ کتاب کوئی عمل بھی نہیں کرتی۔ لیکن آپ اس کی قدر کرتے ہیں کیونکہ اس میں اللہ کی طرف سے بات ہے۔ یہی بات علماء کے ساتھ کیوں نہیں attach کرتے؟ کہ مجھے علماء سے اللہ کی بات مل رہی ہے۔ میں اللہ کے لئے اس کی قدر کروں گا۔ اس کے ذاتی عمل کا میں ذمہ دار نہیں ہوں، نہ مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہاں جو میں اس سے استفادہ کر سکتا ہوں وہ میرا اپنا فائدہ ہے، اگر کسی کا ذہن میں یہ بات آ جائے تو میرے خیال میں اس کے لئے رکاوٹیں ختم ہو جائیں، جو مختلف علماء سے نہیں لے سکتا پھر وہ ہر ایک سے لے گا۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے 4000 کے لگ بھگ اساتذہ تھے، جو recorded ہیں۔ ایک دفعہ حضرت اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اچانک کھڑے ہو گئے۔ ساتھیوں نے کہا: حضرت کیا وجہ ہو گئی آپ کیوں کھڑے ہو گئے؟ فرمایا: میرے استاذ آ رہے ہیں۔ اب لوگ دور دور تک دیکھ رہے ہیں حضرت کے استاذ، سمجھ میں نہیں آتی کہ استاذ کدھر ہے؟ پھر دیکھا ایک مسلی آ رہا تھا جو کتوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا: حضرت آپ کا یہ استاذ کیسے ہوا؟ فرمایا: مجھے ایک مسئلے میں ضرورت پڑ گئی تھی کہ کتا کب بالغ ہوتا ہے تو کوئی مجھے نہیں بتا سکا۔ میں نے ان سے پوچھا۔ اس نے کہا: جب پیر اٹھا کے پیشاب کرے۔ تو اس وقت بالغ ہو جاتا ہے۔ تو میرے استاذ ہو گئے۔ یعنی علم ہی کی وجہ سے اس کی قدر کی اور اللہ پاک نے علم سے خوب نوازا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فرمایا ہے کہ اگر میں کسی سے ایک لفظ بھی سیکھوں تو میں اس کا عمر بھر کے لئے غلام ہوں۔ بس پھر علم کے دروازے ہو گئے۔ اگر اللہ نے کسی کو دیا ہے اور میں اپنے نفس کو شامل نہ کروں کیونکہ اکثر resistance نفس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مثلاً فلاں عالم میری پارٹی کا نہیں، فلاں عالم اچھا عمل نہیں کرتا، فلاں عالم یہ نہیں۔ یہ سب میرے نفس کی بات ہے۔ جس چیز کا تم سے پوچھا نہیں جائے گا، اس کے بارے میں تم کیا فیصلہ کر سکتے ہو؟ بلکہ بعض دفعہ ایک شخص کا ظاہری عمل خراب ہو لیکن اندر وہ توبہ کرتا رہتا ہے اور توبہ کے ذریعے سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ اب آپ کے سامنے تو گناہ گار ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے نہیں ہے۔ آپ کو کیا پتا اس کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ چنانچہ ہمیں اگر یہ بات سمجھ میں آ رہی ہو تو پھر ان شاء اللہ رکاوٹ نہیں ہو گی۔

سوال 23:

حضرت اللہ والوں کی قبر پہ کس نیت سے جانا چاہیے؟

جواب:

ایک نیت تو بہت اہم ہے، اس کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان آخرت کی فکر کو حاصل کرنے کے لئے قبرستان جائے۔ دوسری نیت یہ ہو گی کہ یہ ہمارے محسنین ہیں، ان کے ذریعے سے ہم تک دین پہنچا ہے۔ جا کر ان کے لئے ایصالِ ثواب کر لو۔ ایصالِ ثواب کہیں سے بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن ایسے حضرات کا طبعی طور پر بھی کچھ تعلق ہوتا ہے۔ ان کی قبر کے پاس بیٹھ کر آپ قرآن پڑھیں تو یہ ایک تعلق کی بنیاد ہے۔ اس پر وہ خوش ہوتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ انسان وہاں جائے تو سمجھے کہ چونکہ یہ اللہ کے ولی ہیں اور اللہ کے ولیوں پر رحمتیں برستی ہیں۔ جیسے ان کے گھروں پہ برستی ہیں تو ان کی قبروں پہ بھی برستی ہیں۔ میں گیا اور میں ان کا مخالف نہیں ہوں اور وہاں کھڑا ہو گیا تو وہ رحمت مجھ پر بھی برسے گی۔ جس سے مجھے فائدہ ہو گیا۔ یہ تین نیتیں ایسی ہیں، جن میں کوئی مفتی بھی آپ کو نہیں روکے گا۔ اس سے آگے کچھ اور چیزیں بھی آتی ہیں، وہ ہر ایک کے لئے نہیں ہیں۔ وہ اس صورت میں ہیں جب کوئی صاحبِ نسبت ہو۔ ان کے لئے با قاعدہ قبور سے استفادہ ممکن ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ فرما رہے تھے کہ شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دو طالب علم اور میں بھی تھا۔ ایک قبر پہ حاضر ہوئے اور وہاں پر بیٹھ کر مراقبہ کرنے لگے۔ شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ بڑے صاحبِ کشف بزرگ تھے دیوبند کے مہتممین حضرات میں سے تھے۔ دونوں طلبہ نے بھی مراقبہ شروع کر دیا۔ فرمایا: میں نے جا کر پیچھے سے ان کو مارا کہ آگے کی آنکھ تو تمہاری بند ہے، یہ والی آنکھ کیوں بند کر لی؟ یعنی تم صاحبِ نسبت نہیں ہو تو خواہ مخواہ دکھانے کے لئے کیوں ایسا کر رہے ہو؟ کہ میں بھی بزرگ ہوں مجھے بھی مراقبہ ہو۔ حضرت نے خود فرمایا بھی ہے کہ صاحبِ نسبت کو قبور سے جو فیض ہوتا ہے وہ ان کی نسبت کی قوت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مثلاً میں اگر نقشبندی نسبت کا ہوں تو میں کسی نقشبندی بزرگ کے مزار پہ جاؤں گا اور کھڑا ہوں گا اور نیت بھی میری ہو کہ میری نسبت کو قوت حاصل ہو تو ان کی نسبت کی برکت سے ہو گی۔ لیکن یہ صرف صاحبِ نسبت کے لئے ہے۔ ہر ایک کے لئے نہیں ہے، کیونکہ صاحبِ نسبت کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر کسی تار میں گزارنے کی صلاحیت ہو، تو گزرے گی۔ اگر صلاحیت نہیں ہو گی تو آپ اس کو بے شک connect کر لیں تو کیا فائدہ؟ اس سے بجلی نہیں گزرے گی۔ اسی طریقے سے جو صاحبِ نسبت ہوتا ہے وہ فیض کو حاصل کر سکتا ہے۔ اس سے آگے بھی کچھ stages ہیں لیکن بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال 24:

بعض بزرگوں کی قبور پر جب دعا کی جاتی ہے، خاص کر اپنے لئے ہو۔ اس میں اکثر میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ وہاں پر بہت زیادہ دعا میں دل لگتا ہے، خصوصاً اپنے لئے بہت دعائیں نکلتی ہیں، اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟

جواب:

اصل میں جب تک انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اس وقت تک وہ معاملہ کمزور ہوتا ہے۔ جب انسان کسی بزرگ کے مزار پہ جاتا ہے تو کم از کم اس سے تو اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے۔ اسی سوچ کی برکت سے اس کو فائدہ ہونے لگتا ہے۔ گویا کہ انسان کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ میں کم ہوں اور مجھے ملنا چاہیے، لہذا اس کی برکت سے اس کی دعا میں جان آ جاتی ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ باقی اس بزرگ کی اپنی نسبت کی برکت بھی ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن جو وجہ صاف طور پہ عقل میں بھی آ سکتی ہے وہ یہی ہے جو میں نے عرض کی۔ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تو یہ کرامت ہے بعد از مرگ کہ آدمی ان کے مزار پر جب حاضر ہوتا ہے تو نمازی بن جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے زندگی میں یہ بات تھی کہ ان کے ساتھ رہ کر کوئی بے نمازی نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ ان کا خاص فیض ہے۔

حلیمی صاحب پہلے بڑے آزاد خیال تھے۔ یہ محبوبین ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ اس میں انسان خود کچھ نہیں کر سکتا۔ حضرت بہت آزاد خیال تھے نماز بھی نہیں پڑھتے تھے، افسر تھے۔ بالا کوٹ میں duty لگ گئی۔ وہاں کسی نے ان سے کہا کہ شاہ صاحب کی یہ کرامت ہے کہ جو ان کے مزار پہ جاتا ہے وہ نمازی ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں: مجھے پڑھوا دیں تو میں پھر مانوں۔ خیر ویسے ہی زبان سے بات نکل گئی۔ کہتے ہیں: آدھی رات کا وقت تھا، مجھے کچھ پتا نہیں کہ میں کیسے اٹھا، نہایا، صاف کپڑے بدلے، نماز پڑھی اور پھر شاہ صاحب کی قبر پر پہنچ کے وہاں رو رہا تھا۔ راتوں رات یہ سب ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت کی پوری عمر فرض نماز کیا تہجد بھی قضا نہیں ہوئی۔ اللہ پاک جس کو جو نعمت نصیب فرما دے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں میں نے پڑھا کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جب فوت ہوئے تو کسی نے ان کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ حضرت آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: بھئی مجھے تو اللہ پاک نے فوت ہونے کے بعد بھی ایک خلافت دے دی۔ کہتے ہیں لوگ حیران ہوئے کہ موت کے بعد کون سی خلافت ہوتی ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ اصل میں بعض ارواح سے اللہ پاک کام لیتے ہیں، لوگوں کی تربیت کے لحاظ سے۔ تو یہ اس قسم کی خلافت ہے جو ہر ایک کو نہیں ملتی۔ شاید حضرت کا اس طرف اشارہ تھا۔ تو اللہ پاک کے کارخانوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ان میں کیا کیا ہے؟ جتنا آپ کے اوپر کھل جائے بس وہی ہے۔

سوال 25:

قبر پر دعا مانگتے وقت الفاظ کیا ہونے چاہئیں؟

جواب:

چونکہ ہر چیز کے آداب ہوتے ہیں تو ادب کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ تو آپ نے مانگنا نہیں ہے، مانگنا اللہ سے ہے ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ (الفاتحة: 5) کے خلاف نہ ہو جائے۔ البتہ اس وسیلے کے لحاظ سے آپ مانگ سکتے ہیں کہ یا اللہ تیرا ولی ہے، تو نے اس پہ کرم کیا ہے اور تو مجھ پہ بھی کرم کر سکتا ہے۔ تیرا فضل ہی ہو گا تو مجھ پر بھی فضل فرما دے۔ میرے خیال میں اس وسیلے کے کوئی بھی خلاف نہیں ہو گا۔ اللہ پاک ہی سب کچھ کرتے ہیں۔ تو اگر ایک انسان اس طرح مانگے تو اچھی بات بات ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے روضہ اقدس پہ ایک بدو آئے اور کھڑے ہو کر کہا: یا اللہ یہ تیرا نبی ہے، میں تیرا غلام ہوں بندہ ہوں۔ شیطان میرا دشمن ہے اور تیرا بھی ہے۔ اگر میں مارا گیا یعنی مجھے تو نے نہیں بخشا تو شیطان خوش ہو جائے گا جو تیرا دشمن ہے، اور آپ ﷺ خفا ہو جائیں گے۔ کیونکہ میں ان کا امتی ہوں۔ اگر تو مجھے بخش دے تو تیرا نبی خوش ہو جائے گا اور شیطان خفا ہو جائے گا۔ تو مجھے بخش دے۔ پیچھے سے ایک اور صحابی بھی موجود تھے انہوں نے کیا کہ میں بھی یہی کہتا ہوں۔ یہ وسیلہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

ایک دفعہ ایک صاحب خانہ کعبہ کے سامنے دعا کر رہے تھے کہ یا اللہ اتنے اچھے اچھے لوگ آئے ہوئے ہیں، بڑے اچھے اچھے سوال کر رہے ہیں، مجھے تو سوال کرنا بھی نہیں آتا، یہ جو مانگ رہے ہیں مجھے بھی دے دے۔ ایک عالم ساتھ کھڑے تھے تو کہتے ہیں: اچھا تجھے دعا کرنا نہیں آتا! اس سے بہتر دعا اور کون سی ہو گی؟ سب کی دعائیں تو نے لے لیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ سب عاجزی کے ذریعے نصیب ہوتا ہے، انسان میں اگر عاجزی ہوتی ہے تو دوسروں سے لیتا ہے۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ عاجزی پہ منحصر ہے کہ اس میں کتنی عاجزی ہے؟ مثال کے طور پر ایک برتن کے اندر پانی ہے، اگر اس برتن سے آپ دوسرا برتن اونچا کر لیں تو کیا اس میں پانی جائے گا؟ لیکن اس برتن سے اگر آپ کوئی برتن نیچے کر لیں تو اگر راستہ مل گیا تو اس کا آخری قطرہ بھی اس میں آ جائے گا۔ لیکن اگر اوپر ہو گا تو ایک قطرہ بھی نہیں آئے گا۔ تکبر کی وجہ سے انسان کسی سے بھی حاصل نہیں کر سکتا اور جس وقت عاجزی ہوتی ہے، تو انسان گناہ گار سے گناہ گار آدمی سے بھی لے لے گا، کیونکہ اس کے پاس کوئی نا کوئی نیکی تو ہو گی۔ چونکہ اپنے آپ کو وہ گناہ گار سمجھتا ہو گا، اپنے آپ کو کمزور سمجھتا ہو گا، تو اس سے بھی لے لے گا۔

سوال 26:

حضرت کسی ولی اللہ کے مزار پہ جا رہے ہیں تو تعظیم کے لئے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

آپ قبر کے اوپر پیر رکھ سکتے ہیں؟ یہ تعظیم ہے۔ ایسی کوئی بات جو کہ وہاں کے حال کے مطابق نہ ہو وہ نہ کرنا، یہ بھی اس کی تعظیم ہے۔ تعظیم بہت وسیع لفظ ہے۔ البتہ اس تعظیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں شرک شامل ہو جائے۔

سوال 27:

قبر سے لوگ منہ پھیر کر آتے ہیں یا الٹا چل کے آتے ہیں۔

جواب:

اصل میں ان کو پتا نہیں ہوتا۔ اصل یہ ہے کہ آپ طواف نہ کریں، قبر کا طواف منع ہے، کیونکہ طواف خانہ کعبہ کا ہوتا ہے۔ آپ اس طرح پائنتی سے جا کے کھڑے ہو جائیں سینے کے لگ بھگ اور وہاں پر آپ جتنی تلاوت کر سکتے ہیں کر کے ان کو ایصالِ ثواب کر دیں، اللہ پاک سے مانگیں۔ اس کے لئے ہاتھ اٹھانا بہتر نہیں ہے کیونکہ لوگ سمجھیں گے کہ شاید قبر سے مانگ رہا ہے اور پھر واپس اسی راستے سے آ جائیں۔ ایک دفعہ میں پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پہ گیا تھا۔ وہاں میرا بیان تھا۔ بیان تو میرا ہو گیا اس کے بعد وہ جو صاحب مجھے لے گئے تھے، کہا: اب آپ کو مزار پہ لے جاتا ہوں۔ مزار بہت بڑا hall ہے، وہاں کھڑے ہو کر میں نے ایصالِ ثواب کر لیا اور دعا بھی کر لی اللہ پاک سے۔ مجاور نے مجھے دیکھ لیا، اس نے کہا: اس کو جانے نہیں دینا، میں اس کے لئے دروازہ کھولتا ہوں۔ وہ بالکل قریب ہی ایک جنگلا تھا، بس ایک آدمی اس میں سے گزر سکتا تھا۔ میں نے سوچا: اللہ خیر کرے، اب کوئی مسئلہ نہ ہو جائے کیونکہ اس میں ایک آدمی گزر سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ طواف کی صورت بن جائے، ادھر سے آ جاؤں اور دوسری طرف سے اتروں۔ خیر اللہ پاک سے مانگتے ہوئے میں داخل ہو گیا۔ اب جیسے ہی میں سرہانے پہنچا تو وہاں اتنی جگہ مجھے ملی کہ میں نے اپنے آپ کو اڑس لیا۔ جب باقی سارے لوگ گزر گئے تو میدان خالی ہو گیا اور میں واپس اسی راستے سے آ گیا۔ اس طریقے سے اپنے آپ کو الحمد للہ بچا لیا۔ یہ تعظیم بھی ہے لیکن تعظیم کا مطلب شرک نہ ہو۔ شرک کی طرف جو چیز بھی جاتی ہو اس سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ ایک دفعہ میں بس میں زیارت کاکا صاحب جا رہا تھا۔ میں نے ڈنڈا پکڑا ہوا تھا اور کافی لوگ بھی کھڑے تھے۔ ایک بابا جی میرے پاس کھڑے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: بابا جی آپ کدھر سے آئے ہیں؟ کہا: میں فلاں جگہ سے آیا ہوں۔ کوئی بہت دور جگہ بتائی۔ کیوں آئے ہیں؟ کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ مجھے پھوڑا ہے، اس کے لئے میں آیا ہوں۔ میں نے کہا: اچھا آپ کو طریقہ بتاؤں تاکہ آپ کا کام ہو جائے؟ کہتا ہے: بالکل بالکل یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ میں نے کہا: آپ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب جائیں تو طواف نہیں کرنا اور ایصالِ ثواب کرنا ہے اور وہاں سے ہو کے بالکل پاس ہی مسجد ہے، اس میں جا کر دو رکعت صلوۃ حاجت پڑھیں اور پھر اللہ پاک سے مانگیں، اللہ تعالیٰ آپ کا کام کر دے گا ان شاء اللہ۔ کیونکہ ظاہر ہے نیک لوگوں کی جگہ ہے۔ وہ اتنا خوش ہو گیا اور دعا دی کہ اللہ پاک آپ کو بہت اجر دے، آپ نے بہت اچھا طریقہ بتایا ہے، میں ان شاء اللہ بالکل ایسا ہی کروں گا۔ اب میں نے سوچا: اگر میں اس کو کہتا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اتنی دور سے آئے، یہ تو ٹھیک نہیں ہے، یہ تو غلط ہے۔ تو نہ وہ میری بات سنتا اور نہ مانتا اور خواہ مخواہ ضد میں پڑ جاتا۔ اس طریقہ پہ عمل بھی الحمد للہ اس کو نصیب ہو گیا اور کام بھی ہو گیا۔ اصل میں بنیادی بات ہے یہ کہ ہم خواہ مخواہ الجھ جاتے ہیں، ان چیزوں میں الجھنے کی ضرروت ہی کیا ہے؟ آپ ان کو صحیح طریقہ بتاؤ۔ میری بچی ساڑھے تین سال کی تھی تو کھٹمل کو دیکھ کے اپنی والدہ سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: کھٹمل ہے۔ تو اس نے کہا: کیا کھٹمل اڑتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا: کھٹمل بھی اڑتا ہے؟ یعنی غصہ کیا۔ میری چچی بیٹھی ہوئی تھی۔ چچی نے کہا: بیٹی کیا ہوا؟ اس کو پتا نہیں ہے، اس کو کہہ دو کہ کھٹمل نہیں اڑتا بس۔ اس کے علم میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس میں جھڑکیاں دینے کی کیا ضرورت ہے؟ بہت سارے لوگ ہیں جو سمجھنا چاہتے ہیں لیکن ہماری ضد کی وجہ سے وہ دور ہو جاتے ہیں۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِين