اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آخر وقت میں میری سنتوں پر چلنا ایسا ہو گا جیسے انگارہ ہاتھ میں لے کر چلنا۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض سنتوں پر عمل کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے جیسے آج کل اگر کوئی شخص دین پر چلنا شروع کرتا ہے اور داڑھی اور ٹوپی رکھنا شروع کر لیتا ہے تو کچھ لوگ اس کو طعنے دیتے ہیں اور کچھ لوگ اس کو کامل ایمان والا سمجھتے ہیں، اگر اس سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو اس پر وہ لوگ سارے مسلمانوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور دین کو بدنام کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں نے داڑھی اور ٹوپی رکھ کر لوگوں کو دھوکا دیا ہوتا ہے یا لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ان کو رکھا ہوتا ہے لیکن سب ایسے نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں داڑھی اور ٹوپی کی سنت پر کیسے عمل کیا جائے اور لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آئیں؟
جواب:
بات تو بالکل یہی ہے، اس سے تو انکار نہیں ہے کہ اس وقت سنتوں پر چلنا آسان کام نہیں ہے اور ہم اس کا نتیجہ دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ حقائق ہیں، ان حقائق کو دیکھ کر انسان محتاط ہو سکتا ہے لیکن گھبرانا اور عمل چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب ہیں جو تبلیغی جماعت کے بڑے سر گرم آدمی ہیں، جب یہ Medical student تھے تو اس وقت بھی ان کی داڑھی تھی، جس وقت ڈاکٹر بن گئے اس وقت بھی ان کی داڑھی تھی لیکن ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے تو کسی نے ان کو بڑی حقارت سے کہا: "او شیخہ لار پر یګدہ" ہمارے ہاں داڑھی رکھنے والے کو شیخ کہتے ہیں اور اس کی توہین بھی کرتے ہیں، خدا نخواستہ اگر اس سے غلطی ہو جائے تو اس کو بڑھا چڑھا کے پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمارے culture کی کمزوری ہے۔ چونکہ وہ ڈاکٹر بن چکے تھے اور ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے ان کی جاہ بن چکی تھی یعنی خود کو معزز سمجھنے لگے تھے تو فورًا کہا کہ جب میں واپس آؤں گا تو یہ(داڑھی) نہیں ہو گی۔ پھر انہوں نے واقعی داڑھی کاٹ دی اور ابھی تک ان کی داڑھی نہیں ہے۔ ہمارے جہانگیرہ کے امیر صاحب چونکہ ان کو جانتے تھے تو ایک دفعہ بڑے دکھ سے کہا کہ دیکھو کتنی اچھی داڑھی تھی ان کی لیکن اب ان کی داڑھی نہیں ہے۔ ان کے لئے اپنی جاہ مسئلہ بن گئی کہ میں کچھ ہوں۔ حالانکہ اگر ہمیں کوئی اس بات کا طعنہ دے تو اس طعنے کو ہم دل و جان سے قبول کر لیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ کے لئے ہمیں یہ طعنہ ملا ہے، اور اسی وجہ سے اگر ہماری مغفرت ہو جائے تو کیا ہی اچھی بات ہو کیونکہ ایسی صورت میں اللہ پاک کو بڑا پیار آتا ہے۔
ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم تھے، ان کی داڑھی میں قدرتی طور پر چند بال تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو دیکھ دیکھ کر مسکراتے تھے۔ وہ سمجھے کہ شاید یہ آپ ﷺ کو بری محسوس ہوتی ہے، چنانچہ انہوں نے اس کو کاٹ دیا۔ جب دوبارہ ملنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چہرہ انور پھیر لیا۔ انہوں نے رو رو کے پوچھا کہ حضرت! کیا بات ہے؟ فرمایا کہ پہلے آپ کی داڑھی تھی، اس کیوں کاٹا؟ تو انہوں نے کہا کہ حضرت! میں نے اس وجہ سے کاٹی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ چونکہ فرشتے اس کے ساتھ محبت سے کھیل رہے ہوتے تھے تو اس لئے میں اس کو دیکھ دیکھ کر مسکراتا تھا۔ اصل بات یہی ہے کہ اللہ پاک کا پیار کا معاملہ تو ان کے ساتھ ہوتا ہے جن کی دین کی وجہ سے بے ادبی کی جاتی ہے۔ لہذا اگر ساری دنیا ہماری بے عزتی کرے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے عزت بڑھ جائے تو یہ بہت سستا سودا ہے۔ اس لئے اگر کوئی ہمیں کہہ دے کہ تُو نے یا فلاں داڑھی والے نے یہ غلطی کی ہے تو اس کو نرمی سے سمجھانا چاہیے کہ میں انسان ہوں اور انسان سے ہی غلطی ہوتی ہے۔ داڑھی رکھنے والے بھی انسان ہیں، بغیر داڑھی والے بھی انسان ہیں، غلطی ان سے بھی ہو سکتی ہے اور مجھ سے بھی ہو سکتی ہے۔ آپ صرف یہ دیکھیں کہ یہ (داڑھی والا) عمل اچھا ہے یا برا، اگر یہ عمل اچھا ہے تو کم از کم اس کو برا نہ کہو، باقی سارے برے اعمال کو برا کہہ دو۔ میں بھی آپ کی تائید کروں گا، آپ اس کو ایک دفعہ کہہ دیں کہ یہ غلط ہے تو میں دس دفعہ کہہ دیتا ہوں کہ واقعی غلط ہے، مجھے اس سے انکار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو جھوٹ بولنا تو غلط ہے لیکن میں نے اگر داڑھی رکھی ہے تو یہ الحمد للہ سنتِ رسول ﷺ ہے اور یہ صحیح عمل ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے، باقی جو میرا غلط کام ہے اس کو غلط کہہ لیں، وہ آپ کا حق ہے، اس کا میں انکار نہیں کروں گا۔ یہ بات ہماری طرف سے ہے، ان کی طرف سے بھی یہی ہونا چاہیے کہ وہ ہر چیز کو merit پر رکھیں، جو غلط عمل ہے، صرف اس کو غلط کہیں اور جو صحیح ہے، اس کو صحیح کہہ دیں۔ صحیح عمل کی دل سے قدر کریں اور جو غلط ہے اس کو اگر کوئی غلط کہتا ہے تو کہہ لے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہر ایک کا کہنے کا طریقہ اپنا اپنا ہوتا ہے، جس شخص کی اپنی اصلاح ہو چکی ہو تو وہ کسی اور طریقے سے کہتا ہے کہ یہ غلط ہے اور جس کی اصلاح نہیں ہو چکی ہو وہ کسی اور طریقے سے کہتا ہے۔ یہ فرق ضرور ہے لیکن اگر اس نے غلط کہہ دیا تو ہمیں اس پہ غصے نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جب اس کی اصلاح ہو جائے گی تو اس کو خود پتا چل جائے گا کہ میرا طریقہ غلط ہے۔ کیونکہ غلطی کو ہم غلطی سے ٹھیک نہیں کر سکتے، غلطی کو آپ ٹھیک طریقے سے ٹھیک کر سکتے ہیں۔ یعنی غلطی ٹھیک کرنے کا طریقہ بھی ٹھیک ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر کوئی جھوٹ بول رہا ہو اور میں اس کو ایک تھپڑ ماروں کہ تو نے جھوٹ بولا ہے۔ تو یہ غلط ہے، اس طرح لڑائی ہو جائے گی اور اس سے وہ جھوٹ نہیں چھوڑے گا اور اس کی اصلاح نہیں ہو گی۔ یہ تو صرف آپ نے اپنا غصہ نکالا ہے۔ اس لئے اس چیز کو ختم کرنے کے لئے اچھا طریقہ اپنانا چاہیے۔
جو لوگ داڑھی رکھ کر اس کو cover بنا کے چوری کرتے ہیں وہ بہت بڑی گستاخی کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے قانون میں دفعہ 420 کے ساتھ ساتھ وہ شرعی قانون کو سبو تاژ کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ اس کو اپنے لئے آڑ بنا کر دھوکہ کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی سزا شاید بہت سخت ہو کیونکہ دین کو بد نام کر رہے ہیں۔ اگر ایک انسان سے اس کی کمزوری کی وجہ سے غلطی ہو تو وہ علیحدہ بات ہے لیکن با قاعدہ planning سے ہو تو بہت خطر ناک بات ہے۔ planning کے ساتھ یہ بالکل جائز نہیں ہے اور عین ممکن ہے کہ اس پہ عذاب بھی سخت آئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مردود ہو جائے۔ لیکن غلطی یا اپنے نفس کی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی کام صحیح کرتا ہے اور کوئی غلط کرتا ہے تو اس کے صحیح کاموں کو discourage نہیں کرنا چاہیے، بس ان کے غلط کاموں کو آپ condemn کر سکتے ہیں۔ یہ merit کی بات ہے۔
حاصل یہ کہ تین باتیں ہیں: پہلی بات یہ کہ اگر ایک شخص جان بوجھ کے planning کے ساتھ داڑھی رکھتا ہے، ٹوپی یا پگڑی پہنتا ہے یا مدرسے میں داخلہ لیتا ہے اور عالم بن جاتا ہے اور پھر اس کے ذریعے دھوکا کرتا ہے تو یہ بہت ہی خطرناک بات ہے کیونکہ وہ پورے School of thought کو خراب کر رہا ہے۔ میں کالج میں تھا تو ایک بار میں نے پگڑی پہنی، حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے کہا کہ آپ ٹوپی پہنیں۔ میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگے کہ آپ کو علما کو بد نام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آپ اس وقت student ہیں، غلطیاں کریں گے تو لوگ کہیں گے یہ عالم ہے۔ لہذا تم ٹوپی پہنو، پگڑی میں پہنوں گا۔ انہوں نے اپنی ٹوپی مجھے دے دی۔ یہ دور اندیشی ہے۔ یعنی انہوں نے اس planning کے ساتھ مجھے منع کیا کہ آپ کو دیکھ کر لوگ کہیں گے یہ مولوی ہے، اور آپ غلطی کریں گے تو بات مولویوں کی طرف جائے گی۔ انہوں نے کہا تم انجینئر ہو تو انجینئروں کو بد نام کر سکتے ہو کیونکہ وہ تمہارا profession ہے لیکن مولویوں کو بد نام نہیں کر سکتے، اس کا تمہیں اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ہم غور کریں تو یہ بہت مناسب بات ہے کہ اپنے لباس سے کسی کو دھوکا نہ دیں، اپنے طرز سے کسی کو دھوکا نہ دیں، جو ہیں بس وہی نظر آنے چاہئیں۔ اب اگر کوئی شخص اس نیت سے پگڑی نہیں پہنتا تو اس کو اجر ملے گا کیونکہ وہ ایک دین کو بد نام کرنے سے بچا رہا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ اس قسم کی بزرگوں کی نظر ما شاء اللہ بہت اہم چیزوں پر ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ دھوکا دینے سے اپنے آپ کو بچانا بہت ضروری ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ میری اصلاح نہیں ہوئی ہے اور اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے غلطی ہوتی ہے تو میرے کچھ اعمال اچھے ہیں اور کچھ برے ہیں تو اس کے لئے لوگوں کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ میری اچھی بات کو اچھا کہیں میری بری بات کو برا کہیں۔ پھر برائی کو برائی کہنے والوں کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جن کی اصلاح ہو چکی ہے، اور ایک وہ جن کی اصلاح نہیں ہوئی۔ جن کی اصلاح نہیں ہوئی، وہ اگر مجھے ان برے کاموں کی وجہ سے برا کہہ دیں کہ ان میں یہ برے کام ہیں تو انہوں نے میرے برابر سرابر کا معاملہ کیا، اس میں کوئی جرم نہیں ہوا لیکن ان کو اجر تب ملے گا کہ اس برائی کو دور کرنے کے لئے ان کا طریقہ کار اچھا ہو، طریقہ اچھا ہو گا تو وہ مبلغ اور شیخ بنے گا، جٹوں کی طرح لٹھ نہ مارے بلکہ اس کے پاس planning اور طریقۂ کار ہو جس کے ذریعہ سے وہ بات کرے تو پھر مقصد پورا ہو جائے گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہم لوگوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی اصلاح کروا لیں۔ اپنی اصلاح کرنے سے ہمیں دو فائدے ہوں گے، ایک تو ہم سے نفس کی غلطیاں نہیں ہوں گی، دوسرا اگر کسی اور کی اصلاح کرنا چاہیں گے تو وہ بھی اچھے طریقے سے کریں گے کیونکہ اصلاح دونوں طرف سے کام دیتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کم از کم ہم ان مجرموں میں نہیں شمار ہوں گے جو دین کو بد نام کرتے ہیں۔ دھوکے کی صورت میں نہیں آئیں گے۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی سلسلے میں بیعت ہو جاتا ہے اور وہاں اپنی مرضی کرتا ہے لیکن اپنے بزرگوں کے نام کی وجہ سے یہ expect کرتا ہے کہ میری عزت کی جائے۔ یہ طریقہ غلط ہے، اگر ان کی طرح عزت expect کرتے ہو تو ان کی طرح پھر اعمال بھی کرو، ان کے طریقے پر چلو تاکہ لوگ آپ کی مخالفت نہ کریں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بعض لوگ اپنے بڑوں کو اپنے گناہوں کے لئے ڈھال بناتے ہیں کہ لوگ مجھ پہ بات نہ کریں، اُن پہ بات کریں حالانکہ اپنے بزرگوں کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو ڈھال بنانا چاہیے کہ ان کی عزت پہ بات نہ آئے۔ اپنے آپ کو برا کہہ لیا جائے کہ ہم برے ہیں، وہ تو صحیح تھے۔ ہمیں برا کہہ سکتے ہو، لیکن ہمارے بڑوں کو برا نہیں کہہ سکتے، وہ ایسے نہیں تھے۔ مجھے دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ میرے بڑے بھی اس طرح تھے۔ مثلًا سادات بڑے اچھے لوگ ہوتے ہیں، اب اگر میں سید ہوں (اگرچہ اس میں میرا کوئی contribution نہیں ہے، میرا کوئی کمال بھی نہیں ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جس طرح اس نے چاہا بنا دیا) تو مجھ پہ یہ ذمہ داری پڑ گئی ہے کہ میں اب ایسا کام نہ کروں جس سے سادات بد نام ہو جائیں۔ یہی میرے لئے اصلاح کا ایک بہت بڑا شعبہ بن جائے گا کہ میں اگر اس چیز کو realize کر لوں کہ میں سید ہوں اور مجھے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
اللہ پاک بعض لوگوں کے لئے تربیت کا خصوصی انتظام کرتے ہیں، یہ چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جا رہے تھے تو ایک بچہ تیزی کے ساتھ کیچڑ میں چلا گیا۔ حضرت نے نصیحت آمیز لہجے میں کہا کہ بیٹا! کیچڑ میں اس طرح تیز نہیں چلا کرتے ورنہ پھسل جاؤ گے۔ اس بچے نے پیچھے مڑ کے دیکھا اور کہا کہ حضرت! میری فکر نہ کریں، میں چھوٹا ہوں، میں اگر پھسل گیا اور کپڑے خراب ہو گئے تو میرے والدین کپڑے تبدیل کرا دیں گے، مجھے نہلا دیں گے تو میں پھر سے صاف ہو جاؤں گا، آپ اپنا خیال کریں کہ اگر آپ پھسل گئے تو پوری امت پھسل جائے گی۔ گویا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو پیغام تھا کہ تیرا status بہت محتاط ہو کر رہنے کا ہے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ اپنی عزت نفس کو بچانے کے لئے اگر کوئی پیسوں کو نہیں استعمال کرتا تو وہ بخیل سمجھا جاتا ہے کیونکہ عزت نفس اللہ پاک دیتا ہے۔ یہ بہت باریک باریک باتیں ہیں، اسی لئے کہتے ہیں کہ کسی شیخ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ ہونا چاہیے تاکہ وقت پر انسان کو بتایا جا سکے کہ آپ نے یہ ٹھیک کیا یا آپ نے غلط کیا۔ جیسے میں نے ابھی حلیمی صاحب کی مثال دی۔ ہم لوگوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان شاء اللہ، اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائیں گے کیونکہ ﴿وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) کی روشنی میں ہماری طرف سے کوشش ہونی چاہیے، اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اس کی طرف سے ضرور رستے کھلتے ہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ