حکمت، معرفت اور نورِ الہی کا تعلق اور ذوق و وجدان کی وضاحت

سوال نمبر 362

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں حکمت کی تفصیل میں صفحہ 106 پر تحریر فرمایا ہے کہ بعض لوگوں میں اشیاء کے حق و باطل اور افعال کے خیر و شر کی تمیز کا صحيح وجدان اور صحيح ذوق ہوتا ہے اور وہ ان امور کے دقیق سے دقیق مسئلہ کے متعلق اپنے ربانی ذوق و وجدان سے ایسی صحيح رائے دیتے ہیں جو دوسرے لوگ وسیع مطالعہ اور غور و فکر کے بعد بھی نہیں دے سکتے یہی وہ نورِ معرفت اور نور الہی ہے جو جدوجہد اور سعی و محنت سے نہیں بلکہ عطاء رب عطا و بخشش سے حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام حکمت ہے۔ یہاں حضرت نے حکمت، معرفت اور نورِ الہی کو ایک قرار دیا ہے اور اس کے حصول کے لئے کسی کوشش و سعی کی نفی کی ہے اور اس کو ذوق اور وجدان کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ یہ ذوق اور وجدان کیا چیز ہے؟ آیا یہ ذوق اور وجدان انسان کے اندر جو تین لطائف ہیں ان کے علاوہ کوئی اور چیز ہے؟ کیا یہ حکمت بغیر کسی محنت کے حاصل ہو جاتی ہے یا اس کی محنت کا میدان الگ ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

﴿وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا (البقرۃ: 169) اللہ پاک فرماتے ہیں جس کو حکمت دی گئی اس کو بہت خیر دے دی گئی۔ معلوم ہوا کہ حکمت دی جاتی ہے۔ حکمت پیدائشی طور پر بھی کسی میں موجود ہو سکتی ہے۔ یعنی ان کی نظر بالکل ٹھیک چیز پر پڑتی ہو یا انسان ایسے اعمال کرے جس کی وجہ سے اللہ پاک فضل کر کے اس کو حکمت عطا فرما دے۔ جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو 40 دن تک خاموش رہا تو اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔ مثلاً گاڑی کا mechanic ہوتا ہے تو بعض mechanic گاڑی کھول کے اور پورا اندازہ کر کے، ہر ایک چیز چیک کر کے، معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کے اندر کیا fault ہے؟ اور بعض کے سامنے گاڑی گزر جائے تو بتا دیتے ہیں کہ اس کے اندر کیا fault ہے؟ دونوں میں فرق ہے یا نہیں؟ یعنی ان کے تجربہ کا نچوڑ ایسا بن جاتا ہے کہ وہ ٹھیک اور صحیح جگہ پہ جاتا ہے۔ ڈھیر لگا ہوا ہے ایک آدمی اس کو تولتا ہے اور دوسرا آدمی کہتا ہے: یہ اتنا ہو گا کیونکہ اس کو اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہ میں نے صرف مثال دی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکمت یہ چیز ہے۔ اس طرح ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان تمام آلات سے انسان آگے گزر جاتا ہے اور بغیر کسی حیلے کے اس کے اپنے اندر جو balance ہے اس کے ذریعہ سے اس کو پتا چلتا ہے کہ یہ چیز کیا ہے؟

بعض لوگوں میں اشیاء کے حق و باطل اور افعال کے خیر و شر کی تمیز کا صحیح وجدان اور صحیح ذوق ہوتا ہے۔ یعنی اس کا سامان ہوتا ہے آگے جا کر اس کا استعمال کرنا وغیرہ۔ ابو جہل کو قریش مکہ ابو الحکم کہتے تھے یعنی حکمت کا باپ۔ یعنی اس کے اندر یہ صلاحیت تھی اگر وہ ایمان لاتا تو اللہ کے لئے استعمال ہو جاتا لیکن اس نے اس کو دوسری چیزوں کے لئے استعمال کیا۔ مثال کے طور پر وہ کسی شخص کو دیکھتا تھا کہ کس چیز سے touchy ہے؟ وہ اسی کی بات کر کے اس کو اُڑا دیتا۔ عتبہ تو مسلمان ہونے والا تھا لیکن اس کو دیکھ کے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بدلے ہوئے نظر آ رہے ہو، تم ڈر گئے ہو کہ اب جنگ ہونے والی ہے تو پیچھے ہٹنا چاہتے ہو۔ ایسے تاک کے تیر چلایا کہ وہ گھائل ہو گیا۔ اس نے کہا: اچھا کل پتا چل جائے گا کہ تم ڈرتے ہو یا میں ڈرتا ہوں! یعنی اس کے اندر یہ وجدان تھا کہ کس کو کس طریقے سے hit کیا جا سکتا ہے۔ آپ ﷺ کے لئے نت نئے شوشے چھوڑتا تھا جس کی وجہ سے اس کو ابو جہل قرار دیا گیا۔ آپ ﷺ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مانگا تھا اور ابوجہل کو بھی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی سخت مخالف تھے اور ابو جہل بھی سخت مخالف تھا۔ لیکن مسلمان ہونے کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو جواہر کھلے وہ سب کو پتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کے پاس ایمان نہیں ہے تو وہ اپنی حکمت کو دنیاوی چیزوں کے لئے استعمال کرتا ہے۔ دنیا کے معاملے میں پھر وہ بڑے ہی ٹھیک ٹھاک اور باقی لوگوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ تو بعض لوگوں کا صحیح اور ذوق ہوتا ہے، کسی خاص چیز میں ذوق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پہ بعض کا شاعری میں ذوق ہوتا ہے، بعض کا کسی خیر کے کام میں ذوق ہوتا ہے اور وہ اس کے مطابق چلتا ہے۔ حکمت اگر کسی کے اندر پائی جاتی ہے تو اس کو صحیح رخ کی طرف موڑنا مشائخ کا کام ہوتا ہے۔

یہی وہ نور معرفت اور نور الہی ہے جو جدوجہد اور صحیح محنت سے نہیں بلکہ عطاء و بخشش سے حاصل ہوتی ہے جس کا نام حکمت ہے۔ یہاں حضرت نے حکمت، معرفت اور نور الہی کو ایک قرار دیا، یعنی ان سب کے راستے ایک ہیں۔ معرفت بھی دی جاتی ہے اور نور الہی کا نام ہی ایسا ہے اس وجہ سے ان کو ایک کہا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمت ہے۔ ﴿وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا (البقرۃ: 169) میں نے آپ کو بتایا کہ کسی میں حکمت موجود ہوتی ہے لیکن وہ اس کو استعمال کس لئے کر رہا ہے؟ اسی طرح کسی میں معرفت کے حصول کی چیزیں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ اس کو کیسے استعمال کرتا ہے؟ اسی طرح نور الہی جس کی طرف متوجہ ہو جائے تو وہ اس کو کیسے استعمال کرتا ہے؟ یعنی نتیجے کے اعتبار سے تو ایک ہے، معرفت بھی اللہ کی طرف سے ہے، حکمت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور نور الہی تو ہے ہی۔ لیکن معرفت کا جو تعلق ہے وہ عبودیت کے ساتھ ہے۔ یعنی انسان جتنا عبدیت اختیار کرے گا اللہ پاک اس پر اور زیادہ چیزیں کھولے گا، اس کے لئے دروازہ کھلا ہو گا۔ بہت بڑی debate جو آج کل ہم کر رہے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں: ہم چنے ہوئے لوگ ہیں یعنی محبوبین ہیں، گویا مفت میں سب کچھ مل جائے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ایک تو محبوبین کا پتا اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے کہ کون محبوب ہے اور کون محبوب نہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ جو محبوب ہے وہ ایسا نہیں کہتے بلکہ وہ دوسروں سے زیادہ عمل کرتے ہیں۔

ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ مادر زاد ولی تھے لیکن ان کے جو مجاہدات ہیں وہ عام آدمی نہیں کر سکتا۔ جو ان کو اللہ تعالیٰ نے چیز عطا فرمائی تھی تو اس کا نتیجہ یہ تھا کہ مزید محنت اور اللہ جل شانہ کے نام پر مر مٹنا اور سب کچھ قربان کرنا یہ چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ نہیں کہ اس چیز کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنا دو کہ میں اللہ کا محبوب ہوں۔ یہ تو محبوبیت والا راستہ نہیں ہے، جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ھوتے ھیں وہ تو مٹے ھوۓ لوگ ھوتے ھیں۔ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں بلکہ جن پر جو بات کھل جائے وہ منجانب اللہ کھلتی ہے۔ اللہ پاک جب چاہے تو کھلتی ہے اور جتنی اللہ پاک چاہے اتنی کھلتی ہے تو ان لوگوں کو اس کا پتا ہوتا ہے یعنی اتنی معرفت حاصل ہو چکی ہوتی ہے کہ ہم خود کچھ بھی نہیں ہیں، لہذا کسی چیز کی اپنی طرف نسبت نہیں کرتے خَالِصَتاً لِوَجْهِ الله کام کرتے ہیں اور خالص اللہ تعالیٰ سے سب کچھ ہوتا ہوا سمجھتے ہیں ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (البروج: 16) اللہ پاک ہی سب کچھ کرنے والے ہیں۔ اللہ پاک کی صفات کا ان کو اچھی طرح ادراک ہوتا ہے ان کے مقابلے میں اپنی صفات کی جو نفی ہے وہ بھی ان کو معلوم ہوتی ہے۔ اللہ کی ذات کی طرف متوجہ رہتے ہیں، تنزیہ ان کے اوپر غالب ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ان اولیاء اللہ کی ہیں جن کو اللہ نے محبوب بنایا ہوتا ہے جن کے لئے راستے ایسے بنائے جاتے ہیں کہ وہ ان کی طرف چلتے جاتے ہیں۔ عوام اور دوسرے لوگ تو صرف output کو دیکھیں گے، input تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، وہ ہم نہیں جانتے، کوئی اس کے بارے میں نہیں کہہ سکتا لیکن نتیجے کو دیکھا جائے گا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن