اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حصہ چہارم میں حکمت کی تفصیل بیان کرنے کے بعد صفحہ نمبر 105 پر تحریر فرمایا کہ حکمت عقل و فہم کی اس کامل ترین حقیقت کا نام ہے جس سے صحيح و غلط، ثواب و خطاء، حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان تمیز و فیصلہ بذریعہ غور و فکر، دلیل و برہان اور تجربہ و استقراء بلکہ منکشفانہ طور سے ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق اُس صاحبِ حکمت کا عمل بھی ہوتا ہے اس کی تشریح فرمائیں۔
جواب:
بات تو پوری کی گئی ہے اس میں کوئی چیز رہ تو نہیں گئی ہے لیکن بہر حال میں دوبارہ اس کو ذرا ایسے انداز میں عرض کرتا ہوں کہ اگر کسی کو سمجھ نہیں آیا ہو تو اس کو بھی سمجھ آ جائے۔ فرمایا: حکمت عقل و فہم کی اس کامل ترین حقیقت کا نام ہے۔ فہم کا تعلق دل و دماغ کے ساتھ ہے، دماغ میں عقل ہے اور قلب جب اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے اوپر وہ علوم آتے ہیں۔ جیسے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی: مجھے حافظہ کی کمزوری کی شکایت ہے۔ حضرت نے فرمایا: گناہ چھوڑ دو کیونکہ علم نور ہے اور یہ کسی عاصی (گناہ گار) کے دل میں نہیں اترتا۔ قرآن پاک میں ہے ﴿وَ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِهَا﴾ (الاعراف: 179) یعنی ان کے دل ہیں لیکن ان سے وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ تو سمجھنے کا تعلق فہم کے ساتھ ہے۔ دل اور دماغ دونوں سے جو حقیقت واضح ہوتی ہے جس کے ذریعہ سے انسان صحیح و غلط کا فیصلہ کر سکتا ہے، حق و باطل کا فیصلہ کرتا ہے، خیر و شر کے درمیان تمیز کر سکتا ہے، یہی چیز حکمت ہے۔ اور غور و فکر، دلیل و برہان، تجربہ و استقرا اسی طرح اور چیزیں جو منکشف ہوتی ہیں ان سے یہ حاصل ہوتی ہے۔ غور و فکر کا تعلق عقل کے ساتھ ہے، تجربے کا تعلق عقل کے ساتھ ہے۔ لیکن یہ جو منکشف ہو جانا ہے یہ دل پر منکشف ہوتا ہے۔ تو اللہ جل شانہ چھپی ہوئی بات، حکمت اور دانائی کی بات جو کسی پہ کھولتے ہیں تو اس کا طریقہ کار یہی ہے۔ مجھے پوری روایت تو یاد نہیں ہے لیکن غالباً اس میں اشارہ ہے کہ جو 40 دن خاموش رہتا ہے یا اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے تو اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔ یعنی وہ غور و فکر کرتا رہتا ہے اور اس وقت اس کے اوپر حکمت کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔ یعنی وہ چیز جو انسان کے لئے مفید ھے لیکن اس سے چھپی ہوئی ہے تو اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے کچھ ظاہری ذرائع ہیں اور کچھ باطنی ذرائع ہیں۔ ظاہری ذرائع میں غور و فکر آتا ہے اور کتابوں کا دیکھنا آتا ہے اور تجربہ ہے۔ لیکن اس کے اندر جو مزید اللہ پاک کی طرف سے دین ہوتی ہے اور جن پر انکشاف ہو جاتا ہے وہ کافی زیادہ بھی ہوتا ہے اور اچانک بھی ہوتا ہے، اس کے بارے میں پہلے سے کوئی بنیاد نہیں بنی ہوتی اگرچہ وہ غور و فکر کر رہا ہوتا ہے جو اس کے لئے بنیاد ہے لیکن یہ جو بات کھلتی ہے انسان کے اوپر تو وہ حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کیسے ہوا؟ یہ حکمت کی بات ہوتی ہے جو منجانب اللہ ہوتی ہے۔ جن کی اللہ تعالیٰ نے قبولیت لکھی ہوتی ہے تو ان کے اوپر اللہ پاک ایسے عقدے کھولتے ہیں جو عام لوگ نہیں کھول سکتے۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بالکل چھوٹی چھوٹی باتوں میں بہت بڑی بڑی بات کہہ جاتے ہیں جیسے فرمایا کہ سستی کا علاج چستی ہے۔ اس پہ research کرو پھر ذرا بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکو گے۔ اور محمود اور مقصود والی بات فرمائی کہ غیر اختیاری کے پیچھے نہ پڑو اور اختیاری میں سستی نہ کرو۔ بالکل چٹکلے اور چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن ان کے پیچھے پوری ایک لا محدود research ہے۔ یعنی اللہ پاک نے ان کے اوپر یہ چیزیں کھول دیں تھیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ جن حضرات کی ہم اب کتابیں پڑھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اوپر یہ چیزیں کھولی گئی تھیں اور ہمارے لئے اب کافی علم ہے، مطالعہ ہے۔ ان کے اوپر اللہ پاک نے ان کے مقام کے مطابق کھولی ہوئی تھیں جو اللہ پاک کے یہاں ان کو حاصل تھا اور ہمیں ان کی برکت سے مل رہی ہیں۔ اب اگر ہم اسے نہیں لینا چاہتے تو ان کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی لیکن ہمیں اس سے بیٹھے بیٹھے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہم اس مقام پر نہیں ہیں لیکن ہمیں ان کی برکت سے وہ چیزیں مل رہی ہیں۔
حکیم لقمان علیہ السلام کا تو قرآن پاک میں بھی ذکر ہے اور ایسے اقوال موجود ہیں جو اللہ پاک کو پسند ہیں اور اللہ پاک نے قرآن پاک میں ان کو جگہ دی تو یہ حکمت کی بات تھی۔ یہ ایک شخص کے غلام تھے اور ان کا آقا بھی ان کا بڑا مداح تھا تو ایک دفعہ ککڑی کی قاشیں کاٹ کاٹ کے دے رہا تھا اور حکیم لقمان بڑے مزے سے کھا رہے تھے ایک قاش آقا نے خود کھائی تو وہ بہت کڑوی تھی، اس نے تھوک دی اور حکیم لقمان سے کہا: آپ یہ کس طرح کھا رہے تھے یہ تو بہت کڑوی ہے آپ نے انکار بھی نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: اتنی میٹھی میٹھی چیزیں آپ ہمیں روز کھلاتے ہیں تو اگر درمیان میں ایک دفعہ کڑوی آ گئی تو کیا ہوا؟ یہ بہت حکمت کی بات ہے۔ اگر اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جائیں تو کسی کا کتنا بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا کہ اللہ پاک کتنا زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ مثال کے طور پر ایک انسان کی آنکھ میں تکلیف ہے لیکن اس کے کان ٹھیک ہیں، اس کا دماغ ٹھیک ہے، اس کا دل ٹھیک ہے، اس کے ہاتھ ٹھیک ہیں، اس کے پیر ٹھیک ہیں، اس کے جسم کے باقی سارے اعضاء ٹھیک ہیں۔ آنکھ کی تکلیف کی وجہ سے وہ پریشان ضرور ہے لیکن اگر وہ یہ سوچے کہ اتنی ساری چیزیں ہماری ٹھیک ہیں اگر یہ بھی خراب ہوتیں تو پھر کیا ہوتا؟ اس پر وہ شکر کرتا ہے۔ ﴿لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7) وہ تکلیف بھی اس کی دور ہو سکتی ہے۔ حکمت اور دانائی کی بات بالکل پورا process ہو کے آتی ہے لیکن وہ hidden process ہے یعنی مخفی process ہے۔ وہ ساری چیزیں اس طرح ہو رہی ہوتی ہیں کہ دماغ بھی مصروف ہے اور عقل کے ذریعے سے فکر کر رہا ہے اور تجربہ بھی حاصل ہو رہا ہے اور لوگوں کی باتیں بھی سن رہے ہیں، کتاب کے علوم بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ لیکن اس کے اندر تعلق مع اللہ کے ذریعہ سے جو چیز آ رہی ہے وہ مزید چیز ہے جو اس میں ہوتی نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے ہوتی ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن