سائنس اور دینی کتابوں میں فرق کو سمجھنا اور جدید سائنسی تحقیقات سے آگاہی

سوال نمبر 360

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں اپنے گھر والوں کی تربیت کے بارے میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟ عورت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اسے ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ تو اس کی تربیت میں ہمیں کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے کہ ان کی تربیت بھی ہو جائے اور کوئی مسئلہ بھی نہ ہو؟

جواب:

آج ہی میرے ذہن میں ایک بات آئی تھی اور یہ سوال بھی اسی کے مطابق آ گیا کہ عورت عورت ہے۔ یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے جیسے لوگ کہتے ہیں لاہور لاہور ہے تو اس کا مطلب ہے لاہور کی کچھ خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے لاہور کی special باتیں ہیں جن کو لوگ سامنے رکھتے ہیں۔ اسی طرح عورت کی بھی کچھ خصوصیات ہیں لہذا عورت کو عورت ماننا چاہیے۔ عورت کے ساتھ مردوں کی طرح deal نہیں کرنی چاہیے۔ عورت کو اللہ پاک نے بڑی زبردست صفات عطا فرمائی ہیں۔ ہاتھی دانت ٹیڑھا ہوتا ہے لیکن اس سے کتنی قیمتی چیزیں بنتی ہیں۔ تو ٹیڑھا ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے کام نہ لیا جائے۔ ان کی کچھ صفات ہیں اور وہ صفات ان کے کام کے لحاظ سے اہم ہیں۔ اللہ پاک نے جس چیز کو جس چیز کے لئے پیدا کیا ہے اسی کے لئے اگر استعمال کیا جائے تو یہ عدل ہے اور اگر اس کے لئے استعمال نہ کیا جائے بلکہ دوسری چیز کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ ظلم ہے۔ tissue paper کے اوپر آپ لکھنا چاہو گے تو ظلم ہے اور جو کاغذ لکھنے کے لئے بنایا گیا ہے اس کو tissue paper کے طور پہ استعمال کریں تو یہ بھی ظلم ہے۔ یعنی جو چیز جس مقصد کے لئے ہے اسی کے لئے اس کو استعمال کرو۔

عورت کا ٹیڑھا پن اصل میں ان کا جذباتی ہونا ہے، ان میں جذباتیت بہت ہے۔ اگر جذباتی ہونے سے آپ ڈر جاتے ہیں تو بھی ٹھیک نہیں ہے اور اگر آپ اس کے جذباتی ہونے کا اقرار ہی نہیں کرتے تو یہ بھی غلط ہے۔ مثلاً ایک شخص ڈوب رہا تھا، دوسرا آدمی اس کو کہتا ہے: ہاتھ دو ہاتھ دو۔ یعنی میں تمہیں کھینچ لوں لیکن وہ ہاتھ نہیں دیتا۔ ایک تیسرا شخص کہتا ہے: خدا کے بندے یہ وہ لوگ ہیں جو ہاتھ دیتے نہیں بلکہ ہاتھ لیتے ہیں ان کو کہو ہاتھ لو۔ تو اس نے کہا: ہاتھ لو۔ تو اس کو پکڑ لیا۔ مقصد یہ ہے کہ جو جس طرح سمجھے اس کو اسی طرح سمجھاؤ۔ آپ نے اس کو بچانا ہے تو اس کو ہاتھ دو کا کیوں کہتے ہو؟ تو عورت کے فائدے کے لئے بھی اگر کوئی بات کر رہے ہو لیکن اگر آپ اس انداز میں نہیں کر رہے جس سے عورت touchy ہے تو پھر اس کو فائدہ نہیں ہو گا۔ چنانچہ ان کو اچھی طرح study کرو اور جس طریقے سے ان کو فائدہ ہو اسی طریقے سے ان کے ساتھ deal کرو۔ اللہ پاک نے جو آپ کو عقل عطا فرمائی ہے یہ اسی لئے عطا فرمائی ہے کہ اس سے کام لو۔ اگر عورت جذباتی نہ ہو تو وہ اپنی duty پوری نہیں کر سکتی۔ جب بیوی بیمار ہو اور آپ کو بچے کو اسکول کے لئے تیار کرنا پڑے اور اس کا pamper بدلنا پڑے تو سوچو وہ کام تم کر سکتے ہو؟ حالانکہ کرنا ہے، جس طرح اس کا بیٹا ہے اسی طرح تمہارا بھی بیٹا ہے، جس طرح اس کی بیٹی ہے اسی طرح تمہاری بھی بیٹی ہے۔ لیکن تمہارے اندر وہ جذباتیت ہے نہیں جو اس چیز کو محبت کی وجہ سے نظر انداز کر دے۔ مثلاً پاخانہ سے نفرت ہوتی ہے انسان کو لیکن اپنے بچے کے ساتھ محبت ہوتی ہے اور وہ اگر اتنی غالب ہو کہ پاخانے کی نفرت پہ غالب آ جائے تو اس پاخانے کا دھونا اس کے لئے آسان ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر کوئی toilet جائے اور خود استعمال کیا ہو تو اس سے بھی بو آتی ہے، دوسرے نے استعمال کیا ہو تو اس سے بھی بو آتی ہے لیکن اپنی بو کا پتا نہیں چلتا اور دوسرے کی بو کا بہت جلدی پتا چلتا ہے، تو یہ اپنائیت والی بات ہے۔ تو بچوں کے ساتھ جذباتی attachment جو والدہ کی ہے وہ والد کی نہیں ہوتی لہذا اس کی وجہ سے وہ جو تکالیف برداشت کرتی ہے وہ تم برداشت کر ہی نہیں سکتے۔ قرآن پاک میں اس کی طرف اشارہ ہے ﴿حَـمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصَالُـهٗ فِي عَامَيْنِ (لقمان: 14) بچے کو 9 مہینے پیٹ میں رکھا، پیٹ میں رکھنے کے دوران اس کے ساتھ اٹھنا، بیٹھنا اور دوسری تکالیف وغیرہ، پھر پیدا ہوا۔ جب ولادت ہو جاتی ہے تو سب تکالیف کے باوجود اس کے اوپر استحساناً لازم ہوتا ہے کہ اس کو دودھ پلائے یعنی اس وقت بھی یہ سارے کام وہی کرتی ہے۔ تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ جو اللہ پاک نے نظام بنایا ہوا ہے اس میں بڑی حکمتیں ہیں۔ اگر یہ جذباتیت ان میں نہ ہوتی تو یہ کام ہو نہیں سکتے تھے۔ لیکن جذباتیت کے side effects بھی ہیں، وہی ٹیڑھی پسلی والی بات ہے۔

میں کپڑوں کا اتنا زیادہ خیال نہیں رکھتا تھا studentship میں بھی، ہمارے director صاحب نے میری selection کی تو جو لوگ میرے ساتھ حسد کر رہے تھے ان کو بڑی تکلیف ہوئی۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ تو کپڑوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں، بہت clean سوٹ پہنتے ہیں جیسے قائد اعظم کے بارے میں مشہور ہے اسی طرح ان کے بارے میں بھی تھا۔ اور شبیر کپڑوں کی اتنی پرواہ نہیں کرتا، تو آپ کا گزارا اس کے ساتھ کیسے ہو گا؟ انہوں نے جواب دیا: کچھ چیزوں کے لئے، کچھ چیزوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ اصول ہے جو کہ ایسی چیزوں میں استعمال ہونا چاہیے۔ تو اگر کسی وقت وہ اپنی جذباتیت کی وجہ سے شور شرابہ کرے اور آپ کی بات کا دوسرا رخ لے لے تو اس کے اندر جو صفات ہیں اس کی وجہ سے آپ اس کو برداشت کریں، آخر وہ بھی تو انسان ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہادر لوگ جب in power ہوتے ہیں تو بڑے رحم دل ہوتے ہیں۔ اور جس وقت یہ محکوم ہوتے ہیں تو بہت خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے نہیں ہیں، لہذا حاکموں کے لئے بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ حاکم ہو جاتے ہیں تو پھر ان کو بہادری دشمن کے خلاف دکھانی ہوتی ہے، اپنی رعایا پہ نہیں۔ تو وہ بڑے رحم دل ہوتے ہیں، کافی صبر اور برداشت کرتے ہیں کیونکہ اپنے اوپر بھی وہ بہادری دکھا سکتے ہیں اپنے نفس کو بھی تو control کر سکتے ہیں۔ تو مردوں کو اگر اللہ تعالیٰ نے مردانگی دی ہے جس کو ہم بہادری سمجھ لیں تو پھر ان کے اندر وسعت بھی ہونی چاہیے کہ برداشت بھی کریں، اپنی رعایا پر رحم کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو، بیوی کو، جتنے بھی اس کی کفالت میں ہیں ان سب کو جوڑے رکھیں اپنی عقل سے کام لیں۔ ماں کے ساتھ ماں والا معاملہ کرے، بیوی کے ساتھ بیوی والا معاملہ کرے، بہن بھائیوں کے ساتھ بہن بھائیوں والا معاملہ کرے، ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ پہ رکھے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے توڑ پیدا ہو۔ جیسے ابھی یہ آیت گزری ہے کہ دین کو قائم کرو اور تفرقہ نہ ڈالو یعنی توڑ پیدا نہ کرو جوڑ پیدا کرو پھر بات بنے گی۔ ہمیں ان تمام باتوں کو سیکھنا چاہیے۔ اللہ پاک نے ہماری عقلوں کو جو سوچ عطا فرمائی ہے اس کو شریعت کی روشنی میں صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن