سائنس اور دینی کتابوں میں فرق کو سمجھنا اور جدید سائنسی تحقیقات سے آگاہی

سوال نمبر 359

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

پرسوں آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ پرانے دور کی دینی کتابوں میں اُس دور کی ساٸنس کے لحاظ سے باتیں لکھی ہیں جو کہ دین نہیں ہے بلکہ وہ ساٸنس کی باتیں ہیں جو اس دور کے لحاظ سے ٹھیک تھیں۔ لیکن چونکہ ساٸنس میں تبدیلی آئی ہے اور وہ باتیں آج کل کی ساٸنس کے لحاظ سے غلط ہیں اس لئے ان کتابوں سے ہم دین کی باتیں تو لیں گے لیکن ساٸنس والی بات نہیں لیں گے۔ اس قسم کی باتیں مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں اور ظاہر ہے علماء جدید ساٸنسی تحقیقات سے اتنے زیادہ واقف نہیں ہوتے، جب علماء کرام وہ کتابیں سالہا سال تک پڑھ لیتے ہیں اور ان کتابوں کی ساٸنسی باتوں پر بھی وہ کافی حد تک یقین کر لیتے ہیں تو پھر ان کے لئے جدید ساٸنسی باتوں کو سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے اور پرانی باتوں کو چھوڑنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس قسم کی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟ نمبر 1 علماء کرام پرانی دینی کتابیں پڑھتے وقت یہ فرق کر سکیں کہ یہ دین کی بات ہے اور یہ اس دور کی ساٸنس کی بات ہے۔ نمبر 2 جدید دور کی ساٸنس سے اتنی واقفیت ہو کہ دینی مسائل کے حل میں ساٸنس سے مدد لے سکیں۔

جواب:

بہت وسیع topic کی بات کی ہے۔ اصل میں یہ چیز دو باتوں کا مجموعہ ہے۔ ایک جو وحی ہے اور جو ہماری development ہے یعنی science ہے، ان دونوں میں واضح فرق ہونا چاہیے۔ اس میں صرف علماء کے کچھ لوگ مبتلا نہیں ہیں بلکہ engineer level کے لوگ بھی مبتلا ہیں، وہ بھی دوسری طرح غلطی کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک ساتھی ہیں ان کا نام بشیر احمد بگوی صاحب ہے۔ وہ سب کو کہتے ہیں کہ حضرت شامی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ 3 درجے کا فرق ہوتا ہے صبح صادق میں اور صبح کاذب میں اور جو لوگ یہ نہیں مانتے تو وہ حدیث کو نہیں مانتے حالانکہ وہ 3 درجے کا فرق مشاہداتی چیز ہے، science کی چیز ہے، مذہب کی چیز نہیں ہے۔ قرآن پاک کی کون سی آیت میں اور کون سی حدیث شریف میں لکھا ہے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے جو اس وقت کے سائنسدان کہہ رہے تھے اور اس وقت کے جن لوگوں نے مشاہدات کئے تھے ان کو صحیح مشاہدہ ہوا یا غلط مشاہدہ ہوا لیکن بہرحال انہوں نے ان کی بات کی ہے اور ان کا حوالہ بھی دیا ہے کہ ماوراء النہر کے کوئی astronomer تھے جنہوں نے یہ بات کی۔ تو انہوں نے اپنی طرف سے تو بات ختم کر دی۔ اب ان کی بات کو شامی کی بات سمجھ لینا اور اس کی مخالفت کو شامی کی مخالفت سمجھنا اور دین کی مخالفت سمجھنا یہ جہالت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ یہ چیف انجینئر ریٹائر ہوئے ہیں لیکن یہ غلطی ہے۔ یعنی یہ غلطی بہت عام ہے اور یہ چھوٹی غلطی نہیں ہے۔

اسی طرح مدارس میں سراجی پڑھائی جاتی ہے، ہم کہتے ہیں میراث پڑھاؤ سراجی نہ پڑھاؤ، سراجی ایک خاص طریقہ ہے اور طریقوں کے ذریعے سے بھی پڑھائی جا سکتی ہے یہ تو کوئی لازم نہیں ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں سراجی کا لفظ نہیں ہے۔ یہ تو ایک عالم تھے اور انہوں نے اپنے دور کی زبردست تحقیق کی بنیاد پر یہ کتاب لکھی اور بڑی خدمت کی، اللہ پاک نے اس کا بہت اجر دیا ہو گا۔ لیکن کیا وہ چیز مستقل رہے گی اگر اس سے بہتر کوئی چیز آ جائے تو ان طریقوں کو استعمال نہ کیا جائے اور سمجھا جائے کہ شاید یہ دین کے اندر مداخلت ہے۔ تو یہ سوچ دونوں طرف ہے۔ یعنی صرف علماء کی بات نہیں ہے بلکہ انجینئرز اور سائنسدان بھی اس میں شامل ہیں۔ دونوں طرف اگر کوئی ایسی سوچ رکھتا ہے تو اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ جو قرآن اور حدیث کی بات ہے وہ final ہے اور جو بعد کی باتیں ہیں ان کی جب تک کہ تائید ہوتی رہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر تائید نہ ہو اور اس کے بر عکس مزید کوئی اور چیز سامنے آ جائے تو ہم کہیں گے پہلے وہ بات تھی لیکن اب تبدیلی آ گئی ہے، تبدیلیاں تو آتی رہتی ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

medical line میں کتنی تبدیلیاں آئیں؟ تقریباً 30 سال 40 سال تک لوگ کہتے رہے کہ دیسی گھی کھانے سے دل کا عارضہ پیدا ہوتا ہے اور cholesterol بڑھتا ہے۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ نظام نہیں بدلا بلکہ سمجھ بدلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نظام پہلے سے پیدا کیا تھا وہی نظام چل رہا ہے لیکن سمجھ بدل گئی ہے۔ یہ بات بھی پتا چلی کہ با قاعدہ لوگوں نے قصداً بھی کچھ گڑبڑ کی ہے اپنی فیکٹریوں کو چلانے کے لئے۔ pharmaceutical کمپنیاں تو اس قسم کی بہت ساری گڑ بڑ کرتی ہیں۔ ان کی پوری ایک دنیا ہے، ان کا control ہے، ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کو علیحدہ سمجھنا ہو گا، جو دین کی باتیں ہیں وہ دین کے طور پر لینی ہوں گی اور جو دنیا کی باتیں ہیں وہ دنیا کے طور پر "اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُم" (علی بن محمد، نور الدین الملا الہروی، شرح الشفاء، ج 1 صفحہ 28) کو بالکل اسی مقصد کے لئے فرمایا گیا ہے اس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اجازت ہے دنیاوی طور پہ research کرنے کی اور تحقیق کی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے ذریعے سے دین میں تبدیلی لائی جائے بلکہ دین میں تبدیلی نہیں آ سکتی ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ: 3) دین کامل ہے اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ سمجھ میں تبدیلی آ سکتی ہے، استعمال کی چیزوں میں تبدیلی آ سکتی ہے، ذرائع میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ جیسے بہت سارے لوگ تصوف کے خلاف ہیں کہ یہ چیز صحابہ کے دور میں نہیں تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ صحابہ کے دور میں تصوف کی موجودہ صورت نہیں تھی کیونکہ یہ ذرائع ہیں۔ اِس وقت ذکر اذکار کے ذریعہ سے، مجاہدات کے ذریعے سے آپ اصلاح کرتے ہیں اور اُس وقت ذریعہ یہ تھا کہ آپ ﷺ کی صحبت میں بیٹھ کر دل کی اصلاح ہو جاتی تھی اور خود بخود غیر اختیاری مجاہدات کے ذریعے سے اصلاح ہو جاتی تھی تو اس وقت کے لئے ترتیب یہ تھی اور یہی تصوف تھا۔ لیکن تابعین کے دور میں اور چیزیں بھی داخل ہو گئیں پھر اس کے بعد تبع تابعین کے دور میں اور چیزیں بھی داخل ہو گئیں۔ تابعین کے دور میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تھے اور تبع تابعین کے دور میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ تھے پھر اس کے بعد بڑے بڑے محدثین حضرات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذرائع اور مقاصد کے اندر فرق نہ کرنے سے بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، اس کے ساتھ بڑے مسائل وابستہ ہیں جیسے ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِـيْـمَ صِرَاطَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْۙ غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ﴾ (الفاتحۃ: 5 6) ہم بار بار سورۃ فاتحہ میں جب پڑھتے ہیں تو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے دے جو حق ہے وہ حق سمجھیں اور جو باطل ہے وہ باطل سمجھیں اور سیدھا راستہ جو انبیاء کا طریقہ تھا، جو صدیقین کا، جو شہداء کا اور صالحین کا، اسی پہ ہمیں قائم کر دے اور زائغین کے شر سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے، جو ﴿مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ﴾ ہیں ان کے شر سے بھی اور جو ﴿ضَالِّین﴾ ہیں ان کے شر سے بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح راستے پر گامزن فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن