اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کی سیرت پاک سے ہمیں فقرا کی مالی امداد کا درس بھی ملتا ہے، یہاں تک کہ اگر آپ سے کوئی مانگتا اور آپ ﷺ کے پاس اگر اس وقت کچھ دینے کے لئے نہ ہوتا تو آپ ﷺ کسی سے قرض لے کر اسے دے دیتے۔ آج کے دور میں اس سنت پر عمل کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ جب کہ بعض لوگوں نے مانگنے کو با قاعدہ پیشہ بنا لیا ہے ان کا ظاہر دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ مستحق ہیں لیکن حقیقت حال کا کچھ پتا نہیں ہوتا، رہنمائی فرما دیں؟
جواب:
بہت مشکل سوال ہے کیونکہ تمام چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پہ رکھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے، بہر حال دین ہی رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح بات سمجھا دے (آمین)۔
اصل میں آپ ﷺ کی سنت تو یہی ہے، البتہ اللہ کا جو حکم ہے وہ پورا کرنا ہے۔ مثلاً زکوٰۃ صرف ادا کرنا نہیں ہے بلکہ مستحق تک پہنچانا ہے۔ آج کل کے دور میں جو لوگ زکوۃ لینے والے ہیں ان میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن پہ زکوۃ کسی وجہ سے نہیں لگتی لیکن وہ پھر بھی زکوٰۃ مانگتے ہیں۔ مثال کے طور پر مانگتے مانگتے ان کے account کا level اس سے بڑھ جاتا ہے جس کے اوپر زکوٰۃ نہیں لگتی لیکن وہ چھپاتے ہیں، مانگنے والے ہوتے ہیں، طریقے ان کو آتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ مستحق کے لئے رکاوٹ بن جاتے ہیں گویا کہ آپ کا مال مستحق تک نہیں پہنچتا اور جو لوگ آپ کے سامنے ہیں ان کو آپ دیتے ہیں۔ تو اس وقت مستحق کو تلاش کرنا آپ کا فرض ہے۔ فرض اور سنت میں بات آ جائے تو پھر کس کو لو گے؟ مطلب یہ ہے کہ اُس وقت حالات اور تھے اور اِس وقت حالات اور ہیں۔ آپ ﷺ کے وقت میں وہ بات بالکل ٹھیک تھی کیونکہ جو آتے تھے آپ ﷺ ان کو دے دیتے تھے لیکن آپ ﷺ کا دینا زکوٰۃ کا نہیں ہوتا تھا آپ ﷺ کے اوپر زکوٰۃ فرض نہیں تھی، کوئی چیز جمع ہی نہیں ہوتی تھی تو زکوۃ کیسے آتی؟ اب بھی اگر کسی کے اوپر فرض نہ ہو تو وہ دے دے جو بھی دے دے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لوگ تو اکثر فرض زکوۃ والی چیزیں ہی دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی سنت پوری کروں تو آپ ﷺ کی سنت عام مال کے بارے میں ہے۔ زکوۃ آپ ﷺ نے ادا ہی نہیں کی۔ ایسی صورت میں آپ نے خود تحقیق کرنی ہے تاکہ آپ کا مال صحیح جگہ پہ پہنچ جائے۔ البتہ پہلا حق رشتہ داروں کا ہے پھر اس کے بعد پڑوسیوں کا ہے، اس کے بعد مختلف لوگوں کا ہے۔ professional لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کے مال کھینچتے رہتے ہیں۔
آشیانہ چوک پر ہمارا گھر تھا، کرائے پہ لیا ہوا تھا۔ ایک پارٹی آئی، دو آدمی تھے اور کہا: مسجد صدیق اکبر سے ہم آئے ہیں، قاری صاحب نے کہا ہے پنکھے نہیں ہیں۔ آپ ہمیں کچھ پیسے دے دیں تاکہ ہم پنکھے خرید لیں۔ میرا مسجد صدیقِ اکبر میں ہر وقت اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا ان حضرات کے ساتھ، مجھے وہاں کی تو ہر چیز کا پتا ہوتا تھا۔ میں نے کہا: کون سے قاری صاحب نے کہا ہے؟ ان کو اندازہ ہو گیا کہ یہ آدمی جانتا ہے۔ تو فوراً کہا: جامعہ صدیقیہ سے آئے ہوئے ہیں۔ یعنی مسجد صدیقِ اکبر سے فوراً جامعہ صدیقیہ کی طرف منتقل ہو گئے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ فراڈی لوگ ہیں، بہر حال میں نے ان کو کچھ دئیے بغیر فارغ کر دیا اور وہ بھی جلدی چلے گئے کہ بھئی یہ آدمی تو جاننے والا ہے، کہیں پکڑوا نہ دے۔ لیکن بعد میں پکڑے گئے۔ قاری لطیف الرحمن صاحب نے مجھے بھی ساتھ بٹھا دیا اور ان کو پولیس لے گئی پھر قاری صاحب نے S.H.O کو فون کیا اور کہا: خوب مارو بس ان کے اوپر نشان نہ پڑ جائے باقی آپ کو آزادی ہے، تو ان کو خوب مارا، کیونکہ دھوکا دیکر لوگوں کا مال بٹور رہے تھے۔
اسی طرح ایک اور صاحب تھے، مسجد میں کھڑے ہو کر کلمہ پڑھا اور اس کے بعد پورا بیان کر دیا۔ کسی صاحب نے ان سے کہا: اتنے سارے لوگوں سے مانگ کر کیا کرو گے؟ میرے ساتھ آ جاؤ، میں کسی کو کہہ دوں گا وہ آپ کو دلوا دے گا۔ اس طریقے سے اس کو کمرے میں لے گئے پھر دروازہ بند کر دیا اور پھر اس کی جو inquiry شروع کی تو پتا چلا کہ سارا جھوٹ تھا۔ پھر اس کو کہا کہ ناک رگڑو تو اس نے ناک رگڑا۔ پھر جب اس کو مارنے لگے تو اس نے اپنے اوپر shivering کی کہ جیسے کوئی مسئلہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے دو چار اور لگائیں کہ اور ناٹک کرو، ہمیں پتا ہے کہ تم ناٹک کر سکتے ہو۔ بس پھر اس کے بعد معافی مانگنے لگا۔ کلمہ پڑھ کر آج کل کے دور میں کیا کیا طریقے لوگوں نے استعمال کئے ہیں؟ پہلے لوگ لفٹ دیتے تھے لیکن اب لوگ لفٹ دینے کا تصور بھی نہیں کرتے کیونکہ ہر طریقہ استعمال کیا گیا ہے دھوکے کا۔ جھوٹے خواب والا طریقہ بھی اختیار کیا ہے۔ مجھے لوگوں نے کہا: خواب میں آپ ﷺ کو دیکھا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ مجھے وہ چیز دے دیں۔ کسی نے مجھے کہا: فلاں آدمی کے خواب میں آپ ﷺ آئے اور فرمایا کہ فلاں آدمی کو آپ سے کچھ دلوا دیں۔ میں نے کہا: آپ ﷺ ان کو جب خواب میں خود آ جائیں گے تو پھر وہ کر لیں گے کیونکہ آپ ﷺ ان کے خواب میں بھی تو آ سکتے ہیں ضروری تو نہیں کہ آپ کے خواب میں آ جائیں۔ اس کے بعد میں نے ان کو چپ کروا دیا، اب ہر طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیا کریں؟
ایک آدمی لفٹ مانگ رہے تھے اور دوسرے آدمی ان سے پیچھا چھڑا رہے تھے تو انہوں نے کہا: کہاں گئے وہ لوگ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے ﴿وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ (الحشر: 9) ”اور اپنے نفسوں پر وہ دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں، اگرچہ خود وہ فاقہ ہی میں مبتلا ہوں“ انہوں نے جواب دیا کہ وہ ﴿لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ اِلْحَافًا﴾ (البقرۃ: 273) ”وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے“ کے ساتھ چلے گئے۔
مقصد یہ ہے کہ آج کل کے دور کی بات کو آج کل کے دور کے لحاظ سے دیکھا جائے گا اور شریعت یہی ہے کہ اس وقت معاملہ کو دیکھو کہ جیسے فتویٰ حالات کو دیکھ کر بدلا جاتا ہے۔ یعنی استفتاء کے مطابق فتویٰ ہوتا ہے بغیر استفتاء کے فتویٰ نہیں ہوتا۔ تو استفتاء جس قسم کا ہو گا تو اس قسم کا فتوی بھی ہو گا۔ تو جس قسم کے حالات ہوں گے اس قسم کی بات بھی ہو گی۔ بہرحال ہمیں احتیاط بھی کرنی چاہیے، خیرات بھی کرنی چاہیے۔ تاکہ اللہ راضی رہے اور ہمیں کوئی دھوکا بھی نہ دے سکے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن