درود تاج کی شرعی حیثیت

سوال نمبر 383

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

یہ سوال 26 جون 2019 کو ایک محترمہ نے مجھے بھیجا تھا، مجھے ایک text بھیجا گیا اور اس کے اخیر میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ ".Is it right? Kindly explain" یعنی جو میں بھیج رہی ہوں، کیا یہ صحیح ہے؟ اس کو ذرا explain کر دیں۔ اس نے ایک چھوٹا سا article بھیجا جو کسی نے درودِ تاج کی شرعی حیثیت کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔

آج کل قرآن سے دوری اور غفلت کی وجہ سے عوام الناس مختلف قسم کی بدعات و رسومات میں مبتلا ہیں، کبھی فعل میں بدعت تو کبھی قول میں بدعت۔ ان میں سے ایک بدعت جو کہ آج کل لوگوں میں زیادہ مشہور ہے وہ درود تاج ہے۔ ہر مسلمان درود شریف کے ثواب کا قائل ہے مگر وہ درود شریف جو احادیث شریفہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہو۔ ایسا نہ ہو کہ خود اپنے الفاظ میں بنایا گیا ہو پھر اس میں ثواب مانا جائے۔ درود تاج میں ایسے الفاظ شامل ہیں جن کو پڑھنے سے اور ان پر یقین کرنے سے انسان اپنی اصل حالت سے دور جا سکتا ہے۔ ان الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت نا مناسب کلمات موجود ہیں جیسے "دَافِعُ الْبَلَآءِ وَ الْوَبَاءِ وَ الْقَحْطِ وَ الْمَرَضِ وَ الْأَلَمِ" ”کہ مصیبتوں، بلاؤں، قحط، بیماریوں اور دردوں کو دور کرنے والے ہیں“۔ حالانکہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام مصیبتیں خواہ وہ قحط ہو یا بیماریاں ہوں، لانے والے اور دور کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں۔

اس درود کی حقیقت کسی مستند کتاب سے ثابت نہیں لہٰذا اس کو چھوڑ دینا چاہیے۔ مولانا مفتی عبد الرحیم لاج پوری لکھتے ہیں: ”درودِ تاج کے الفاظ قرآن پاک اور حدیث شریف کے نہیں ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، تابعین اور سلف صالحین وغیرہ سے درود تاج پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ درود تاج سینکڑوں برس بعد کی ایجاد ہے جس درود کے الفاظ آنحضرت ﷺ نے اصحاب کرام کو سکھلائے ہیں کوئی دوسرا درود اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا“۔ (فتاویٰ رحیمیہ، جلد دوم، صفحہ نمبر: 296) صدر دار العلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی لکھتے ہیں: ”درودِ تاج کے جو فضائل عوام بیان کرتے ہیں وہ محض لغو اور غلط ہیں، احادیث میں جو درود پاک وارد ہیں وہ یقینًا درودِ تاج سے افضل ہیں۔ نیز اس میں بعض الفاظ شرکیہ ہیں لہٰذا اس کو ترک کرنا چاہیے“۔ (فتاویٰ محمودیہ، جلد نمبر: 1، صفحہ نمبر: 222) مفتی رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”درودِ تاج کے جو فضائل بعض جاہل بیان کرتے ہیں بالکل غلط ہیں۔ اس کا مرتبہ بجز شارع علیہ السلام کے فرمانے کے معلوم ہونا محال ہے اور درود تاج کی ایجاد صد ہا سال گزرنے کے بعد ہوئی“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، جلد نمبر: 1، صفحہ نمبر: 162) مفتئ اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی لکھتے ہیں کہ: ”درودِ تاج اور دعائے گنج العرش کی اسناد بے اصل ہیں“۔ (کفایت المفتی، جلد نمبر: 2، صفحہ نمبر: 17) یہ سب لکھنے کے بعد یہ بات کی گئی ہے کہ ".Is it right? Kindly explain"

جواب:

اس میں جن بڑوں کا حوالہ دیا گیا ہے، ان کے مقابلے میں تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ ان کی بات پر مزید ہم کیا عرض کریں، البتہ اس چیز کو سامنے لانے کے لئے صرف اتنی بات کروں گا کہ درود پاک کا مقام بہت زیادہ ہے کیونکہ اللہ پاک نے خود اس کا حکم فرمایا ہے: ﴿اِنَّ اللهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الأحزاب: 56) لہذا ہماری بات کو درود پاک کی مخالفت نہ سمجھا جائے کیونکہ درود پاک کے ہم نہ صرف قائل ہیں بلکہ الحمد للہ اس کے داعی بھی ہیں اور ما شاء اللہ ہماری خانقاہ میں لاکھوں کی تعداد میں پڑھا جاتا ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ سال ربیع الاول میں 64 کروڑ بار پڑھا گیا تھا اور گزشتہ سال ہمارے پاس پہنچنے والی تعداد غالبًا پینتیس یا چھتیس کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ اس طرح ہمارے ساتھی کروڑوں کی تعداد میں (اللہ پاک کا شکر ہے) پڑھتے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری بات کو درود پاک کی مخالفت نہ سمجھا جائے۔ ہم نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ پڑھنے کی تلقین بھی کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ایک ہوتا ہے کام کرنا۔ جیسے کوئی آدمی کو آپ کو کہتا ہے کہ کام کرو تو اس کے اندر By default یہ موجود ہوتا ہے صحیح کام کرو۔ اس کا مطلب کوئی بھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ غلط کام کرو۔ کم از کم یہ تو ہم کہہ ہی سکتے ہیں کہ کوئی شریف آدمی کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ غلط کام کرو۔ کیونکہ غلط آدمی غلط کام کا کہہ سکتا ہے جیسے اگر ڈاکو کسی کو کہے تو وہ ڈاکہ ڈالنے کے لئے کہہ سکتا ہے، لیکن کوئی شریف آدمی یا ولی اللہ کسی کو یہ نہیں کہہ سکتا غلط کام کرو لہذا صرف "کام کرو" کو نہیں دیکھا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کس چیز کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ اسی طرح درود پاک پڑھنے کا حکم ہے، قرآن میں اللہ پاک نے درود پاک کا بتایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درود شریف کے فضائل بتائے ہیں، صحابہ کرام سے احادیث شریفہ میں درود شریف کے مختلف صیغے منقول ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سکھائے تھے۔ ہمارے ہاں چہل درود شریف پڑھا جاتا ہے جو چالیس مستند احادیث شریفہ سے مروی ہے۔ یہ چونکہ مستند مجموعہ ہے لہذا اس پہ کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی سند موجود ہے۔ اس لئے اس کی بات الگ ہے۔ لیکن اگر صرف اللہ پاک کے حکم ﴿إِنَّ اللهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ﴾ (الأحزاب: 56) کو لے کر یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیان کردہ درود پاک کے فضائل کو لے کر ہم کسی ایسے درود پر جو ہم نے اپنی طرف سے بنایا ہو، منطبق کرنا چاہیں تو اس کے لئے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے کہ آیا یہ وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے یا اس سے کچھ مختلف ہے۔ اگر بالکل آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول درود پاک کی طرح ہو تو کوئی حرج نہیں، بھلے بعد میں ہی بنایا گیا ہو۔ اگرچہ اس کا مقام اتنا بڑا نہیں ہو گا جتنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول درودوں کا ہے لیکن یہ غلط بھی نہیں ہو گا، لہذا اس کو پڑھنے میں ثواب بھی ملے گا۔ اس کی ایک مثال امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور درود شریف ہیں جو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی قبولیت کا بہت بڑا ذریعہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ جو اصحابِ فکر حضرات ہیں ان کو یہ بات معلوم ہے۔ لیکن یہ بات جاننے کے با وجود کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا درود بڑا مقبول ہے، میں وہ نہیں پڑھتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو کمزور سمجھتا ہوں، وہ ان کا ایک حال تھا جس میں ان سے یہ ہوا تھا اور وہ حال بڑا مقبول تھا لیکن سارے لوگوں کے حال ملا کے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مقام کے برابر نہیں ہو سکتا لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول درود کی بات ہی الگ ہے۔ کیونکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تو اپنا ایک حال تھا لہذا ان کے لئے معاملہ الگ تھا لیکن ہم تو یہ دیکھیں گے کہ آپ ﷺ یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ میں سے کس کو لیں؟ تو ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے درود مبارک کو ہی ترجیح دیں گے۔ بس اتنی سی بات اگر سمجھ میں آ جائے تو میرے خیال میں کوئی اعتراض نہیں رہتا۔

میں نے عرض کیا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے دل کے بہت قریب اولیاء اللہ میں سے ہیں لیکن ان کا درود پاک بھی جو ہم نہیں پڑھ رہے تو اس وجہ سے نہیں پڑھ رہے۔ یعنی میں یہ نہیں کہتا کہ آپ نہ پڑھیں، میں کسی اور کی ذمہ داری نہیں لیتا، خود اپنی بات بتا رہا ہوں کہ اگرچہ میں اس کو انتہائی مقبول مانتا ہوں لیکن اس کے با وجود بھی نہیں پڑھتا۔ بلکہ وہی پڑھتا ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں، میں ایک مرتبہ ایک بہت بڑے عالم کے ساتھ سفر میں جا رہا تھا تو میں نے حضرت سے کہا کہ حضرت! میں کبھی کبھی یہ گنگناتا ہوں:

بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ

کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِہٖ

حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ آلِہٖ

(یہ بھی انتہائی مقبول بزرگ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا درود ہے، ظاہر ہے کہ ہم اس کو غلط نہیں کہتے) تو حضرت نے بہت محتاط جواب دیا، فرمایا: سبحان اللہ! بہت اچھا ذوق ہے، لیکن اس سے بھی اچھی بات بتاؤں؟ میں نے کہا جی حضرت! ضرور بتائیے۔ تو فرمایا کہ دیکھیں! اگر آپ اپنے کام کے سلسلے میں کسی افسر سے ملتے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ میں آپ کی درخواست منظور کر لیتا ہوں لیکن یہ ان الفاظ میں لکھ دو، اور وہ الفاظ آپ کو بتا دے۔ لیکن آپ اپنی طرف سے محنت کر کے اپنے خیال میں بہتر الفاظ میں آپ درخواست لکھ کر اس کے سامنے لے جائیں، یہ درخواست دیکھ کر اگر اس نے آپ سے کہہ دیا کہ کیا میرے الفاظ میں کوئی کمی تھی کہ آپ نے ان میں تبدیلی کی تو آپ کا سارا معاملہ خطرے میں پڑ جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ وہ آپ کو شاباش بھی دے کہ آپ نے بڑی محنت کی لیکن اس اعتراض کا chance بھی ہے تو کیا ہمارے پاس اس chance لینے کی کوئی گنجائش ہے کہ ہم لوگ risk لے لیں؟ اگر آپ ان الفاظ میں درود پڑھیں جن میں آپ ﷺ نے درود پاک پڑھا ہے تو کوئی خطرے کی بات نہیں، فائدہ ہی فائدہ ہے۔ دوسری صورتوں میں مختلف نتائج ممکن ہیں تو ہم اپنے آپ کو کیوں خطرے میں ڈالیں۔ یہ بہت عمدہ تمثیل تھی۔

اس کے بعد سے میرا یہ حال بن گیا کہ میں وہی مخصوص درود پاک جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں، پڑھتا ہوں اور ان میں بھی میں درود ابراہیمی کو سب سے افضل سمجھتا ہوں کیونکہ اس کو امت نے نماز کے لئے چنا ہے۔ اس لئے اگر میں لمبا درود پڑھنا چاہوں تو درود ابراہیمی پڑھتا ہوں اور اگر مختصر پڑھنا چاہوں تو ان میں سے جو مختصر ہو گا جیسے: "وَ صَلَّی اللهُ عَلَی النَّبِّی الاُمِّیِّ صَلَّی اللهُ عَلَی النَّبِّی مُحَمَّدٍ" یا اس قسم جو کے اور مختصر درور پاک ہیں، وہ میں پڑھ لیتا ہوں جیسے: "جَزَی اللّٰهُ عَنَّا مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم بِمَا ھُوَ أَھلُہٗ" یا اس طرح اور درود پاک جو مختصر ہیں، وہ پڑھ لیتا ہوں۔ یعنی با وجود اس کے کہ باقی درودوں کو میں صحیح بھی مانوں لیکن میں وہی پڑھتا ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔

اب درود تاج کی طرف آتے ہیں، میں نے یہ ساری لمبی تمہید اس لئے باندھی کہ کم از کم درود تاج والے مجھ پر یہ الزام نہ لگا دیں کہ میں درود کا مخالف ہوں یا میں کسی شخص کا مخالف ہوں جس نے درود تاج بنایا ہے۔ ایسی بات نہیں ہے، ہم اپنے آپ کے حامی ہیں، کسی کے مخالف نہیں ہیں، ہم خود اپنے آپ کو کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے، کسی کمی یا نقصان کو برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ اگر یہ بات ہے تو میرے خیال میں درود تاج کے بارے میں ان بزرگوں نے جو لکھا ہے کہ یہ بے اصل ہے تو اس لئے لکھا کہ یہ مستند نہیں ہے، کیونکہ یہ سینکڑوں برس بعد لکھا گیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے اس میں ایسے صیغے ہیں جو شرک کی طرف لے جاتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام اتنا ادب سے لیتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ جل شانہٗ سے لینے کا ذریعہ ہیں لیکن مانگنا اللہ سے ہی ہے۔ چونکہ قرآن کی ابتدائی سورت، سورہ فاتحہ کی وسطی آیت میں ہمیں با قاعدہ جو دعا سکھائی گئی ہے کہ: ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ (الفاتحہ: 4) ترجمہ: ”(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں“۔ اور پہلی دعا ہی ہم یہ کرتے ہیں: ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ 0 صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ ۙ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَ لَا الضَّآلِّيۡنَ﴾ (الفاتحہ: 5-6) اللہ پاک نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے تو ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ میں ہم لوگ تھوڑا سا گم ہو جائیں اور دیکھیں کہ اس میں کون سا جہان آباد ہے۔ سبحان اللہ! اللہ جل شانہٗ سے لینے کا اور اس طرف متوجہ ہونے کا کیا ہی عجیب انداز ہے۔ اللہ کے ہاں سب سے اونچا مقام وہ ہے جو عبدیت اور بندگی سے بنتا ہے، أَشْهَدُ أَنْ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُولُهٗ۔ اپنے آپ کو جتنا اللہ کے سامنے گراؤ گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ بلند فرمائے گا، حدیث شریف میں آتا ہے: "مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰهِ دَرَجَةً رَفَعَهُ اللّٰهُ دَرَجَةً" (مسند أحمد، حدیث نمبر: 11724) ترجمہ: ”جس نے اللہ کے سامنے اپنے آپ کو گرا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کو بلند کر دیا“۔ تو جتنی احتیاج کے ساتھ اللہ کے سامنے ﴿إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ کے الفاظ ادا کرو گے اتنا ہی قبولیت کے قریب ہو گے۔ اللہ پاک نے آپ کو ہر رکعت کے اندر یہ موقع دیا ہے تو کیوں نا اس کو استعمال کیا جائے۔ حاصل یہ کہ ایک بات یہ ہے کہ اللہ سے ہی مانگنے کا حکم ہے۔ اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو یہی ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ سکھایا تھا بدر کے مقام پر بھی یہی ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اللہ سے مانگ رہے تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اللہ سے مانگ رہے تھے، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اللہ سے مانگ رہے تھے، وہ سب اللہ سے ہی مانگ رہے تھے۔ ہمیں بھی اللہ پاک سے ہی مانگنا چاہیے۔

اس کے بعد بھلے اللہ پاک کسی بھی ذریعے سے دے، وہ اس کا کام ہے، اس کے پیچھے فرشتوں کا ایک پورا نظام ہے۔ اگر وہ فرشتوں کے ذریعے مجھے دے رہا ہے تو کیا مجھے فرشتے بذاتِ خود دے رہے ہیں؟ میرا عقیدہ ہے کہ فرشتوں کے ذریعے یہ کام اللہ تعالیٰ کرواتے ہیں۔ فرشتوں کے بارے میں تو قرآن میں ہے کہ وہ اپنے آپ سے کچھ بھی نہیں کرتے، ان کو جیسے کہا جاتا ہے، وہ وہی کرتے ہیں۔ یعنی ان کی تربیت ہی ایسی ہے کہ انہیں کہہ دیا جائے کہ اس طرح کر لو تو اس طرح ہو جائے گا اور اگر فورًا کہہ دیا جائے کہ دوسری طرح کر لو تو دوسری طرح کر لیں گے۔ ان میں ذرا بھر بھی دیر لگانے والی عادت نہیں ہوتی۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام جب اسماعیل علیہ السلام کو ذبح فرما رہے تھے تو اللہ پاک نے جیسے ہی order دیا تو جنت سے فوراً مینڈھا حاضر کیا گیا، درمیان میں دیر نہیں ہوئی۔ چنانچہ فرشتے یہی کرتے ہیں، وہ کچھ بھی اپنی طرف سے نہیں کرتے جیسے فرمایا گیا کہ: ﴿یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ (النحل: 50) ترجمہ: ”وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے“۔ یہ محض ذریعہ ہیں، کرتا وہی ہے جس نے order دیا۔ اسی طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ پاک سے لینے کا بہت سب سے بڑا ذریعہ ہیں لیکن اللہ جل شانہٗ کے حکم سے ہی ملتا ہے۔ یہی بنیادی بات ہے کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور اللہ سے مانگیں۔ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ پر عمل ہو تو اس کے بعد ایسی بات نہیں ہے کہ وہاں سنا نہ جائے، وہاں رحمت ہی رحمت ہے، میں تو یہاں تک کہتا ہوں اللہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں۔ خدا کی قسم! اگر ان سے زیادہ بہتر الفاظ ہوتے تو میں وہی کہتا۔ ان سے بہتر الفاظ نہیں ہیں، جیسے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الفاظ کی تنگ دامانی ہے، چنانچہ ہم لوگ مزید اور کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں۔ کس طرح مہربان ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو میری طرف ایک بالشت آتا ہے، میری رحمت اس کے طرف دو بالشت جاتی ہے اور جو میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے۔ جو میری طرف چل کے آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ یعنی ہم کچھ کرنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ اس محنت سے بہت زیادہ بدلہ ہمیں دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ پاک سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے مطابق لینے والے بن جائیں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ سے مانگا، صحابہ کرام کو اللہ پاک سے مانگنا سکھایا، تو ہم لوگ بھی یہی بات سیکھ لیں۔ "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ أَصْحَابِيْ" (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 2641) کے قانون کے مطابق کہ ہم بھی اللہ پاک سے مانگیں اور اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں۔

درودِ تاج اگر ان الفاظ میں ہوتا جیسے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے تو کوئی بات نہیں تھی، ہم کہتے کہ اگرچہ منقول درود پاک نہیں ہے لیکن بہر حال اس کے مطابق ہے۔ لیکن اگر اس میں کچھ ایسی چیزیں آ جائیں جو ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ کے خلاف ہو تو پھر کم از کم ایسی چیزوں سے رکنا چاہیے۔ بس اتنی سی بات میں عرض کرنا چاہتا تھا، باقی ہم نہ کسی کی ذات کے خلاف ہیں، نہ کسی چیز کا انکار کرتے ہیں۔ درود پاک کا بھی انکار نہیں کرتے، درود پاک کے فضائل کا بھی انکار نہیں کرتے، درود پڑھنے والوں کا بھی انکار نہیں کرتے؛ ہم تو کہتے ہیں کہ درود پاک خوب پڑھیں، اس میں ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ پڑھیں اس طریقے سے جس طریقے سے صحابہ کرام نے پڑھا ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ