آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجتہادات اور ان پر وحی کی تنبیہ

سوال نمبر 356

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم کے صفحہ نمبر 88 پر آپ ﷺ کے اجتہادات کے ضمن میں فرماتے ہيں کہ آپ ﷺ کی نبوت کے 23 سالوں ميں ہزاروں واقعات اور امور پیش آئے جن پر آپ نے اپنے اجتہاد اور شرح صدر سے فیصلے صادر کئے مگر ان میں کُل پانچ باتیں ایسی ہیں جن پر وحی کے ذریعے تنبیہ ہوئی اور عجیب تر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بات پھر ایسی نہیں ہے جس کا تعلق دینی حکم، شریعت ابدی، اعتقاد، عبادات یا شرعی معاملات سے ہو بلکہ وہ کل کے کل امور ایسے ہیں جن کی حیثیت تمام تر شخصی یا جنگی ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

آپ ﷺ پیغمبر ہیں اور پیغمبر خود کچھ نہیں کہتا بلکہ اس سے کہلوایا جاتا ہے یعنی اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو اس کو دیا گیا وہ آگے پہنچائے۔ اس کے لئے بنیادی شرط ”امین“ اور ”صادق“ ہونا پہلے سے ان میں پائی جاتی ہے، لہذا وہ امانت دار ہوتے ہیں کوئی چیز چھپاتے نہیں اور صادق ہوتے ہیں جھوٹ نہیں بولتے۔ اور جو بات ان کو ملی ہے وہ دو صورتوں میں ہے ایک یہ ہے کہ براہ راست فرشتے کے ذریعے سے وحی آ گئی اور دوسرا جو دل پر اتارا گیا یا جو سمجھ عطا کی گئی ہے۔ اب جو سمجھ عطا کی ہوتی ہے وہ بھی وہی ہوتی ہے جو وحی کے ذریعے سے لائی جاتی ہے لیکن کبھی کبھار اللہ پاک ایک چیز دکھانے کے لئے ایسے حالات پیدا فرما دیتے ہیں جن سے پتا چل جاتا ہے کہ supremacy وہی ہے، یعنی یہ دکھانے کے لئے کہ پیغمبر بھی وحی کا پابند ہے۔ چنانچہ سمجھ کے اندر ایسی چیزیں ہو جاتی ہیں جو اچھی ہوتی ہیں لیکن اس سے اچھی چیز کی طرف وحی رہنمائی فرما لیتی ہے۔ یعنی ایک ہوتی ہے اچھی اور ایک ہوتی ہے اس سے اچھی تو اس سے اچھی چیز کی طرف وحی رہنمائی کر دیتی ہے۔ اس میں بھی یہ پیغام ہے کہ اللہ جل شانہ ہماری سمجھ سے زیادہ ہمارے معاملات کو جانتے ہیں اور ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہیں۔ چونکہ پیغمبر نمونہ ہیں تو اس وجہ سے کچھ ایسی باتیں ہو جاتی ہیں جن کو وحی مزید بہتر کر دیتی ہے اور چونکہ کام ایسا ہے لہذا وہ رہنمائی بھی بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ان واقعات میں حضرت عبد اللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے، بدر کے قیدیوں کا واقعہ ہے جو آپس میں مشورہ ہوا تھا کہ ان کو قتل کیا جائے یا فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے؟ آپ ﷺ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے تھی کہ قتل نہ کیا جائے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ قتل کیا جائے اور وحی بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوئی لیکن کہا گیا کہ آپ لوگوں نے مشورہ کر لیا تو اللہ کی رائے بھی اب یہی ہے لیکن اس یہ پتا چل گیا کہ اللہ پاک کیا چاہتا تھا؟ غزوہ تبوک سے واپسی پر جب منافقین نے اپنے نہ جانے کے عذر بیان کئے اور آپ ﷺ نے ان کے عذر قبول کر کے ان کو معاف کیا اور چوتھا جب آپ ﷺ نے منافقین کے سردار عبد الله بن ابی کی نماز جنازہ پڑھی اور پانچواں جب آپ ﷺ نے اپنی بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو خوش کرنے کے لئے ایک مباح چیز کو اپنے اوپر حرام کر دیا تھا۔ ان واقعات پر اللہ تعالیٰ کی طرف جو احکامات نازل ہوئے وہ ان کاموں سے مختلف تھے جو کہ آپ ﷺ نے کئے۔ ان باتوں میں کوئی دینی حکم نہیں تھا جس کی خلاف ورزی ہو چکی ہو۔ البتہ اپنی صوابدید پر جو کام کئے تھے آپ ﷺ نے وہ بھی ٹھیک تھے لیکن ایک دوسرا version بھی تھا جو اللہ کو پتا تھا اور اللہ پاک نے وحی نازل فرمائی تو آپ ﷺ نے پھر اسی کو اختیار فرمایا۔ جیسے عبد اللہ ابن مکتوم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے قریش مکہ کے سرداروں کو بڑی مشکل سے جمع کیا کیونکہ وہ کب آسانی سے قابو آنے والے تھے۔ عبد اللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نابینا تھے ان کو بھی پتا نہیں چلا کہ آپ ﷺ کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ وہ کوئی مسئلہ معلوم کرنے کے لئے آ گئے۔ آپ ﷺ کو تغیر ہوا کہ یہ تو بعد میں بھی آ سکتا ہے یہ تو اپنا ہے کیونکہ میں نے ان کفار کو بڑی مشکل سے جمع کیا ہے۔ مثال کے طور پر تبلیغی جماعت کے لوگوں نے بڑی مشکل سے گشت کیا اور لوگ جمع ہو گئے ان کو لیکر بیٹھے ہوئے ہیں اور بیان کر رہے ہیں اور جو بیان کر رہے ہیں وہ عالم ہیں ان سے اپنا ساتھی کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے آ جائے تو کیا وہ بیان کو چھوڑ کر اس کو جواب دے گا؟ بہرحال اگر نابینا نہیں ہے تو وہ اس وقت پوچھے نہیں لیکن اگر اس نے پوچھا تو پھر اس کو جواب دینا چاہیے کیونکہ نا بینا ہے اور اس کو معلوم نہیں ہے تو اس کا عذر قبول ہے۔ اس کو ضرورت ہے اور وہ طالب ہے اور یہ جو باقی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں یہ طالب نہیں ہیں یہ صرف اور صرف ان کے اوپر محنت کی جا رہی ہے۔ طالب کا حق زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات فرمائی کہ آپ نے ان کے اوپر کیوں تغیر کیا؟ یعنی یہ طالب تھا، وہ لوگ اگر نہ بھی مانیں تو اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں۔ اس کو اب استدلال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم خانقاہ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور خانقاہ میں اپنے اپنے پراگراموں کو کاٹ کر کوئی کراچی سے آ رہا ہے، کوئی فیصل آباد سے، کوئی امریکہ سے، کوئی انگلینڈ سے، کوئی پشاور سے آ رہا ہے۔ اب تبلیغی جماعت والے میرے پیچھے آ جائیں کہ فلاں جگہ پر اجتماع ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ کیا مجھے جانا چاہیے؟ تبلیغ کا کام لوگوں کے ساتھ ملنا ہے دین کے لئے، تو لوگوں کے ساتھ ملنا دو طرح کا ہے۔ لوگ آپ کے پاس آ جائیں پھر بھی ملنا ہو گیا اور اگر آپ لوگوں کے پاس چلے جائیں پھر بھی ملنا ہو گیا، ان دونوں میں فرق نہیں ہے۔ لیکن جو آپ کے پاس آ رہا ہے وہ طالب ہے جن کے پاس آپ جا رہے ہیں ان کو طالب بنایا جا رہا ہے۔ تو بتاؤ حق کس کا زیادہ ہے؟ اسی واقعے کو بنیاد بنا کر پتا چلا کہ حق تو ان کا زیادہ ہے جو اپنا وقت نکال کے آ رہے ہیں میں ان لوگوں کو چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے چلا جاؤں تو یہ ان کی حق تلفی ہو گی۔ البتہ باقی لوگ اس طرح نہ کریں، ان کی اگر ایسی کوئی ذمہ داری نہ ہو وہ جائیں۔ تبلیغی حضرات پر یہ بات سوار ہے کہ ہر ایک آدمی ہلے، ہر ایک آدمی جائے۔ یہ ان کا حق نہیں، اس طرح وہ نہیں کہہ سکتے۔

ایک جماعت ہمارے پاس کوئٹہ سے آئی تھی، بڑے نیک لوگ تھے اور وہ ما شاء اللہ مشائخ کے ساتھ ملنے جلنے والے تھے لہٰذا وہ سمجھ رکھتے تھے۔ ہم نے ناشتے کی دعوت کی تو دوسرے حضرات کو پتا چل گیا کہ راستہ کھل گیا ہے تو وہ بھی آ گئے۔ میں بیٹھا ہوا تھا اور ان کے ساتھ بات ہو رہی تھی تو انہوں نے دوسرے لوگوں کو دعوت دینا شروع کر دی۔ یہ بات اصول کے خلاف ہے کیونکہ جہاں پر آپ جائیں وہاں کے اصول کے مطابق کام کریں، ان کو تو با قاعدہ specially یہ کہا بھی جاتا ہے۔ جو بات کرنے والے تھے وہ عالم تھے اور ان کو اس بات کا پتا نہیں تھا۔ میں نے ذرا غصے سے کہا: یہ خانقاہ ہے، مدرسہ نہیں ہے۔ خانقاہ کے اپنے اصول ہوتے ہیں، آپ آئے ہیں تو آرام سے بیٹھ جائیں خانقاہ کے اصولوں کے مطابق۔ یہاں آپ دعوت دینے کے لئے نہیں آئے بلکہ ملنے کے لئے آئے ہیں، اس جگہ خود لوگ آتے ہیں، یہاں آپ کسی کو دعوت نہیں دے سکتے، آپ ملنے کے لئے آئے ہیں بس مل لئے ملاقات ہو گئی بہت اچھا ہے۔ بعد میں میں نے ساتھی کو کہا: یہاں ایک کاغذ لکھ کے لگا دو کہ جو بھی یہاں آئے تو خانقاہ کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ کرے۔ آنا ہے تو بالکل آ جائیں آپ کی اپنی جگہ ہے لیکن اصول کے مطابق آ جائیں یہاں foreigner بن کے نہ آئیں بلکہ اپنا بن کر آئیں۔ ہمارے پاس دلیل یہی حضرت عبد اللہ ابن مکتوم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ آپ ﷺ نے بہت اچھا کام کیا تھا کہ دعوت دی تھی اور سرداروں کو جمع کیا تھا اس سے بڑا کام اور کیا ہو سکتا ہے ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللہِ (فصلت: 33) جو اللہ کی طرف بلائے اس سے بہتر بات اور کون سی ہو سکتی ہے؟ تو آپ ﷺ بہترین کام کر رہے تھے لیکن حقوق کا معاملہ بہت اوپر ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ اس کی طلب تھی، اس کا حق تھا، اس لئے اس کی آپ بات سن لیتے۔

اس سے ایک زبردست قسم کا ہمارے لئے اصول بن گیا کہ بھئی جہاں لوگ خود طالب بن کر آ رہے ہوں ان کا حق ان سے زیادہ ہوتا ہے جن کے اوپر آپ محنت کر رہے ہیں، ان کو آپ نے importance دینی ہے اور آگے دوڑ پیچھے چھوڑ والا معاملہ نہیں کرنا چاہیے کہ بس صرف دعوت ہی دیتے رہیں۔ اذان اس لئے دیتے رہیں کہ لوگ اذانیں دینے لگیں؟ نہیں بھئی اذان اس لئے دیں کہ لوگ نماز پڑھیں۔ ہر چیز کا اپنا ایک کام ہے۔ مثال کے طور پر میں صرف داعی بنانا چاہوں کہ کسی کو دعوت دی، پھر وہ دوسرے کو دعوت دے، پھر وہ تیسرے کو دعوت دے، مثال کے طور پر دعوت ہم دے رہے ہیں کہ دین پر آؤ تو دین کو سمجھنے کے لئے time نکالے گا، دین کو سمجھے گا تو دین پر چلے گا اور دین کو سمجھنے کے لئے علماء کے پاس جائے گا۔ پھر دین کی سمجھ تو آ گئی لیکن دین پر عمل کرنے کے لئے نفس کی مخالفت ہے تو نفس کی اصلاح کا ان کو موقع دو گے یا نہیں دو گے؟ اگر نہیں دیں گے تو دین پر عمل کیسے کرے گا؟ یہ ساری باتیں آپس میں interrelated ہیں اور سب دین کے کام ہیں، اگر ہم بشاشت کے ساتھ ان سارے کاموں کو مان لیں تو ان کا فائدہ ہمیں ہو گا اور اگر بشاشت کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا تو خدا نخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی دینی کام کے مخالف نہ بن جائیں۔ کسی بھی دین کے کام کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، سارے کام اپنے اپنے لحاظ سے ضروری ہیں، اپنے اپنے domain میں، اپنے اپنے دائرہ کار میں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن