خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی نے اپنے لئے ذکر اذکار کا معمول بنایا ہو اور سفر یا بیماری کی وجہ سے اس میں ناغہ ہو جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ وہی اجر دیتا ہے جیسا کہ وہ کرتا رہا، یعنی بغیر بیماری کے یا سفر کے۔ اس بارے میں سوال ہے کہ بیماری میں بعض اوقات تکلیف کی وجہ سے ناغہ ہو جاتا ہے کہ کوئی تکلیف ہوتی ہے جس کی وجہ سے معمول پورا نہیں ہو پاتا اور بعض اوقات کمزوری کی وجہ سے ناغہ ہوتا ہے کہ تکلیف تو نہیں ہوتی، لیکن کمزوری اتنی ہوتی ہے کہ معمول پورا نہیں ہوتا، تو کیا دونوں صورتوں میں ثواب برابر ملتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ناغے کا نقصان بہت ہوتا ہے، تو کیا یہ نقصان بیماری اور سفر کے عذر کی وجہ سے جو ناغہ ہوتا ہے اس میں بھی ہوتا ہے؟ دونوں صورتوں میں نفس کی سستی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
جواب:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286) اس قانون پر اس کی بنیاد ہے کہ اللہ جل شانہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا ذمہ دار نہیں بناتے۔ اور جو شخص عام حالات میں کوئی وظیفہ وغیرہ یا نوافل پڑھتا تھا یا کوئی اور اچھے کام کرتا تھا، اس کے اوپر کوئی کڑا وقت آ گیا، جس کی وجہ سے وہ اب نہیں کر سکتا۔ مثلاً کمزوری کی وجہ سے نہیں کر سکتا یا تکلیف کی وجہ سے نہیں کر سکتا، دونوں صورتیں ایک ہی ہیں۔ یعنی کوئی رکاوٹ ہے، جس کی وجہ سے نہیں کر سکا، تو اللہ پاک دیکھ رہے ہیں کہ اگر یہ تکلیف یا کمزوری نہ ہوتی تو یہ ضرور کرتا چونکہ اس کی نیت کرنے کی تھی "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (البخاری، حدیث نمبر: 1) تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ لہذا اس نیت کی برکت سے اس کو اس کا اجر مل رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کسی اچھے کام کی نیت کر لے کہ میں یہ کام کروں گا، لیکن پھر وہ نہ کر سکے تو اس کو اس نیت کا اجر مل جاتا ہے، یعنی ایک اجر اس کو اس وقت مل ہی جاتا ہے۔ البتہ اگر وہ کام کر لے تو اس کو دس گنا اجر ملے گا۔ گویا کہ نہیں کیا تو ٪ 90 loss ہو گا ٪ 100 loss نہیں ہو گا۔ اگر نیت کی وجہ سے عام حالت میں بھی وہ ثواب ضائع نہیں ہوتا تو نیت کی وجہ سے مشکل حالات میں جب آپ نہیں کر سکتے تو وہ continue سمجھا جاتا ہے کہ اگر یہ کرتا تو پورا کرتا تو اس کو اتنا اجر مل جاتا ہے۔ بڑھاپے میں بھی یہ pension ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے نہ کر سکے تو اس کو اس کا اجر ملتا رہتا ہے، البتہ موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے، چونکہ اس میں تو امکان ہی نہیں ہوتا، لیکن صدقہ جاریہ جاری رہتا ہے، اگر کوئی ایسی چیز جو اس نے صدقہ جاریہ چھوڑی ہے تو اس کا اجر جاری رہتا ہے۔ چنانچہ انسان اپنے حال کے مطابق اچھے اچھے اعمال جاری رکھے تاکہ اگر مشکل وقت آئے اور وہ کوئی عمل نہ کر سکے تو اتنا چلتا رہے گا۔ یعنی دونوں صورتوں میں اس کا اجر ملتا ہے۔ باقی ناغے سے نقصان ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اگر غیر اختیاری مجاہدہ آ گیا ہے تو اس سے فائدہ ہوتا ہے اور اس ناغے کے نقصان کی compensation ہو جاتی ہے، یعنی اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ غیر اختیاری مجاہدے سے بہت فائدہ ہوتا ہے، انسان بہت آگے نکل جاتا ہے۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایک دن کا غیر اختیاری مجاہدہ، اختیاری مجاہدے سے سینکڑوں دنوں سے بھی آگے ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پر غیر اختیاری مجاہدہ آ جائے تو اس کو اس کا اجر مل گیا، اور ناغے کے نقصان کی تلافی بھی ہو گئی۔
ناغے کا نقصان دو قسم کا ہے۔ یا اجر کا نقصان ہے یا پھر نفس قابو میں نہیں آتا، یعنی نفس آزاد ہوتا ہے۔ گویا نفس کی تربیت میں مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک اجر کا نقصان ہے اور ایک نفس کی تربیت کا نقصان ہے۔ اگر آپ بیماری کی وجہ سے نہیں کر پا رہے یا کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں کر پا رہے تو ناغے کا نقصان اجر والا نہیں ہوا۔ اور غیر اختیاری مجاہدہ بھی نفس کے لئے ہے، کیونکہ اگر نفس کی تربیت اس سے ہو رہی ہے تو اُس سے بھی تو نفس کی تربیت ہوتی ہے، تو تربیت کا نقصان بھی نہیں ہوتا۔ دونوں قسم کے نقصان اس کی وجہ سے نہیں ہوتے بشرطیکہ واقعی ایسی حالت ہو کہ وہ نہ کر سکتا ہو بہانا نہ ہو۔ مثال کے طور پر دنیا کے کاموں میں تو چست ہو اور دین کے کام میں کہہ دے چونکہ میں بیمار ہوں تو کوئی بات نہیں۔ مثال کے طور پر مجھے زکام ہو اور میں دفتر جا رہا ہوں لیکن معمول نہیں کر رہا کیونکہ میں بیمار ہوں۔ بھئی زکام کے ساتھ تو انسان سارے کام کرتا ہے۔ یہی test ہے کہ آیا دنیا کے معاملے میں آپ کا کیا رجحان ہے؟ اگر دنیا کا کام بھی اس کی وجہ سے چھوٹ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو واقعی problem ہے، پھر آپ کے ناغے کا نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن اگر دنیا کے معاملے میں آپ شیر ہیں تو پھر یہ صرف بہانا ہے، اللہ تعالیٰ تو بہانے کو جانتا ہے، لہذا یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہوا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو خالص اپنے ساتھ تعلق نصیب فرمائے اور کسی حالت میں بھی اس کے اوپر زد نہ پڑے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن