خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں صفحہ نمبر 245 پر عقائد کی حقیقت اور اہمیت کے عنوان کے تحت فرماتے ہيں۔ انسان کے تمام افعال، اعمال اور حرکات کا محور اس کے خیالات ہوتے ہیں۔ یہی اس کو بناتے اور بگاڑتے ہيں۔ یہ عام خیالات در حقیقت اس کے چند پختہ، غیر متزلزل اور غیر مشکوک اصولی خیالات پر مبنی ہوتے ہيں۔ انہی اصولی خیالات کو عقائد کہتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے انسانی عمل کا ہر خط نکلتا ہے اور اس کے دائرۂ حیات کا ہر خط اسی پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ اسی باب میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ آگے جا کر صفحہ 246 پر فرماتے ہيں۔ جس طرح اقلیدس کی کوئی شکل (یعنی جیومیٹری کی) چند اصول موضوعہ اور اصول متعارفہ کے مانے بغیر نہ بن سکتی ہے نہ ثابت ہو سکتی ہے، اسی طرح انسان کا کوئی عمل صحيح و درست نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے لئے چند مبادی اور چند اصول موضوعہ ہم پہلے سے تسلیم نہ کر لیں۔ ان دونوں عبارتوں سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت نے عقائد کا تعلق عقل سے جوڑا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہمیں یہ معلوم ہے کہ عقائد سے ایمان بنتا ہے اور ایمان کا تعلق دل سے ہے اور خیالات انسان کی عقل ميں آتے ہيں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عقائد کو سمجھنے کے لئے پہلے عقل کی ضرورت ہوتی اور جب کسی عقیدے کو انسان قبول کر لے اور وہ انسان کے دل میں گھر کر جائے تو پھر عقیدے کے لحاظ سے عقل کا کردار ختم ہو جاتا ہے یا عقیدے کے بقاء اور تسلسل کے لئے عقل کا کردار ہمیشہ بر قرار رہتا ہے اور ہر موقعۂ مناسبت سے عقل کے استعمال کی ضرورت رہتی ہے؟
جواب:
یہاں پر سوال کرنے والے کو ایک confusion ہے۔ یہ confusion ان کو اس لئے ہے کہ عقیدہ عقل سے بنا ہے۔ جبکہ عقیدہ عقل سے نہیں بنا، بلکہ ایمان سے بنتا ہے، لیکن عقل سے وہ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ اور عقل سے پورا دین سمجھ میں آ جاتا ہے۔ مثلاً جنت اور دوزخ آپ عقل سے نہیں ثابت کر سکتے، لیکن جنت اور دوزخ کی ضرورت آپ عقل سے ثابت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر ترغیب و ترہیب نہ ہو تو لوگ عمل نہیں کرتے۔ عمل کرنے کے لئے دونوں ضروری ہیں۔ یعنی انعام کیا ملے گا؟ اور سزا کیا ہو گی؟ تو سزا اور جزا کی کوئی بھی صورت بن سکتی ہے۔ وہ صورت اللہ پاک نے جنت اور دوزخ بنائی ہوئی ہے۔ گویا کہ عقل سے ہمارے عقائد نہیں بنتے بلکہ ﴿یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ (البقرہ: 23) یعنی غیب پر ایمان ہے۔ اس میں ہماری عقل والی بات نہیں چل سکتی، لیکن عقل سے اس کی ضرورت سمجھ میں آ سکتی ہے۔ یہاں پر انہوں نے جو عقل سے بات ثابت کی ہے، وہ اصول و ضوابط کے طور پر ثابت کی ہے کہ جیسے سائنس evolved ہے۔ یعنی جو بعد میں بنی ہے، وہ بھی دو بنیادی چیزوں پہ بنی ہے اور وہ اصول متعارفہ اور اصول موضوعہ، axioms اور postulates ہیں۔ ان دونوں پہ سائنس بہت depend کرتی ہے۔
ایک لڑکا مجھے ایک جنازے میں ملا اور میرے ساتھ اسی موضوع پہ بات کی۔ حضرت کی بات ہم ابھی پڑھ رہے ہیں لیکن اس لڑکے سے میری بات پہلے ہوئی تھی۔ اس نے جنازے میں مجھے کہا کہ شبیر صاحب یہ آج کل جو Test tube baby کی بات چل رہی ہے، کیا یہ قرآن کی ان آیات ﴿وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ﴾ (لقمان: 34) کے خلاف نہیں ہے؟ اس سے تو آیت غلط ثابت ہوئی۔ میں نے کہا: ایسی بات نہیں ہے۔ اس نے جب پھر یہی بات دھرائی تو میں نے کہا: بھئی میں جنازے کے لئے آیا ہوں، مجھے جنازہ پڑھنے دیں۔ اس کے بعد میں فلاں جگہ جاؤں گا، وہاں پر آپ نے مجھ سے جو پوچھنا ہو پوچھ لیجئے گا۔ خیر جنازہ ہم نے پڑھ لیا، اس کے بعد میں چلا گیا تھا اور وہ پہلے سے پہنچ گیا تھا۔ پھر اس نے وہی بات شروع کی۔ چلتا رہا، چلتا رہا، ایک جگہ پہ آ کر اس نے کہا کہ جو چیز میری عقل میں نہیں آتی اس کو میں نہیں مانتا۔ میں نے کہا: رک جا بھئی اب میری باری ہے۔ اتنے سارے لوگوں کے سامنے آپ نے یہ بات کی ہے، اب اس پہ آپ نے ٹھہر کے دکھانا ہے کیونکہ پانچ منٹ کے بعد آپ اس سے بھاگیں گے اور میں آپ کو بھاگنے نہیں دوں گا۔ کہا: میں کیوں بھاگوں گا؟ میں نے کہا: ابھی پتا چل جائے گا، لوگوں کے سامنے میں کہہ رہا ہوں، سب لوگ سن رہے ہیں۔ ابھی آپ سے میں بات کرتا ہوں اور آپ اس سے بھاگنا چاہیں گے، لیکن آپ نہیں بھاگ سکیں گے۔ خیر میں نے کہا: تم کسی چیز کو مانتے بھی ہو یا سب چیزوں کو نہیں مانتے؟ کہتا ہے: میں سائنس کو مانتا ہوں۔ میں نے کہا: سائنس کو کیوں مانتے ہو؟ کہا: یہ ساری چیزیں، گاڑیاں، بسیں جہاز، یہ کار خانے، ہم کپڑا پہن رہے ہیں یہ سب سائنس ہے۔ میں نے کہا: یہ سائنس نہیں ہیں بلکہ مظاہر سائنس ہیں۔ یعنی سائنس کے ذریعے سے وجود میں آئے ہیں۔ اگر یہ بات اتنی آسان ہے تو میں کہتا ہوں: نمازیں، روزے، زکوۃ، حج بس سب ٹھیک ہے۔ اس کے بعد کسی سوال کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر آپ مظاہر سائنس کو سائنس کہتے ہیں، تو پھر میں بھی اسی کو کہتا ہوں بس بات ختم ہو جائے گی۔ آپ نے مذہب کے عقیدوں پہ چوٹ کی ہے تو میں آپ کو سائنس کے عقیدے کی بات سمجھاؤں گا۔ بولا: سائنس کے عقیدے بھی ہوتے ہیں؟ میں نے کہا: اچھا آپ کو یہ بھی نہیں پتا؟ پھر میں نے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ آخر تم کچھ پڑھ بھی پڑھے بھی ہو یا نہیں؟ کہا: bsc تک پڑھا ہوں۔ میں نے کہا: اس کا مطلب آپ نے میٹرک بھی کیا ہے؟ کہتا ہے: بھئی میٹرک بغیر bsc ہو ہی نہیں سکتا۔ میں نے کہا: اس کا مطلب آپ نے نویں جماعت بھی پاس کی ہے۔ کہتا ہے: جی بالکل۔ میں نے کہا: نویں جماعت میں geometry بھی آپ نے پڑھی ہو گی؟ کہتا ہے: جی۔ میں نے کہا: geometry کا کم از کم پہلا صفحہ تو پڑھا ہو گا، اس میں کیا لکھا ہے؟ کہتا ہے: مجھے یاد نہیں۔ میں نے کہا: میں بتا دوں یا کتاب منگوا لوں؟ کہتا ہے: آپ بتا دیں۔ میں نے کہا: اس کے پہلے صفحے پہ لکھا ہے کہ دو قسم کے اصول ہیں جس پر پوری سائنس منحصر ہے۔ ایک کو اصول متعارفہ کہتے ہیں اور دوسرے کو اصول موضوعہ کہتے ہیں۔ اصول متعارفہ کی تعریف لکھی ہے کہ یہ وہ اصول ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں، بغیر ثبوت کے اس کو ماننا پڑتا ہے۔ تو جس چیز کو بغیر ثبوت کے ماننا پڑتا ہو وہ عقیدہ ہے یا نہیں ہے؟ پہلے تو ذرا اپنی سائنس کو ثابت کرو۔ پھر میں نے کہا: اصول متعارفہ کا لوگوں نے کہا کہ بھئی اس کا ثبوت نہیں ہے۔ لیکن کچھ لوگوں نے ثبوت دینے کی کوشش کی ہے جس میں کافی پٹخنی کھائی ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں نے کہا کہ نقطہ بھی اصول متعارفہ ہے۔ تو اس کے لئے کہا کہ یہ Circle of zero radius ہے۔ یعنی یہ وہ دائرہ ہے جس کا رداس صفر ہے۔ تو آپ لوگوں کی سائنس یہ بتاتی ہے کہ جس چیز کو بھی صفر سے ضرب دیا جائے، وہ صفر ہو جاتی ہے۔ کہتا ہے: ہاں بالکل۔ میں نے کہا: آپ لوگ کہتے ہیں کہ radius صفر ہو گیا، تو جو خط ہے وہ کہتا ہے کہ یہ نقاط کا سیٹ ہے۔ لا تعداد نقاط جمع ہو جاتے ہیں تو یہ خط بن جاتا ہے۔ یہ نقطہ اگر صفر ہے تو خط بھی صفر ہو گیا۔ صفر سے آپ کسی کو بھی ضرب دیں تو صفر ہو گا۔ یہ جو Space plane ہے، تو plane خطوط کا مجموعہ ہے تو اگر خط صفر ہو گیا تو plane بھی صفر ہو گیا۔ جب plane صفر ہو گیا تو space بھی صفر ہو گیا۔ کہتا ہے: جی بالکل۔ میں نے کہا: پھر تم کہاں کھڑے ہو بتاؤ؟ اب وہ پریشان پریشان سا ہو گیا۔ پھر میں نے اس کے ساتھ ایک game کھیلا وہ ان دنوں میں نے سیکھا ہوا تھا، اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ جس میں infinity کو صفر کے برابر ثابت کیا جاتا ہے۔ میں نے کہا: بتاؤ یہ کیا چیز ہے؟ وہ بالکل پریشان تھا۔ میں نے کہا: confuse ہو گئے ناں؟ کہتا ہے: جی۔ میں نے کہا: ابھی confusion سے نکالتے ہیں آپ کو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک کافر نے پوچھا کہ کیا تم اللہ پہ یقین کرتے ہو، آخرت پر یقین کرتے ہو؟ فرمایا: ہاں بالکل میں مسلمان ہوں۔ تو اس نے کہا: میں تو نہیں کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا: تمہاری قسمت ہے تو میں کیا کہوں؟ دو باتیں ہو سکتی ہیں عقلی طور پر (وہی عقل والی بات) کہ آخرت ہے یا نہیں ہے۔ اگر آخرت نہیں ہے تو تمہیں کیا فائدہ اور مجھے کیا نقصان؟ اس میں تو ہم برابر ہیں۔ اور اگر ہے تو میں بچ گیا، لیکن تم کیا کرو گے؟ تو محفوظ راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے؟ تو وہ مسلمان ہو گیا۔ تو آپ سے بھی میں یہی کہتا ہوں محفوظ راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے؟ الحمد للہ مان گیا۔ پھر اس کے ساتھ ہم رابطہ بھی رکھتے تھے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں پہ لگا دیا مواعظ وغیرہ پر۔ تو اصل میں عقل کا استعمال ایسا ہے کہ اس سے آپ کو وہ چیزیں سمجھ میں آ جاتی ہیں جو پہلے سے ایمان نے آپ کو بتائی ہیں۔ ان کی ضرورت سمجھ میں آ جاتی ہے۔ باقی تفصیلات تو ایمانیات ہیں۔ جیسے جنت میں کیا ہو گا؟ دوزخ میں کیا ہو گا؟ یہ سب اخبار ہیں۔ نہ کسی نے دیکھا ہے، نہ کوئی دیکھ سکتا ہے اس سے۔ لیکن یہ اخبار ایمانی اخبار ہیں جو کہ ہمیں پیغمبر سے ملے ہیں۔ فرشتے کسی نے نہیں دیکھے لیکن فرشتے موجود ہیں۔ اللہ پاک با قاعدہ عقلی طور پہ بتا رہے ہیں کہ یہ کفار اپنے لئے بیٹیاں پسند نہیں کرتے اور اللہ کے لئے بیٹیاں پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ فرشتے کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ قرآن پاک میں ﴿لَعَلَّکُم تَعْقِلُون﴾ (البقره: 73) بار بار آتا ہے۔ تو عقل کو آپ اس میں استعمال کر سکتے ہیں، لیکن عقل Final result آپ کو نہیں دے سکتی۔ بھئی تھوڑی سی عقل ہی تو ہے، جو Astrophysics ہے۔ کیا سورج تک کوئی پہنچا ہے؟ پہنچ ہی نہیں سکتا۔ حالانکہ سورج ہمارا سب سے قریبی ستارہ ہے۔ تو باقی ستاروں تک کیسے پہنچے گا؟ لیکن ستاروں کے بارے میں با قاعدہ موٹی موٹی کتابیں ہیں Astrophysics، کہ اس میں یہ ہے، اور اس میں وہ ہے۔ انہوں نے ادھر جا کے معلوم نہیں کیا بلکہ سب عقل سے، دور سے، اشاروں سے، اندازوں سے سب چیزیں معلوم کی ہیں۔ اگر سائنس اس طرح چل سکتی ہے تو ایمانیات کی باتیں کیوں نہیں معلوم ہو سکتی؟ بس اتنی بات ہے۔ تو عقل کا استعمال ضرور ہے، لیکن ایمان کے سامنے اس کی چلتی نہیں ہے۔ ایمان، ایمان ہے۔ چنانچہ جہاں ایمان اور عقل میں ٹکراؤ آ جائے، وہاں مومن ایمان کی بات مانے گا۔ یعنی کوئی بات عقل کو سمجھ نہیں آتی لیکن ایمان آپ کو کہہ رہا ہے تو ماننی پڑے گی۔ آپ ﷺ نے سب سے عقلی طور پہ، پہلے سوال کیا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ہمارا دشمن ہے اور ہم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ اس بات کو مان لو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں مانیں گے؟ ہم نے آپ کو صادق اور امین پایا ہے۔ یعنی گزشتہ زندگی کی بنیاد پر آپ ﷺ کو صادق و امین کہتے تھے۔ تو اگر ساری باتیں میری سچی ہیں تو پھر یہ بات کیوں جھوٹی ہو گی؟ یہ عقل کی بات ہے۔ تو جنہوں نے سمجھ لیا تو بس ٹھیک ہے، اس کے بعد تو ساری باتیں پھر آپ ﷺ کی ہی ماننی ہوں گی۔ جب آپ نے ایک اصول مان لیا تو اس کے بعد اس اصول کے تحت ساری باتیں ماننی ہوں گی۔ مثال کے طور پر آپ کو پتا چل گیا کہ یہ میرا boss ہے، notification آپ نے دیکھ لیا۔ بس ایک دفعہ آپ کا یہ جاننا کافی ہے، اس کے بعد دوسری دفعہ ایک message اگر آ گیا کہ بھئی وہ boss نہیں رہا۔ تو الگ بات ہے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوا تو وہ boss ہے اور boss کی ساری باتیں ماننا ہوں گی۔ اس میں پھر آپ نے کچھ گڑبڑ نہیں کرنی۔ عقلی طور پر اس بات کو اس طرح سمجھایا جا سکتا ہے۔ لیکن detail ایمانیات کے ذرائع سے حاصل ہو سکتی ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن