خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
دین کی نشر و اشاعت کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے حوالے سے ہمیں آپ ﷺ کی سیرت سے کیا رہنمائی ملتی ہے اور آج ہم کن کن چیزوں کو خیال میں رکھتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کو دین کی اشاعت کے لئے استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب:
اس میں 3 باتیں ہیں۔ لفظ جدید، لفظ ٹیکنالوجی اور آپ ﷺ کے دور میں اس کی مثال یا نمونہ۔ ہر نئی چیز کو جدید کہتے ہیں۔ ابھی تک جتنی چیزیں پرانی ہیں ان میں سے کوئی نئی چیز نکل آئے تو وہ جدید ہے۔ یعنی اس وقت جو جدید ہے وہ آنے والے کل کا جدید نہیں ہو گا۔ electronics میں وہ ایک پرانی technology ہو گی۔ آج کل بہت جلدی جلدی تبدیلیاں آ رہی ہیں لہٰذا اس کے ساتھ ملنا بلکہ اس کی کتابوں کا برقرار رہنا مشکل ہو گیا ہے کہ آپ ابھی ایک چیز پر کتاب لکھ رہے ہیں اور دوسری کوئی چیز نکل آتی ہے، یعنی آج کل یہ حالت ہے۔ لیکن آپ ﷺ کے دور میں یا اس سے تقریباً دو تین سو سال پہلے اتنی جلدی جلدی تبدیلیاں نہیں آتی تھیں، اس وقت جدید کافی دیر تک استعمال ہوتا تھا۔ گویا کہ اس وقت تلوار کے ذریعے، نیزوں کے ذریعے، تیروں کے ذریعے، کمان کے ذریعے جہاد میں اور جنگوں میں لڑائیاں لڑی جاتی تھیں۔ لیکن جب ایک نئی چیز منجنیق آئی، جس سے پتھر پھینکتے تھے تو آپ ﷺ نے کچھ حضرات کو بھیجا تھا کہ وہ اس کے استعمال کا طریقہ سیکھ لیں۔ پتا چلا کہ اس وقت کا جدید یہی تھا۔ تو جدید کو سیکھنا چاہیے اور اس کو استعمال کرنا چاہیے۔
اسی طریقے سے احزاب کی لڑائی میں خندق کھودی گئی تھی جبکہ عربوں کے ہاں یہ چیز نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے جب یہ طریقہ استعمال کیا تو کفار کی ساری ہیکڑی نکل گئی، ورنہ وہ جرار لشکر تھا۔ یہ ایک طریقہ کار آپ ﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے سے استعمال کیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا "أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْيَاكُمْ" (المسلم، حدیث نمبر: 6277) تم اپنے دنیاوی امور کو اچھی طرح جانتے ہو۔ گویا دنیاوی تحقیقات کا آپ ﷺ نے endorse کر دیا کہ ٹھیک ہے اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہاں آپ کو یہ نمونہ ملے گا۔ پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف شعبوں کے اندر بہت زیادہ development کی، Social welfare society کا جو concept ہے وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع کیا ہے۔ اسی طرح بہت ساری چیزیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع کیں اور بعد کے خلفاء اور بادشاہوں نے ان کو continue رکھا۔
اسلام میں دو باتیں اچھی طرح جاننی چاہئیں، اسلام آپ کو technology سے نہیں روکتا، مفید استعمال کو مانتا ہے، غلط اس استعمال کو نہیں مانتا۔ یعنی جائز، نا جائز اس کے استعمال پر ہے۔ مثال کے طور پر تصویر نا جائز ہے لیکن ہر تصویر نا جائز نہیں ہے، اگر آپ کسی بے جان چیز کی تصویر لے لیں۔ مثلاً درخت کی تصویر لیں تو اس کو کسی نے نا جائز کہا ہے؟ پہاڑ کی تصویر لے لو تو کوئی بات نہیں۔ اسی طرح کسی اور بے جان کی تصویر حرام نہیں ہے لیکن جاندار کی تصویر conditional حرام ہے۔ مثلاً مرد کا اوپر والا سر کا حصہ یہ تعارف ہے اگر یہ آپ ہٹا دیں تو پھر ٹھیک ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ animation دکھانا چاہتے ہیں تو آج یہ بہت آسان ہے کہ سر کی جگہ دائرہ لگا دو، باقی سارا جسم ہو وہ جو کچھ بھی کر رہا ہو گا لوگوں کو نظر آ رہا ہو گا۔ مثلاً نماز پڑھنے کا طریقہ آپ سکھا رہے ہیں، تو اب ہاتھ موجود ہے، پورا جسم موجود ہے، سر کی جگہ دائرہ ہے، اس کا دیکھنا جائز ہے، نا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ نے اس کا چہرہ بنا دیا تو پھر جائز نہیں ہے۔
ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کمرے میں ایک کبوتر کی اس طرح کی تصویر لگائی گئی تھی کہ اس کے سر کے اوپر tape چڑھا دیا گیا تھا، اس کا سر ختم تھا باقی تصویر موجود تھی۔ شاید حضرت نے اس لئے لگایا ہو گا کہ لوگوں کو پتا چلے کہ شرعی طور پر کس چیز کی اجازت ہے اور کس کی نہیں ہے؟ لیکن عورت کے بارے میں معاملہ مختلف ہے، عورت کا پورا جسم ستر ہے لہذا وہ آپ نہیں بنا سکتے۔ چنانچہ ہمیں ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے تو پھر ٹھیک ہے پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ شریعت میں با قاعدہ جائز اور نا جائز کا پورا ایک نظام موجود ہے۔ فقہی نظام کو follow کر کے آپ جدید ترین technology کا استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دوائیوں کے اندر بہت ساری چیزیں ایسی استعمال ہوتی ہیں جو کہ عام طور پہ استعمال نہیں ہو سکتیں۔ ہر چیز کا اپنا اپنا ایک طریقۂ کار ہے، اس کو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس چیز کے بارے میں کیا حکم ہے یا اس چیز کے کس استعمال کے بارے میں کیا حکم ہے؟ بس یہی بات ہے باقی تو کوئی مشکل نہیں ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن