خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
اسلام اور کفر کی پہلی لڑائی غزوہ بدر رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئی، اس لڑائی میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زوجہ محترمہ کی بیماری کی وجہ سے اور آپ ﷺ کے حکم سے شرکت نہ کر سکے۔ لیکن جہاں بھی اہل بدر صحابہ کے اسمائے گرامی لکھے جاتے ہیں، ان میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی بھی لکھا جاتا ہے، اس سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کے حوالے سے ہمیں کیا معلومات مل رہی ہیں؟
جواب:
اصل میں انسان مختلف حالات کا شکار ہوتا رہتا ہے، جو اختیاری معاملات ہوتے ہیں، ان میں اختیاری نتائج سامنے آ جاتے ہیں۔ اور جو غیر اختیاری ہوتے ہیں، اس کے بارے میں بھی قوانین موجود ہیں۔ بعض دفعہ ایک انسان ایک کام کرنا چاہتا ہے لیکن اس کو حالات روک دیتے ہیں اور وہ حالات اس کے control میں نہیں ہوتے، یعنی غیر اختیاری ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ایک کام جو کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکا ہو، وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے اس نے کر لیا۔ مثلاً ایک شخص حج پہ جانا چاہتا ہے، اس نے پوری کوشش کی لیکن وہ نہیں جا سکا، یعنی کاغذات کا کوئی مسئلہ یا کوئی اور بات ہو گئی۔ ایسی صورت میں وہ اللہ کے نزدیک حج کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ، حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”فضائل حج“ میں لکھا ہے۔ وہ ایک سال حج کرتے تھے، اور ایک سال جہاد پہ جاتے تھے، یہ ان کا معمول تھا۔ ایک سال ان کو حج پہ جانے تھا، جس کے لئے پیسے جمع کئے ہوئے تھے۔ صبح کی نماز کے لئے جا رہے تھے، تو دیکھا کہ ایک عورت گندگی کے ڈھیر (جس کو ہم پشتو میں ڈیران کہتے ہیں) کے اوپر سے ایک مردہ مرغی کو اٹھا کے، اپنے پہلو میں چھپا کے، لے جا رہی تھی۔ انہوں نے سوچا یہ عجیب بات ہے کہ یہ اتنی مجبور ہے۔ اور اس کے پیچھے پیچھے حالات معلوم کرنے کے لئے چلے۔ ظاہر ہے عالم آدمی تھے۔ وہ جس گھر میں داخل ہوئی اس گھر پہ انہوں نے نشان لگا دیا کہ صبح کی روشنی میں مجھے پتا چل جائے اور نماز کے لئے چلے گئے۔ نماز پڑھ کے جب روشنی ہو گئی، تو آپ اس گھر کی طرف چلے اور نشان کے مطابق دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے ایک خاتون کی آواز آئی کہ آپ کو یہاں کس سے کام ہے؟ یہاں کوئی مرد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: مجھے محسوس ہوا ہے کہ جیسے آپ لوگ اس وقت مشکل حالات میں ہیں، آپ مجھے بھائی سمجھ کر اپنے اعتماد میں لے سکتے ہیں کہ اگر میں کوئی مدد کر سکوں۔ اس عورت نے کہا کہ ہم ایک سادات گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور میرا شوہر فوت ہو چکا ہے۔ میری چار بیٹیاں ہیں، اس انتظار میں تھی کہ ان کی شادی ہو جائے گی، لیکن اب شوہر نہیں رہے تو کسمپرسی کی حالت میں ہم وقت گزار رہے ہیں۔ اس وقت ہماری حالت چند دن سے ایسی تھی کہ بالکل فاقہ تھا، آج ہمارے لئے یہ مردہ مرغی شرعاً جائز تھی چنانچہ میں لے آئی۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا: ابھی آپ نے اس سے کچھ کھایا تو نہیں؟ کہتے ہیں: ابھی نہیں کھایا۔ کہا: ابھی نہ کھائیں، میں کچھ لے کے آتا ہوں۔ اپنے گھر چلے گئے اور جو پیسے حج کے لئے رکھے ہوئے تھے، وہ سارے کے سارے لا کے ان کو دے دیئے۔ اس عورت نے ان کو زبردست دعا دی اور چاروں بیٹیوں نے اپنی اپنی اوٹ میں آ کر منفرد دعا دی۔ خیر اس سال حج پہ جانے سے رہ گئے۔ اور ان کے جو دوست usually ان کے ساتھ جایا کرتے تھے، وہ چلے گئے۔ حج ہو گیا۔ حاجی جب واپس آ رہے تھے، تو انہوں نے سوچا کہ میں حج پہ تو نہیں جا سکا، لیکن حاجیوں کا استقبال کرتا ہوں۔ دل میں قلق تو تھا ان کو۔ حاجیوں کو receive کر رہے تھے اور مبارک باد دے رہے تھے جس کو بھی مبارک دیتے وہ کہتا، آپ کو بھی مبارک ہو۔ یہ کہتے کہ یہ کیا مذاق کر رہے ہو؟ آپ کو پتا نہیں کہ میں اس دفعہ حج پہ نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہیں؟ ایک صاحب نے کہا: کیا آپ عرفات میں فلاں وقت ہمارے ساتھ نہیں تھے؟ کیا آپ منی میں ہمارے ساتھ نہیں تھے؟ سب نے اپنی اپنی ملاقات کا حال ان کو یاد دلایا۔ اور ایک نے کہا کہ باب جبریل سے باہر آ کر آپ نے مجھے ایک ہمیانی دی تھی کہ یہ مجھے آپ نے اپنے گاؤں میں دینی ہے، آپ ٹھہریں، وہ میں ابھی لاتا ہوں۔ وہ گھر گئے اور لے آئے۔ انہوں نے اس ہمیانی کو کھولا تو اس میں جتنی اشرفیاں اس عورت کو دی تھیں، اس سے دس گنا زیادہ تھیں۔ یہ حیران ہو گئے کہ اب کیا کروں اس کا؟ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں یہ باتیں سن سن کر پریشان ہو گیا، اسی پرشانی کے عالم میں گھر واپس آ گیا اور سوچتا رہا کہ ماجرا کیا ہے، اس عالم میں نیند آ گئی۔ جب سو گئے تو آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس کی کتنی نشانیاں چاہئیں؟ کیا یہ کافی نہیں ہیں؟ پھر فرمایا: جب تم نے میری اولاد کی خاطر اتنی قربانی دے دی، تو میں نے اللہ تعالیٰ سے تمہارے لئے دعا کی، اللہ پاک نے میری دعا قبول فرمائی اور ایک فرشتہ تمہاری صورت میں حج پہ بھیج دیا، جس نے تمہاری طرف سے حج کیا اور یہ فرشتہ قیامت تک ہر سال، تمہاری طرف سے حج کرے گا۔ (سبحان اللہ) اور یہ پیسے ہماری طرف سے ہیں، ان کو قبول کر لو اور اپنے کام میں لے آؤ۔ اب دیکھیں حج بھی نہیں کیا، لیکن حج ہو گیا اور پیسے بھی واپس مل گئے، وہ بھی دس گنا زیادہ۔ بعض دفعہ کوئی بڑا عمل قبول ہو جاتا ہے اور دوسرے اعمال، اس کی طرف سے ایسے لکھ دیئے جاتے ہیں، جیسے کہ وہ ہو چکے ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تو آپ ﷺ نے اپنے ساتھ جنگ پہ جانے سے روکا تھا اور آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل دین ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات پر عمل کیا۔ اور جہاد میں نہ جا سکے لیکن ان کی طرف سے لکھ دیا گیا۔ اس کا دوسرا نمونہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو صلح حدیبیہ کے موقع پہ قریش کے پاس کچھ معاملات کے حل کے لئے بھیجا تھا، اس میں یہ بات بھی تھی کہ مسلمانوں کو حج کرنے دیا جائے لیکن کفار نے کہا آپ نے کرنا ہے تو کر لیں باقی کسی کو اجازت نہیں۔ جب یہ بات مسلمانوں کو پتا چلی تو کچھ صحابہ نے کہا کہ عثمان کے کتنے مزے ہیں کہ طواف کر رہے ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں عثمان کے بارے میں کہتا ہوں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واقعی انکار کر دیا تھا کہ میں آپ ﷺ کے بغیر نہیں کر سکتا۔ پھر کسی طرح مشہور ہو گیا کہ کفار مکہ نے ان کو شہید کر دیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے سب صحابہ سے بیعت رضوان لی اور جب بیعت رضوان کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے اپنا دوسرا ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے، یعنی وہ بھی اس میں شامل ہیں۔ اپنے ہاتھ کو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ کہہ کر ان کو بیعت کر لیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو surrender کا معاملہ ہے یہ بہت قیمتی ہوتا ہے، جو انسان اپنی تمام خواہشات کو surrender کرتا ہے، اگر اللہ کی طرف سے acceptance ہو جائے، تو پھر دین آپ ﷺ کے طریقے پہ، اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کرنے کا نام ہے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ اللہ پاک کے یہاں ایک چیز قبول ہو جائے، اس کے بعد کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بس قبول ہو گیا تو قبول ہو گیا۔
ہمارا ’’ہُوْ‘‘ والا جو کلام ہے، یہ کلام قادری سلسلے کا ہے، اس میں ایک شعر ہے جس کی، میں کچھ تصحیح کرنا چاہتا تھا۔ حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی کہ جب قبول ہو گیا تو اس کے بعد تبدیل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
تو ہمارا کام بس کوشش کرنا ہے، اس سے زیادہ ہمارے اندر سکت نہیں ہے۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) پھر راستے دکھانا اور قبول کرنا اللہ پاک کا کام ہے۔ مثلاً ایک پیغمبر نے دعوت دی اور دعوت دینے کے ساتھ ہی ان کو شہید کر دیا گیا، کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔ اور دوسرے پیغمبر کو وقت ملا اور بہت سے لوگوں نے ان کی بات مان لی۔ جب اٹھائے جائیں گے تو یہ بھی پیغمبر ہو گا اور وہ بھی پیغمبر ہو گا۔ کیونکہ ہدایت دینا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ چنانچہ ہم جو بھی کر رہے ہیں، وہ کافی نہیں ہے لیکن اللہ پاک جب قبول فرما لیں تو پھر اس کو نہ سوچو کہ یہ کافی ہے یا نہیں ہے، وہ پھر اللہ کا کام ہے، جب اس نے کافی مان لیا تو اس کے بعد تمہیں اور کیا چاہیے؟ بس کام تو ہو گیا۔ وسوسوں میں نہیں پڑنا چاہیے، جو صحیح کام ہے وہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
وَمَا عَلَینَا اِلَّا البَلَاغُ