سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 515

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج پیر کا دن ہے۔ پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات کئے جاتے ہیں ان کے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سوال نمبر: 1

السلام علیکم محترم شیخ صاحب! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ محترم! آج کل دل میں بہت زیادہ وسوسے اور خیال آتے ہیں جس کی وجہ سے بہت پریشانی ہے، مہربانی فرما کر کوئی دعا وغیرہ بتا دیں کہ یہ پریشانی اور وسوسے ختم ہو جائیں۔ میرے لئے دعا کریں۔

جواب:

وسوسوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، اس وجہ سے صرف یہ کہنا کہ وسوسے اور خیال آتے ہیں، کافی نہیں ہے۔ حدیثِ نفس بھی ہوتی ہے، وسوسہ بھی ہوتا ہے، اور دونوں کا علاج ان کی طرف التفات نہ کرنا ہے۔ ان کی پرواہ نہ کریں، ان کے لئے کوئی وظائف وغیرہ نہیں پڑھنے ہوتے۔ بلکہ وظائف سے تو آپ گویا ان کو پال رہے ہیں، کیونکہ اس طرح ان کو آپ یاد رکھ رہے ہیں۔ ان کا علاج یہ ہے کہ آپ ان کو بھول جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو وسوسہ غیر اختیاری ہے اس پر آپ پہ کوئی گرفت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ آپ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔ جب اللہ پاک آپ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھیں گے تو آپ کیوں فکر کرتے ہیں؟ ہمارا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے، لہذا اس کی بالکل پروا نہ کریں۔ حتی کہ کفر کا وسوسہ بھی ہو تب بھی پروا نہ کریں کیونکہ وہ آپ کا نہیں ہے، بلکہ جس نے وسوسہ ڈالا ہے وہ اس کا ہے۔

ہم I-10 کی طرف صبح کے وقت walk کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی کسی گھر میں بندھا ہوا کوئی کتا بڑی زور دار آواز میں بھونکتا تو میں اپنے ساتھی سے کہتا کہ یہ وسوسہ ہے، چونکہ بندھا ہوا ہے اس لئے ہمیں کچھ کہہ تو نہیں سکتا لیکن اس کی آواز اتنی بھاری ہے کہ انسان کو ڈرا دیتی ہے۔ جب انسان کو پتہ ہے کہ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا تو پروا ہی نہیں کرے، بس آرام سے safe گزر جائے، یہی اس کا علاج ہے۔

ہماری پشتو میں اس کے بارے میں ایک ضرب المثل ہے: "سپی بہ غاپی او قارغان بہ پري تيريګي" یعنی کتے بھونک رہے ہوں گے لیکن کوے آرام سے جا رہے ہوں گے، ان کو پروا نہیں ہوتی کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہی بات پلے باندھ لیں کہ اگر کوئی غیر اختیاری چیز ہو تو آپ اس کی پرواہ نہ کریں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ایک دفعہ یہ بات پوچھنے کے لئے آپ ﷺ کے پاس گئے، اور ڈرتے ہوئے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہمیں تو ایسے خیالات آتے ہیں کہ جن کو ظاہر کرنے کی بجائے ہم آگ میں جلنا پسند کر لیں گے لیکن یہ ہم سے نہیں ہو سکتا یہ ظاہر ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ کیفیت آپ کو حاصل ہو گئی؟ تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: "ذَاکَ صَرِیْحُ الإِیْمَانِ" (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 5111) کہ یہ تو اصل ایمان ہے۔ یعنی آپ کا ایمان test کر لیا گیا، اس کے با وجود بھی آپ اس کو نہیں چھوڑ نہیں رہے۔ بہر حال آپ بے فکر رہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے بہترین صورتیں پیدا فرمائے۔

سوال نمبر: 2

السلام علیکم حضرت جی! "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ" 200 مرتبہ، "لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوْ" 400 مرتبہ، "حَق" 600 مرتبہ، "اللہ" 500 مرتبہ، اس میں اللہ کے 10 منٹ تصور کے ساتھ مہینے کا ذکر مکمل ہونے میں تین دن باقی تھے تو مجھے corona ہو گیا میں نے ایک ہفتہ راولپنڈی سے علاج کے بعد کچھ طبیعت بہتر ہونے پر باقی تین دن کا ذکر بھی کر لیا۔

جواب:

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ قبول فرمائے۔ اللہ جل شانہ آپ کو صحتِ کاملہ عاجلہ نصیب فرمائے۔ اور یہ جو ذکر آپ نے کیا، یہ بہت اچھا کیا۔ اور جو بیماری کی وجہ سے رہ گیا تو بیماری میں بہت ساری چیزوں کی چھوٹ ہو جاتی ہے تو اس کی بھی چھوٹ ہو سکتی ہے لہذا آپ فکر نہ کریں۔ آپ اس کو اب آگے بڑھائیں اللہ پاک آپ کو اس کی جملہ برکات نصیب فرمائے۔

سوال نمبر: 3

السلام علیکم حضرت امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے، رمضان المبارک میں الحمد للہ روزانہ 5 پارے پڑھنے کی routine ہے، اللہ قبول فرمائے آمین۔ اس کے علاوہ جتنا ہو سکے اتنی اہلیہ کی help کرتا ہوں تاکہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکے۔ پاکستان میں میری والدہ کی اور میری اہلیہ کے والد محترم کی طبیعت کافی نا ساز ہے، ان کے لئے دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

اللہ جل شانہ آپ کی والدہ اور آپ کی اہلیہ کے والد محترم کو جلد صحت عطا فرمائے۔ اور یہ بہت اچھی routine ہے کیونکہ رمضان شریف قرآن پاک کا مہینہ ہے اور قرآن کے ساتھ شغف رکھنا چاہیے اور بیوی کی help بھی اچھی بات ہے بالخصوص اس نیت سے کہ وہ عبادت کر سکے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر اور اس کی برکت عطا فرمائے۔

سوال نمبر: 4

السلام علیکم حضرت جی! میرے ذکر و مراقبہ کے 40 دن پورے ہو گئے ہیں، اگلے ذکر و مراقبہ کے لئے رہنمائی فرمائیں، جزاک اللہ۔ "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوْ" 400 مرتبہ، "حق" 600 مرتبہ، "اللہ" 4500 مرتبہ اور مراقبہ 15 منٹ۔ دل پر کیفیت اور طبیعت میں مستقل مزاجی آ رہی ہے۔ مراقبہ میں دل پر صرف اللہ اللہ کا تصور کرتا ہوں مجاہدہ غصِ بصر 8 ماہ 20 منٹ نیچے دیکھنا پورا ہو گیا ہے، اگلے کے لئے ہدایت فرمائیں۔

جواب:

رمضان شریف میں تو یہی چلائیں لیکن ساتھ رمضان شریف کے معمولات ساتھ بہتر کر لیں، ان شاء اللہ عید کے بعد پھر اس کو change کریں گے۔

سوال نمبر: 5

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں بہاولپور سے بات کر رہی ہوں حضرت جی آپ نے جو اذکار بتائے ہیں وہ الحمد للہ با قاعدگی سے کر رہی ہوں اور مراقبہ بھی کر رہی ہوں لیکن مراقبے میں کچھ دنوں سے ناغے ہو رہے ہیں۔ مراقبے میں با قاعدگی کے لئے دعا کی درخواست ہے اور حضرت جی! ہم سب گھر والوں کے لئے بہت دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

دعاؤں سے تو ظاہر ہے مفر نہیں ہے، دعا تو ہم کرتے ہیں چاہے کوئی کہے یا نہ کہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی اور کے لئے دعا در حقیقت اپنے لئے دعا ہے۔ البتہ یہ چیزیں ہمت سے قابو میں آتی ہیں کیونکہ اللہ پاک نے ہمیں اس ہمت کا مکلف کیا ہے۔ ﴿وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا﴾ (العنكبوت: 69) جَاهَدُوا کے لفظ سے ہی انسان کو پتہ چلنا چاہیے کہ محنت اور کوشش کیا ہے۔ یعنی جو لوگ مجھ تک پہنچنے کی کوشش اور محنت کرتے ہیں، ﴿لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنكبوت: 69) تو ہم ان کو ضرور بضرور ہدایت کے راستے سجھائیں گے۔ تو دعا کی اپنی برکات ہیں لیکن محنت سریش کی طرح ہے کہ سریش اگر نہ ہو تو 2 کاغذوں کو جتنے زور سے آپس میں دبائیں تو وہ نہیں جڑتے، لیکن تھوڑی سی سریش ہو تو اس کو نہ بھی دبائیں تو وہ جڑ جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے آپ کوشش و محنت کریں گی تو اللہ پاک آپ کے لئے راستے نکالیں گے، چاہے دعا کے ذریعے سے آپ کا کام کر دیں، چاہے کسی اور کی help کے ذریعے سے کام کریں۔ لیکن اللہ پاک آپ کی کوشش اور محنت کو دیکھتے ہیں اس لئے آپ اپنی محنت و کوشش کریں اور ناغے بالکل نہ ہونے دیں کیونکہ ناغے سے ہونے والی بے برکتی کا اگر آپ کو پتا چلے تو آپ کبھی ناغے کا تصور نہیں کریں گی۔

سوال نمبر: 6

السلام علیکم و رحمۃ اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی کامل حفظ و امان میں رکھے اور ہمارے دلوں کو آپ کی کاوشوں کے صدقے اپنے نور سے منور فرمائے۔ حضرت جی! ہمارے معاشرے میں بڑی بوڑھیاں چھوٹوں کو سلام کے جواب میں بوسے دیتی ہیں اور گلے لگاتی ہیں، خصوصًا عورتوں میں یہ معاملہ بہت عام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ نا محرم رشتوں میں اس کی کہاں تک گنجائش ہے اور محرم رشتوں میں اس کی کیا حدود ہیں، رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

نا محرم رشتوں کے بارے میں آپ کو میں ایک واقعہ سناتا ہوں، یہ سچا واقعہ ہے۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ جب مالٹا میں قید تھے تو حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آپ کو بھی گرفتار کروایا تھا تاکہ شیخ کی خدمت کریں تو حضرت نے ان کی جیل میں بڑی خدمت کی، یہاں تک کہ سردیوں کے دنوں میں پانی کی ٹھنڈی بوتل کو پوری رات اپنے جسم کے ساتھ لگا کر رکھتے تھے تاکہ وہ گرم ہو جائے اور صبح اس گرم پانی سے حضرت کو وضو کراتے۔ اس ساری خدمت کا احوال خطوط کے ذریعے سے حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے گھر والوں کو بھی پتہ چل رہا تھا۔ جس وقت رہائی ہوئی اور دونوں حضرات پہنچ گئے تو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی جو بوڑھی تھیں، انہوں نے کہا کہ چونکہ حسین احمد نے اولاد سے بڑھ کر آپ کی خدمت کی ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس کے سر کو بوسہ دے دوں۔ جیسے آپ نے کہا کہ بڑی بوڑھیاں کرتی ہیں، اس طرح انہوں نے بھی اپنی خواہش کا اظہار کیا تو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بالکل! حسین احمد نے میری جتنی خدمت کی ہے، اتنی میرے کسی بیٹے نے بھی نہیں کی لیکن شریعت، شریعت ہوتی ہے، لہذا شریعت کا خیال رکھنا چاہیے۔

در اصل یہ ایسی چیز ہے کہ اس کے بارے میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ شر کس وقت کھلتا ہے، چونکہ انسان کے اندر جذبات بھی موجود ہیں اور شیطان بھی موجود ہے، وہ کسی وقت بھی اس کو inspire کر کے خطرے میں ڈال سکتا ہے لہذا شریعت کی پابندی ہر وقت لاگو ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اس میں کہاں کہاں گنجائش ہے اور کہاں نہیں ہے، اس کے بارے میں مفتی صاحب سے پوچھیں، یہ معاملہ مفتی کا ہے، میں نے آپ کو اس کی اصولی بات بتا دی ہے تفصیلات آپ کسی مفتی صاحب سے معلوم کر لیں کہ کیا کیا صورتحال ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ شریعت، شریعت ہوتی ہے۔

سوال نمبر: 7

السلام علیکم شاہ صاحب! میں اپنی دنیا میں fit ہو گئی ہوں لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے اللہ کے fit نہیں ہو رہی۔ شاہ صاحب! میں zero ہو گئی ہوں، کچھ بھی نہیں کر رہی، صرف فرائض ادا کر رہی ہوں۔ شاہ صاحب! میں ہر جگہ سے reject ہو گئی ہوں، میں zero سے کیسے شروع کروں؟ مجھے تو کبھی شکر کرنا بھی نہیں آیا، مجھے اب تک مانگنا بھی نہیں آیا، میں کیسے مانگا کروں؟

جواب:

دیکھیں! اگر اللہ کسی کو عاجزی عطا فرمائے تو یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن احساسِ کمتری اور مایوسی انتہائی سخت درجے کی مصیبت اور رذائل کی آماجگاہ ہے۔ جیسے حرص رذائل کی آمجگاہ ہے، اس طرح یہ احساسِ کمتری بھی رذائل کی آمجگاہ ہے۔ مثلًا حسد کینہ بغض یہ سب ان چیزوں سے پھوٹتے ہیں، اس وجہ سے آپ خود میں احساس کمتری نہ لائیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو آپ کے بس میں ہے اللہ آپ سے صرف اس کے بارے میں پوچھے گا، جو بس میں نہیں ہے اس کے بارے میں نہیں پوچھے گا۔ اس وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ کی کچھ خواہشات پوری نہیں ہو رہیں، یہ بات مجھے بھی پتہ ہے اور یہ بات میں مانتا ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ انسان خود کو بد قسمت سمجھ لے۔ بہت سارے لوگوں کی خواہشات پوری نہیں ہو رہیں، آپ یقین کیجئے کہ جن کو آپ خوش قسمت سمجھتی ہیں، آپ ان کے اندرونی حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ وہ کیسے ہیں۔ یہ دنیا ہے، اللہ پاک نے بھی فرمایا ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ﴾ (البلد: 4) اس وجہ سے یہ بات نا ممکن ہے کہ یہاں پر کوئی اپنی ساری خواہشات پوری کر سکے۔ یہ خواہشات پوری کرنے کی جگہ نہیں ہے، خواہشات ان شاء اللہ جنت میں پوری ہوں گی اور جس کو جتنے زیادہ مجاہدے سے گزارا گیا، اگر اس کو اللہ پاک نے صبر اور شکر کی توفیق دی ہے تو اتنا ہی اس کو اللہ تعالیٰ مرتبے بھی دے گا۔ اور مصائب و تکالیف کا اجر بے انتہا ہے۔ اگر وقت مل گیا تو میں آپ کو آج ایک کلام سنا دوں گا، بہر حال اللہ پاک سے مانگیں، اللہ پاک سے مانگنے میں کیا مشکل ہے، آپ کو اپنا مسئلہ معلوم ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ اللہ پاک سارے مسئلوں کو حل کرتا ہے، بس اس سے دعا کر لیں کہ یا اللہ اس مسئلے کو حل فرما دے، یہی مانگنا ہوتا ہے۔ اگر رونا نہ آئے تو رونے کی شکل بنا لیں، اللہ جل شانہ ہم سب کو ان چیزوں کی سمجھ عطا فرمائے اور مایوسی سے بچائے۔

سوال نمبر: 8

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں برونائی سے بات کر رہا ہوں۔ حضرت گزشتہ ماہ سے آپ کی ہدایت پر جہری ذکر بالترتیب 200، 400، 600، 1000 مرتبہ "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہ"، "لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوْ"، "حَق" اور "اللہ" کے ساتھ 5 منٹ کے لئے دل سے "اللہ اللہ" کا ذکر محسوس کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ حضرت جی 5 منٹ میں کافی مرتبہ دھیان بھٹک جاتا ہے، کچھ دنوں سے دل اور سر میں لرزش ہونے لگی ہے مگر شک رہتا ہے کہ دھڑکن ہے یا ذکر ہے۔

جواب:

در اصل میں آپ دھڑکن کو minus تو نہیں کر سکتے، اگر دھڑکن minus ہو گئی تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ایک شخص دنیا سے minus ہو گیا، لہذا دھڑکن تو آپ minus نہیں کر سکتے، لیکن اس دھڑکن کے ساتھ ایک connection establish کرنا ہے۔

فوجیوں کو ہم جب ذکر سکھاتے ہیں تو الگ طریقے سے سکھاتے ہیں۔ ہم ان کو کہتے ہیں آپ اگر parade کر رہے ہیں تو اس میں ایک قدم کے ساتھ دل ہی دل میں "لَا إِلٰهَ" اور دوسرے کے ساتھ "إِلَّا اللہ" کرنا ہے، زبان سے نہیں کرنا۔ جیسے ہی اس کی یہ fitting ہو گئی تو وہ خود بھی جب راستہ جائے گا تو یہ ہوتا رہے گا۔ حاصل یہ کہ آپ ذکر کی fitting قدموں کے ساتھ ابھی کر سکتے ہیں، دل کی دھڑکن کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں، اپنے خیال کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں، سانس کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں؛ ساری قسموں کے ذکر یہ موجود ہیں لہذا آپ اس پر محنت کریں ان شاء اللہ واضح ہو جائے گا۔ باقی یہ ہے کہ فی الحال آپ رمضان شریف میں یہی جاری رکھیں، عید کے بعد دوبارہ رابطہ کر لیں، اس وقت بڑھائیں گے فی الحال آپ اس کے ساتھ رمضان شریف کے معمولات میں جان لگانے کی کوشش کر لیں۔

سوال نمبر: 9

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی! اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ دین متین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ میرا ایک ماہ کا ذکر دو چار، چار ایک مکمل ہو گیا ہے، آگے کے لئے رہنمائی کی درخواست ہے، رمضان المبارک کی دعاؤں میں بندے کو بھی شامل فرمائیں۔

جواب:

ابھی آپ دو چار چھ ایک شروع کر لیں۔ آپ سے بھی دعاؤں کہ درخواست ہے۔

Question No: 10

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

Respected حضرت I pray that you are well آمین. I have a question. Can a مرید without any harm follow a different opinion فتویٰ from دیوبندی علمائے حق to the one that his شیخ holds, propagates in regard to modern فقہ مسائل. For example, modern issues such as permissibility of digital pictures, permissibility of having gaps in جماعت صلوۃ due to covid rulings, pertaining to tax permissibility of Islamic mortgages etc جزاک الله خیر.? May Allah سبحانہ تعالیٰ bless you and your family.

جواب:

آپ کے سوال کے اگر میں دو حصے کر لوں تو پھر میرے لئے جواب دینا آسان ہو جائے گا، ایک ہوتا ہے فقہی جائز اور نا جائز اور ایک ہوتی ہے ذوقیات کی بات۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا ایک ذوق ہے اس طرح دوسرے بزرگوں کا اپنا ایک ذوق ہے۔ مسائل میں دار العلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن کا فرق واضح نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں محتاط ذوق کو اختیار کرنا چاہیے۔ جیسے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہم سب کے بزرگ ہیں، ذبیحہ کے مسئلے میں ان کی رائے یہ تھی کہ machine کے ذریعے ذبیحہ ہو سکتا ہے اور مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے خلاف تھے، وہ فرماتے تھے کہ نہیں ہو سکتا۔ ان کے درمیان تحریری مناظرہ ہوا، یعنی ادھر سے بھی تحریر اور ادھر سے بھی تحریر، یہ سلسلہ کافی لمبا ہو گیا۔ اخیر میں مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مفتی صاحب! میری بات پر عمل کرنے میں احتیاط زیادہ ہے یا آپ کی بات پر عمل کرنے میں احتیاط زیادہ ہے؟ اس پر مفتی شفیع صاحب نے اپنی بات چھوڑ دی اور آئی ہوئی مشینیں واپس ہو گئیں۔ اس وجہ سے تصویر کے معاملے میں بھی ہماری یہی رائے ہے کہ اس مسئلے میں احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھنا چاہیے، اس وقت اس راستے سے جو شیطانیت مولویوں میں آئی ہوئی ہے، آپ سن کر حیران ہوں گے کہ کس حد تک آئی ہوئی ہے۔ اللہ پاک بچائے، خود وہ لوگ پریشان ہیں جنہوں نے فتویٰ دیا ہے۔ ابھی تو با قاعدہ مولانا تقی عثمانی صاحب اپنے سامنے اپنی videos delete کروائیں اور فرمایا کہ مسجدوں اور مدرسوں میں video بنانے کی کوئی تُک نہیں ہے۔

یہاں چراغ دین شاہ صاحب کے مدرسے میں ختم بخاری کے سلسلے میں مفتی زرولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تھے، میں بھی ادھر گیا ہوا تھا، حضرت جی اس وقت تشریف فرما ہوئے تو انہوں نے camera دیکھا کہ اس کے ذریعے سے video بن رہی ہے۔ انہوں نے فرمایا حدیث شریف اور تصویر کشی! یہ کیا معاملہ ہے؟ میں ایسی محفل میں نہیں بیٹھنا چاہتا، اٹھ گئے اور چل پڑے۔ چراغ دین شاہ صاحب پیچھے پیچھے منت کر رہے تھے، لیکن انہوں نے کوئی بات نہیں کی اور سیدھا اپنے hotel چلے گئے۔ ان کا یہ طریقہ تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو کسی کے ہاں dependent نہیں رہتے تھے، hotel میں رہتے تھے۔ بہر حال! ان تمام مسائل میں احتیاط پر عمل کریں اسی میں فائدہ ہے۔ بعد میں ٹھوکر کھانے کے بعد اگر آپ کو عقل آ جائے تو جو نقصان ہو چکا ہو گا اس کا ازالہ نہیں ہو پائے گا۔ اس وجہ سے میں اس مسئلے میں کہتا ہوں کہ فتویٰ میں گنجائش مجھے تسلیم ہے لیکن احتیاط کا پہلو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ معاشرتی مسائل میں احتیاط کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔

سوال نمبر: 11

السلام علیکم حضرت! اس مہینے کی کار گزاری پیش خدمت ہے۔ جہری اذکار کلمہ نفی اثبات 200، "إِلَّا ھُوْ" 400، "ھُوْ" 600، "حَق"، 200 "حَق اللہ" 200، اسمِ ذات خاموش 5 منٹ، مراقبہ فنائیت 15 منٹ اور اسمِ ذات 48000 مرتبہ روزانہ جاری ہے۔

جواب:

اسی کو فی الحال رمضان شریف کے معمولات کے ساتھ جاری رکھیں۔ ان شاء اللہ عید کے بعد اس پر بات ہو گی۔

بہت سارے حضرات رمضان شریف میں دعا کے لئے مجھے messages کرتے ہیں بالخصوص اعتکاف اور شبِ قدر میں بھی۔ ان سب کو میں اگر جواب دینے لگوں تو میرا صرف یہی کام رہ جائے گا، پھر میں اور کوئی کام نہیں کر سکوں گا۔ ایسے مبارک ایام میں میں صرف یہ کام کروں یا کوئی اور دین کا کام بھی کروں؟ اس وجہ سے اس مسئلے میں میں اختصار سے کام لے کے سب کے لئے اکھٹی دعا کرتا ہوں۔ اللہ کو پتہ ہے کہ کس کی کیا کیا حاجتیں ہیں لہذا میں نقد دعا کرتا ہوں، ادھار نہیں رکھتا کیونکہ دعا کرنا تو اپنے لئے سعادت ہے، صرف ٹائم کا مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہماری field کچھ الگ ہے۔ اب مجھ سے ذرا دل کی بات سن لیں۔ وہ یہ کہ ہمارے حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں کبھی کبھی میں بھی جایا کرتا تھا۔ ہمارے پھوپھا جان حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس خانقاہ کے بڑے ہوتے تھے، اکثر بیان اور تعلیم وہی کرتے تھے۔ ایک دن میں حضرت کے گھر میں بیٹھا ہوا تھا، حضرت سے میں نے عرض کی کہ حضرت! اب تو خانقاہ میں بہت سارے لوگ آتے ہیں۔ تو بڑی حسرت سے فرمایا: نہیں، صرف دعا کے لئے آتے ہیں۔ اب دعا کوئی غیر مذہبی چیز نہیں ہے، دینی چیز ہے لیکن مشائخ حقیقت میں اس چیز کے لئے نہیں بیٹھے ہوتے۔ یعنی وہ محض دنیا کے لئے یا دوسری دعاؤں کے لئے نہیں بیٹھے ہوتے، وہ تو اصل میں اصلاح کے کام کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں، ان کا اپنا کام یہی ہوتا ہے تو اگرچہ دعا ایک اچھا کام ہے لیکن وہ اپنے اصل کام کو نہیں بھول سکتے۔ اور اگر اس کی اجازت دے دی تو پھر سب لوگ اس کے لئے آئیں گے تو اصل کام ٹھپ ہو جائے گا۔ اس وجہ سے مجبورًا کچھ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔

سوال نمبر: 12

السلام علیکم و رحمۃ اللہ! الحمد للہ کل 24 اپریل کو ایک ماہ کا ابتدائی ذکر لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سر پر 10 منٹ اور لطیفہ خفی پر 15 منٹ کا تصور پورا کر لیا۔ تمام لطائف پر محسوس ہوا۔

جواب:

ماشاء اللہ! اس کے ساتھ میں نے کچھ اور ذکر بتایا تھا یا نہیں یا صرف یہی تھا؟

سوال نمبر: 13

السلام علیکم حضرت جی! اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سر پہ قائم رکھے اور دین کی راہ میں آپ کی کوششیں قبول فرمائے۔ ہمیں آپ کے نقشِ قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ حضرت جی! میں نے یہ پوچھنا تھا کہ ہمارے پڑوس میں ایک Christian family رہتی ہے وہ ہمارے گھر اکثر کچھ اپنی دعا وغیرہ کا کھانا بھیجتے ہیں، ہم کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہم ان کا دیا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں؟ اس طرح جو Christian بہت غریب ہو اور پڑوسی ہو تو کیا ان کو مسلمان صدقہ دے سکتے ہیں؟ کیا یہ نیکی کے زمرے میں آئے گا؟ اور اس طرح Christian پڑوسی ہو تو اس کے کیا حقوق ہیں؟ اور حضرت جی! اگر پڑوسی مسلمان ہی ہو مگر وہ سود کھاتا ہو اور ہمیں معلوم بھی ہو کہ یہ سود کھاتا ہے تو ایسے پڑوس سے لینے دینے میں کھانے پینے میں کیا حکم ہے؟

جواب:

صحیح بات یہ ہے کہ آپس میں لینے دینے کا تو مسئلہ نہیں ہے لیکن بعض دفعہ اگر تالیفِ قلب کے لئے ان کے ساتھ رابطہ رکھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ ان کی بھیجی ہوئی چیزوں میں دیکھیں کہ وہ کس وجہ سے بنائی گئی ہے، مثال کے طور پر کچھ ایسی چیزیں جو ہمارے نزدیک حرام ہوں یعنی غیر اللہ سے مانگنا یا اس قسم کی چیزیں ہوں تو اس میں تو مسلمان کے ہاتھ کا بھی ہو تب بھی ہم اس کو نہیں کھا سکتے چہ جائے کہ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا ہو۔ ان چیزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، لیکن چونکہ دوسرے لوگوں کی تمام باتوں کی ہمیں معلومات نہیں ہوتیں لہذا اس میں احتیاط بہتر ہے۔

پڑوسی جو بھی ہو، پڑوس کے لحاظ سے اس کا حق ہوتا ہے۔ ہمارے مسلمانوں نے اس میں کافی بڑی مثالیں قائم کی ہیں کہ ان کے پڑوس میں کوئی ہندو یا کوئی اور غیر مسلم ہوتا تو اس کا خیال رکھتے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ہندو دوست تھا، حضرت نے کبھی بھی اس کو یہ نہیں کہا کہ آپ مسلمان ہو جائیں۔ ایک دن مولانا نے کہا کہ چونکہ ہم دوست ہیں تو ظاہر ہے، آخرت میں ایک ہی جگہ رہنا چاہتے ہیں تو اب اگر آپ میرا دین قبول نہیں کرتے تو مجھے اپنا بتائیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں مولوی جی! آپ کی بات ٹھیک ہے، بس میں مسلمان ہوتا ہوں۔ اس وجہ سے تالیفِ قلب کے لئے اور پڑوس کے لحاظ سے اس کے جو حقوق ہیں ان کو ادا کرنا چاہیے لیکن ان کے ساتھ زیادہ میل جول نہیں بڑھانا چاہیے کیونکہ اس سے کم از کم اپنے گھر والوں پہ اثر پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ تو شاید محفوظ رہیں لیکن گھر والے ان کی بعض چیزوں سے متاثر ہو جائیں۔ جیسے تھر پارکر میں ہندو families ہیں تو وہاں مسلمان با قاعدہ ان کے ساتھ دیوالی مناتے ہیں، وہ ان کے ساتھ شبینے بھی مناتے ہیں اور تعزیے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ تو یہ طریقہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے پھر یہ چیزیں مسلمانوں میں آ جاتی ہیں۔ اس وجہ سے ان سے زیادہ تعلق نہیں بڑھانا چاہیے بس ان کے پڑوس والے حقوق ادا کرنے چاہئیں۔

سوال نمبر: 14

السلام علیکم حضرت! سوال و جواب مجلس کے لئے سوالوں کا موضوع الگ الگ ہے تو علیحدہ بھی جوابات دیئے جا سکتے ہیں۔

سوال 1:

رمضان میں تو شیطان بند ہیں پھر بھی گناہوں کے وسوسے آتے رہتے ہیں کیا یہ ہماری حدیثِ نفس ہے یا نفس کی کوئی اور خرابی ہے؟

جواب:

حدیثِ نفس تو ہر وقت آ سکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نفس کی وجہ سے ہے تو نفس کے جو رذائل ہیں وہ وسوسوں کی صورت میں عام موجود ہوتے ہیں۔ مثلًا آپ کو کوئی چیز چاہیے، آپ کے نفس کی خواہش ہے اور شریعت نے اس کو روکا ہے تو یہ مختلف form میں آپ کے سامنے بار بار آتا جائے گا کہ اس وجہ سے ٹھیک ہے یا اس وجہ سے ٹھیک ہے۔ یہ ایک حدیثِ نفس ہوتی ہے، اس لئے اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ شریعت پر اعتماد ہونا چاہیے اور اس پر عمل ہونا چاہیے۔

سوال 2:

منزل جدید پڑھتے ہوئے جسم پہ بہت بوجھ آتا ہے، بڑی مشکل سے پڑھتا ہوں۔ کیا اس میں وقت کے ساتھ آسانی ہو جائے گی؟

جواب:

بالکل ایسی ہی بات ہے کیونکہ جن لوگوں پہ اثر ہوتا ہے ان کو ابتدا میں اس میں بڑی مشقت ہوتی ہے کیونکہ جن لوگوں پر ان چیزوں کا اثر ہوتا ہے وہ اس کو پڑھنے نہیں دینا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ ہمارا کام خراب ہو جائے گا اس لئے وہ رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ پروا نہ کریں اور پڑھتے جائیں۔ یہ بات اگر عملیات والے لوگوں سے پوچھیں تو وہ آپ کو زیادہ تفصیل سے بتائیں گے کہ جو لوگ عملیات کرتے ہیں تو وظائف کے دوران دوسرے لوگ کبھی ترغیب، کبھی ترہیب کے ذریعے سے ان کو detract کرنے کی یا بھگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر وہ دائرے سے نکل جائیں تو وہ حملہ کرتے ہیں۔ چونکہ منزل میں ساری چیزیں ہیں تو اس وجہ سے ساری طاقتیں اس کے خلاف چل رہی ہوتی ہیں۔ جن پہ اثر ہوتا ہے، ان کے لئے رکاوٹ ہوتی ہے، لہذا پروا نہ کریں وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹھیک ہوتا جائے گا، کئی لوگوں کے ساتھ ایسے ہوا ہے۔

سوال 3:

ہمارے دفتر کے کام میں بھی نا محرم سے واسطہ پڑتا ہے اور کاموں کے درمیان دل میں شہوت کا جذبہ بھی ہوتا ہے لیکن ہم کام کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ شہوت کی وجہ سے کام پورا نہیں کرتے یا چھوڑ دیتے ہیں کہ کم interaction ہو۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ آتا ہے کہ متعلقہ شخص کے کام کا حرج ہوتا ہے اور انہیں تکلیف بھی ہوتی ہے۔ اس مسئلے میں اعتدال کا راستہ کیا ہے کہ کام بھی ہو جائے اور دینی نقصان بھی نہ ہو۔

جواب:

دیکھیں! تین چیزیں ہیں، نفس ہے، عقل ہے اور جذبات ہیں۔ شہوت نفس سے آتی ہے، دل اس سے متاثر ہوتا ہے، عقل کو ماؤف نہیں ہونا چاہیے عقل کو اس وقت کام کرتے رہنا چاہیے۔ عقل کے کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی کسی اور کا نقصان بھی نہ ہو اور اپنے آپ کو بھی نقصان نہ ہو۔ کیونکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب فرماتے ہیں کہ دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی کو گم نہیں کرنا چاہیے۔ کسی اور کے فائدے کے لئے اپنا نقصان نہیں کرنا چاہیے۔ اگر بہت Technically critical case ہو تو ان سے معذرت کی جا سکتی ہے۔ یعنی بعض دفعہ ایسا بھی کرنا پڑتا ہے کہ میں آپ کا علاج نہیں کر سکتا کسی اور سے کروائیں۔ اس وجہ سے اس میں تو عقل اور Will power کو استعمال کرنا چاہیے۔ اور یہ عقل کے ذریعے سے ممکن ہے۔ ہم دنیا ہی کے کاموں کے لئے ایسا کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔

سوال 4:

اگر ایک شخص کو عورتوں سے شہوت ہوتی ہو تو وہ خواتین میں دین کا کام نہیں کر سکتا یا اس صورت میں دین کا کام کرنے کی کیا صورت ہو گی؟

جواب:

اگر اس کا شعبہ ایسا ہے کہ اس میں خواتین سے واسطہ پڑتا ہے جیسے وہ ڈاکٹر ہے تو وہ اس کو تو اپنی Will power استعمال کر کے اپنے آپ کو بچانا ہو گا۔ باقی جن کا ایسا کام ہو جس میں option ہو تو اس میں وہ کام لینا چاہیے جس میں مسئلہ نہ ہو۔ جیسے میرے ساتھ ہوا تھا کہ ایک بد عقیدہ آدمی تھا اور دوسری ایک لڑکی تھی، مجھے میرے boss نے کہا کہ آپ subordinate چاہتے ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں، تو اس نے کہا کہ یا یہ لڑکی لے لو یا وہ لڑکا۔ جو بد عقیدہ تھا۔ میں پریشان ہو گیا کہ یا اللہ! یہ کیا عجیب امتحان ہے، آگے کنواں پیچھے کھائی والی بات ہے۔ بہر حال! میں نے کہا کہ حضرت مجھے کچھ سوچنے کی مہلت مل سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، آپ ایک دو دن میں جواب دے دیں۔ میں سیدھا اپنے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گیا اور ان کو ساری صورتحال سمجھائی۔ یہاں کے local علماء سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس بد عقیدہ کو نہیں لینا، یہاں کے لوگوں پہ جذبات غالب تھے۔ میرے دل کو اطمینان نہیں ہوا، میں حضرت کے پاس چلا گیا۔ حضرت نے میری ساری بات سنی اور فرمایا دیکھو بیٹا! مجھے بتاؤ کہ یہ already appointed ہیں یا آپ کی وجہ سے ان کی appointment ہو گی؟ یعنی آپ ان کو recruit کریں گے یا پہلے سے ہی recruited ہیں؟ میں نے کہا کہ پہلے سے recruited ہیں، اگر میرے ساتھ نہیں ہوئی تو کسی اور کے ساتھ ہوں گے لیکن ہمارے دفتر میں کسی کے ساتھ بہر حال ہوں گے۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر آپ وہ بد عقیدہ لڑکا لے لیں کیونکہ بد عقیدہ کا خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ boss ہوتا ہے اور لڑکی اس وقت خطرناک ہوتی ہے جب وہ subordinate ہوتی ہے، اس لئے آپ لڑکی نہ لیں اس بد عقیدہ لڑکے کو لے لیں۔ آپ کے نیچے ہو گا تو کم از کم نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ کیسی خوبصورت عقل کی بات ہے۔ ابھی میں نے تھوڑی دیر پہلے عقل کی بات کی تھی، یہ عقل کی بات ہے۔ بہر حال! آپ پھر یہی کر لیں۔

سوال نمبر: 15

السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ!

I have done معمولات. These اعمال are:

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہ 200

لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوْ 400

حَق 600

اللہ 1500

.الحمد للہ The effect of this is that my consciousness of Allah is becoming more and more stronger like the previous month. I feel sweetness in the ذکر after its completion, such sweetness that stays for time in the tongue.

جواب:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ !سبحانہ اللہ has granted you the حلاوت of this ذکر. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ increase it! You should do the same ذکر this month as well because it is the month of Ramadan and we are not going to increase it in this month. ان شاء اللہ after عید, you may consult me for this. In this month, you should focus on this after the اعمال of the month of Ramadan, just like تلاوت قرآن, کلمہ طیبہ ,استغفار and ادعیہ ماثورہ, asking Allah for جنت and protection from جہنم. So, these amaal are very precious in Ramadan especially اعتکاف is coming and if it is possible for you, you can do اعتکاف. May Allah اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant us all the benefits of Ramadan!

سوال نمبر: 16

مجھے خیال اور تصور کی بیماری ہے اس کا کیا کر سکتا ہوں؟

جواب:

Will power is the solution.

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ