بچوں کو نماز اور روزہ کی عادت ڈالنے کے بارے میں تعلیم

سوال نمبر 378

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ نے بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لئے فرمایا کہ 7 سال کی عمر میں بچوں کو نماز کی ترغیب دیں اور 10 سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ماریں۔ بچوں کو روزے کی عادت ڈالنے کے لئے آپ ﷺ کی کیا تعلیم ہے؟

جواب:

مجھے یاد نہیں ہے کہ اس قسم کی کوئی حدیث شریف میری نظر سے گزری ہو جس میں روزے کے بارے میں بتایا گیا ہو کہ کتنا وقت پہلے بچوں کو روزہ رکھوایا جائے۔ البتہ چونکہ نماز بھی فرض ہے اور روزہ بھی فرض ہے تو اگر ہم نماز پر قیاس کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ اس قیاس پر عمل کر بھی رہے ہیں۔ وہ بچوں کو سارے روزے نہیں رکھواتے، صرف ایک یا دو روزے بغیر زبر دستی کے ترغیب کے ذریعے سے رکھوا دیتے ہیں۔ چونکہ ویسے بھی بچوں میں نقل کرنے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو دیکھ کر وہی کرنا چاہتے ہیں۔ بعض بچے بڑے sensitive ہوتے ہیں اور وہ بہت پہلے سے کہتے ہیں کہ ہمیں سحری کے لئے جگانا ہے لیکن والدین نہیں جگاتے اور سوچتے ہیں کہ یہ ابھی چھوٹا ہے اس لئے نہیں رکھ سکے گا۔ جب ان بچوں کی بات نہیں مانی جاتی تو وہ صبح روتے بھی ہیں کہ آپ لوگوں نے مجھے کیوں نہیں جگایا۔ بہر حال! لوگ عموماً جو ترتیب اختیار کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ ان کے روزوں کی تعداد بڑھاتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں ان کو آدھے روزے رکھوا دیتے ہیں، پھر اگلے سال پورے روزے رکھوا لیتے ہیں۔ یہ ایک طریقہ کار ہے، ہمارے ہاں اچھے لوگ ترغیب کے ذریعے اس پر عمل کرتے ہیں اور یہ ما شاء اللہ بہت اچھی بات ہے۔ دعوت کا یہ بہت خوبصورت طریقہ ہے، مثال کے طور پر بچوں کے سامنے بچوں کی کار گزاری رکھی جاتی ہے کہ اس نے اتنے روزے رکھے ہیں اور فلاں فلاں نیک اعمال کیے ہیں۔ ان کے لئے یہ بات کافی ہوتی ہے کیونکہ ان میں نقل اور مقابلے کا مادہ موجود ہوتا ہے چنانچہ وہ خود بخود کہتے ہیں کہ ہم نے بھی روزہ رکھنا ہے۔

چونکہ جنہوں نے پہلے روزہ نہیں رکھا ہوتا تو ان کو مشکلات ہوتی ہیں، میرا چھوٹا بھائی تھا جو اب فوت ہو گیا ہے، اس نے بہت چھوٹی عمر میں روزے رکھنا شروع کر دیئے تھے۔ پہلے روزے میں اس کو سمجھ نہیں تھی۔ عصر کے وقت وہ رو رہا تھا تو والدہ نے پوچھا کہ ہم نے منع کیا تھا کہ نہ رکھو لیکن پھر بھی تم نے رکھ لیا۔ اس نے کہا کہ وہ بات نہیں ہے لیکن مجھے پیشاب آ رہا ہے۔ اس نے پیشاب بھی روکا ہوا تھا، اس کو پتہ نہیں تھا کہ پیشاب کرنے کی اجازت ہے۔ خیر! اس کہا کہ جاؤ اور پیشاب کر لو۔

بچپن میں بعض لوگ غیرت کی وجہ سے بھی روزہ رکھ لیتے ہیں کہ فلاں فلاں بچے رکھتے ہیں تو میں کیوں نہ رکھوں۔ اس طرح آہستہ آہستہ ان کو روزے رکھوانے چاہئیں تاکہ وہ عادی ہو جائیں۔ پہلے ایک روزہ رکھوا دیا جائے البتہ اس کو cultural نہیں بنانا چاہیے جیسے آج کل ہوتا ہے کہ پہلا روزہ رکھواتے ہیں اور پھر وہ روزہ کھلوانے کا پورا تماشہ بناتے ہیں۔ بلکہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس میں صحابہ کا طریقہ کیا تھا۔ وہ بالکل simple طریقہ ہوتا تھا، اس میں یہ نمائش نہیں ہوتی تھی، بس direct اللہ کے حکم کو ماننے والی بات ہوتی تھی۔ ہم لوگوں کی طرح وہ اس کو cultural بنا کر با قاعدہ شو نہیں بناتے تھے۔

مثلًا ختنہ ایک حکم ہے، لیکن اب تو ختنے کو بھی لوگ با قاعدہ شادی کی طرح مناتے ہیں اور اس میں مختلف چیزیں شامل کر لیتے ہیں یہ فلاں رسم ہے اور یہ فلاں رسم ہے۔ حالانکہ یہ سب ہمارے نفس کی خواہشات ہیں جو اس کے ساتھ شامل ہو کر آگے آ جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ طریقہ غلط ہے لیکن جن لوگوں کو حب ایمانی حاصل ہوتی ہے وہ بالکل سادگی کے ساتھ عمل کرتے ہیں، ان کے اندر نمائش یا اس قسم کی چیزیں نہیں ہوتیں۔ جب ہم گاؤں میں جاتے ہیں تو یہ سادہ لوگ جو ہوتے ہیں یہ فطرت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں تو ان میں جو اچھے لوگ ہوتے ہیں وہ سادگی کے کافی قریب ہوتے ہیں اور اسی سادگی کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مسجد یا دوسری جگہوں میں نماز کے لئے اگر ہم دیکھیں تو بالکل سادہ طریقے کے ساتھ جو چادر ان کے پاس ہو گی وہی بچھا لیں گے، ان کے اندر بہت زیادہ اہتمام بظاہر نظر نہیں آتا ان کی عادت میں وہ چیز ایسی وہ گھلی ملی ہوتی ہے کہ گویا ان کی زندگی کا ایک حصہ ہے اور ما شاء اللہ وہ اللہ کا حکم سمجھ کے کر رہے ہوتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ یہ عادت بہت اچھی ہے، اگر ہم سادہ طریقے کے ساتھ یہ کام کر لیں تو ان شاء اللہ العزیز بہت فائدہ ہو گا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ