عقیدہ کی اہمیت اور اس کی تعلیم میں کمی

سوال نمبر 377

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

اسلام میں سب سے بنیادی چیز عقیدہ ہے جس پر تمام اعمال کا دار و مدار ہے، اگر عقیدہ ٹھیک نہ ہو تو کوئی عمل بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ اس اہمیت کے پیش نظر عقائد کی تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے لیکن آج کل ہم اپنے دینی مدارس اور عام معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ جتنا زور مسائل اور فضائل کی تعلیم پر دیا جاتا ہے اتنا عقائد کی تعلیم پر نہیں دیا جا رہا حالانکہ سب چیزوں کی بنیاد یہی عقیدہ ہے۔ عقائد کی تعلیم کو عام کرنے کے لئے ہمیں کیا اقدامات کرنے چاہئیں اور آپ ﷺ کی سیرت پاک سے ہمیں اس بارے میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟

جواب:

میرے خیال میں یہ بات شاید صحیح نہیں ہے کہ عقائد پر زور نہیں دیا جاتا۔ چونکہ دو قسم کے علوم ہیں، ایک قسم فرض عین علوم ہیں اور دوسری قسم فرض کفایہ علوم ہیں۔ فرض عین علم کا بھی با قاعدہ ایک بڑا حصہ عقائد پر مشتمل ہے۔ جیسے ہماری website پہ ہم نے three sections بنائے ہوئے ہیں، عقائد کے لئے بھی پورا ایک section ہے جس کا نام عقائد ہے۔ ساتھ مسائل کے لئے فقہ کا section ہے اور پھر ان مسائل پر عمل کرنے کے لئے تصوف کا section ہے۔ اور یہ تینوں چیزیں در اصل حدیث جبرائیل سے ماخوذ ہیں، کیونکہ آپ ﷺ سے جبرائیل علیہ السلام نے پہلا سوال عقیدے کا کیا تھا، دوسرا سوال اعمال کا کیا تھا اور تیسرا سوال احوال کا کیا تھا۔ یعنی اس میں تین چیزیں پوچھی گئی تھیں، پہلا سوال تھا کہ ایمان کیا ہے؟ یہ عقیدے سے متعلق ہے، دوسرا سوال تھا اسلام کیا ہے؟ یہ اعمال سے متعلق ہے۔ اور تیسرا سوال تھا کہ احسان کیا ہے؟ یہ کیفیت سے متعلق ہے۔ اسی بنیاد پر فرض عین علم تین حصوں پہ مشتمل ہے۔ فرض کفایہ میں بھی یہ تین چیزیں ہیں۔ لیکن پھر ہر ایک کس چیز کو وزن دیتا ہے، یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ مثلاً مدارس میں عقائد کی کتابیں مثلاً شرح عقائد اور عقیدہ طحاویہ وغیرہ چھٹے درجے میں پڑھائی جاتی ہیں اور یہ تقریباً ہر مدرسے میں ہوتا ہے۔ پھر یہ پڑھنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ کسی عالم کی عقائد کے ساتھ بہت زیادہ مناسبت ہوتی ہے اور کسی کی اتنی مناسبت نہیں ہوتی، وہ ضروری درجے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن عقائد سب کو پڑھائے جاتے ہیں۔

حاصل یہ کہ علم کے لحاظ سے تو اس میں کمی نہیں ہے، عمل کے لحاظ سے کمی ہے۔ اور عمل تب آئے گا جب ان تینوں سے گزریں گے۔ یعنی عقائد پڑھیں گے، مسائل سیکھیں گے اور کیفیت حاصل کی جائے گی۔ جب تک کیفیت حاصل نہ ہو اس وقت تک ان چیزوں کا استحضار نہیں ہوتا۔ ہمارے نقشبندی سلسلہ میں مراقبات پر اتنا زور دے کر یہی چیز ہی تو سکھائی جا رہی ہے۔ جیسے: ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ﴾ (البروج: 16) عقیدہ ہی ہے، صفات ثبوتیہ عقیدہ ہی ہیں۔ اس طرح تعلق ذاتی اور شیونات ذاتیہ بھی عقیدہ ہیں اور اس کے ساتھ صفات سلبیہ بھی عقیدہ ہیں۔ جن کے عقائد پختہ ہو جاتے ہیں ان کے اعمال میں وہ نظر آتے ہیں۔ مثلاً آپ نے عقائد اور اعمال پڑھ لئے، پھر اعمال کے لئے مسائل ہوتے ہیں لیکن ان مسائل پر عمل کیفیت کی وجہ سے نظر آئے گا۔ ان تینوں کو ہم جدا نہیں کر سکتے۔ اس لئے جہاں صرف مسائل پہ بات رک جائے اور احوال تک بات نہ جائے تو وہاں صرف کاغذی بات رہ جاتی ہے۔ اور جس وقت اس سے آگے بڑھ کر احوال تک بات آ جائے تو یہ انسان کے اندر آ جاتی ہے۔ مثلاً صبر کے لفظ کا علم ایک کاغذی ہے کہ صبر فلاں چیز کو کہتے ہیں، لیکن جب ہمارے اندر صبر آئے گا تو وہ نظر آئے گا اور محسوس ہو گا۔ اس طرح شکر کا علم ایک کاغذی چیز ہے۔

حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

تو جس نے صرف کاغذ کو پڑھا ہے وہ کاغذ ہی رہے گا جب تک کہ جو چیز کاغذ کے اندر ہے وہ ہمارے اندر آ نہ جائے۔

صحابہ کرام کے بارے میں بھی یہی آتا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ پہلے ہم نے ایمان سیکھا اور پھر اعمال سیکھے۔ یہی چیز مطلوب ہے اور یہ قدرتی طریقہ ہے، ہم اس کو علیحدہ تو نہیں کر سکتے۔ اس لئے اگر ہم لوگ ان تینوں پر برابر محنت کر لیں تو ہی فائدہ ہو سکتا ہے۔ بذات خود بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو عقائد کی بات کرتے ہیں لیکن کیفیت کی بات میں پیچھے رہ جاتے ہیں تو وہ ٹکراؤ اور لڑائی پہ آ جاتے ہیں۔ حالانکہ عقیدے کی بات حضرت مجدد صاحب نے بھی کی ہے لیکن وہ ٹکراؤ پہ نہیں آئے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کی ہے لیکن ٹکراؤ پہ نہیں آئے، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کی ہے لیکن ٹکراؤ پہ نہیں آئے، شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی کی ہے لیکن ٹکراؤ پہ نہیں آئے اسی طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ پُر زور بات کرتے رہے لیکن ٹکراؤ پہ نہیں آئے کیونکہ کیفیت ساتھ تھی۔ جس وقت کیفیت ساتھ نہیں ہوتی تو وہ لوگ اس کو دنیا کی کوئی چیز بنا لیتے ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک کافر کو نیچے گرایا اور اس کا سر کاٹنے ہی والے تھے کہ نیچے سے اس نے نفرت سے تھوک دیا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو چھوڑ کر کھڑے ہو گئے، اس نے کہا کمال ہے، آپ نے تو مجھے بڑی مشکل سے گرایا تھا، اب آپ نے مجھے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا پہلے میں تمہیں اللہ کے لئے مار رہا تھا، جب تو نے مجھ پر تھوکا تو مجھے تم پر غصہ آ گیا اس لئے خدشہ ہے کہ کہیں میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کی تسکین کے لئے نہ ہو۔ میں تمہارے قتل میں اپنی ذات کا حصہ نہیں رکھنا چاہتا۔ یہ کیفیت ہوتی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ مناظرے میں خصم کو اللہ کے لئے جواب دے رہا ہوں یا اپنے نفس کے لئے دے رہا ہوں۔ یعنی اس نے جو میری ذات پر چوٹ کی ہے، اس کا جواب دے رہا ہوں یا اللہ کی ذات کے لئے دے رہا ہوں۔ اس چیز کا پتا تب چلتا ہے جب کیفیت حاصل ہو۔ اصل بات یہی ہے کہ اگر ہم لوگ احوال کو چھوڑ دیں تو مسائل خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ اور اگر ان دونوں کو چھوڑ دیں تو عقائد کی وہ شان نہیں رہے گی بلکہ وہ دنیا داری کا حصہ بن جائیں گے۔ مثلاً آپ کے سامنے ایک شخص غلط وضو کر رہا ہے تو پہلے آپ دل میں اللہ سے مانگیں کہ یا اللہ! مجھے اس کو صحیح طریقے سے سمجھانے کی توفیق عطا فرما پھر اس کو بڑی محبت کے ساتھ کہیں کہ حضرت! ناراض مت ہونا، میں نے وضو کا طریقہ اس طرح پڑھا ہے، کیا آپ نے بھی اس طرح پڑھا ہے؟ کچھ اس طرح موقع محل کے مناسب انداز سے ان کو وہ بات پہنچانا اور پھر اس پہ الجھنا نہیں، اور وَ مَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ تک رہنا ہے۔ یہ کیفیت والی بات ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ مسائل خطرے میں پڑ جائیں گے، وہ الٹا بپھر جائے گا کہ تم کون ہو؟ تم میری قبر میں جاؤ گے؟ جاؤ اپنا کام کرو۔ یعنی خواہ مخواہ لڑائی ہو جائے گی۔ اس کو آپ جہنم کا ایندھن بنا دیں گے اور خود اس کا ذریعہ بنیں گے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ پہلے میں سفر میں لوگوں کو نصیحت کیا کرتا تھا لیکن اب نہیں کرتا۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ ایک صاحب کو میں نے دیکھا کہ ٹخنوں سے نیچے پا جامہ جا رہا ہے، میں نے کہا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، اس نے کہا کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ میں نے کہا یہ شریعت کی باتوں میں سے ہے۔ اس نے -نعوذ باللہ من ذالک- شریعت کو گالی دے دی۔ فرماتے ہیں میرے پیروں سے زمین نکل گئی کہ یہ تو میری وجہ سے کافر ہو گیا۔ اگر میں اس کے ساتھ یہ بات نہ کرتا تو یہ کافر نہ ہوتا۔

اس لئے اب میں نصیحت نہیں کرتا کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میں کس کو نصحیت کر رہا ہوں اور وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ یہ ہے وہ دل سوزی والی بات۔

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز

یہی ہے رخت سفر میر کاررواں کے لئے

یہ جاں پر سوز والی بات وہی حال والی بات ہے۔ تو جب تک انسان حال حاصل نہ کرے اس وقت قال خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اسی کے لئے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

قال را بگذار مرد حال شو

پیشِ مردِ کاملے پا مال شو

”قال کو ایک طرف کر دو، حال کو حاصل کرو۔ اس کے لئے کسی مردِ کامل کے سامنے اپنے آپ کو پا مال کر دو“۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح بات کو سمجھنے کی اور اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ