اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں "اسلام یا محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغمبرانہ کام" کے باب ميں صفحہ نمبر 243 اور 244 پر فرماتے ہیں ہر انسان کا ایک تعلق اپنے خالق کے ساتھ ہے اور دوسرا اپنے خالق کی دوسری مخلوقات کے ساتھ۔ یا یوں کہو کہ اس کا ایک رُخ تو آسمان کی طرف ہے اور دوسرا زمین کی سمت، اس کو ایک لگاؤ عالم غیب سے ہے اور دوسرا عالم شہود سے۔ خالق اور مخلوق کے درمیان جو علاقہ اور رابطہ ہے اس کا تعلق اگر صرف ہمارے ذہنی قویٰ اور قلبی حالات سے ہے تو اس کا نام عقیدہ ہے اور اگر ان قلبی حالات کے ساتھ ہمارے جسم و جان اور مال و جائداد سے بھی ہے تو اس کا نام عبادت ہے۔ باہم انسانوں یا انسانوں اور دوسری مخلوقات میں جو علاقہ اور رابطہ ہے اس کی حیثیت سے ہم پر جو احکام عائد ہیں اگر ان کی حيثيت محض قانون کی ہے تو اس کا نام معاملہ ہے اور اگر ان کی حيثیت قانون کی نہيں بلکہ روحانی نصیحتوں اور برادرانہ ہدایتوں کی ہے تو اس کا نام اخلاق ہے۔ اس عبارت کی تشریح فرمائیں کیونکہ اس میں اسلام کے پانچ کی بجائے چار شعبوں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک شعبے یعنی معاشرت کا اس ميں تذکرہ نہیں ہے۔
جواب:
اس میں حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر تعریفیں فرمائی ہیں کہ ہر انسان کا ایک تعلق اپنے خالق کے ساتھ ہوتا ہے اور دوسرا اپنے خالق کی دوسری مخلوقات کے ساتھ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا ایک رخ آسمان کی طرف ہے اور دوسرا رخ زمین کی سمت ہے، اس کو ایک لگاؤ عالمِ غیب سے ہے اور دوسرا عالمِ شہود سے ہے۔ خالق اور مخلوق کے درمیان جو علاقہ اور رابطہ ہوتا ہے اس کا تعلق اگر صرف ہمارے ذہنی قُویٰ اور قلبی حالات سے ہے تو اِس کا نام عقیدہ ہے اور اگر اِس کا تعلق ان قلبی حالات کے ساتھ ہمارے جسم و جان اور مال و جائداد سے بھی ہے تو اس کا نام عبادت ہے۔ یعنی عقیدہ کچھ concepts اور مفاہیم کا مجموعہ ہوتا ہے جس کا تعلق قلب اور ذہن سے ہوتا ہے۔ گویا کہ دو چیزوں ہوتی ہیں، ایک قلب و ذہن اور دوسری قلب و جگر، قلب و ذہن والی بات عقیدہ ہوتی ہے اور قلب و جگر والی بات عبادت ہوتی ہے۔ یعنی ہمارے اوپر لاگو کئے گئے قوانین پر عمل عبادت ہے اور ان قوانین کا استحضار اور concept عقیدہ ہے۔ مثلاً اللہ ایک ہے، یہ عقیدہ ہے لیکن اللہ کے ایک ہونے کی وجہ سے ہم کس کی عبادت کریں، یہ دوسری بات ہے۔ اللہ کی رضا کے لئے کام کرنا بھی اسی میں شامل ہے۔ اس طرح آپ ﷺ کے بارے میں ہماری جو سوچ ہے، وہ concept ہے، فرشتوں کے بارے میں جو سوچ ہے اس کا تعلق بھی اسی کے ساتھ ہے۔ لیکن جس وقت یہ چیزیں انسان کے عمل میں آ جائیں گی تو عبادت ہو جائیں گی۔
دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہم پر جو احکام عائد ہوتے ہیں اگر ان کی حيثيت محض قانون کی ہے تو ان کا نام معاملہ ہے اور اگر ان کی حيثیت قانون کی نہيں بلکہ روحانی نصیحتوں اور برادرانہ ہدایتوں کی ہے تو ان کا نام اخلاق ہے۔ قانون کے بارے میں یوں سمجھ لیجئے کہ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے اور یہ غلط ہے۔ لیکن اس قانون پر عمل کرنے کے لحاظ سے ہمیں کیا کرنا چاہیے، یا یہ کہ جب بھی کسی اور کے ساتھ ہمارا کوئی معاملہ ہو تو اس میں ہمارا رخ کیا ہونا چاہیے آیا اللہ کی رضا اور مخلوق کے لئے رحم دلی اور اچھی سوچ کا ہونا چاہیے یا صرف خود غرضی اور اپنا الّو سیدھا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کرنے کا فیصلہ اخلاق ہو گا۔ یعنی معاملے اور اخلاق کے درمیان ایک تعلق جوڑ دیا گیا ہے۔
باقی جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اس میں معاشرت کا تذکرہ نہیں ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ معاشرت کا تذکرہ نہ ہونا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بہت سادہ بات ہے کہ اللہ نے ہمارے اوپر کچھ حقوق مقرر کئے ہیں۔ قانون والی علیحدہ ہے، یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہم پر کچھ حقوق مقرر کئے گئے ہیں اور ہر شخص کے کچھ فرائض بھی ذمے لگائے گئے ہیں۔ اب آپس میں ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنا معاشرت ہے۔ مثلاً پڑوسی کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، اس طرح سفر میں ساتھ بیٹھنے والوں کے حقوق اور ساتھ معاملہ رکھنے والوں کے حقوق کا خیال رکھنے کو معاشرت کہتے ہیں۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ "تَعَاشَرُوْا کَالْإِخْوَانِ وَ تَعَامَلُوْا کَالْاَجَانِبِ" یعنی آپس میں معاشرت تو بھائیوں کی طرح خیر خواہ بن کر اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھ کر کرو لیکن معاملہ بالکل یعنی اجنبیوں کی طرح کرو، اس میں تساہل پسندی سے کام نہ لو۔ مثال کے طور پر ہمیں حکم ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ کرو تو اس کو لکھ لو اور اس پر گواہ مقرر کر لو لیکن ہمارے ہاں عموماً یہ بات ہوتی ہے کہ جب کوئی معاملہ ہونے لگتا ہے یا کوئی کاروبار شروع کرنے لگتے ہیں تو اس وقت ہم اس حکم پر عمل نہیں کرتے۔ اس وقت شیطان یہ بتاتا ہے کہ یہ تو بھائی ہے، یہ تو ہمارا جگری دوست ہے، اس کے ساتھ کیا حساب کتاب کرنا ہے، دل بہت بڑا ہو جاتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس وقت بالکل دو جمع دو چار کی طرح معاملہ واضح ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر اس وقت واضح بات نہیں کی گئی تو بعد میں جس وقت پتہ چلے گا کہ اس نے زیادہ خرچ کر لیا یا آپ کو کچھ کم دے دیا تو اس وقت بھڑک اٹھیں گے اور سب بھائی چارہ بھول جائیں گے۔ فساد کی اصل جڑ یہی نہ لکھنا ہے۔ اور مثلًا آپ ٹیکسی ڈرائیور کو کہتے ہیں کہ فلاں جگہ کا کتنا کرایہ ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ آپ جو مرضی ہے دے دیں تو آپ کو چاہیے کہ اس کی بات میں نہ آئیں اور سوار ہونے سے پہلے کرایہ طے کر لیں۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں مسئلہ ہو جائے کیونکہ منزل پر پہنچ کر آپ اس کو سو روپے دینا چاہیں اور وہ کہے کہ دو سو بنتے ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ خود ہی تو کہا تھا کہ جتنے مرضی دے دینا، لیکن وہ کہے گا کہ میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھتا تھا لیکن آپ تو زیادتی کر رہے ہیں اور اس پر لڑائی شروع ہو جائے گی۔ بعض اوقات جوس وغیرہ بیچنے والے آواز کچھ لگاتے ہیں، اور بعد میں کچھ لیتے ہیں۔ جب آپ ان سے کہیں کہ آپ تو یہ آواز لگا رہے تھے تو وہ کہتے ہیں کہ میں تو فلاں جوس کا کہہ رہا تھا آپ نے دوسرا لیا ہے۔ اس طرح وہ دھوکا دیتے ہیں۔ یہ بد معاملگی اور بد اخلاقی ہے۔ بد معاملگی اس لئے ہے کہ آپ نے صحیح نہیں بتایا اور بد اخلاقی اس لئے کہ آپ نے اس کا برا سوچا۔ معاشرت میں ان چیزوں سے بچنا ہوتا ہے کہ نہ معاملہ گڑ بڑ ہو اور نہ آپ کسی کا برا سوچیں بلکہ آپ ان کے لئے اچھا سوچیں، practically آپ ان کے ساتھ حسن عمل سے پیش آئیں اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک کریں۔ حاصل یہ کہ معاشرت ان ساری چیزوں میں آ جاتی ہیں، اگر اس میں نہیں لکھا تو ضروری نہیں کہ ساری چیزیں لکھی جائیں لیکن حضرت نے یہ بھی نہیں فرمایا کہ میں نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ یعنی جتنا بتانا تھا وہ بتا دیا، باقی آپ خود تلاش کر لیں۔
ایک مرتبہ میں نے کسی جگہ بیان کیا تو ایک صاحب نے کہا کہ آپ کو بیان میں یہ بھی کہنا چاہیے تھا۔ میں نے کہا کہ میں نے جتنا بیان کیا اس میں کوئی ایسی چیز تھی جو نہیں کہنی چاہیے تھی؟ کہنے لگے کہ نہیں، آپ نے جو کہا ہے وہ بالکل کہنا چاہیے تھا۔ میں نے پوچھا اس پہ کتنا time لگا ہے؟ جواب دیا کہ ایک گھنٹہ۔ میں نے کہا کہ اگر میں مزید کچھ کہتا تو پھر کتنا time لگتا؟ اس نے کہا کہ ایک گھنٹے سے زیادہ لگتا۔ تو میں نے پوچھا کہ کیا یہ لوگ اتنی دیر تک بیٹھتے؟ یعنی سب چیزیں ایک ہی وقت میں تو نہیں کہی جا سکتیں، عین ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو ضروری کام ہو اور ان کے پاس اتنا time نہ ہو تو اس لئے میں نے کچھ ابھی کہہ دیا ہے، اور جو نہیں کہا وہ بعد میں کہہ دیں گے۔ میری بات وہ سمجھ گئے۔
ہم لوگوں کو اپنی بات پہ زیادہ ناز ہوتا ہے کہ یہ کام تو ایسا ہونا چاہیے۔ کبھی کر کے دیکھیں تو پتہ چلے کہ یہ کام کیسے ہوتا ہے۔ ایک تصویر کے استاذ تھے۔ انہوں نے اپنے شاگرد کو اچھی طرح مصوری سکھائی، شاگرد نے ایک تصویر بنائی اور اسے راستے میں آویزاں کر کے نیچے لکھ دیا کہ اگر اس میں کچھ غلطی ہو تو بتا دیں۔ شام کو جب دیکھا تو پتہ چلا کہ کسی نے ناک کے اوپر غلطی کا نشان لگایا ہوا تھا کسی نے کان کے اوپر غلطی کی نشاندہی کی ہوئی تھی حتی کہ ساری تصویر پر نشان ہی نشان تھے۔ یہ دیکھ کر وہ مایوس ہوا اور روتا ہوا استاذ کے پاس آیا کہ حضرت! اس تصویر کی حالت دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ غلط لکھا تھا۔ اب دوبارہ تصویر بناؤ۔ اس نے تصویر بنا لی تو انہوں نے کہا کہ اس کے اوپر لکھو کہ اس میں جو غلطی ہے، اسے درست کر دیں۔ جب یہ لکھ کر اس نے راستے میں آوایزاں کی تو شام تک وہ تصویر بالکل صاف شفاف پڑی رہی، کسی شخص نے بھی اس میں غلطی کی نشاندہی نہیں کی تھی۔ یعنی کسی بات پر اعتراض کرنا بہت آسان ہے، لیکن عملًا اس کام کو ٹھیک کرنا بہت مشکل ہے۔ در اصل ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، حضرت نے ہی اسی سیرت النبی میں معاشرت پر پورا باب لکھا ہے۔ یہاں میں نے سب کچھ وہیں سے بیان کیا ہے۔ ما شاء اللہ ان حضرات کی برکت سے ہی ہم چل رہے ہیں۔ اللہ جل شانہ ان حضرات کے درجات بلند فرمائے اور ان کے فیوض و برکات میں سے ہمیں پورا پورا حصہ نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ