غیر عرب مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کے ذریعے تبلیغ

سوال نمبر 375

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں تبلیغ کے باب میں صفحہ نمبر 227 پر دعوت بالقرآن کے عنوان سے فرماتے ہيں: قرآن پاک اسلام کے دعوی اور دلیل دونوں کا مجموعہ ہے اور وہی اس کے مذہب کا صحيفہ ہے، خود آپ ﷺ اور دوسرے مبلغ صحابہ کرام بھی تبلیغ و دعوت میں صرف قرآن کی سورتیں پڑھ کر سُناتے تھے اور جہاں ان کو اس کا موقع مل جاتا وہاں اس کی تاثیر اپنا کام کر جاتی تھی۔ آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خود بھی عرب تھے اور جن کو وہ دعوت دیتے تھے وہ بھی عرب تھے، اس وجہ سے قرآن پاک کی صرف تلاوت سے بھی تبلیغ ہو جاتی تھی۔ کیا آج کل غیر عرب مسلمان قرآن پاک کی صرف تلاوت کے ذریعے تبلیغ کر سکتے ہیں؟

جواب:

اصل میں اگر آپ قرآن پاک کی تشریح کرتے ہیں اور قرآن پاک کی بات آپ سمجھاتے ہیں، تو وہ بھی قرآن ہی ہو گا، یعنی قرآن کی تشریح ہو گی۔ مثال کے طور پر میں عرب نہیں ہوں اور مجھے عربی نہیں آتی تو مجھے کوئی قرآن پڑھ پڑھ کے سنائے اور پھر اس کا ترجمہ کرے، تشریح بھی کرے، تو فائدہ ہو گا۔ اور وہ قرآن کا ہی فائدہ ہو گا۔ لیکن قرآن کو درمیان سے نکال کر صرف اس کا ترجمہ کام نہیں کرتا، یعنی ہم عجمی قرآن کو اگر درمیان سے نکال کر صرف اس کا ترجمہ سامنے لائیں تو پھر وہ کام نہیں کرتا، معلوم ہوا قرآن کے الفاظ کا اعجاز اس میں بھی شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا اپنا اعجاز ہو گا۔ بے شک آپ ترجمہ نہیں جانتے، لیکن اس کا جو اثر ہے وہ آپ کے دل کے اوپر ہو گا۔ اگر کوئی تراویح میں کھڑے ہو کر توجہ کے ساتھ قرآن سنے تو اس کے دل پر بھی اثر ہو گا، اگر کوئی قرآن پاک پڑھ رہا ہو اور اس کو کوئی دل لگا کر سنے تو اس پر بھی اس کا اثر ہو گا۔ اس کی وجہ ہے کہ قرآن کے اندر تاثیر پہلے سے موجود ہے، صرف ہماری طلب کی بات ہے، اگر ہماری طلب ہو تو قرآن اپنا کام کر جاتا ہے۔ اور طلب خود پیدا کرنی ہوتی ہے۔ البتہ ہم نے قرآن کو وہ حق نہیں دیا جو کہ اس کا ہے۔ مثلاً مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے خلیفہ تھے۔ وہ اس مسئلے میں کافی زور دیتے تھے۔ ایک دفعہ ”صیانۃ المسلمین“ کا جلسہ تھا، تو خود بیان شروع کر دیا، جب سارے لوگ جمع ہو گئے، پھر قاری کو بلایا اور کہا: اب قرآن پاک پڑھو۔ فرمایا: تم لوگ بھی عجیب کام کرتے ہو، قرآن کو -نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذٰالِک- لوگوں کو جمع کرنے کے لئے استعمال کرتے ہو کہ قاری قرآن سنائے گا اور لوگ جمع ہو جائیں گے، پھر میں بات کروں گا، یہ تو الٹی بات ہے۔ بھئی اللہ کا کلام اس وقت سناؤ جب سب موجود ہوں۔ جیسے مہمان خصوصی ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جتنے بھی لوگ تقریریں کرتے ہیں، وہ مہمان خصوصی کے لئے ایک قسم کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس کے بعد مہمان خصوصی آتا ہے اور سب باتوں کا تذکرہ کر لیتا ہے اور بات ختم کر دیتا ہے۔ تو آپ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو اپنے لئے بلاتے ہیں، حالانکہ آپ خود قرآن کے لئے لوگوں کو بلائیں اور اس پہ حضرت بہت سخت ناراض ہوتے تھے کہ دار الحدیث کو دار القرآن سے جب زیادہ خوبصورت دیکھتے کہ آپ لوگوں نے قرآن کی قدر نہیں کی۔ یعنی جہاں قرآن سکھایا جا رہا ہے، جہاں قرآن پڑھا جا رہا ہے، اس کی آپ لوگوں نے وہ قدر نہیں کی جو کرنی چاہیے تھی اور دار الحدیث کو اس سے زیادہ خوبصورت بنا دیا۔ کیونکہ ترتیب یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن اوپر رکھنا چاہیے الماری میں، ہمارے ہاں اس پر الحمد للہ عمل ہے۔ یعنی سب سے اوپر قرآن ہو گا، قرآن کی تفاسیر ہوں گی، اس کے نیچے احادیث شریفہ، احادیث شریفہ کی تشریحات ہوں گی، اس کے نیچے فقہ ہو گی، اس کے نیچے تصوف ہو گا، حالانکہ میں صوفی ہوں۔ یہ ترتیب حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ یعنی جب ہم کسی چیز کا ادب کرتے ہیں تو اس کا اثر نظر آتا ہے۔ جب ہم نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذٰالِک اس کے ساتھ شایانِ شان معاملہ نہ کریں تو پھر اثر کیسے دکھے گا؟ آپ نے پہلے سے حجاب ڈال دیا۔ تو قرآن اثر ضرور دکھاتا ہے۔ قرآن الفاظ اور معانی کے لحاظ سے بھی بلاغت کی انتہا ہے۔

ہم یورپ میں بہت ساری جگہوں پر دیکھتے تھے کہ وہ قرآن جانتے نہیں تھے، ان کے سامنے قرآن سنا رہے ہوتے تھے تو بس ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، اذان کی آواز سے آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ تو اس کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ کاش ہم لوگ اس کے ساتھ انصاف کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن