خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں تبلیغ کے باب میں صفحہ نمبر 218 پر تالیف قلب کے عنوان سے فرماتے ہیں۔ تبلیغ و دعوت کے سلسلہ میں اسلام نے ایک طریقہ یہ بھی پیش کیا ہے، جس کو تالیفِ قلب کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ انسان طبعًا شریفانہ جذبات کا ممنون ہوتا ہے، یہ ممنونیت عناد اور ضد کے خیالات کو دور کر کے، قبول حق کی صلاحيت پیدا کر دیتی ہے۔ آپ ﷺ نے بہت سے لوگوں کو اپنے اس اعجاز سے اسلام کا حلقہ بگوش بنا لیا تھا۔ ایک دفعہ ایک بدو نے آ کر کہا کہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان بکریوں کے جتنے ریوڑ ہيں، وہ مجھے عنایت کیجئے۔ آپ ﷺ نے وہ سب اس کو دے دئیے۔ یہ فیاضی دیکھ کر اس پر اتنا اثر پڑا کہ اُس نے اپنے پورے قبیلے کو آکر کہا: بھائیوں اسلام قبول کرو کہ محمد ﷺ اتنا دیتے ہيں کہ اُن کو اپنے فقر و افلاس کا ڈر ہی نہیں ہوتا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تالیفِ قلب کے لئے عمومًا کسی دنیوی چیز کا سہارا لیا جاتا ہے، آپ ﷺ کے دور میں اور آپ ﷺ کے قریب کے دور میں روحانیت زیادہ تھی، تو اُس وقت لوگوں کو اگر کسی دنیوی چیز کے ذریعے بھی حق کی دعوت دی جاتی تو وہ حق کو قبول کر لیتے۔ لیکن اگر آج کل کسی دنیوی چیز کو ذریعہ کے طور پر استعمال کر کے حق کی دعوت دی جائے، تو وہ دنیوی چیز کو تو لے لیتے ہیں، لیکن دین کو نہیں لیتے۔ ایسے حالات میں کیا دنیوی چیز کو تبلیغ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
یہ اصل میں طریقے پر منحصر نہیں ہے، طریقہ تو اب بھی یہ قابل استعمال ہے۔ یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ لوگوں میں اس کا کتنا اثر ہو گا، چنانچہ لوگوں کے حال کے مطابق معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ بعض دفعہ لوگ اس سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے سامنے ایسی صورت بنا لیتے ہیں کہ جیسے وہ ہماری بات مان لیں گے، سن لیں گے، اور پھر دنیاوی فائدے حاصل کر کے ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں، آج کل یہ چیزیں موجود ہیں۔ لیکن سب سے بڑی بات کہ رحم دلی اور خیر خواہی ہر وقت کام کرتی ہے، ظاہر ہے سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لہذا آپ ﷺ نے یا موسی علیہ السلام نے جن لوگوں کے ساتھ دنیاوی احسانات کئے، ان سب پر ایک جیسا اثر تو نہیں ہوا۔ موسی علیہ السلام کے بارے میں قرآن پاک میں آیا ہے کہ فرعونی جس وقت کسی دنیاوی مصیبت میں پھنستے تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے کہ اے جادوگر! اپنے خدا سے کہہ دے کہ اس مصیبت کو دور کر دے، پھر ہم آپ کی بات مان لیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام دعا کر لیتے تو وہ مصیبت دور ہو جاتی پھر اور وہ لوگ ویسے کے ویسے ہو جاتے۔ تو سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، لیکن رحم دلی اور خیر خواہی اثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص خود رحم دل ہے، وہ سب لوگوں کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ کرتا ہے، بغیر اس کے کہ یہ میری بات مانتا ہے یا نہیں مانتا، تو وہ بات اثر کرتی ہے۔ مثلاً میرے بھائی وکیل ہیں اور وکیل کی زبان پہ ہر وقت جواب تیار ہوتا ہے۔ جماعت کے کچھ لوگ جو ان کے محلے کے تھے، ان کے ساتھ ان کی بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا: آپ اکرام مسلم نہیں کرتے بلکہ اکرام تبلیغی کرتے ہیں کہ جو تبلیغ میں جاتا ہے، ان کا اکرام کرتے ہیں اور جو تبلیغ میں نہیں جاتا، ان کا اکرام نہیں کرتے۔ تو ان کی تبلیغ اس طرح اثر نہیں کرے گی۔ کیونکہ مسلمان کا اکرام By default رحم دلی ہے۔ اگر آپ اس طریقے سے کریں گے تو یقیناً فائدہ ہوتا ہے۔ یعنی آپ سب کو سلام کرتے ہیں، سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں، اس کا اثر شرفا پہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ مخالفت صرف غلط فہمی سے ہوتی ہے، اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے تھوڑا سا وقت چاہیے ہوتا ہے، کہ وہ ذرا مثبت انداز میں سوچے، کیونکہ منفی انداز میں سوچنے سے وہ چیز دور نہیں ہوتی۔ انسان جب رحم دلی اور خیر خواہی کرتا ہے تو دوسرا تھوڑی دیر کے لئے سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم صحیح سوچ رہے ہیں؟ ہم نے جو ان کے بارے میں سنا تھا کیا وہ صحیح سنا تھا؟ بس یہی کام کا لمحہ ہوتا ہے، اس میں جب وہ سوچتا ہے تو اس کی اچھائیاں نظر آتی ہیں، کیونکہ نیک کام میں اچھائیاں تو ہوتی ہیں، ان پہ اس نیک کام کی اچھائیوں کی وجہ سے اثر ہو جاتا ہے۔ اس شخص کی وجہ سے نہیں ہوا کیونکہ اس نے گویا کہ اس کو سوچنے کا موقع دے دیا، پھر اگر کوئی ذرا بھی مثبت انداز میں سوچے گا تو ہدایت پائے گا۔ اگر وہ مسلمان ہیں تو دین کی دعوت سے کس کو مخالفت ہو سکتی ہے؟ اور مسلمان نہیں ہیں تو انسانیت سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے؟ تو ممنونیت کا اثر ضرور ہوتا ہے، لیکن کسی کے اوپر منفی جذبات غالب ہوتے ہیں لہذا وہ وہاں تک نہیں پہنچتا۔ اور کسی کے اوپر منفی جذبات اتنے زیادہ غالب نہیں ہوتے۔ جیسے ابوجہل کے اوپر منفی جذبات غالب تھے، آپ ﷺ اس کے ساتھ کتنے بھی احسان کرتے، اس کی سوچ منفی ہی رہتی، چنانچہ وہ مسلمان نہیں ہوا۔ ظاہر ہے ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اول تو یہ سوچنا چاہیے کہ میرے اس طریقے سے ضروری نہیں کہ کسی کو ہدایت مل جائے، لیکن میرے اندر یہ جذبہ خود بخود ہو کہ یہ انسان ہے، انسانیت کے لحاظ سے اس کا حق ہے کہ میں اس کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کروں، ان کا بھلا سوچوں۔ تبلیغ میں ہم لوگوں کے پاس جاتے ہیں، وہ بھی ان کی بھلائی کے لئے جاتے ہیں، ہم سوچتے ہیں، تو یہ بھی خیر خواہی ہے۔ اس خیر خواہی کے ساتھ وہ خیر خواہی بھی جب مل جائے، اور ان کو یہ خیر خواہی سمجھ میں آ جاتی ہے، تو کام بن جاتا ہے، بس یہ خاص بات ہے کہ ابھی تک اس کا فائدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ جو لوگ منفی جذبات زیادہ غالب رکھتے ہیں ان کے اوپر یہ بات اثر نہیں کرے گی، لیکن ہم اپنا طریقہ کار ان کے لئے تبدیل تو نہیں کر سکتے۔ آپ ﷺ نے ابو جہل کے لئے سارے لوگوں کے ساتھ طریقہ تبدیل نہیں کیا، بس ابو جہل محروم ہو گیا، لیکن باقی لوگ مستفید ہو گئے۔ اگر ہم یہ سوچیں تو ان شاء اللہ العزیز فائدہ ہو گا۔ ہماری نیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے، لہذا اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجر دے گا۔ باقی کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو، وہ علیحدہ بات ہے۔ اور ہم لوگ درمیان میں ڈنڈی نہ ماریں بلکہ ہمارا جذبہ خیر خواہانہ ہو اور یہ سوچ ہو کہ اس کا ہمارے اوپر حق ہے، یہ نہیں کہ نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذٰالِک ہم اس کو کم سمجھیں۔ جس کے لئے ہم کوئی technique لڑائیں کہ مجھ سے کم ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہوتی منفی ہیں، لیکن مثبت صورت میں پیش کی جاتی ہیں، اس کا اثر بہت سخت ہوتا ہے، اس سے فائدے کی جگہ نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً میں زبان سے کہہ دوں جی حضرت آپ تو ما شاء اللہ بڑے اچھے ہیں اور پیٹھ پیچھے باتیں کروں، اس کا اثر بہت زیادہ برا ہو گا، کیونکہ پتا تو چل جاتا ہے، اس سے کم از کم بچنا چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن