اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ کے حصہ ششم میں ضمیر کی آواز کے عنوان کے تحت صفحہ 310 پر فرماتے ہیں۔ پہلے پہل جب انسان اپنی ضمیر کی آواز کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو اس کے دل کے صاف اور سادہ لوح پردہ پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے اگرچہ ہوش میں آ کر جب توبہ و استغفار کرتا ہے اور پشیمان و نادم ہوتا ہے تو داغ ہٹ جاتا ہے لیکن پھر اگر وہی گناہ بار بار اسی طرح کرتا رہے تو وہ داغ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے دل کو سیاہ کر کے ضمیر کے ہر قسم کے احساس سے اس کو عاری کر دیتا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک انسان ایک گناہ میں مبتلا ہے اور اُس سے اپنے آپ کو بچا نہيں سکتا لیکن وہ گناہ کرنے کے بعد نادم و پشیمان بھی ہوتا ہے اور توبہ بھی کرتا رہتا ہے تو کیا پھر بھی اُس کے ضمیر کا احساس ختم ہو جاتا ہے؟ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت سے تو یہ مفہوم سمجھ میں آ رہا ہے کہ بار بار ایک گناہ کرنے سے بھی ضمیر کا احساس ختم ہو رہا ہے اگر یہ مفہوم ٹھیک نہيں ہے تو اس کی وضاحت فرمائیں؟
جواب:
جب پشیمان ہو جاتا ہے تو داغ مٹ جاتا ہے۔ یعنی جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس پر داغ پڑ جاتا ہے پھر اگر وہ پشیمان ہو جاتا ہے اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو وہ داغ مٹ جاتا ہے۔ اب توبہ کیا چیز ہے؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ confusion ہو گی۔ توبہ بنیادی طور پر تین چیزوں کا مجموعہ ہے اور چوتھا اضافی ہے، اضافی subject to condition ہے۔ پہلی بات ندامت ہے اور ندامت اس کے اندر due ہے کیونکہ اگر ندامت نہیں ہو گی تو توبہ ہی نہیں کرے گا۔ دوسری بات اس سے رک جانا ہے، کیونکہ توبہ کا مطلب رجوع ہے، واپسی ہے۔ جب واپسی ہو گی تو سب سے پہلا کام رک جانا ہو گا۔ تیسری بات آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم کرنا کہ میں آئندہ یہ نہیں کروں گا۔ اگر اس کو سچی ندامت ہے تو وہ کیوں کرے گا دوبارہ؟ لیکن چونکہ اس کا نفس مرا نہیں ہے، اس کی تربیت نہیں ہوئی تو دوبارہ بھی اس سے وہ گناہ ہو سکتا ہے تو اس سے دوبارہ توبہ کر سکتا ہے۔ جب تک وہ توبہ کرتا رہے گا اس کا داغ مٹتا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ risk factor اس میں involve ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا وہ توبہ کرنے کے لئے زندہ رہے گا؟ کسی کو کیا پتا؟ چنانچہ انسان کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ نفس کی اصلاح اگر نہیں ہو تو انسان جب توبہ کرتا ہے اور اس وقت جو اس کو ندامت ہوتی ہے وہ اس کے دل کی آواز ہے لیکن اگر اس کے نفس کو کچھ اور جگہوں سے تعاون مل جائے اور ماحول مل جائے تو پھر وہ توبہ نہیں کرے گا بلکہ اس گناہ میں دھنستا چلا جائے گا اور آگے بڑھتا جائے گا۔ کسی بھی وقت یہ چیزیں ہو سکتی ہیں کسی وقت بھی انسان گمراہوں کے ساتھ ہو سکتا ہے، ایک پورے گمراہی نظام کے ساتھ ہو سکتا ہے، کیونکہ جو لوگ خراب ہوئے ہیں وہ شروع سے خراب نہیں تھے۔ ابتدا میں تو شاید یہ بہت ڈرتے ہوں گے اور ایسے ہی ڈاکو یا قاتل ابتداء میں ایسے نہیں ہوتے بلکہ بعض بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن ایک دفعہ ماحول سے کٹ جانے کی وجہ سے وہ اس گناہ میں بڑھتے چلے جاتے ہیں حتٰی کہ اس کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہی حضرت نے فرمایا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے، ضمیر کی آواز پھر دب جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے برائی کی لیکن ابھی اس نے توبہ نہیں کی تھی کہ اس کے لئے دوسرا chance بن گیا برائی کا، ابھی توبہ نہیں کی کہ تیسرا chance بن گیا، ابھی توبہ نہیں کی کہ چوتھا chance بن گیا۔ اب ان chances کی وجہ سے داغ بڑھتے جا رہے ہیں اور داغ بڑھنے کی وجہ سے اس کی توبہ کرنے کی efficiency کم ہوتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس کا %99 دل صاف تھا تو اس کا جو reaction تھا %1 کے خلاف وہ %99 کے حساب سے تھا، تو جلدی ندامت ہو جاتی تھی اور توبہ کر لیتا تھا۔ لیکن اگر اس نے ماحول کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے دیر کی اور دوبارہ chance ملنے کی وجہ سے وہ برائی کر لی تو اب 98 پر آ گیا۔ اب %2 کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے 98 کا تو اب مقابلہ ذرا سخت ہو گیا، پھر اگر %3 ہو گیا ہے اور یہ %97 ہو گیا تو مزید مشکل ہو گیا۔ اس طرح ہوتے ہوتے ہوتے 50/50 جب ہو جائے گا تو معرکہ بڑا سخت ہو جائے گا اور اس سے آگے %49 جو ہو جائے گا تو downfall start ہو جائے گا اور ہوتے ہوتے بالکل ہی تباہ ہو سکتا ہے۔ حضرت نے ایسی بات اس لئے فرمائی ہے کہ اگر انسان توبہ نہ کرے اور ماحول کی وجہ سے یا کسی وجہ سے آگے بڑھتا رہے تو گناہوں کی دلدل میں پھنستا جاتا ہے تو وہ داغ بڑھتے جائیں گے حتّٰی کہ اس کا دل بالکل سیاہ ہو جائے گا اور اس کے بعد اس کے اندر ضمیر کی آواز دب جائے گی پھر وہ توبہ کی طرف رجوع ہی نہیں کر سکے گا بلکہ اور لوگوں کو خراب کرے گا، پھر تو برائی کا داعی بن جائے گا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ایسے انجام سے بچائے اور ہر چیز میں ہمیں خیر کے پہلو نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن