سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 514

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

آج پیر کا دن ہے اور پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات ہوتے ہیں ان کے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سوال 1:

حضرت جی وظائف یہ ہیں "اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی" 1100 مرتبہ پڑھتی تھی دو تین ماہ سے، 1500 سے 2200 مرتبہ کبھی کبھی پڑھ لیتی ہوں۔ "اَستَغفِرُ اللهَ رَبّی مِن کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوبُ اِلَیهِ" 100، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" 100 دفعہ یہ اکثر رہ بھی جاتا ہے لیکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم از کم 100 مرتبہ پڑھ لوں۔ فرض نماز کے بعد آیت الکرسی ایک دفعہ۔ سر پر ہاتھ پھیر کر گیارہ مرتبہ یَا عَلِیمُ، یَا حَفِیْظُ۔ اور یَا قَوِّیُ سات مرتبہ، اس کے علاوہ کبھی استغفار یا درودِ ابراہیمی یا کوئی سا بھی درود شریف یا کلمہ طیبہ وغیرہ چلتے پھرتے کبھی بھی پڑھ لیتی ہوں۔ جو وظائف لکھے ہیں ان کو اسی تعداد میں روزانہ پڑھنے کا معمول ہے لیکن کبھی کبھار دن میں پڑھنے سے رہ جاتا ھے تو رات کو پڑھتی ہوں، کبھی آنکھ لگ جاتی ھے اور کوئی تعداد رہ جاتی ھے تو صبح چھوٹی ہوئی تعداد کا افسوس ہوتا اب چونکہ ارادے سے چھوڑ دیئے ہیں تو بے چینی ہوتی ہے لیکن اگر آپ کی طرف سے اجازت نہ ہوئی تو بالکل بھی نہیں پڑھوں گی چاہے کچھ بھی ہوتا ہے۔ حضرت جی ایک اور مسئلہ ہے کہ جو آپ نے ذکر دیا تھا وہ میں اپنی کم علمی کی وجہ سے صحیح نہ سمجھ سکی اور لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ جو 200 مرتبہ پڑھنا تھا وہ پہلے 5 دن تک لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ تک 200 دفعہ پڑھتی رہی، بعد میں website پر دیکھا تو معلوم ہوا کہ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ کے ساتھ پڑھنا تھا۔ اس کا کیا کروں؟ اور یہ ذکر صرف زبان سے کرنا ہوتا ہے یا آواز کے ساتھ؟

جواب:

آپ نے جو اپنی ترتیب رکھی ہے وہ ٹھیک ہے اور آپ کی چاہت ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا تعلق زیادہ نصیب ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس کا انتظام ہے لیکن ایک ترتیب کے ساتھ اور وہ یہ ہے کہ جو آپ کو ابھی ذکر دیا ہے 300 اور 200 والا یہ تو آپ 40 دن تک پورا کر لیں اور لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ پڑھنا چاہیے تھا لیکن اگر آپ نے لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ تک پڑھا ہے تو بھی ٹھیک ہے ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ اس کے علاوہ اگر آپ کے پاس کچھ time ہو اور آپ کرنا چاہیں تو اس کے لئے ہمارے ہاں طریقۂ کار یہ ہے کہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ" بغیر تعداد کے فجر کی نماز سے دوپہر تک اور دوپہر سے مغرب تک درود شریف جو بھی درود شریف آپ کو پڑھنا ہے اور مغرب کے بعد استغفار۔ ہر نماز کے بعد جو تسبیحات ہیں وہ بھی آپ نے پوری کرنی ہیں۔

سوال 2:

جزاک اللہ حضرت جی معذرت، composing کرتے وقت غلطی ہوئی ہے۔ ذکر کی ترتیب وہی ہے جو آپ نے ارشاد فرمائی ہے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے۔

سوال 3:

السلام علیکم حضرت جی میں نے جب سے لطیفہ روح پر سوچنا شروع کیا ہے اس وقت سے لطیفہ قلب پر اللہ کا احساس بند ہو گیا ہے۔ دل پر بہت سوچتی ہوں لیکن جیسے پہلے محسوس ہوتا تھا، اب نہیں ہوتا۔ حضرت جی اس کے بارے میں میرے لئے کوئی اور حکم بھی ہے؟ دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب:

دل پر تو آپ نے 10 منٹ کے لئے سوچنا ہے، وہ سوچتی رہیں اور لطیفہ روح کو آپ اسی طرح جاری رکھیں، جب پورا ہو جائے پھر بتائیں۔ اول تو ان شاء اللہ اس کے ساتھ ہی ٹھیک ہو جائے گا، نہیں ہوا تو پھر مجھے بتائیے گا۔ پھر ان شاء اللہ کچھ کر لیں گے۔

سوال 4:

السلام علیکم حضرت میرا نام فلاں ہے۔ میں نے اپنے معمولات شروع کر دیئے ہیں، الحمد للہ پورے بھی کر رہی ہوں۔ آج میں نے خواب میں آپ کو دیکھا کہ جیسے مجلس شروع ہے اور آپ کسی کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مجھ سے رابطہ نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ یہاں تک بات کرنے کے بعد مجھے ایسے لگا جیسے آپ میری طرف اشارہ کر رہے ہیں تو میں نے بے چینی سے خود سے کہا کہ میں نے رابطہ رکھنا ہے۔ پھر میں نے آج رابطہ کر لیا۔

جواب:

شیخ کو خواب میں دیکھنا اصل میں سلسلہ کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے اور ہمارا سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچتا ہے تو جب سلسلہ میں قبولیت ہو جاتی ہے تو اس کے بعد سلسلہ رابطہ بھی چاہتا ہے اور توجہ بھی اس طرف سے ہوتی ہے۔ تو یہ سلسلہ کی توجہ ہے جس پہ آپ اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور سستی بالکل نہ کریں رابطے میں، کیونکہ رابطہ اور ضابطہ دونوں چیزیں ہوں تو پھر کام بنتا ہے۔ شیخ کے ساتھ رابطہ اصلاح کے لئے ہو، تاکہ کوئی چیز miss نہ ہو جائے اور ضابطہ یعنی جو معمولات بتائیں جائیں ان کے اوپر ٹھیک ٹھیک عمل ہو۔ دونوں چیزیں اگر ٹھیک ہوں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور اگر ان میں کمی رہ جائے تو پھر اس کی وجہ سے آہستہ آہستہ دوری ہو جاتی ہے اور بعد میں انقطاع کی صورت بھی آ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے بچائے۔ (آمین)

سوال 5:

السلام علیکم حضرت میرا نام فلاں ہے میں راولپنڈی سے ہوں۔ آپ نے جو پانچوں لطائف 5، 5 منٹ دیئے تھے اور 15 منٹ کا مراقبہ قلب کا دیا تھا اس کا ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے، دو ناغے ہو گئے تھے بیچ میں۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ابھی آپ اس طرح کریں کہ 5 منٹ کا جو مراقبہ دل کا آپ کو دیا تھا وہ کیا تھا اس سے آپ نے کیا محسوس کیا؟ وہ مجھے بھیج دیں تاکہ میں اگلے کے بارے میں بتا سکوں۔

سوال 6:

السلام علیکم محترم شیخ صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ مجھے 5، 5 منٹ دل کا اور روح کا مراقبہ دیا گیا تھا اور 15 منٹ لطیفہ سر کا تھا، اس کے ساتھ 4000 مرتبہ اللہ کا ذکر دیا تھا، تقریباً دو ماہ ہو گئے دل اور روح کا ذکر محسوس ہوتا ہے لیکن لطیفہ سر پہ ہاتھ رکھ کر محسوس ہوتا ہے ویسے پتا نہیں چلتا۔

جواب:

اگر ہاتھ رکھ کر بھی محسوس ہوتا ہے تو سہی کیونکہ ہوتا تو ہے، لیکن ذرا زیادہ لطیف ہے۔ بہر حال اس کی پرواہ نہ کریں اور یہ تین لطیفے اب 5، 5 منٹ کریں اور 15 منٹ کے لئے چوتھا لطیفہ، لطیفۂ خفی شروع کر لیں اور ساتھ ہی یہ ذکر بھی کریں۔

سوال 7:

حضرت جی السلام علیکم و رحمۃ اللہ رمضان کریم مبارک ہو۔ اللہ کے سامنے بہت شرمندہ ہوں کہ اس نے میری اصلاح کے لئے انتظام فرما دیا اور میں پھر بھی ایک وقت تک سستی اور غفلت سے کام لیتا رہا، انتہائی ناکارہ ہوں۔ ابھی رمضان کریم کے آغاز کے ساتھ ہی اصلاحی اعمال دوبارہ شروع کر دیئے ہیں۔ پہلے ہفتے کا chart پیش خدمت ہے، اللہ تعالیٰ سے اپنی سستی اور کم ہمتی کے لئے توبہ کرتا ہوں اور آپ سے بھی معافی کی درخواست ہے۔ ان شاء اللہ اب شکایت کا موقع نہیں ہو گا۔

جواب:

رمضان شریف کے ساتھ ہی اگر آپ کو احساس ہو گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ شیطان چلا گیا تو آپ کو پتا چل گیا۔ گویا کہ شیطان کے داؤ میں آپ آ گئے تھے۔ اس وجہ سے آپ "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ" 300 مرتبہ روزانہ کر لیا کریں اپنے ذکر کے ساتھ ہی تاکہ شیطان آپ پر غالب نہ ہو اور آپ میں سستی دوبارہ نہ آئے کیونکہ سستی کا علاج چستی ہے اور اس کے ذریعے سے ایک بڑا نقصان ہوتا ہے، انسان بہت دور ہو جاتا ہے۔

سوال 8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

Respected حضرت, I pray that you are well آمین! I have been continuing with my completed اصلاحی ذکر so far every night beyond 30 days without missing a day.

200 times "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"

400 times "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"

600 times "حَق" and

400 times "اَللہ".

Kindly inform me what ذکر I should do next?

جواب:

تو اب 200 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، 600 مرتبہ "حَق"، اور 500 مرتبہ "اَللہ" اور رمضان شریف کے جو معمولات ہیں وہ بھی جاری رکھیں۔

سوال 9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت کیا آپ کی آواز میں منزل جدید کی جو audio ہے وہ چھوٹے بچوں کو سنوا سکتے ہیں، کیا ان کو فائدہ ہو گا؟

جواب:

سمجھدار بچوں کو سنوا سکتے ہیں۔

سوال 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے آپ سلامت رہیں۔ اللہ پاک رمضان المبارک میں ہم سب کو سلامتی نصیب فرمائے اور رمضان المبارک ہمارے لئے سلامتی والا بنائے۔ حضرت جی رمضان المبارک سے پہلے میں نے program بنایا تھا کہ میں رمضان المبارک میں کیفیات کے ساتھ خوب دعائیں مانگوں گا، لیکن آج چھٹا روزہ ہے دعاؤں میں کیفیات اور رقت حاصل نہیں ہو رہی۔ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اختیاری چیزوں میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور غیر اختیاری کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔ اختیاری چیز یہ ہے کہ رمضان شریف کے جو معمولات ہیں وہ آپ صحیح طریقے سے کریں اور جو دعا ہے اس کے اندر اختیاری غفلت نہ ہو، اختیاری غفلت سے مراد یہ ہے کہ جیسے انسان ہاتھ تو اٹھائے لیکن ادھر ادھر دیکھتا رہے اور دل میں توجہ نہ ہو۔ توجہ اختیاری فعل ہے وہ آپ رکھ سکتے ہیں، توجہ کے ساتھ دعا مانگا کریں بے شک پھر اس میں رقت ہو یا رقت نہ ہو، اگر رقت نہ ہو تو رقت والی شکل تو بنا سکتے ہیں وہ تو اختیاری طور پر ہے۔

سوال 11:

السلام علیکم حضرت جی آپ نے 15 منٹ کا مراقبہ قلب کا دیا ہے اس میں وہ جگہ بس حرکت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن باقاعدہ اللہ اللہ کی آواز نہیں آتی۔

جواب:

میرے خیال میں آپ کو مراقبہ سمجھ نہیں آیا تھا یہ مراقبہ احدیت کہلاتا ہے۔ پہلے والا مراقبہ جو قلب والا تھا جس میں ذکر محسوس ہونا تھا وہ مراقبہ نہیں ہے صرف ذکر ہے جو قلب کے ذریعے سے ہوتا ہے، اس کو سری ذکر کہتے ہیں۔ لیکن مراقبہ ایک سوچ کو کہتے ہیں اور فیض کس کو کہتے ہیں؟ ہر وہ چیز جو فائدہ دے۔ چنانچہ جس سے فیض حاصل ہوتا ہے اس کو فیاض کہتے ہیں جیسے کہتے ہیں فلاں شخص بڑا فیاض ہے یا فیضی ہے۔ دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور اصل فیاض تو اللہ تعالیٰ ہے۔ تو آپ یہ تصور کریں کہ کسی قسم کا بھی فیض جو مجھے فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ رھا ھے جیسے کہ اس کی شان ہے اور چونکہ ذریعہ سب سے پہلے آپ ﷺ ہیں تو آپ ﷺ کے قلب مبارک پہ آ رہا ہے پھر آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے کیونکہ شیخ مرید کے لئے ذریعہ ہوتا ہے اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پر آ رہا ہے۔ یہاں پر ذکر کروانے والی بات نہیں تھی بلکہ یہاں فیض کے آنے کا تصور ہے۔ اس کو ایک مہینے تک اس طرح اور کر لیں تاکہ آپ کو کم از کم اس کا فائدہ ہو۔

سوال 12:

میں آپ سے جو اپنے مہینے کا وظیفہ change کراتا ہوں اس کا نام میں بھول گیا ہوں اور ساری ترتیب مجھے پتا ہے جیسے ہم دیکھ رہے ہیں اسی طرح اللہ بھی دیکھتا ہے وغیرہ۔

جواب:

صفاتِ ثبوتیہ اس کا نام ہے۔


کوئی سوال نہیں ہے؟ اگر نہ ہو تو پھر ہم اپنی اپنی تلاوت شروع کر لیں گے کیونکہ رمضان شریف کے مہینے میں تو قرآن کی تلاوت ہی ہے ﴿شَهْرُ رَمَضانَ الَّذی أُنْزِلَ فیهِ الْقُرْآنُ﴾ (البقرة: 185) اس وجہ سے بہت زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔ قرآن پاک کی تلاوت سے اللہ پاک کا تعلق نصیب ہوتا ہے کیونکہ اللہ پاک اپنے کلام پڑھنے والے کو بڑے ہی محبت کے ساتھ دیکھتے ہیں، کیفیتِ انجذابی نصیب ہو سکتی ہے۔ اصل میں تھوڑی سی انسان کو اگر ہوش اور سمجھ ہو تو وہ قرآن کو ذرا پہچان لے کہ قرآن ہے کیا؟ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کو اللہ کا کلام سمجھ کے پڑھنا ہے، اللہ کے کلام کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے کہ کیا ہے اور کیسے ہے؟ لیکن وحی کے ذریعے سے جو ہمیں پہنچا ہے وہ یہی ہے اور اس کی جو برکات ہیں وہ بھی ہم نہیں جانتے کیونکہ ہر آیت کے ساتھ اپنی اپنی برکات ہیں۔ بعض لوگ قرآن پاک کی کچھ خاص سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں جیسے سورۃ ملک یا سورۃ یٰسین یا سورۃ رحمٰن کی، جس کو جس سورت کے ساتھ محبت ہو وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ہمارے جسم کو مختلف minerals کی ضرورت ھوتی ھے تو اگر کوئی بعض minerals کو زیادہ استعمال کر لے اور بعض کو بالکل استعمال نہ کرے تو کیسا ہو گا؟ ظاہر ہے یہ ترتیب ٹھیک نہیں رہے گی۔ قرآن کم از کم رواں انداز میں بار بار ختم کرنا چاہیے اور اپنی پسند کی سورتیں بھی تلاوت کرتے رہیں جو کسی کو زیادہ پسند ہیں وہ پڑھ سکتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال 13:

اکثر ساتھی یا مجھ ہی کو لے لیں کبھی بسط اور کبھی قبض کی شکایت ہوتی ہے تو کیا اگر کسی کو خدا نخواستہ قبض کی شکایت ہو چلتے چلتے اچانک راستے میں رک جائے یا اس کی حالت کچھ اور طرف ہو جائے تو اس کے لئے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

قبض اور بسط کی مثال دن اور رات کی طرح ہے جیسے دن اور رات فطری چیزیں ہیں اسی طرح قبض اور بسط بھی فطری چیزیں ہیں اس کو علیحدہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ تشکیل اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے کہ کس وقت بسط طاری کرتے ہیں اور کس وقت قبض طاری کراتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ اس میدان کے بہت specialist ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ قبض کے بے انتہا فوائد ہیں لیکن وہ فوائد وقت پہ کھلتے ہیں، جس وقت قبض ہوتا ہے تو کافی تنگی ہوتی ہے، پریشانی ہوتی ہے۔ آدمی کہتا ہے کہ مجھے کیا ہو گیا؟ لیکن اس میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا تکبر ٹوٹ جاتا ہے اور تکبر اس راستے کا بہت بڑا کانٹا ہے، عجب ختم ہو جاتا ہے اس کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ انسان قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے، ذکر کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے، دعاؤں میں رونا آتا ہے تو انسان کے دل میں عجب آتا ہے کہ میں کوئی بزرگ بن گیا ہوں تو بجائے فائدے کے نقصان ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ قبض طاری کر لیتے ہیں اور اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں خود تو کچھ بھی نہیں کر سکتا مجھ سے تو سب کھینچ لیا گیا۔ پھر اس کو احساس ہوتا ہے کہ میں خود تو کچھ بھی نہیں کر سکتا الا ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ چاہے تو۔ پھر جس طرح بھی ہو سکے وہ اللہ پاک سے مانگے اور اللہ تعالیٰ سے آہ و زاری کرے۔ کیونکہ 3 قسم کی چیزوں سے قبض ہو سکتا ہے۔ نمبر ایک، کوئی جسمانی بیماری ہو جس کو depression کہتے ہیں وہ بھی قبض کی طرح ہوتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں قبض ہے لیکن بعض دفعہ وہ depression ہوتا ہے جس کا علاج medicaly ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ طریقہ تھا کہ ان کو حکیم صاحب کے پاس بھی بھیج دیتے تھے کہ ان کو بیماری ہے یا دوسرا قبض ہے تو اگر بیماری نہیں ہو تو پھر دوسرے قبض میں دو قسمیں ہیں۔ ایک کسی گناہ کی وجہ سے کوئی شامت آ جائے اور توفیق سلب ہو جائے اور دوسرا روحانی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ طاری کر دے۔ حضرت فرماتے تھے کہ ان دونوں کا حق ادا کرے، کثرت سے استغفار بھی کرے کہ استغفار کرنے میں تو فائدہ ہی فائدہ ہے، چاہے اس وجہ سے نہ بھی ہو پھر بھی استغفار کرنے میں فائدہ تو ہے۔ اور اس کو برا نہ سمجھے اس کو اپنے لئے اچھا سمجھے اور کچھ جائز تفریح وغیرہ بھی کر لیا کرے۔ اس سے ان شاء اللہ آہستہ آہستہ وہ مبدل بہ بسط ہو جائے گا اور یہ ارادہ کر لے کہ عمر بھر نہ بھی ہو تو اگر اللہ پاک نے چاھا تو میں اس کے ساتھ عمر بھر گزارنے کے لئے تیار ہوں تاکہ tension نہ بنے stress نہ آئے۔ اس پہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے۔ جیسے حضرت فرماتے ہیں کہ ان پہ بڑا شدید قبض طاری ہو گیا تھا اور بار بار میرا دل چاہتا تھا کہ بندوق اپنے سر پہ رکھوں اور اپنے آپ کو ختم کروں کہ اس زندگی سے تو مرنا بہتر ہے لیکن پھر کہتا تھا کہ یہ تو حرام موت ہے تو میں بچ جاتا۔ فرمایا کہ اس کی برکت سے الحمد للہ اب یہ حالت ہے کہ جنت کا تو مجھے وسوسہ بھی نہیں آتا بس دوزخ سے پناہ چاہتا ہوں کیونکہ اس کی ہمت نہیں ہے، اس کی برداشت نہیں ہے۔ جنتیوں کی جوتیوں میں بھی جگہ مل جائے تو بڑی بات ہے۔ یہ قبض کی کرامت ہے یعنی ہزار سے زیادہ کتابیں لکھنے والے اور اتنے سارے مریدوں والے اور مفسر بھی اور شیخ الحدیث بھی اور بہت بڑے شیخ بھی، ان ساری چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ کیفیت ہے۔ فائدہ ہے یا نہیں؟ فائدہ تو ہے اور اس کے دور رس اثرات ہوتے ہیں اور فرمایا اگر اس میں کوئی فوت ہو جائے تو اعلیٰ درجے کا شہید ہے۔

سوال 14:

رمضان میں شیطان تو بند ہے لیکن وسوسے بہت آتے ہیں؟

جواب:

وسوسے دو قسم کے ہیں۔ ایک ہے حدیثِ شیطان یعنی وسوسہ اور ایک ہے حدیثِ نفس۔ اپنے نفس سے جو باتیں ہوتی ہیں یہ بھی وسوسے کی صورت بن جاتی ہیں۔ یہ ختم نہیں ہوتا رمضان شریف میں بھی چل رہا ہوتا ہے۔ حدیثِ نفس اور وسوسے میں بہت بڑا فرق حضرت نے لکھا ہے کہ شیطان چونکہ ہم سے گناہ کروانا چاہتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کسی کو لذت میں مبتلا کرنا چاہتا ہے یا خواہ مخواہ ہمیں کوئی دنیاوی فائدہ ہو۔ بلکہ وہ چاہتا ہے آپ گناہ کر لیں چاہے آپ کو فائدہ ہو، چاہے نقصان ہو، چاہے آپ کو مزہ آئے یا نہ آئے۔ اگر کوئی ہندو ہو کے مرتا ہے تو اس کو کیا؟ اور اگر کوئی عیسائی ہو کے مرتا ہے تو اس سے کیا ہو گا؟ کوئی یہودی ہو کر مرتا ہے تو اس سے کیا؟ وہ تو اسلام سے بس ہٹانا چاہتا ہے۔ اگر ایک چیز کام نہ کرے تو دوسری، وہ کام نہ کرے تو تیسری، وہ کام نہ کرے تو چوتھی، وہ بدلتی رہتی ہے جبکہ حدیثِ نفس بدلتی نہیں ہے۔ نفس ہمارے ساتھ ہر وقت ہے وہ بس ایک ہی چیز پہ لگائے رہتا ہے۔ مثلاً حبِ جاہ ہے نفس کی وجہ سے اب وہ جہاں بھی جائے گا تو اپنے تکبر کو ساتھ لے جائے گا، وسوسے بھی اس کو آئیں گے کہ اس نے مجھے سلام بھی نہیں کیا، اس نے یہ نہیں کیا، اس نے وہ نہیں کیا، اس کو ایسا کرنا تھا اور اس کو ایسا، یہ حبِ جاہ کی بیماری ہے۔ اسی طرح حبِ باہ ہے، لڑکیوں کی تصویریں اور عورتوں کی اور لڑکوں کی۔ اسی طرح بڑے مزے مزے کے کھانوں کی اور پتا نہیں کن کن چیزوں کی۔ اسی طرح حبِ مال ہے کہ مال کے منصوبے بنائیں گے کہ یہ ہو جائے گا تو مال دار ہو جاؤ گے وہ ہو جائے گا تو مال دار ہو جاؤ گے۔ تو اسی میں لگا رہتا ہے۔ تو حدیثِ نفس، نفس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نفس جس چیز میں زیادہ غرق ہے اسی کے وسوسے زیادہ آئیں گے۔

اللہ تعالیٰ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے جنھوں نے ان چیزوں کو دو دو چار کی طرح بہت واضح کر کے پیش کیا ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِين