دعوت و تبلیغ میں مخالفت کی بد سلیقگی سے درگزر اور مؤثر طریقہ اختیار کرنا

سوال نمبر 370

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان










اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم صفحہ 217 پر اعراض اور قول بلیغ کے عنوان کے تحت اس آیت ﴿فَاَعْـرِضْ عَنْـهُـمْ وَ عِظْهُـمْ وَ قُلْ لَّـهُـمْ فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ قَوْلًا بَلِيْغًا﴾ (النساء: 63) فرماتے ہیں اس تعلیم میں تین ہدایتیں ہیں۔ اول یہ کہ دعوت و تبلیغ میں مخالفین کی بد سلیقگی سے درگزر کرنا چاہیے اور ان کو برداشت کرنا چاہیے، دوسرا یہ کہ ان کو نصیحت کرنا اور سمجھانا چاہیے اور تیسرا یہ کہ گفتگو کا وہ موثر طرز و انداز اختیار کرنا چاہیے جو دل میں گھر کر لے۔ یہ تینوں چیزیں بیک وقت کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن چونکہ دین کی طرف دعوت دینا ختم نبوت کے صدقے مسلمانوں کے ذمے ہے تو ان تینوں کاموں کو صحيح طور پر کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ جو دعوت میں رکاوٹیں پیدا کرے اُن کو معاف بھی کریں، اور ساتھ ساتھ اُن کو نصیحت بھی کریں اور وہ بھی اس انداز میں جو اُن کے دل میں گھر کر جائے۔

جواب:

میں اگر ان تین چیزوں کا صرف ایک ہی حل بتا دوں تو کیسا رہے گا؟ تین معرکۃ الآراء باتیں ہیں کہ جو دعوت میں رکاوٹ پیدا کرے ان کو معاف بھی کریں، ساتھ ان کو نصحیت بھی کریں اور پھر ایسے انداز میں کہ ان کے دل میں گھر کر جائیں۔ ان کا ایک ہی حل ہے اگر وہ نہیں ہوتا تو فساد ہوتا ہے اور جب آ جاتا ہے تو پھر تینوں کام خود بخود ہو جاتے ہیں وہ حل ”عاجزی“ ہے۔ اگر عاجزی نہ ہو تو پھر کبھی بھی یہ تینوں چیزیں نہیں آ سکتیں۔ کیونکہ جب آپ اپنے آپ کو ان سے بڑے سمجھو گے تو ان کے ساتھ سختی کرو گے اور دل میں ان کے لئے سختی رکھو گے۔ اور دل کا اثر پڑتا ہے تو آپ کی بات دل میں گھر نہیں کرے گی، آخری والی بات ادھر سے بگڑ جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ برداشت نہیں ہو گا کیونکہ آدمی جب اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے تو چھوٹے کی بات برداشت نہیں کرتا۔ اور نصیحت بھی صحیح انداز میں انسان تب کر سکتا ہے جب اپنے آپ کو اس کا محتاج سمجھے کہ میری ضرورت ہے اگر یہ کہے کہ اُس کی ضرورت ہے تو بس گڑ بڑ ہو گئی۔ یعنی مجھے اگر یہ کام سونپا گیا ہے تو میں اپنی duty کر رہا ہوں۔ مثال کے طور پر بچوں کا ڈاکٹر ہے بچے بچے ہوتے ہیں ان سے تو بڑوں جیسی توقع نہیں کر سکتے کہ میرے سامنے سیدھے بیٹھ جائیں گے اور پھر میں ان سے بات کروں گا، یہ کروں گا وہ کروں گا بلکہ ان کے ساتھ آپ کو خود ہی adjust کرنا پڑے گا اور اس کے مطابق آپ کو deal کرنی پڑے گی، آپ اس کو دوائی بھی دیں گے آپ اس کو injection بھی لگائیں گے لیکن بچے کے مزاج کو سمجھ کر کیوں کہ آپ اپنی duty سمجھ رہے ہیں، اپنے آپ کو اس کا محتاج سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اگر یہ نہیں کیا تو میں fail ہو جاؤں گا۔ اسی طرح اگر آپ اللہ کی طرف سے مقرر ہیں اور اللہ پاک نے آپ کی کوئی ذمہ داری لگائی ہے اگر اس کا اپنے آپ کو محتاج سمجھیں گے تو صحیح طریقے سے کریں گے البتہ صحیح طریقے میں رکاوٹ تکبر ہے جس کو دور کرنا پڑے گا، یہی بنیاد ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو تزکیۂ باطن سے آتی ہے، بغیر اس کے سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا کہ یہ آ جائے۔ مثال کے طور پر میں اگر اپنی تقریر پر بھروسہ کر لوں کہ میری تقریر اچھی ہو تو یہ باطن کا فساد ہے اور وہ تقریر اثر نہیں کرے گی۔ عاجزی والے شخص کی ٹیڑھی میڑھی باتیں بھی لوگ برداشت کر لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے ایک امیر صاحب تھے وہ بڑے عاجز مزاج آدمی تھے۔ ہماری کالونی میں جب وہ گشت پہ نکلتے تو سارے لوگ cooperate کرتے، ان کے ساتھ ہوتے۔ وہ کبھی نہیں ہوتے تو دوسرے صاحب جو شاید نائب امیر تھے ان میں تھوڑا سا مسئلہ تھا اور یہی چیز گڑبڑ کرتی ہے۔ مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ میں انتہائی عاجزی تھی، لوگ ان کو مار بھی دیتے تو کہتے: ٹھیک ہے جی مار لیں، اب تو تسلی ہو گئی؟ اب تو میری بات سنو گے؟ تبلیغ کا کام کوئی نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذَالِك لیکچر تو نہیں ہے یہ تو دل سوزی کی بات ہے۔

نِگہ بُلند سُخن دِل نواز جاں پُرسوز

يہی ہے رختِ سفر مِيرِ کارواں کے لئے

یعنی ایک انسان اگر عاجزی اختیار نہیں کر سکتا، جان پرسوز پیدا نہیں کر سکتا تو پھر اس بڑے کام کی ذمہ داری بڑی مشکل ہے۔ چنانچہ یہ چیز واقعی مشکل ہے لیکن اس میں مشکل ہمارا نفس پیدا کرتا ہے جو اس میں حائل ہے۔ اگر ہم اس مشکل پہ قابو پا سکیں اور اس کو زیر کر سکیں تو اس کے بعد یہ سارے کام آسان ہیں، پھر صرف تبلیغ نہیں بلکہ ہر دینی کام آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا اہل بنا دے اور اپنی ذمہ داری کو ہم سمجھیں اور اس کو باحسن طریقے سے کرنے کی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

میں ایک معذرت کروں گا کل کے بیان میں تزکیہ کا لفظ جو بولا گیا تھا وہ تزکیہ نہیں بلکہ تذکرہ ہے۔ چونکہ تبلیغ، تذکیر بھی ہے بلکہ کہتے ہیں کہ ہماری جو تبلیغ ہے یہ اصل میں تذکیر ہے یعنی ہم صرف یاد دہانی کراتے ہیں کیونکہ ہم کافروں کے پاس نہیں جا رہے بلکہ مسلمانوں کے پاس جا رہے ہیں اور مسلمان تو پہلے سے مسلمان ہیں اس لئے ان کو تبلیغ نہیں بلکہ تذکیر کریں گے ﴿وَ ذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرٰى تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاریات: 55) یعنی وہ یاد دہانی کرائیں اور یاد دہانی مومنین کو نفع پہنچاتی ہے۔ بس یہی طریقہ ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن