تبلیغ نبوی اور اس کے معنوں میں اختلاف: تزکیہ کا مفہوم اور اس کا استعمال

سوال نمبر 369

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں صفحہ نمبر 212 پر تبلیغ نبوی کے باب میں فرماتے ہیں: تبلیغ کے لفظی معنی پیغام پہنچانے کے ہیں اور اصطلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ جس چیز کو ہم اچھا سمجھتے ہیں اس کی اچھائی کو ہم دوسرے لوگوں کو اور دوسری قوموں تک پہنچائیں اور ان کو اس کے قبول کرنے کی دعوت دیں۔ قرآن پاک میں تبلیغ کے ہم معنی چند اور الفاظ بھی آئے ہیں جن میں سے ایک لفظ انذار ہے۔ جس کے معنی ہوشیار اور آگاہ کرنے کے ہیں، دوسرا لفظ دعوۃ ہے جس کے معنی بُلانے اور پکارنے کے ہیں اور تیسرا لفظ تزکیہ ہے جس کے معنی یاد دلانے اور نصیحت کرنے کے ہیں۔ چونکہ یہ سارے الفاظ قرآن پاک میں تبلیغ کے لئے استعمال ہوئے ہیں اس لئے ہم ان میں سے کوئی بھی لفظ تبلیغ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ان الفاظ میں تزکیہ لفظ عموماً تصوف سے وابستہ ہے لیکن حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو تبلیغ کے لئے استعمال فرمایا ہے اور اس کے معنی یاد دلانے اور نصیحت کرنے کے لئے ہیں۔ کیا تصوف کے لئے بھی تزکیہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہو سکتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر تبلیغ کے لئے تزکیہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو کیا آج کل جس کو تبلیغ کہا جا رہا ہے اس نظام میں بھی اصلاح کی ترتیب بن سکتی ہے؟

جواب:

حضرت نے صفحہ نمبر 212 پہ لکھا ہے کہ تبلیغ کے لفظی معنی پیغام پہنچانے کے ہیں اور اصطلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ جس چیز کو ہم اچھا سمجھتے ہیں اس کی اچھائی اور خوبی کو دوسرے لوگوں اور دوسری قوموں تک پہنچائیں اور ان کو اس کے قبول کرنے کی دعوت دیں۔ قرآن پاک میں تبلیغ کے ہم معنی چند اور الفاظ بھی ہیں جن میں سے ایک لفظ انذار ہے جس کے معنی ہوشیار اور آگاہ کرنے کے ہیں۔ دوسرا لفظ دعوت ہے جس کے معنی بلانے اور پکارنے کے ہیں اور تیسرا لفظ تزکیہ ہے جس کے معنی یاد دلانے اور نصیحت کرنے کے ہیں۔ بعثت نبوی کے وقت دنیا میں دو قسم کے مذہب تھے۔ دو ایسے تھے جو تبلیغی تھے یعنی عیسائیت اور بدھ مت۔ باقی زیادہ تر ایسے تھے جو تبلیغی نہیں تھے جیسے یہودیت، مجوسیت ہندویت۔ جو دو تبلیغی سمجھے جاتے ہیں ان کی نسبت یہ فیصلہ مشکوک ہے کہ آیا یہ تبلیغ ان کے اصل مذہب کا حکم تھا یا بعد کے پیروؤں کا عمل تھا، کیونکہ ان کے مذہبی صحیفوں میں اس قسم کی تعلیم کی دعوت کی کھلی ہوئی ہدایتیں ان کے بانیوں کی زندگیوں میں اس کی عملی مثالیں نہیں ملتی۔ تمام مذاہب میں صرف اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے تبلیغ کی اہمیت کو سمجھا اور اس کے متعلق اپنے صحیفہ میں کھلے احکام دیئے اور اس کے داعی اور حامل علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اس کی عملی مثالیں پیش کیں۔ جن مذہبوں نے تبلیغ کو اپنا اصول نہیں ٹھہرایا ان کے ایسا کرنے کی اصلی وجہیں دو ہیں ایک یہ کہ ان کے نزدیک اس حق کو قبول کرنے کی عزت کا احقاق پیدائش سے حاصل ہوتا ہے، کوشش سے نہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ جو حق ان کے پاس ہے وہ ان کے نزدیک اتنا پاک اور مقدس ہے کہ ان کے خاص اور پاک بزرگ مختلف نسل و قوم کے علاوہ دوسری تمام قومیں جو نا پاک اور نجس و کمتر ہیں ان تک اپنے پاک مذہب کو لے جانا خود اس مذہب کی پاکی کو صدمہ پہنچانا ہے۔ یہی سبب ہے کہ میسح علیہ السلام ایک دفعہ جب ایک کنعانی عورت کے گھر گئے تو فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کے کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ پھر فرمایا مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی کتوں کو پھینک دیں۔ پھر فرمایا غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامری کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ پہلے اسرائیل کے کھوئی ہوئی بھیڑیوں کے پاس جاؤ اور چلتے ہوئے منادی کرو۔

خود پڑھنے کے لئے ضرورت پڑتی ہے تاکہ بات پوری طرح سمجھ میں آ جائے۔ اصل میں تزکیہ ضروری ہے کیونکہ انسان سب سے پہلے اپنے کردار سے دعوت دیتا ہے۔ یعنی جس کا کردار صحیح ہو وہ بذات خود ایک دعوت ہوتا ہے۔ گفتار سے لوگ اثر نہیں لیتے لیکن کردار سے اثر لیتے ہیں اور کردار تزکیہ سے ہوتا ہے۔ پھر انسان کسی اور کو یہ بات کہہ سکتا ہے۔ چنانچہ اپنے آپ کو اچھا سمجھنا اور دوسروں کو برا سمجھنا، اس سوچ سے پاک ہونا ضروری ہے۔

تبلیغی جماعت میں جب ہم چل رہے ہوتے تھے تو ہم یہی بتاتے تھے کہ یہ نہ سوچنا کہ ہم ان لوگوں سے اچھے ہیں اور ان کو ہم بتا رہے ہیں بلکہ یہ سوچنا کہ یہ اتنے اچھے لوگ ہیں کہ ہمیں ان کے پاس جانے کا حکم ہے۔ یہ اس چیز سے نکالنے کے لئے کہ ہم لوگ اپنے آپ کو اچھا نہ کہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (النجم: 32) یعنی اپنے آپ کو اچھا نہ کہو۔ جو آدمی اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے وہ تبلیغ کے لئے disqualified ہو جاتا ہے۔ وہ تبلیغ کرے گا تو فساد پھیلائے گا۔ جو اپنے آپ کو اچھا نہیں سمجھتا اور کہتا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اللہ پاک نے یہ حکم دیا ہے، میں خود اپنی اصلاح کے لئے باہر نکلا ہوں اور اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور اس ضمن میں باقی لوگوں کو بھی پتا چل جائے تو یہ صحیح سوچ ہے۔ جب تک تبلیغ اس انداز میں ہوتی تھی تو بہت فائدہ تھا۔ علماء و مشائخ بھی بہت مدد کرتے تھے اور بہت خوش ہوتے تھے۔ اور ان کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ لیکن جب سے اپنے آپ کو اچھا سمجھنا شروع کیا تو مسائل پیدا ہو گئے۔ علماء سے کٹ گئے، مشائخ سے کٹ گئے۔ چنانچہ اس کے لئے تزکیہ کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ان کا تزکیہ تبلیغ کے دوران ہو سکتا ہے یا نہیں؟ بالکل ہو سکتا ہے۔ کسی شیخ سے بیعت ہوں اور اللہ کے راستے میں چلیں اور اپنی اصلاح کے لئے اس کو مجاہدہ سمجھیں تو بالکل ٹھیک ہے۔ بہت اچھا مجاہدہ ہے۔ اور شیخ کی نگرانی میں چلنا اس لئے ضروری ہے کہ یہی چیز شیخ اس سے نکالنے کی کوشش کرے گا کہ اپنے آپ کو اچھا نہ کہے۔ کیونکہ اگر شیخ سر پر نہ ہو تو یہ چیز بہت جلدی آتی ہے۔ کیونکہ اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کسی شیخ کی نگرانی میں چلتا ہے تو اسی میں ہی بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ تبلیغ مکمل نہیں ہے جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں تبلیغ مکمل ہے، اس میں سب کچھ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ تبلیغ مکمل نہیں ہے، اس میں پابندی ہے۔ آپ علمی مسائل پہ گفتگو نہیں کر سکتے، اگر کریں گے تو آپ کو روک دیا جائے گا۔ جب ہمارا اصول یہ نہیں ہے تو علمی مسائل پھر کب سیکھیں گے؟ اس کے لئے کسی اور کے پاس جانا پڑے گا تب آپ سیکھیں گے۔ تبلیغ میں آپ بار بار 6 نمبر سنیں گے اور 6 نمبر پورا دین نہیں ہے۔ یہ دین پر آنے کے لئے ایک ترتیب ہے۔ اس میں زکوۃ کے مسائل، حج کے مسائل، فقہ کے مسائل کدھر ہیں؟ اس میں معاملات کی باتیں کدھر ہیں؟ چنانچہ مشائخ کی تربیت کے لحاظ سے علماء کے ساتھ بھی رابطہ ضروری ہے۔ ہم نے خود مصطفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) حضرت ہدایات دے رہے اور ہدایات میں فرمایا کہ دوستو اگر کوئی نیا آدمی کسی طرح جماعت میں آ جائے تو اس کی تربیت کرنے کی کوشش نہ کرنا، کیونکہ تربیت کرنا مشائخ کا کام ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کنوئیں پر ڈول ہو اور آپ کہہ دیں کہ اس کی تربیت ہو جائے گی، ڈول نکالنے دو۔ یہ آپ کا کام نہیں بلکہ ہمارا کام صرف اکرام ہے۔ اصل تبلیغ یہی ہے کہ علم پہنچانا علماء کا کام ہے اور تربیت کرنا مشائخ کا کام ہے اور ہم اس کے محتاج ہیں۔ ہم علم حاصل کرنے کے لئے علما کے پاس جائیں گے اور تربیت کے لئے مشائخ کے پاس جائیں گے اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہم تبلیغ میں جائیں گے۔ ہم دنیا کا کوئی بھی کام کریں گے لیکن علما اور مشائخ کی نگرانی میں کریں گے۔ اگر اس طرح ہو جائے تو بالکل صحیح ہے۔

ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو حضرت شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ (جن کے ذریعے سے رائیونڈ کی زمین لی گئی تھی) نے فرمایا کہ تبلیغ کا کام آپ کا مجاہدہ ہے اور ذکر کا کام آپ کا تزکیہ ہے۔ بہر حال دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ہوں تو بہت اچھی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن