خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ حصہ چہارم صفحہ 132 پر نبوت کی غرض و غایت کے عنوان کے تحت فرمایا کہ بے ارادہ دنیا کی میزان کا نام قانونِ فطرت ہے اور بالاراده دنیا کی میزان کا نام قانونِ شریعت ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب:
یہاں پر فرمایا بے ارادہ، کس کا ارادہ؟ انسان کا ارادہ۔ یعنی انسان کا اس میں کوئی ارادہ نہیں چلتا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ بارش آج ہو تو کیا ہو سکتی ہے؟ کوئی کہتا ہے ہوا اس سمت میں چلے یا گرمی آ جائے یا سردی آ جائے تو اس کے کہنے سے ایسا نہیں ہوتا۔ یعنی جو چیزیں اللہ پاک نے خود مقرر کی ہیں وہی ہوں گی ان میں انسان کا ارادہ نہیں چلتا، یہ تکوینی نظام ہے۔ اور تشریعی نظام یہ ہے کہ جس میں انسان کے ارادے کا نتیجہ ہوتا ہے گویا کہ "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ" (البخاری، حدیث نمبر: 1) یعنی تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ لہذا جو شخص شریعت کے کسی کام کو بجا لانا چاہتا ہو تو اس میں دو ضروری ارادے شامل ہونے چاہئیں۔ نمبر ایک نیت اللہ کی رضا کی ہو، نمبر دو حضور ﷺ کے طریقے پہ ہو، جس کی بنیاد لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ہے۔
دونوں میزان ہیں، میزان اس لئے کہتے ہیں کہ دونوں نظام balance پر قائم ہیں یعنی اس میں افراط تفریط نہیں ہو سکتی۔ پوری کائنات کو اللہ پاک نے ایک balance پہ رکھا ہے۔ ہماری زمین کے اوپر اگر ہوا نہ ہوتی تو یہاں اوسط temperature جو ہوتا وہ منفی °20 سینٹی گریڈ ہوتا یعنی کہیں اس سے بھی کم ہوتا کہیں اس سے تھوڑا زیادہ ہوتا۔ اور ہوا کا غلاف لحاف کی طرح ہے، لحاف میں انسان کی اپنی جو گرمی ہوتی ہے وہ اس کے لئے استعمال ہو جاتی ہے، لحاف خود گرم تو نہیں ہوتا جیسے کہتے ہیں کہ گرم کپڑے ہیں، کپڑے گرم نہیں ہوتے بلکہ وہ ہماری گرمی کو maintain کر لیتے ہیں۔ چنانچہ لحاف بھی ہمارے جسم کی گرمی کو باہر نہیں جانے دیتے یہی وجہ ہے کہ اگر رات کو بادل ہوں تو صبح ٹھنڈک نہیں ہوتی ہے موسم معتدل ہوتا ہے اور اگر بادل نہ ہوں تو بڑی ٹھنڈک ہوتی ہے کیوں کہ بادلوں کی وجہ سے دن کی جو حرارت آئی ہوتی ہے وہ maintain رہ جاتی ہے باہر نہیں جاتی جب کہ اگر بادل نہ ہوں تو خلا میں چلی جاتی ہے لہذا بڑی سردی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے تمام چیزوں کو balance پہ رکھا ہے۔ blood pressure زیادہ ہو جائے پھر بھی بیماری، کم ہو جائے پھر بھی بیماری۔ body temperature کم ہو جائے پھر بھی بیماری، زیادہ ہو جائے پھر بھی بیماری۔ انسان بہت سیاہ ہو جائے پھر بھی بد صورت، بہت سفید ہو جائے پھر بھی بد صورت، بہت سرخ ہو جائے پھر بھی بصورت۔ ہر چیز کا ایک balance ہے۔ مثلاً آنکھ کے اندر جو پانی ہے اگر balance out ہو جائے تو اس میں ڈالنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی balance out ہوتا ہے تو اس کو بیماری کہتے ہیں یا اگر کائنات کے نظام میں کہیں گے تو مسئلہ ہوتا ہے، مصیبت ہوتی ہے۔ یک دم ہوا کا دباؤ کسی جگہ کم ہو جائے تو طوفان آ جاتا ہے اور بڑھ جائے پھر بھی۔ تو کائنات کے نظام کی چیزیں جیسے balance پر ہیں اسی طرح ہماری شریعت کی چیزیں بھی balance پر ہونی چاہئیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے جیسے تکوینی نظام میں فطرت ہے، اسی طرح اس میں بھی فطرت کا خیال رکھا گیا ہے اور ہر چیز کے لئے اس کے مطابق اپنا اپنا قانون ہے جس پہ balance قائم رہتا ہے۔ یعنی آپ جذبات کا بھی balance رکھیں گے، عقل کا بھی balance رکھیں گے، نفس کی خواہشات کا بھی balance رکھیں گے یعنی نفس کی خواہشات کے balance سے مراد یہ ہے کہ آپ اگر نفس کی جائز خواہشات بھی روکتے ہیں تو یہ وہ چیز ہے جو عیسائیوں کے ہاں تھی یعنی رہبانیت، جس سے اسلام میں منع کیا گیا ہے۔ اور نفس کو کھلا چھوڑ دیں تو وہ بھی منع ہے۔ درمیان میں جہاں روکا گیا ہے وہاں رکنا ہے، جہاں نہیں روکا گیا وہاں نہیں رکنا۔ جیسے بیماری میں انسان وہمی ہو جائے پھر بھی بیماری ہے اور careless ہو جائے پھر بھی بیماری ہے اور نقصان ہے۔ اسی طرح شریعت میں بھی ہمیں بہت balance اختیار کرنا چاہیے، دل، عقل اور نفس ان تینوں کا ایک balance ہے جو ہمیں اختیار کرنا چاہیے، اس کے بعد ہم کہتے ہیں کہ تربیت ہو گئی اور کامل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن