اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم صفحہ نمبر 129 پر ”انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا امتیازی نتیجہ“ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ انبیاء کی تعلیم کا اہم اصول اور سب سے ضروری جُز توحید ہے اور وہی نبوت کے ساز کا اصلی اور ازلی ترانہ ہے۔ اس سے یہ مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ چونکہ نبوت تو آپ ﷺ پر ختم ہو گئی ہے لہٰذا اس وقت وہی تعلیم ہم نبوی تعلیم مان سکتے ہیں جس کی بنیاد توحید پر ہو، اس وقت بہت سے لوگ توحید کی تعلیم کا پرچار کرتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں، کیا جو بھی توحید کی بات کر رہا ہو تو اُس کی تعلیم کو ہم نبوی تعلیم مان کر اُن کی پیروی شروع کر لیں یا جو بھی توحید کی بات کر رہا ہو اُس کی تعلیمات کو جانچنے کے لئے ہمیں کچھ اور بھی کرنا چاہیے؟ اگر کچھ اور بھی کرنے کی ضرورت ہے تو وہ کیا ہے؟
جواب:
اصل میں اپنے آپ کو confuse نہیں کرنا چاہیے۔ بات بڑی simple اور آسان ہے کہ ہمارے لئے ہدایت کے دو بڑے ذریعے ہیں، ایک قرآن ہے اور دوسری سنت رسول ﷺ۔ ہم قرآن کے وہ معنی نہیں لے سکتے جو سنت رسول ﷺ میں نہ ہوں، یعنی قرآن کی تشریح سب سے پہلے صحیح معنوں میں آپ ﷺ نے کی ہے، آپ ﷺ صحیح معنوں میں مفسر قرآن ہیں لہذا آپ ﷺ نے جو معانی بتائے ہیں وہی درست ہوں گے۔ کبھی قرآن کی کسی آیت سے دوسری آیت کے معنی بتائے جاتے ہیں بعض دفعہ ایک آیت کی دوسری آیت تشریح کر رہی ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن پاک کی آیت ہے ﴿وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْـرُ اَوْ تَهْوِىْ بِهِ الرِّيْحُ فِىْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ﴾ (الحج: 32) ”اور جو اللہ کا شریک کرے وہ گویا گرا آسمان سے کہ پرندے اُسے اُچک لے جاتے ہیں یا ہوا اُسے کہیں دور گہری کھائی میں پھینکتی ہے“۔ یہ اللہ پاک نے توحید کا بہت زبردست نظام بتایا ہے۔ پرندے سے مراد جیسے شیطان نے کسی کو گمراہ کر دیا یا نفس نے اس کو کسی گہری کھائی میں ڈال دیا۔ لیکن آگے فرمایا ﴿ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32) ”یہ سب کچھ (تم نے سن لیا)، اور جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے گا تو یقینا یہ دلوں کے تقویٰ کی بات ہے“۔ اگر میں ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت مان لوں اور دوسری آیت کو چھوڑ دوں تو یہ عمل صحیح نہیں ہو گا۔ آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے کہ ایک حدیث شریف کو پکڑ لیں گے باقی ساری چیزیں چھوڑ دیں گے اسی طرح قرآن کی ایک آیت پکڑ لیں گے باقی ساری چیزیں چھوڑ دیں گے حالانکہ اس کی تشریح کے لئے قرآن کی دوسری آیتوں کی ضرورت ہے یا پھر نبی ﷺ کے قول کی ضرورت ہے یا صحابہ کرام کے طریقے کی ضرورت ہے "مَا اَنَا عَلَيْهِ وَ اَصْحَابِی" (ترمذی، حدیث نمبر: 2641) اس کے بغیر ہم لوگ ہدایت نہیں پا سکتے، معاملہ گڑبڑ ہو جائے گا۔ میں نے ان آیات کا ذکر کیوں کیا؟ کیونکہ ان میں بالکل دو ٹوک انداز میں توحید کو خالص بتایا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی شعائر اللہ کے احترام کو دلوں کا تقویٰ بتایا گیا۔ اب جو شخص اپنی مرضی کی توحید چاہتا ہے وہ شعائر اللہ کی تعظیم کو شرک میں شامل کر لیتا ہے۔ یہ بات غلط ہو گی چاہے کوئی بھی کرے۔ یہ خوارج کا طریقہ ہے، وہ بھی توحید کے مدعی تھے۔ لیکن آپ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ صرف اپنے آپ کو ٹھیک کہنا اور باقی سب کو غلط کہنا خوارج کا طریقہ ہے۔ ایک بات کو لے کے باقی ساری باتیں بھول جانا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں ذرا اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ توحید کو آپ ﷺ کی تعلیمات کی روشنی سے سمجھنا پڑے گا یا قرآن پاک کی دوسری آیات کی روشنی میں ہمیں اس کی تشریح کی ضرورت ہو گی۔ اب شعائر اللہ کیا ہیں؟ خانہ کعبہ شعائر اللہ میں سے ہے اور اس کی طرف لوگ پیر کر لیتے ہیں۔ ایک عالم نے بتایا کہ حرم میں ایک صاحب تھے انہوں نے قرآن زمین پر رکھ دیا۔ میں نے اسے کہا کہ اس کو اوپر رکھو اس کا ادب ہے۔ کہتے ہیں: مَا المُشْکِل؟ ھٰذَا طَاھِرٌ وَ ھٰذِہٖ طَاھِرَۃٌ، مَا الفَرْقُ؟ یعنی قرآن بھی پاک ہے اور زمین بھی پاک ہے کیا فرق ہے؟ میں نے ایک پاک چیز کو دوسری پاک چیز کے اوپر رکھ دیا۔ عالم نے سوچا کہ اس کا دماغ ذرا موٹا ہے اس کو ذرا موٹے الفاظ میں سمجھانے کی ضرورت ہے تو کہا: اس پہ اپنا پیر رکھ دو، تو ہل گیا اور کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو عالم نے کہا: ھٰذَا طِاھِرٌ وَ ھٰذِہٖ طَاھِرَۃٌ۔ آپ کا پاؤں پاک نہیں ہے کیا؟ بس وہ سمجھ گیا۔
میں حرم شریف میں طواف کر کے نیچے جا رہا تھا، دیکھا کہ ایک مصری خانہ کعبہ کی طرف قصداً پیر کر کے سوئے ہوئے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں خواہ مخواہ خانہ کعبہ کی طرف پیر کر کے سو جاتے ہیں بھئی کسی اور طرف رخ نہیں کر سکتے ہو؟ اگر گنجائش بھی ہے تو ضروری ہے کہ خواہ مخواہ آپ یہی کرو؟ اس کے ساتھ دوسرا مصری بیٹھا ہوا تھا جو تلاوت کر رہا تھا۔ میں نے لیٹے ہوئے کو تو کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ سو رہا تھا لیکن ساتھ والے کے کان میں چپکے سے یہ آیت پڑھی ﴿ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32) نہ کوئی تشریح کی، نہ کوئی reference دیا، نہ کوئی بات کی، وہ spring کی طرح اچھلا اور اس کو جگایا اور اس کے پیر خانہ کعبہ سے ہٹا دیئے اور پھر اس کے بعد وہ بیٹھ کر تلاوت کرنے لگا۔ حالانکہ میں نے کوئی بات نہیں کی تھی بس قرآن کی آیت ہی سے اس کو پتا چل گیا۔
ہمارے ائمہ کرام بہت اونچے لوگ تھے، انہوں نے As a whole دین کو لیا ہے، پورے کا پورا دین لیا ہے نتیجتاً ان کے اندر تصلب تھا کہ اپنی بات پہ مضبوطی سے جم جاتے تھے لیکن تعصب نہیں تھا کہ صرف میری بات ٹھیک ہے باقی سب کی بات غلط ہے۔ وَ اللہُ اَعلَمُ بِالصَّوَاب وہ دل سے کہتے تھے کہ اللہ کو پتا ہے کہ کون سی بات ٹھیک ہے۔ آج کل لکھتے سب ہیں لیکن کہتے ہیں بات تو میری ہی ٹھیک ہے، یہ بات غلط ہے۔ بہر حال توحید یقیناً بنیادی اساس ہے بلکہ انبیاء کا بھی طریقہ ہے اور توحید، رسالت اور معاد یہ قرآن کے تین بنیادی مضامین ہیں باقی تشریحات ہیں اور ہر نبی نے "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" کا نعرہ لگایا جیسے "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ"، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُوسٰی کَلِیمُ اللہ"، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ عِیسٰی رُوحُ اللہ"، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ نُوحٌ نَّبِیُّ اللہ"، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ آدَمُ صَفِیُّ اللہ"، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ اِبرَاہِیمُ خَلِیلُ اللہ"، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ اِسمٰعِیلُ ذَبِیحُ اللہ"۔ یعنی ہر ایک رسول، ہر ایک پیغمبر کا طریقہ توحید کی طرف ہی بلانا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید بنیادی اساس ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن اپنی مرضی کی توحید نہیں بلکہ وہ توحید جو آپ ﷺ نے بتائی ہے جو پیغمبروں نے بتائی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وَمَا عَلَيْنَا اَِّلا الْبَلَاغُ