قرآن میں حکم کا مفہوم: کیا یہ دنیوی حکومت یا کچھ اور ہے؟

سوال نمبر 365

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو دنیا ميں جو کچھ عطاء فرمایا تھا ان کا ذکر قرآن پاک ميں کیا گیا ہے۔ ان نعمتوں ميں ایک نعمت اللہ تعالیٰ نے ”حکم“ بھی بیان فرمائی ہے جس کا ذکر قرآن پاک کی متعدد آیاتِ کریمہ میں ہے۔ کہیں پر علم اور حکم ایک ساتھ آیا ہے، کہیں پر کتاب، حکم اور نبوۃ ایک ساتھ آیا ہے۔ کیا اس ”حکم“ سے دنیوی حکومت مراد ہے یا یہ کوئی اور چیز ہے؟ جہاں کتاب اور نبوت کے ساتھ حکم آیا ہے اس سے ہميں کیا واضح ہو رہا ہے کہ یہ کتاب اور نبوت کے علاوہ کوئی تیسری چیز ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

علم اور حکم کیا ہے؟ بہت سارے انبیاء کرام کے متعلق جو علم کے ساتھ حکم کا عطا ہونا بیان ہوا ہے تو حکم کے معنی لغت میں تو فیصلہ اور حق و باطل میں تمییز کرنے کے ہوتے ہیں جس کا اردو ترجمہ ”سمجھ بوجھ“ کیا جا سکتا ہے یعنی اس کے نتیجے میں فیصلہ ہو سکتا ہے۔ امام راغب اصفہانی مُفرَدَاتُ القُرآن میں لکھتے ہیں "وَالْحُکْمُ بِشَیْءٍ: اَنْ تَقْضِیَ بِاَنَّهٗ کَذَا اَوْ لَیْسَ بِکَذَا سَوَاءٌ اَلْزَمْتَ ذٰلِكَ غَیْرَكَ اَوْ لَمْ تُلْزِمْہُ" ”کسی شے پر حکم کرنا یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ ایسی شے ہے یا ایسی شے نہیں ہے، عام اس سے کہ اس کے فیصلے کا تم دوسرے کو پابند کر سکو یا نہ کر سکو“ مطلب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کے اوپر ہم جب حکم لگاتے ہیں کہ یہ ایسی ہے تو یہ فیصلہ کرنا ہے۔ کہتے ہیں فلاں چیز پر اس نے یہ حکم لگایا تو وہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ یہ چیز یہ ہے یا نہیں ہے یا کیسی ہے۔ یعنی اس کے بارے میں ہم فیصلہ کر لیتے ہیں۔ عربی لغت کی مشہور کتاب ”لسان العرب“ میں ہے کہ حکم کے معنی علم، سمجھ اور منصفانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ان انبیاء کرام کو جن پر کسی کتاب کا نازل ہونا ثابت نہیں ہے اس علم اور حکم کا عطا ہونا ثابت ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ وحی کتاب کے علاوہ کسی اور عطیہ علم اور حکم کی طرف اشارہ ہے چنانچہ یوسف علیہ السلام کی شان میں ﴿وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهٗ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا﴾ (یوسف: 12) ”اور جب یوسف علیہ السلام جوانی کی قوت کو پہنچے تو ہم نے ان کو حکم اور علم دیا“ حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے ﴿وَ لُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا﴾ (الانبیاء: 74) حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے ذکر میں ﴿فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَۚ وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا﴾ (الانبیاء: 74) ”تو ہم نے سلیمان علیہ السلام کو فیصلہ سمجھا دیا اور ہر ایک کو ہم نے حکم اور علم دیا تھا“ یحییٰ علیہ السلام کی نسبت بھی ایسا ہی ارشاد ہے ﴿يَا يَحْيٰى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا﴾ (مریم: 12) ”اے یحییٰ کتاب (تورات) کو مضبوطی سے پکڑو اور ہم نے اس کو حکم بچپن میں عطا کر دیا تھا“ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنی نعمتیں ان الفاظ میں شمار کرتا ہے ﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ﴾ (جاثیہ: 16) تو اس سے معلوم ہوا کتاب، حکم اور نبوت تین چیزیں ہیں۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ ان آیتوں میں حکم سے مراد دنیاوی حکومت اور سلطنت ہے کہ اس کے معنی میں یہ لفظ خالص قدیم عربی میں نہیں آیا۔ یہ اہل عجم کا محاورہ ہے۔ قرآن نے ہر جگہ اس کو فیصلہ اور قوت فیصلہ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً ہر ایک یہاں بادشاہ تو نہیں ہوتا لیکن ہر ایک فیصلہ کرتا ہے یعنی جو ذمہ دار شخص ہو وہ فیصلہ تو کرتا ہے اور علم بھی اس کو حاصل ہو سکتا ہے۔ تو نبی اس کو کہتے ہیں جس کو نبوت عطا فرمائی جاتی ہے اور حکم اور علم عطا کیا جاتا ہے۔ تو جو انبیاء کرام صاحب شریعت ہوتے ہیں ان کو اپنی کتاب دی جاتی ہے اور شریعت ان پر اتاری جاتی ہے اور یہ بات سب کو سمجھ میں آتی ہے لیکن جو انبیاء کرام تسلسل کے ساتھ تشریف لاتے ہیں البتہ ان کو علیحده شریعت نہیں دی جاتی ہے، ان کو اپنے احوال کے لحاظ سے علم اور حکم عطا کیا جاتا ہے۔ جیسے یوسف علیہ السلام کی مثال دی گئی، یحیی علیہ السلام کی مثال دی گئی۔ تو ہر نبی کو علم، حکم اور نبوت تینوں چیزیں عطا کی گئیں جن کے ذریعہ سے وہ فیصلے فرماتے ہیں۔ یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ جب علم اور حکم عطا فرما دیتے ہیں تو علم کے ذریعہ سے وہ جان لیتا ہے کہ کون سی چیز کیسی ہے اور حکم میں یہ ہے کہ ہر چیز کی ایک balanced صورت ہوتی ہیں جس میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا محاورہ ہے کہ تمام لوگوں کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے یعنی ہر ایک کے ساتھ ایک جیسی ڈیل نہیں کر سکتے کیونکہ کسی کے اندر کیا صفات ہوں گی اور کسی کے اندر کیا صفات ہوں گی۔ تو جس قسم کی صفات ہوں ان کا جاننا اور پھر اس کے بارے میں فیصلہ کرنا کہ اب کیا ہے اور کیا کریں اور کیا نہ کریں اس کی قوت انبیاء کرام کو دی جاتی ہے۔ گویا کہ یہ ایک خصوصی نعمت ہے جو کہ انبیاء کرام کو تو عطا کی جاتی ہے جس کے ذریعے سے وہ فیصلے کرتے ہیں۔ اور علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے جیسے یوسف علیہ السلام کو خوابوں کے بارے میں علم عطا فرمایا گیا تھا۔ ایک ہوتا ہے کتاب کی صورت میں اللہ پاک کی طرف سے کوئی چیز نازل ہونا، اور ایک ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر کوئی چیز نازل ہونا۔ یہ وہ چیز ہوتی ہے جس کے ذریعہ سے انبیاء کرام فیصلے بھی فرماتے ہیں اور چیزوں کو جانتے بھی ہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن